ریپ: جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو


سوچا تھا ایک بار ہی نوحہ لکھ دوں گی کیوں کے انتظار تھا کسی اڑتے جہاز سے آنے والی خبر کا۔ اس لئے کے صرف جہاز سے ہی اب تک خبر نہیں آئی ورنہ یہاں تو گھر اسکول، کالج، یونیورسٹی، مدرسہ، فیکٹری آفس، تفریحی مقام، شاپنگ سینٹر، پولیس اسٹیشن، مزار قائد، جج کے چیمبر موٹروے اور چلتی ٹرین تک سے تو خبر آ ہی چکی کہ عورت کے ساتھ زیادتی ہوئی کہیں انفرادی تو کہیں اجتماعی۔ چلتی ٹرین کے بعد بس ایک اڑتے جہاز سے اب تک خبر نہ آ سکی۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ اس دوران سناٹا تھا نہیں ہر گز نہیں ہر نئے دن کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ بچیوں کے ساتھ زیادتی، عورتوں کے ساتھ زیادتی، بہن کے ساتھ زیادتی، بیٹی کے ساتھ زیادتی، کزن، بھانجی، بھتیجی کے ساتھ زیادتی شاگردہ، پڑوسن حتیٰ کے لیڈی کانسٹیبل کے ساتھ زیادتی۔

یہ ساری خبریں روح کو گھائل کرنے لگتی ہیں مگر ایک دل چیرنے والی خبر تہکال پشاور کی بھی ہے جہاں 13 سالہ یتیم بچی کو ہوس کا نشانہ بنانے والے شخص کو قانون کے حوالے کرنے کے بجائے اہالیان علاقہ متاثرہ بچی کو تین دن تک راضی نامے کے لئے منانے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ ہے ہمارے معاشرے کا اصل چہرہ۔ یہ ہے پدرسری معاشرے کی روایات۔ ہم کیسے لوگ ہیں، یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں ہر طرف دو پیر والے جانور طاقت کے نشے میں کھلے پھرتے ہیں۔ یہاں صرف حیوانیت اور شہوانیت باقی رہ گئی ہے۔

”ریپ“ یہ تین حرفی لفظ کبھی سانپ بن کر ڈستا ہے کبھی بچھو بن کر ڈنک مارتا ہے اور کبھی گدھ بن کر مردار پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔

عورت کو مضروب کرنے کے لئے ہر طریقہ آزمایا جاتا ہے۔ اسے ذہنی، جسمانی، روحانی اور سماجی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، گھورنا، اشارہ کرنا، جملہ کسنا، پیچھا کرنا تو کسی گنتی میں شمار ہی نہیں ہوتا۔ مگر کاری، ونی ،سوار، مار دو آگ میں جلا دو تیزاب سے جھلسا دو ، کپڑے پھاڑ دو، بازار میں گھسیٹو، اغوا کرلو۔ ریپ کردو کیوں؟ کبھی گھر کے مردوں کی مردانگی دکھانے کی سزائے طور پر کہیں قتل کے تاوان کی شکل میں کہیں پسند کی شادی کی خواہش پر کبھی شادی سے انکار پر کبھی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پر کبھی جائیداد میں حصہ مانگنے پر کبھی موبائل پر بات کرنے پر کبھی محفل میں تالی بجانے پر اور کبھی صرف آگے بڑھنے کی امنگ پر ۔

اس اسلامی جمہوری پاکستان میں عورت اتنی بے بس اتنی بے توقیر اتنی غیر محفوظ کیوں ہے؟ ان عورتوں کو دل اور روح کی آنکھ سے دیکھیں تو وحشت، محرومی، درد و غم اور کرب و الم کی تصویر نظر آتی ہے۔ اس بائیس کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک میں جہاں 54 فیصد عورتیں ہیں ان کی خواہشوں میں خراشیں اور خوابوں میں کانٹے کیوں ہیں؟ گلوبل جینڈر گیپ کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق صنفی امتیاز میں پاکستان 146 ممالک میں 145 نمبر پر دوسرا بدترین ملک ہے۔

ہم صرف افغانستان سے ایک درجہ اوپر ہیں۔ عورتوں کے امن و تحفظ کے لحاظ سے وومن پیس اینڈ سیکورٹی انڈکس کے 170 ممالک میں پاکستان کا 167 واں نمبر ہے۔ پاکستان عورتوں کے امن و تحفظ کے لحاظ سے دنیا کے خطرناک ممالک میں شامل ہے۔ بے غیرتوں کے اس معاشرے میں ہر سال قریبا ”ایک ہزار عورتیں غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی ہیں۔ ریاست مدینہ ثانی میں ہر روز عصمت دری کے کم از کم گیارہ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ اور وہ سسکیاں اور آہیں جو خود اپنے آپ میں دم توڑ جاتی ہیں ان کا ذکر ہی کیا۔ کتنا آسان ہے عورت کا گلا گھوٹنا، سر کے بال کاٹ دینا، ناک کاٹ دینا، چولہے سے جلا دینا، گھر کے صحن میں دفنا دینا، کسی کھیت میں پھینک دینا اور اب تو ٹکڑے کر کے پتیلے میں پکانا!

ہم کس اخلاقی تنزلی کا شکار ہیں کہ آج عورت کے چہرے پر آزاد سانس کی التجاء نظر آتی ہے۔ وہ قسطوں میں قتل ہوتے ہوتے اب تھک چکی ہے۔ اگر عورتوں کی بے حرمتی پر مینار پاکستان، عثمان مرزا، موٹروے، اور چلتی ٹرین والے واقعات پر مجرموں کو کوئی نظر آنے والی سزا سنائی گئی ہوتی تو شاید آج خدیجہ کو جوتے نہ چاٹنے پڑتے۔ مردہ ضمیر والے زندہ لوگوں کے معاشرے میں ہونا ہی کیا ہے۔ معصوم سا احتجاج افسوس کا اظہار، اخبار اور سوشل میڈیا پر خبر۔

قانون کی گرفت سے نہ بچنے کا اعلان اور آہنی ہاتھ سے نمٹنے کی نوید۔ اس کے ساتھ بہت سے جواز کہ گھر سے اکیلی کیوں نکلی، نامناسب لباس کیوں پہنا، خود ہی بلایا ہو گا۔ اور یہ ہے عورت کی آزادی کا نتیجہ۔ پھر آہستہ آہستہ ساری گرد بیٹھ جاتی ہے۔ عورتیں اپنے دکھ اور تکلیف بھولنے کی کوشش کرنے لگتی ہیں۔ لیکن بہت انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ اور اور پھر کسی کو ذہنی جسمانی روحانی جنسی اور سماجی تشدد کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ کبھی ان مجرموں نے سوچا ہے کہ وہ اوپر والے کو کیا جواب دیں گے۔ بس یہی ایک خیال ہے پریشان مجھ میں کے کیا ہم ایک درندہ قوم ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments