قافلہ کا جشن آزادی پڑاؤ اور سید فخرالدین بلے کی شاہکار نظم ”مٹی کا قرض“ ( 6 ) چھٹی قسط


جیسے ہی سید فخرالدین بلے صاحب نے اپنی شاہکار نظم ”مٹی کا قرض“ مکمل کی اس کے ساتھ ہی اس نظم پر شرکائے قافلہ پڑاؤ کی جانب سے گفتگو کا آغاز ہو گیا۔ علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ صاحب نے احمد ندیم قاسمی صاحب اور کلیم عثمانی صاحب کو متوجہ فرماتے ہوئے کہا کہ مختار مسعود صاحب، مشتاق احمد یوسفی صاحب اور میرے علاوہ دیگر بہت سے محبان سید فخرالدین بلے علیگ کو یہ بھی ایک اعزاز حاصل ہے کہ ہم زمانہ ء طالب علمی سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے عہد سے بلے علیگ صاحب کو مسلسل دیکھتے آرہے ہیں کہ جب ان کی عمر بمشکل سولہ برس ہوگی۔ ہم نے بہت قریب سے دیکھا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سپوتوں نے کس طرح تحریک آزادی کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا تھا، غلامی سے نجات اور جذبہ ء آزادی سے سرشار سر سید کے علمی، ادبی اور سیاسی وارثوں نے تاریخ ساز کارنامے سرانجام دیے اور فخرالدین بلے اور انجم اعظمی جیسے نوجوان جناب مختار مسعود علیگ کی قیادت ہر ناممکن کو ممکن بنانے میں پیش پیش تھے۔

علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ نے بتایا کہ ہم سب اس وقت سے بلے علیگ کی خطابت اور دل میں اتر جانے والی شاعری کے مداح ہیں۔ جناب مختار مسعود علیگ نے علامہ صاحب کے موقف کی تائید اور تصدیق فرماتے ہوئے چند واقعات بھی بیان فرمائے اور حاضرین محفل کو بتایا کہ آج بھی کہ جب میرے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ میں گوشہ نشین ہو گیا میں مہینے بھر میں کم از کم ایک یا دو مرتبہ علامہ صاحب اور فخرالدین بلے علیگ سے ملاقات کو یقینی بناتا ہوں اور جب میری صحت یا طبیعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تو میں انہیں زحمت دیتا ہوں اور یوں ہمارا پینتالیس، پچاس برس پرانا پرخلوص رشتہ اور تعلق آج بھی برقرار ہے بلکہ وقت کے ساتھ مضبوط تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔

احمد ندیم قاسمی صاحب نے کم و بیش پندرہ بیس منٹ گفتگو فرمائی ہوگی انہوں نے فرمایا کہ ایک میں احمد ندیم قاسمی ہی کیا فیض صاحب ہوں یا جالب صاحب سید فخرالدین بلے صاحب ہوں یا احمد فراز صاحب یا دیگر ہر ہر عہد آمریت میں ہماری حب الوطنی اور وطنی پرستی پر سوال اٹھائے جاتے رہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں غدار وطن تک قرار دیا گیا لیکن وطن اور قلم کی حرمت پر ہم میں سے کسی نے کبھی آنچ تک نہ آنے دی کیونکہ یہ دھرتی، یہ ملک اور یہ دھرتی ماں یہ ہمارا پیارا وطن ہمارا مان بھی ہے اور ایمان بھی۔

یہ کہہ کر احمد ندیم قاسمی صاحب اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فخرالدین بلے صاحب کہا کہ میں کھڑے ہو کر آپ کو اور آپ کی دیش بھگتی، وطن پرستی اور حب الوطنی کو سلام پیش کرتا ہوں اور آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنی شاہکار نظم ایک مرتبہ پھر عطا فرما دیں۔ فخرالدین بلے صاحب نے قاسمی صاحب کے حکم پر ایک مرتبہ پھر اپنی نظم مٹی کا قرض پیش کی۔

اس کے بعد ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب نے جناب کلیم عثمانی صاحب کو زحمت کلام دی۔ جناب کلیم عثمانی صاحب نے تو ابھی اپنا کلام سنانا شروع ہی کیا تھا کہ قتیل شفائی صاحب اور استاد مہدی حسن خاں صاحب تشریف لے۔ ان کے آتے ہی ماحول یکسر تبدیل یوگیا قتیل صاحب نے کلیم عثمانی صاحب سے کہا بھی کہ آپ کلام سنانا جاری رکھیے لیکن انہوں نے کلام پیش کرنے کا توقف سے کام لیا البتہ کیا حسن اتفاق ہے کہ یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے کے خالق جناب کلیم عثمانی صاحب سے یہ ملی نغمہ سنا جائے اور پھر استاد جناب مہدی حسن خاں صاحب سے گزارش کی جائے کہ اس کے ایک دو شعر گنگنا دیں۔

ڈاکٹر اجمل خاں نیازی صاحب سے ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے استفسار فرمایا کہ اجمل نیازی صاحب آپ اس قافلہ پڑاوٴ میں مہمان کی حیثیت سے شریک ہوتے ہیں یا میزبان کی حیثیت سے۔ اجمل نیازی صاحب نے فرمایا بلے بھائی ہم نے اس گھر میں خود کو کبھی مہمان نہیں سمجھا۔ یہ سن کر فخرالدین بلے شاہ صاحب نے فرمایا کہ اب آپ کلیم بھائی سے میزبان کی حیثیت سے بنفس نفیس گزارش فرمائیے کہ وہ ہماری، ہم سب کی اور آپ کی پسند کا یہ نغمہ شرکائے قافلہ پڑاوٴ کو عطا فرما دیں۔ قصہ مختصر جناب کلیم عثمانی صاحب نے یہ مشہور اور مقبول ترین ملی نغمہ اپنی بیاض میں سے پڑھ کر سنایا۔

یہ وطن تمھارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے،
یہ چمن تمھارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمیں کا ہر زرہ آفتاب تم سے ہے
یہ فضا تمھاری ہے بحر و بر تمھارے ہیں
کہکشاں کے یہ اجالے راہ گزر تمھارے ہیں۔
یہ وطن تمھارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے۔
اس زمین کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا،
ارض پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا
نظم و ضبط کو اپنا میر کارواں مانو
وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو۔
یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسباں اس کے۔
یہ زمیں مقدس پے ماں کے پیار کی صورت
اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت
دیکھنا گنوانا مت دولت یقیں لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو۔
یہ وطن تمھارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے۔
میر کارواں ہم تھے روح کارواں تم ہو
ہم تو صرف عنواں تھے اصل داستاں تم ہو
نفرتوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سر بلند ہی رکھنا
یہ وطن تمھارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے!

حضرت کلیم عثمانی صاحب نے اپنے نہایت مخصوص انداز میں مکمل نغمہ سنایا تو شرکائے قافلہ پڑاوٴ نے جی بھر کر داد دی اور خوب سراہا تو اللہ جانے ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب کو کیا ہوا انہوں نے داد کے طور پر یہ مصرعہ پڑھا

آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر
مہندی حسن خاں صاحب نے اس مصرعے پر بے ساختہ داد دی اور فرمایا بہت خوب مکمل شعر پڑھیے اجمل نیازی صاحب

اجمل نیازی صاحب نے فرمایا کہ بلے بھائی صاحب کی نظم چھ ستمبر کا مصرعہ ہے۔ پوری نظم تو بلے صاحب سے ہی فرمائش کر کے سنی جا سکتی ہے۔ اس کے جواب میں کلیم عثمانی صاحب نے فرمایا کہ اجمل نیازی صاحب میں نے اور میرے ساتھ بیٹھے ہوئے یہ جناب طفیل ہوشیار پوری بلے میاں سے بارہا اس خواہش کا اظہار کیا کہ فلمی گیت نگاری کی طرف آئیے اور ملی نغمے لکھیے۔ کلیم عثمانی صاحب کی یہ بات سن کر جناب استاد مہدی حسن خاں صاحب نے فرمایا کہ ابھی چند ماہ قبل بھی جب میں آیا تھا تو آپ میں سے اکثر احباب بھی موجود تھے اور میں نے جناب سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے گزارش کی تھی کہ اپنا کلام عطا فرمائیے تاکہ مجھے بھی یہ اعزا حاصل ہو کہ میں نے آپ کا کلام گایا ہے لیکن بلے صاحب نے توجہ نہیں فرمائی۔

کلیم عثمانی صاحب نے استاد مہدی حسن خاں صاحب کی بات غور سے سن کر فرمایا کہ ابھی پچھلے برس کی بات ہے اسی جگہ ہم سب کی موجودگی میں بلے میاں کہ زمانہ طالب علمی کے دوست ڈاکٹر فوق کریمی صاحب علیگڑھ۔ بھارت سے تشریف لائے ہوئے تھے انہوں نے اپنی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حسین یادوں کے حوالے سے ایک نہایت خوبصورت مضمون پڑھا تھا اور ان حسین یادوں میں ڈاکٹر فوق کریمی صاحب نے اس بات کا بھی ذکر کیا تھا کہ

شکیل بدایونی جب بھی علی گڑھ آتے، بلے سمیت ہم دوستوں سے بھی ملتے تھے اور بلے کی ادبی اٹھان دیکھ کر انہوں نے کئی بار اسے گیت نگاری کی طرف آنے کی ترغیب بھی دی لیکن بلے نے اس پیشکش کی طرف کبھی رغبت کا اظہار نہیں کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments