موجین کا سفر


کم سی انگ اوک جب بس نے پہاڑ کے گرد موڑ کاٹا تو میں نے ایک سائن بورڈ دیکھا جس پر لکھا تھا ”موجین 10 کلو میٹر“ ہمیشہ کی طرح یہ سائن بورڈ سڑک کے کنارے بلند جھاڑیوں کے درمیان نمایاں نظر آتا تھا۔ میری توجہ نشست پر براجمان لوگوں کی ایک بار پھر شروع ہو جانے والی گفتگو پر مبذول ہو گئی۔ (a) ”اب بھی دس کلو میٹر باقی ہیں“ (b) ”ہاں، ہم تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہاں ہوں گے“ ان کی باتوں سے وہ زراعتی انسپیکٹر لگتے تھے لیکن شاید وہ (زراعتی انسپکٹر) نہیں تھے۔

بہر حال انہوں نے آدھے بازو والی شرٹس جن پر مختلف رنگوں کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور پولی ایسٹر کی پتلونیں پہنی ہوئی تھی وہ ارد گرد نظر آنے والے کھیتوں، پہاڑوں اور دیہاتوں کے بارے میں ایسی گفتگو کر رہے تھے جو صرف چند ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔ مزید برآں وہ پیشہ ورانہ زبان اور محاورے میں اپنے مشاہدات بیان کر رہے تھے۔ چونکہ میں نے کوانگ جو کے مقام پر بس تبدیل کی تھی۔ میں نیم خوابیدگی کی حالت میں ان کی مدہم شریفانہ آوازوں میں گفتگو سنتا رہا تھا۔ بس میں کئی نشستیں خالی پڑی تھیں۔ انسپیکٹروں کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی کہ کھیتوں میں مصروفیت ہونے کی وجہ سے لوگوں کے پاس سفر کا وقت نہیں تھا۔

” کیا خیال ہے، موجین میں کوئی زیادہ قابل ذکر چیزیں نہیں ہیں۔“ ”موجین کی وجہ شہرت کی کوئی زیادہ چیزیں نہیں ہیں، آپ کا کیا خیال ہے؟“ ”یہاں کوئی زیادہ چیزیں واقعی نہیں ہیں۔ بڑی عجیب بات ہے کہ یہ پھر بھی ایک اچھا گنجان آباد علاقہ ہے“ ”میرا خیال ہے سمندر قریب ہونے کی وجہ سے یہاں بندرگاہ بنائی جا سکتی ہے۔“

۔ آپ وہاں پہنچ کر یہ محسوس کریں گے کہ یہ بندرگاہ بنانے کے لئے موزوں جگہ نہیں ہے۔ یہاں سمندر بہت اتھلا ہے اور صحیح گہرے سمندر تک پہنچنے کے لئے سینکڑوں ”لی“ کا سفر درکار ہے۔ جہاں سے آپ کو افق نظر آتا ہے۔

” پھر یقیناً اس علاقے کو کاشت کاری کے لئے موزوں ہونا چاہیے“
”تاہم یہاں متعدد اکٹھے کھیت بھی نہیں ہیں“
”پھر ساٹھ ستر ہزار کی آبادی یہاں کیسے گزر بسر کرتی ہے؟“

” اسی لئے تو یہاں کی زبان میں“ کسی نہ کسی طرح زندگی گزارنے کی جد و جہد کرنے ”جیسے محاورے موجود ہیں وہ سب مدہم مہذب آواز میں ہنسنے لگے۔

جب انہوں نے ہنسنا بند کر دیا تو ایک نے کہا ”اس کے باوجود کسی جگہ میں کوئی نہ کوئی خاص بات ضرور ہونی چاہیے“

لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ موجین کے کوئی مخصوص خدو خال نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ کیا ہے۔ یہ ایک دھند ہے۔ جب آپ صبح کے وقت باہر نکلتے ہیں تو دھند نے موجین کو اس طرح گھیرے میں لیا ہوتا ہے جیسے دشمن افواج رات کے اندھیرے میں چپکے سے داخل ہو گئی ہوں۔ موجین کے گرد موجود کہرے میں لپٹی ہوئی پہاڑیاں یوں لگتا ہے دور دراز کے علاقوں میں دھکیل دی گئی ہوں۔ یہ دھند کسی ایسی بے چین عورت کے سانس کی طرح لگتی ہے جس کا تابوت 7 سال سے اس دنیا میں اس کے ساتھ کی جانے والی کسی نا انصافی کا انتقام لینے کے لئے اس جگہ کے چکر لگاتا رہتا ہو۔

طلوع آفتاب کے وقت جب سمندری ہوا اپنی سمت بدل کر یہاں کا رخ کرتی ہے، اس سے پہلے دھند ختم کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔ اگرچہ اسے ہاتھوں سے چھوا نہیں جا سکتا اس کے باوجود اس کی موجودگی محسوس کی جا سکتی ہے اور یہ لوگوں کو گھیرے میں لے کر انہیں دور دراز کی جگہوں سے علیحدہ اور دور کر دیتی ہے۔ دھند، موجین کی دھند، دھند جو موجین میں صبح کے وقت ہوتی ہے، دھند جو انسان کو سورج اور ہوا کا بے چینی سے انتظار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی دھند موجین کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔

بس کے جھٹکے کم ہونا شروع ہو گئے۔ میں جھٹکوں کی کمی یا بیشی کو اپنے ٹھوڑی کے ذریعے محسوس کرتا تھا۔ چونکہ میں بالکل پر سکون انداز میں بیٹھا تھا۔ جب بھی بس اس مضافاتی روڑی سے بنی سڑک پر کسی کھڈے سے گزرتی تو میری ٹھوڑی ہر جھٹکے کے ساتھ اوپر یا نیچے ہوتی۔ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس طرح ڈھیلے ڈھالے انداز میں بیٹھ کر ٹھوڑی کو جھٹکے دینا سیدھا تن کر بیٹھنے سے زیادہ مشکل تھا، مگر بس کی کھڑکی سے در آنے والی موسم گرما کی نرم ہوا جو بے رحمی سے میری ننگی جلد سے کھیل کر مجھ پر نیم خواندگی طاری کر رہی تھی اور جس نے میرے لئے تن کر بیٹھنا نا ممکن بنا دیا تھا۔

مجھے ایسا لگتا تھا جیسے ہوا ننھے ننھے ذروں میں تبدیل ہو گئی ہو اور ہر ذرے میں جتنی بھی ممکن ہو سکون بخش نشہ آور دوا بھری ہو۔ خالص دھوپ، ایک ٹھہری ہوئی معصوم ٹھنڈک، جسے ابھی پسینے بھری جلد کو چھونا تھا اور جو فضا میں مو جود نمکینی پہاڑوں سے پرے سمندر کی موجودگی کا احساس دلا رہی تھی اور جو اس سڑک جس پر بس چل رہی تھی، کی طرف بڑھ رہی تھی۔ یہ ساری چیزیں جیسے پگھل کر ایک دوسرے سے مل کر ہوا کے ساتھ ایک عجیب مرکب بنا رہی تھیں۔

اور معصوم چمکیلا پن پیدا کر رہی تھیں اور سمندر کی طرف سے آنے والی تیز ہوا، نمکین ہوا۔ اگر میں ان سپنوں کو آپس میں ملا کر ایک نشہ آور سکون بخش دوا تیار کر سکتا تو یہ ادویات کے اسٹوروں کی کھڑکیوں میں نمونے کے طور پر نمائش کے لئے رکھی جانے والی ادویات میں سب سے زیادہ آرام پہنچانے والی دوا ہوتی اور میں دنیا کی سب سے کامیاب دوا ساز کمپنی کا مہتمم، پر سکون نیند کا خواہش مند ہوتا، بے شک میٹھی نیند میں کھو جانا خوشگوار عمل ہے۔

جب میرے ذہن میں یہ خیال آیا تو ایک تلخ مسکراہٹ میرے لبوں پر پھیل گئی۔ عین اسی وقت میں نے پوری شدت سے محسوس کیا کہ ہم بس موجین پہنچ ہی رہے تھے۔ میں جب بھی موجین گیا ہمیشہ ایسے فسوں انگیز خیالات میرے ذہن میں آئے ہیں اور ہر چیز الٹ پلٹ کر رہ گئی ہے۔ فسوں انگیز خیالات جو کسی اور جگہ میرے ذہن میں نہیں آتے، موجین میں بغیر کسی جھجک یا ہچکچاہٹ کے میرے ذہن میں آتے ہیں۔ نہیں۔ بلکہ مجھے کچھ سوچے بغیر ایسا لگتا ہے جیسے کہ وہ خیالات جو دوسری جگہوں پر خود بخود پیدا ہوئے تھے موجین میں میرے ذہن میں در آتے ہیں۔ خود بخود گھس جاتے ہیں۔

”جان، تم ٹھیک نہیں لگ رہے، تم کچھ دن کے لئے موجین کیوں نہیں چلے جاتے۔ تم کہہ سکتے ہو کہ تم اپنی والدہ کی قبر پر گئے ہو۔ ابا جان اور میں عام شراکت داروں کے اجلاس کے لئے سب تیاری کر لیں گے۔ کچھ تازہ ہوا لے لو۔ تم بہت عرصے سے کہیں نہیں گئے ہو۔ واپسی تک مہتمم اعلیٰ بن چکے ہو گے“ ، میری بیوی نے کچھ راتیں پہلے میرے پاجامے کے نیفے میں انگلی ڈالتے ہوئے کہا تھا، اس کے مخلصانہ مشورے پر میں نے زیر لب کوئی الفاظ بڑبڑائے تھے جیسا کہ کوئی بچہ اس وقت کرتا ہے جب اس کی مرضی کے بر عکس اسے کسی کام کے لئے زبردستی بھیجا جائے۔ یہ ایک طرح سے میرا غیر ارادی رد عمل تھا جو ماضی میں موجین سے متعلق میرے تجربات کی وجہ سے بن گیا تھا جن سے میں تقریباً کھو کر رہ گیا تھا۔

جب سے میری عمر بڑھی ہے میں صرف چند بار ہی موجین گیا ہوں اور جب بھی میں وہاں گیا اس کی وجہ یہاں کی کسی پچھلی بڑی ناکامی سے فرار یا کسی طرح کے از سر نو آغاز کی ضرورت تھی۔ کسی نئے آغاز کے لئے موجین کی تلاش اس لئے نہیں تھی کہ وہاں مجھے نئی سمت اور اعتماد حاصل ہوتا تھا اور اپنے پہلے منصوبے میرے ذہن میں آنے لگتے تھے۔ اس کے برعکس میں موجین میں ایک جمود کی کیفیت میں پھنس کر رہ جاتا تھا۔ سوجے سوجے چہرے اور میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس میں ایک عقبی کمرے میں پڑا رہتا تھا۔

موجین کے بارے میں میری یادوں میں، میری دیکھ بھال کرنے والے ادھیڑ عمر افراد پر برس پڑنا یا بھولی بسری یادوں اور خالی مولی خیالات کے تعاقب پر خود کو لعنت ملامت کرنا، اتنے پھونکے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے جن سے میرے گلپھڑے پھول جائیں اور وہ بے صبری جس کے ساتھ میں ڈاکیے کا انتظار کرتا تھا، شامل ہیں۔

لیکن یہ صحیح ہے کہ موجین کی میری صرف یہی یادیں نہیں ہیں۔ سیول کی کسی گلی میں جب میرے کان اچانک ارد گرد کے ماحول کو محسوس کرنے لگتے ہیں اور بے رحم شور شرابے کے صدمے تلے کچلے جاتے ہیں تو ترقی یافتہ ڈینگ ڈانگ میں اپنے گھر کے سامنے والی تنگ گلی میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے میرے تصور میں اچانک ایک ایسا مضافاتی گاؤں آ جاتا ہے جس کے ساتھ ایک بھر پور دریا ہے، جس کے گھاس بھرے سر سبز کنارے دور سمندر تک پھیلے ہوئے ہیں۔

ایک گاؤں جس میں تھوڑے تھوڑے درخت ہیں بہت سے پل اور تنگ گلیاں اور مٹی سے بنی دیواریں، اونچے پا پلر کے درختوں میں گھرا ایک سکول گراؤنڈ اور مقامی دفاتر جن کے صحنوں میں سمندر سے آئی ہوئی کالی بجری پھیلی ہوئی ہے اور جہاں رات کو گلیوں میں بانس کے بنے ہوئے بستر لگا دیے جاتے ہیں۔ میں کسی ایسے گاؤں کے بارے میں سوچتا تھا اور یہ گاؤں ہمیشہ موجین ہی ہوتا تھا۔ میں موجین کے بارے میں اس وقت بھی سوچتا تھا جب مجھ میں اچانک خاموشی کی شدید خواہش جاگ اٹھتی تھی لیکن ان لمحات میں موجین ایک ایسی جگہ ہوتا تھا جس کی تصویر میں نے اپنے ذہن میں سما رکھی تھی اور جو لوگوں سے ہمیشہ بالکل خالی ہوتا تھا موجین کی زیادہ تر یادیں میری اندھیری جوانی کی یادیں تھیں۔

لیکن یہ کہنا بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے کہ موجین کی کوئی یادیں سایوں کی طرح میرے تعاقب میں رہتی تھیں۔ اس کے برعکس اب جبکہ وہ اندھیرے ماہ و سال گزر چکے ہیں میں کہہ سکتا ہوں کہ موجین کی وہ اندھیری یادیں کسی واضح شکل میں میرے ذہن میں نہیں آئیں۔ شاید اس لئے کہ میں اپنی بیوی اور دفتر کے چند اشخاص جو مجھے چھوڑنے آئے تھے کو ہدایات دینے میں بہت زیادہ مصروف تھا۔ لیکن آج صبح ایک پاگل عورت نے وہ تمام یادیں اچانک سائے سے نکال کر میرے سامنے پھینک دیں، جسے میں نے گواند جو ریلوے اسٹیشن چھوڑتے ہوئے دیکھا تھا۔

اس عورت نے کورین انداز کا ایک اسکرٹ اور ایک کسی حد تک خوبصورت بلاؤز پہنا ہوا تھا اور اس کے بازو میں ایک ایسا دستی بیگ تھا جسے لگتا تھا کہ موسم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے منتخب کیا گیا ہے۔ اس کا چہرہ خوبصورتی کی طرف مائل تھا اور اس نے بہت بھڑکیلا میک اپ کیا ہوا تھا۔ اس کی مسلسل گھومتی ہوئی آنکھوں کی پتلیوں اور اس کے گرد جمائیاں لیتے ہوئے اور ادھ سوئے بوٹ پالش کرنے والوں کے ٹھٹھے سنتے ہوئے مجمع کی وجہ سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ پاگل تھی۔

” یہ بہت زیادہ پڑھنے کی وجہ سے پاگل ہو گئی“
”نہیں اسے اس کے آدمی نے چھوڑ دیا“
” یہ انگریزی بول سکتی ہے۔ کیوں نہ اس سے پوچھیں۔“

لڑکے اونچی آوازوں میں الفاظ کا تبادلہ کر رہے تھے۔ ایک ذرا بڑی عمر کے لڑکے نے جس کے چہرے پر پھنسیاں تھیں، اس کے بلاؤز کو سامنے سے چھوا۔ جب بھی وہ اسے چھوتا تو وہ عورت، اب بھی اپنے چہرے پر کوئی تاثرات لئے بغیر چیختی۔ اس کے چیخنے سے میرے ذہن میں اچانک ایک مصرعہ آ گیا جو میں نے موجین میں ایک عقبی کمرے میں اپنی ڈائری پر لکھا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میری ماں ابھی زندہ تھی۔ جنگ شروع ہونے کی وجہ سے کالج بند کر دیے گئے تھے اور آخری ریل گاڑی نکل جانے کی وجہ سے مجھے سیول سے موجین تک کئی ہزار کلو میٹر (لی) کا سفر پیدل طے کرنا پڑا تھا جس سے میرے پاؤں چھالے چھالے ہو گئے تھے۔ موجین میں اپنی ماں کی وجہ سے مجھے ایک تاریک عقبی کمرے میں رہنا پڑا تھا تا کہ رضا کار بننے اور بعد ازاں جبری فوجی بھرتی سے بچ سکوں۔

جب کہ میرے موجین مڈل سکول کے ہم جماعت گاؤں کے چوک سے فوجی ٹرکوں میں سوار ہو کر میدان جنگ کی طرف اپنے سروں پر سوتی کپڑے کی پٹیاں باندھے یہ گاتے ہوئے ”اگر میری جان بھی جائے مادر وطن بچ جائے“ ایک پریڈ کی شکل میں میرے گھر کے پاس سے گزر رہے تھے تو میں دبکا بیٹھا سن رہا تھا۔ جب یہ خبر آئی کہ محاذ جنگ شمال کی جانب بڑھ گیا تھا اور کالج میں پڑھائی دوبارہ شروع ہو گئی تھی میں اس وقت بھی موجین میں اس عقبی کمرے میں چھپا بیٹھا تھا۔

یہ سب میری بیوہ ماں کی وجہ سے تھا۔ جب ہر دوسرا آدمی جنگ پر جا رہا تھا میں ایک عقبی کمرے میں چھپا اپنے آپ کو لعنت ملامت کر رہا تھا۔ جب کسی پڑوسی کے گھر جنگی کارروائی میں کسی موت کی خبر آتی تو میری ماں میری سلامتی پر خوشی مناتی اور اگر محاذ جنگ سے کسی دوست کا میرے نام خط آتا تو میری ماں اسے پھاڑ پھینکتی۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ میری ماں کو معلوم تھا کہ میں محاذ جنگ کو عقبی کمرے پر ترجیح دیتا تھا۔ ان دنوں میں جو ڈائری لکھتا تھا۔ اگرچہ وہ ساری اب جل چکی ہے۔ وہ اپنی ذات سے نفرت اور اس ذلت پر خود کو کوسنے اور اسے برداشت کرنے کی کوشش کے بارے میں تھی۔

” ماں اگر میں اب پاگل ہو گیا تو یہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ہو گا۔ چنانچہ مہربانی فرما کر کوئی معالج تلاش کرتے ہوئے انہیں ضرور نظر میں رکھئے گا“

وہ عورت جسے میں نے صبح دیکھا تھا، ان دنوں کی ساری یادوں کو کھینچ کر میرے سامنے لے آئی جب میں ڈائری میں اس طرح کے الفاظ لکھا کر تا تھا۔

اس (عورت) کے ذریعے میں نے موجین کی قربت کو محسوس کیا اور گرد سے اٹے ہوئے، جھاڑیوں سے سر نکالتے ہوئے اس سائن بورڈ نے جس کے پاس سے ہم ابھی ابھی گزرے تھے، اسے (موجین کو) میرے لئے حقیقت میں تبدیل کر دیا۔

”یہ تقریباً یقینی امر ہے کہ تمہیں اس دفعہ ناظم اعلیٰ بنا دیا جائے گا۔ سو مضافات میں جا کر کچھ آرام کیوں نہیں کر لیتے۔ ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے تمہاری بھاری ذمہ داریاں ہوں گی“

بغیر اسے جانے میری بیوی اور سسر نے مجھے ایک بڑی عقلمندانہ نصیحت کر دی تھی۔ یہ ان کی ذہانت تھی کہ انہوں نے موجین کا انتخاب ایک ایسی جگہ کے طور پر کیا تھا جہاں میں اپنی پریشانیوں اور ذہنی دباؤ کا حل تلاش کر سکتا تھا۔ یہ نہیں بلکہ یوں ہے کہ جہاں ان کا حل تلاش کرنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔

بس موجین گاؤں میں داخل ہو رہی تھی

جون کے آخری دنوں کے چمکیلے سورج میں ٹین اور گھاس پھونس لگی تمام چھتیں جن پر ٹائلیں چاندی کی طرح چمک رہی تھیں۔ لوہار کی دکان سے آنے والی ہتھوڑے کی آوازیں تیزی سے بس کی جانب بڑھتیں اور پھر دور چلی جاتیں۔ کہیں سے جانوروں کی لید سے بننے والی کھاد، اور جب ہم ہسپتال کے پاس سے گزرے تو جراثیم کش ادویات کی بودر آئی۔ ایک سٹیریو کی دکان سے ایک ڈھیلے اور سست قسم کے پاپ گانے کی آواز کا سیلاب امڈ آیا۔ گلی خالی تھی اور لوگ چھتوں تلے دبکے بیٹھے تھے۔ چھوٹے بچے ننگے اور اپنے قدموں پر ڈگمگاتے ہوئے سائے میں لڑکھڑاتے پھر رہے تھے۔ چوک صرف چمکیلی دھوپ سے بھرا ہوا تھا اور اس جگمگاتی دھوپ میں کچھ کتوں کے جوڑے باہر کو لٹکتی زبانوں کے ساتھ نسل کشی میں مصروف تھے۔

٭٭٭٭٭
جن لوگوں سے میں رات کو ملا

رات کے کھانے سے کچھ دیر پہلے میں اس گلی میں گیا جہاں تمام اخبارات کے علاقائی دفاتر واقع تھے۔ میری چچی کوئی اخبار نہیں خریدتی تھی مگر شہر میں رہنے والے ہر آدمی کی طرح میرے لئے اخبارات زندگی کا ایک لازمی جزو تھے جن کی زندگی کے ہر دن کی ابتدا اور انتہا پر حکومت قائم تھی۔ اخبار کے دفتر میں اپنی چچی کے گھر کا پتہ اور وہاں پہنچنے کے لئے ایک وضاحتی نقشہ مہیا کرنے کے بعد میں وہاں سے نکل آیا۔ جب میں وہاں سے نکل رہا تھا تو میں نے اپنے عقب میں کھسر پھسر کی آوازیں سنیں، دفتر میں کچھ لوگوں نے یقیناً مجھے پہچان لیا تھا۔

واقعی؟ یہ بڑا مغرور نظر آتا ہے۔ ”
”۔ اس نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔“
”۔ بہت عرصہ پہلے۔ اخراجات۔“

اس طرح کی سرگوشیوں کے درمیان، میں اندر ہی اندر ’آپ کو دن بخیر‘ کے الفاظ سننے کی خواہش کر رہا تھا مگر یہ الفاظ کسی نے نہ کہے۔ سیول اور موجین میں یہی فرق تھا۔ یہ جانے بغیر، اس دفتر میں موجود لوگ اپنی ہی سرگوشیوں کے طوفان میں گم ہو جائیں گے۔ اس حقیقت کا احساس کیے بغیر کہ جب وہ اس کھسر پھسر سے باہر آئیں گے تو انہیں کتنے خالی پن کا احساس ہو گا۔ وہ سرگوشیاں، اور سرگوشیاں، اور سرگوشیاں کرتے ہی چلے جائیں گے۔

سمندر کی جانب سے تیز ہوا چل رہی تھی۔ گلی میں ہجوم اس سے زیادہ ہو چکا تھا جتنا کہ چند گھنٹے پہلے تھا جب میں بس سے اترا تھا بچے اسکولوں سے واپس آرہے تھے۔ جیسے انہیں اپنے بستے بھاری لگ رہے ہوں، بچے انہیں اپنے گرد گھما رہے تھے یا انہیں اپنے کندھوں سے لٹکایا ہوا تھا اور (کچھ نے ) اپنے بازؤں میں سختی سے جکڑا ہوا تھا اور اسی دوران اپنی زبانوں کے سروں پر ببل پھلا رہے تھے۔ اسکول ماسٹر اور دوسرے اہلکار بھی دن کے کھانے کے خالی تھیلوں کی کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ سر جھکائے جا رہے تھے۔ تب اچانک یہ خیال میرے ذہن میں کوندے کی طرح لپکا کہ یہ سارا کھیل ہے۔ اسکول جانا، بچوں کو پڑھانا، کام پر جانا، پھر گھر واپس آنا، یہ سب کچھ مجھے صرف ایک فضول کھیل لگا اور مجھے یہ مضحکہ خیز محسوس ہوا کہ لوگ بغیر کسی مقصد کے نہ ختم ہونے والی کوششوں میں مصروف اور ایسی چیزوں سے چپکے رہیں۔

جب میں اپنی چچی کے گھر رات کا کھانا کھا رہا تھا تو ایک شخص مجھے ملنے آیا۔ مجھ سے ملنے کے لئے آنے والا کوئی پارک نامی شخص تھا جو موجین مڈل سکول میں جب میں پڑھتا تھا، مجھ سے کافی سال پیچھے تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ کبھی میں اس سے سخت متاثر تھا کیونکہ وہ صحیح معنوں میں ایک کتابی کیڑا ہوا کرتا تھا۔ اپنی نوجوانی میں پارک کو بھی ادب کا جنون رہا تھا اور اگر چہ اس نے بتایا کہ اس کا پسندیدہ مصنف، امریکی مصنف ایف سکاٹ فٹز جیرالڈ تھا مگر فٹز جیرالڈ کے ناولوں کے ہیرو کے برعکس وہ نشست و برخاست کے اچھے انداز رکھنے والا، سنجیدہ اور غریب آدمی تھا۔ ”مجھے اخبار کے دفتر کے ایک دوست نے آپ کی یہاں موجودگی کے بارے میں مطلع کیا ہے۔ آپ یہاں کیسے تشریف لائے؟“ وہ مجھ سے مل کر واقعی بہت خوش ہوا تھا۔

”کیا کوئی ایسی وجہ ہے کہ مجھے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا؟ میں نے جواب دیا لیکن میرے الفاظ نے خود مجھے پریشان کر دیا۔

”نہیں نہیں۔ صرف اتنی سی بات ہے کہ ایک طویل عرصے سے آپ یہاں نہیں آئے۔ میں نے جب سے فوج کو خیرباد کہا ہے اس کے بعد آپ کا یہ پہلا دورہ ہے۔ چنانچہ یہ۔

”پہلے ہی چار سال ہو چکے“

چار سال پہلے ایک ادویات بنانے والی کمپنی جو اس وقت ایک بڑی کمپنی میں ضم ہو رہی تھی۔ اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے ملازمت ختم ہو جانے پر میں موجین آیا تھا۔ نہیں میرے موجین واپس آنے کی صرف یہی واحد وجہ نہیں تھی۔ اگر صرف ”حی“ جو اس وقت میرے ساتھ رہتی تھی، میرے ساتھ ہی رہتی تو صرف موجین کا سفر کبھی نہ ہوتا۔

”آپ کی اب شادی ہو چکی ہے، میں نے سنا ہے؟“
”ہاں! اور تمہاری کیا صورتحال ہے؟“
”ابھی نہیں، میں نے سنا ہے کہ آپ نے بہت اچھی شادی کی ہے“
”کیا واقعی؟ تم نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی۔ تمہاری اب کیا عمر ہو گئی ہے؟“
”انتیس سال“

”انتیس، ہوں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ نواں ایک بدقسمت سال ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی اس سال تمہیں اس (شادی) کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے“

 ”ہاں! ہاں! دیکھتے ہیں“ پارک نے اپنا سر کسی لڑکے کی طرح کھجایا۔

چار سال پہلے جب میں انتیس سال کا تھا تقریباً وہ وقت جب حی نے مجھے چھوڑ دیا، اسی وقت میری بیوی کا پہلا خاوند فوت ہوا تھا۔

”امید ہے کہ کچھ خرابی نہیں ہے۔ سب ٹھیک تو ہے؟“ پارک جسے میرے موجین کے گزشتہ دوروں کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلوم تھا، مجھ سے پوچھا۔

”نہیں، مجھے شاید ترقی دی جا رہی ہے چنانچہ میں نے چند یوم کی چھٹی لی ہے۔“

”واہ۔ یہ اچھا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آزادی سے لے کر اب تک آپ موجین کے سب سے کامیاب شخص ہیں“ میں اس پر مسکرا دیا۔

”ہاں! آپ اور آ پکے ہم جماعت ’چو‘ “
”تمہاری مراد اس لڑکے سے ہے جو ہر وقت میرے ساتھ چپکا رہتا تھا“
”جی ہاں! اس نے پچھلے سال سول سروس کا امتحان پاس کیا اور اب مقامی ٹیکس آفس کا سربراہ ہے“
”واقعی؟“
”آپ کو معلوم نہیں؟“
”میرا اس سے رابطہ نہیں رہا۔ کیا وہ یہاں کچھ عرصہ پہلے ٹیکس افسر کے طور پر کام نہیں کر رہا تھا؟“
”جی ہاں!“
’یہ بہت اچھی خبر ہے۔ شاید میں آج شام اس سے ملنے جاؤں ”

میرے دوست چو کا قد چھوٹا اور رنگت کالی تھی۔ وہ مجھے اکثر کہا کرتا تھا کہ جب وہ میرے دراز قد اور زرد رنگت کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا تو اسے ایک طرح کے احساس کمتری کا احساس ہوتا تھا۔

”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکا ہوتا تھا۔ اسے بتایا گیا کہ اس کے ہاتھ پر کوئی اچھی قسمت کی لکیر نہیں تھی۔ اس نے اپنے ہاتھوں پر ناخنوں سے قسمت کی اچھی لکیریں کھرچ کر بنا دیں اور خوب محنت کی۔ بعد ازاں وہ کامیاب ہو گیا اور خوشی خوشی اپنی زندگی بسر کی۔“ چو اسی قسم کا ایک لڑکا تھا جو ایسی کہانیوں سے آسانی سے بہت متاثر ہوتا تھا۔

”آج کل تم کیا کر رہے ہو“ میں نے پارک سے پوچھا

اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور وہ یوں ہچکچایا جیسے اس سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہو۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے بتایا کہ وہ پرانے سکول میں پڑھا رہا تھا۔

”یہ بہت اچھا ہوتا ہو گا۔ تمہارے پاس پڑھنے کو بہت وقت ہے۔ ان دنوں مجھے تو کوئی رسالہ تک پڑھنے کا وقت نہیں ملتا۔ تم کیا پڑھاتے ہو؟“

پارک کی جیسے میرے الفاظ سے حوصلہ افزائی ہوئی تھی اس نے شگفتہ آواز میں کہا:
”میں کورین پڑھاتا ہوں“
”یہ بہت اچھا ہے۔ اسکول کے نکتۂ نظر سے انہیں آسانی سے تم جیسا استاد میسر نہیں ہو سکتا تھا۔“

”واقعی نہیں۔ اساتذہ کی تربیت کے کالجوں میں موجود تمام لوگوں میں یہ مشکل ہے کہ کسی کے پاس بھی صرف پڑھانے کی سند موجود ہو۔“

”کیا ایسا ہی ہے؟“ بغیر کوئی لفظ کہے پارک نے صرف تلخی سے مسکرانے پر اکتفا کیا۔ ڈنر کے بعد ہم نے ایک دو جام پئے اور چوکے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ گلی تاریک تھی جب ہم پل سے گزرے تو میں نے پانی میں ندی کے کناروں پر موجود درختوں کا مدہم عکس دیکھا۔ گزرے دنوں میں جب میں اس پل سے گزر رہا تھا تو میں نے ان تاریک دبکے ہوئے درختوں کو کوسا تھا جو وہاں ایسے ایستادہ تھے جیسے اگر میں نے چیخ بلند کی تو وہ فوراً میری طرف دوڑ پڑیں گے۔ میں نے اس وقت یہاں تک سوچا تھا کہ کتنا اچھا ہوتا اگر دنیا میں کوئی درخت نہ ہوتا۔

”یہاں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی“ میں نے رائے ظاہر کی
”شاید“ پارک مدہم آواز میں بڑبڑایا۔

چو کے دیوان خانے میں چار دوسرے مہمان بھی موجود تھے۔ میں نے دیکھا کہ چو، جو مجھ سے گرم جوشی بلکہ تقریباًً دکھا دینے والے انداز میں ہاتھ ملا رہا تھا، اس کا چہرہ ملائم اور کم کالا ہو گیا تھا۔

”آؤ۔ بیٹھ جاؤ۔ مجھے افسوس ہے کہ یہاں اتنا بوجھل پن ہے۔ مجھے ضرور ایک بیوی حاصل کرنی چاہیے۔“ لیکن کمرہ بوجھل ہرگز نہیں تھا۔

”کیوں! کیا تم نے ابھی شادی نہیں کی۔“
میں نے پوچھا۔
”ہوں۔ بس یہ کچھ ایسے ہی ہوا۔ میں جب قانون کی کتابوں میں سر کھپا رہا تھا، تم جانتے ہو۔ بیٹھ جاؤ۔

میرا پہلے سے موجود لوگوں کے ساتھ تعارف کرایا گیا۔ ان میں سے تین آدمیوں کا تعلق ٹیکس کے دفتر سے تھا۔ آخری ایک عورت تھی جو پارک کے ساتھ چند الفاظ کا تبادلہ کر رہی تھی۔

”آئیے مس حاہ، یہاں کوئی راز نہیں ہیں۔ آئیے میں آپ کا تعارف اپنے پرانے ہم جماعت مین ہی جنگ سے کراؤں۔ یہ سیول میں ایک بہت بڑی دوا ساز کمپنی کے منیجر ہیں اور یہ حاہ ان سک ہیں۔ پرانے اسکول میں موسیقی کی استاد۔ انہوں نے گزشتہ سال سیول کے ایک موسیقی اسکول سے گریجویشن کی ہے۔

”چنانچہ آپ اور پارک ایک ہی سکول میں پڑھاتے ہیں؟“ میں نے باری باری پارک اور مس حاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

”ہاں!“ اس نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور پارک نے اپنا سر جھکا دیا۔
”کیا بنیادی طور پر آپ کا تعلق موجین سے ہے“
 ”نہیں! مجھے یہاں بھیجا گیا ہے۔ چنانچہ میں یہاں اپنے ہی بندوبست پر رہتی ہوں۔“

اس کا چہرہ بغیر کسی شناخت و ساخت کے نہیں تھا۔ یہ بیضوی چہرہ تھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں تھیں اور رنگت زردی مائل تھی۔ مجموعی طور پر وہ نرم و نازک ہونے کا تاثر دیتی تھی۔ مگر اس کی اوپر اٹھی ناک اور بھرپور لب یہ کہتے تھے کہ اس طرح کا کوئی تاثر قائم نہ کیا جائے۔ مزید برآں اس کی تیز اونچی مضبوط آواز، اس کی ناک اور لبوں سے پیدا ہونے والے تاثر کو مزید گہرا کر رہی تھی

”آپ کا مرکزی موضوع کیا تھا“
”گلوکاری“

”مگر یہ پیانو بھی بہت خوبصورتی سے بجاتی ہیں“ پاس کھڑے پارک نے محتاط آواز میں اضافہ کیا۔ چو بھی گفتگو میں شامل ہو گیا۔

”یہ کمال کی گلوکارہ ہیں۔ ان کی سپرینو بھی خاصے کی چیز ہے۔“
”اوہ! آپ سپرینو ہیں۔“

”ہاں! گریجویشن کی تقریب میں میں نے“ مادام تتلی ”سے لیا گیا“ ایک کھلے کھلے دن میں ”گایا تھا۔ اس نے ایسی آواز میں کہا جس میں ان گئے دنوں کی خواہش اور یادیں محسوس کی جا سکتی تھیں۔ ریشم کے گدے فرش پر بچھے تھے اور ان کے اوپر تاش کے پتے بکھرے پڑے تھے۔ یہ ان دنوں کے وہی پتے تھے جب تقریباً دوپہر کے وقت میں جاگ کر بیٹھ جاتا اور سگریٹ کا آخری سرا جو تقریباً میرے لبوں کو جلانے لگتا، بھینچی بھینچی سگریٹ کے دھوئیں سے اشک آلود آنکھوں کے ساتھ میں اپنے بدقسمت دن کی کمائی کا حساب کرتا۔ یہ اسی جوئے کی میز پر پڑے وہی پتے تھے، جس پر میں گر پڑا تھا۔ پتے جنہوں نے میرے سارے جسم کو سن کر دیا تھا۔ سوائے میرے جلتے ہوئے سر اور کانپتی انگلیوں کے!“

”آپ کے پاس یہاں کچھ پتے ہیں، پتے؟“
’ میں نے ایک پتہ اٹھا کر اسے نیچے پھینکتے ہوئے بڑبڑاہٹ کے انداز میں پوچھا۔

”کیا ہم رقم لگا کر کھیلیں گے۔“ ٹیکس دفتر کے ایک آدمی نے پوچھا لیکن مجھے تاش کھیلنے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔

’ ”پھر کسی وقت سہی“
ٹیکس دفتر کے لوگوں کے چہروں پر بیزاری پھیل گئی۔
y چو باہر گیا اور واپس آ گیا، کچھ ہی دیر بعد مشروبات لائے گئے۔
9 ”آپ کا یہاں قیام کتنا ہے“
”تقریباً ایک ہفتہ“

”اس بات کا کیا مطلب ہے کہ آپ مجھے مدعو کیے بغیر شادی کرنے جا رہے ہیں؟“ اس سے کچھ فرق نہیں پڑنا تھا کیونکہ میں پورا دن ٹیکس دفتر میں اعداد گننے میں پھنسا ہوا تھا۔

”مجھے معلوم ہے کہ میں غریب تھا مگر پھر بھی آپ کو مجھے دعوتی کارڈ ضرور بھیجنا چاہیے“

”فکر نہ کرو۔ آپ کو اس سال کے اندر اندر شادی کا (دعوتی کارڈ) مل جائے گا۔“ ہم دونوں تھوڑی بیر پی رہے تھے جس پر زیادہ جھاگ نہیں تھی۔

 کیا یہ ایک دواساز کمپنی نہیں ہے جہاں آپ دوائیں تیار کرتے ہیں ”
”یقیناً“
”اچھا۔ آپ کو یہاں بیمار پڑ جانے کی پریشانی بھی نہیں ہو گی“

ان سب نے زوردار قہقہے بلند کیے اور ایک دوسرے کی رانوں پر ہاتھ مارے جیسے کسی نے کوئی بہت ہی مزاحیہ لطیفہ سنایا ہو۔

پارک تم واقعی بہت ہر دلعزیز استاد ہو۔ تم کبھی میرے ہاں نہیں آئے اگرچہ میں پانچ منٹ کی مسافت پر رہتا ہوں ”

”میرا یہ ارادہ رہا ہے کہ تمہارے ہاں آؤں مگر۔ مس حاہ مجھے اس بارے میں مطلع کرتی رہتی ہیں۔ “ اگرچہ، مس حاہ۔ بیر کا گلاس لیں۔ اس سے بہتر کوئی حقیقی شراب نہیں ہوتی۔ آئیے، آئیے۔ آپ آج کی شام اتنی شرما کیوں رہی ہیں، اس طرح نہیں کرتے ”

”شکریہ۔ برائے مہربانی اسے وہیں رہنے دیں میں خود اٹھا لوں گی“
” کیا آپ پہلے بھی بیر پیتی رہتی ہیں؟“

”جب میں کالج میں تھی تو میں کچھ دوستوں کے ساتھ“ سوجو ” (ایک ہر دلعزیز سخت کورین شراب) بھی مقفل دروازوں کے پیچھے چھپ کر پیتی رہی ہوں۔“

”مس حاہ، مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ ایک خفیہ/پوشیدہ شرابی ہیں۔“

”اوہ نہیں۔ میں اس لیے نہیں پیتی تھی کہ مجھے اس کی خواہش تھی۔ میں صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اس کا ذائقہ کیا ہے۔“

”آپ کو کیسا لگا؟“
”خیر، مجھے واقعی نہیں معلوم۔ میں جونہی خالی گلاس نیچے رکھتی تو سو جاتی“
وہ سب ہنسے۔ پارک ایسے نظر آتا تھا کہ ان کے ساتھ ہنسنے پر خود کو مجبور کر رہا ہے۔

”جیسا کہ میں نے ہمیشہ کہا ہے۔ مس حاہ کی یہ سب سے اچھی بات ہے کہ وہ ہمیشہ کہانی انتہائی دلچسپ انداز میں سناتی ہیں۔“

”یہ شعوری طور پر نہیں ہے۔ میں (کہانی) دلچسپ بنانے کی کوشش نہیں کرتی۔ میں جب کالج میں نہیں تھی۔ تب بھی ہمیشہ ایسے ہی بات کرتی تھی۔“

”اوہ! ٹھیک یہی بات ان کی اتنی اچھی نہیں ہے۔ کیا آپ۔ میں کالج میں تھی“ ۔ والے حصے کو چھوڑ نہیں سکتیں ’

”آپ میرے جیسے لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیں گی جو کبھی کالج نہیں گئے“
”مجھے افسوس ہے“
”پھر معذرت کے طور پر آپ ہمارے لیے ایک گیت گائیں گی“
”ہاں ایک گیت۔ ایک گیت“
”ٹھیک ہے“
”چلیں ایک (گیت) ہو جائے“
سب نے تالیاں بجانی شروع کر دیں۔ وہ ہچکچائی

”ہمارے ہاں آج سیول سے آئے ہوئے ایک خصوصی مہمان موجود ہیں۔ جو آپ نے اس رات گایا تھا وہ بہت خوبصورت (گیت) تھا“ چو نے اسے اکسایا۔

”ٹھیک ہے، میں گاؤں گی۔“

اس نے گانا شروع کر دیا۔ اس کے چہرے پر تقریباً کوئی تاثر نہیں تھا اور صرف اس کے ہونٹوں میں خفیف سی حرکت تھی۔ ٹیکس دفتر کے لوگ اس گیت کی طرز کے مطابق اپنی میزیں بجا کر اس کا ساتھ دے رہے تھے۔ وہ ”ماکپو کے آنسو“ گا رہی تھی۔ مجھے حیرت تھی کہ ”ماکپو کے آنسو“ اور ”ایک کھلے دن“ میں کتنی زیادہ مطابقت تھی اور وہ کیا چیز تھی جو اس گلے کی رگوں میں سے ایک ہر دلعزیز گیت کو پیدا کر رہی تھی جس گلے کی تربیت صرف ’اریاس‘ گانے کے لئے ہوئی تھی۔ ”ماکپو کے آنسو“ جو وہ گا رہی تھی، میں کسی بار کی ملازمہ کے گیت جیسی اونچی اور سخت آواز نہیں تھی نہ اس میں آواز کا وہ بھاری پن تھا جو مقبول عام گیتوں میں ایک خاص احساس پیدا کرتا ہے۔ نہ ہی وہ قابل رحم جذباتیت تھی جو ایسے گیتوں کا خاصہ ہے۔

”ماکپو کے آنسو“ اس وقت کوئی مقبول گیت نہیں تھا۔ جب مس حاہ نے اسے گایا۔
پھر بھی اس میں ”مادام تتلی“ سے کم (اریاس) تھا۔

یہ گیت کی بالکل نئی قسم تھی۔ اس میں کچھ اس طرح کا ترحم تھا جو عام طور پر گیتوں میں پائے جانے والے ترحم سے مختلف تھا۔ ایک اس سے زیادہ بے رحم، جارحانہ ترحم اور ”کھلے دن“ کے سر کی بلندی سے لمحہ بہ لمحہ بہت زیادہ بلند کرنے والا چیختا ہوا سر۔

اس نئے گیت میں ایک بکھرے بالوں والی پاگل عورت کی ٹھنڈی مسکراہٹ داخل ہو چکی تھی اور اس سے بھی بڑھ کر اس میں موجین کی باس موجود تھی۔ وہ باس جو گلی سڑی لاش کی باس جیسی تھی۔

جب اس نے گیت ختم کیا تو میں خود کارانہ طور پر مسکرایا اور احمقانہ طور پر تالیاں بجائیں اور مجھے احساس ہو گیا۔ کیا یہ کوئی کشف تھا؟ کہ پارک کو اب یہاں سے جانے کی شدید خواہش تھی۔ جب میری آنکھیں پارک کی جانب گھومیں تو جیسے وہ اسی انتظار میں تھا کہ میں اس کی جانب دیکھوں۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ کسی نے اس سے دوبارہ بیٹھ جانے کی درخواست کی لیکن پارک نے ایک کمزور مسکراہٹ کے ساتھ انکار کر دیا۔

 ”مجھے پہلے جانے پر افسوس ہے۔ میں کل دوبارہ آپ سے ملوں گا۔“ اس نے مجھ سے کہا

چو دروازے تک اور میں باہر گلی تک اسے چھوڑنے گیا تو رات ابھی جوان تھی، زیادہ نہیں گزری تھی مگر گلی بالکل سنسان تھی۔ کہیں سے ایک کتا بھونکا اور گلی سے کچھ چوہے ہمارے سایوں سے گھبرا کر کچھ کھاتے ہوئے تیزی سے غائب ہو گئے

”دیکھو دھند اتر رہی ہے۔“ پارک نے کہا اور جیسے ہی اس نے یہ کہا۔ گلی کے سرے پر مکانوں کے سائے جن میں کہیں کہیں روشنیاں بھی چمک رہی تھیں، (دھند میں ) غائب ہونا شروع ہو گئے۔

”تمہیں مس حاہ سے محبت ہے؟ کیوں کیا ایسا نہیں ہے؟“ پارک سے میں نے ایک بار پھر کمزور مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔

”کیا چو اور اس کے درمیان کوئی چکر چل رہا ہے۔“
”مجھے معلوم نہیں۔ میرا خیال ہے کہ چو اس کے ساتھ ممکنہ شادی کے بارے میں سوچ رہا ہے۔“
”اگر تم اسے چاہتے ہوتو تمہیں اس بارے میں زیادہ مثبت اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ قسمت بخیر۔“

”مجھے یقین نہیں ہے۔“ کسی لڑکے کی طرح پارک ہکلایا۔ اسے ان مادیت پرست لوگوں کے سامنے ایک پاپ گیت گاتے ہوئے دیکھنا قابل افسوس تھا۔ بس اتنی سی بات تھی، اسی لیے میں وہاں سے چلا گیا ”پارک نے دھیمی آواز میں کہا۔ جیسے اپنے غصے کو دبا رہا ہو۔

”ہوں، ٹھیک ہے، ہر چیز کے لیے ایک مناسب جگہ ہوتی ہے۔ خواہ وہ کلاسیکی گیت ہوں یا پاپ۔ میرا خیال نہیں کہ تمہیں اسے قابل افسوس سمجھنا چاہی۔ ایک جھوٹ سے میں نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی وہ چلا گیا اور میں دوبارہ ان مادیت پرستوں کی محفل میں آ گیا۔

موجین میں ہر شخص دوسروں کو مادیت پرست سمجھنے کی عادت میں میں مبتلا ہے۔ یہاں تک کہ مجھ میں بھی یہی رجحان ہے۔ یہ سوچنا کہ جو کچھ بھی اور لوگ کر رہے ہیں، وہ محض ایک کھیل ہے جو خالص بے عملی یا نکمے پن سے کسی طرح مختلف نہیں ہے۔ جب رات خاصی بیت چکی تو ہم سب اٹھے (محفل برخاست کی) ۔ چو نے مجھے رات وہیں بسر کرنے پر زور دیا لیکن میں نے صبح گھر چھوڑنے سے پہلے کی بے آرامی کا خیال کرتے ہوئے اسی وقت جانے پر اصرار کیا۔ ٹیکس دفتر کے لوگوں نے اپنی اپنی راہ لی چنانچہ سکول کی استانی اور میں نے ہی اکٹھے سفر کیا۔ ہم پل عبور کر رہے تھے۔ سایوں بھرے اس منظر میں چاندی جیسی ندی پھیلی ہوئی تھی۔ اس کا آخری سرا دور دھند میں گم ہو رہا تھا۔

”رات کے وقت یہ واقعی بہت خوبصورت جگہ ہے“ اس (حاہ) نے کہا
”واقعی؟ یہ کوئی جگہ ہے“
”مجھے اندازہ ہے کہ آپ نے“ یہ کوئی جگہ ہے ”کیوں کہا ہے“ اس نے کہا
”آپ نے کیسے اندازہ لگایا ہے؟“ میں نے پوچھا
”کیونکہ یہ واقعتاً ایک بھدی جگہ ہے کیا ایسا نہیں ہے؟ کیا میں صحیح نہیں کہہ رہی؟
”تقریباً“

ہم پل کے آخری سرے تک آ گئے۔ وہاں ہمیں علیحدہ ہونا تھا۔ اسے ندی کے ساتھ والی سڑک پر رک جانا تھا اور مجھے اسی سڑک پر آگے جانا تھا۔

تو تمہیں اسی راستے پر جانا ہے؟ پھر۔ ”میں نے کہا۔

”کیا تم کچھ آگے تک میرا ساتھ دو گے۔ گلی اتنی خاموش ہے کہ مجھے کچھ خوف محسوس ہو رہا ہے۔“ اس نے ہلکی سی کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔

میں نے پھر اس کے ساتھ چلنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ۔ مجھے محسوس ہوا جیسے ہم اچانک ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے ہیں۔ پل کے سرے سے اگلے کنارے تک جب اس نے مجھے ساتھ چلنے کو کہا، ایک ایسی آواز میں جو واقعتاً خوف سے کانپتی محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے محسوس ہوا وہ ایک لپکے سے میری زندگی میں داخل ہو گئی ہے۔ میرے سارے دوستوں کی طرح، ان دوستوں کی طرح جنہیں میں اب اپنے سے علیحدہ نہیں کر سکتا۔ جنہیں میں نے بعض اوقات تکلیف بھی پہنچائی لیکن جنہوں نے مجھے بہت بار تکلیف پہنچائی۔

”جب میں پہلی بار تم سے ملی۔ مجھے کیا کہنا چاہیے؟ کیا یہ کہ تمہارے گرد سیول کے انداز و اطوار کا ہالہ پھیلا ہوا ہے، تمہارے انداز و اطوار سیول والوں سے ملتے جلتے تھے؟ لیکن مجھے لگا کہ میں تمہیں پہلے بھی مل چکی ہوں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے؟“ اس نے اچانک کہا

”ایک پاپ گیت“ میں نے کہا
”ہاں“
”تم پاپ گیت کیوں گاتی ہو۔ کیا موسیقی کے طالب علم جہاں تک ہو سکے ان سے اجتناب نہیں کرتے؟“

”اس لئے کہ یہ ہمیشہ پاپ گیتوں کی فرمائش کرتے ہیں“ اس نے جواب دیا اور پھر ہلکی آواز میں ہنسی جیسے کہ اسے پریشانی ہوئی ہو۔

”اگر میں یہ کہوں کہ اگر آپ کو واقعی پاپ گیت گانا پسند نہیں تھا تو آپ اس جگہ جانے سے بچ سکتی تھیں، تو کیا یہ آپ کے معاملات میں مداخلت ہو گی؟“ میں نے کہا

” مجھے معلوم ہے میں وہاں نہیں جاؤں گی وہ سارے فضول قسم کے لوگ ہیں“
” تو پھر پہلے آپ وہاں کیوں گئیں؟“
”کیوں کہ میں بہت بور ہو چکی تھی“ اس نے پریشان ہو کر جواب دیا۔

”بوریت“ بالکل صحیح یہ بالکل صحیح تذکرہ تھا ”پارک کہتا تھا کہ وہ وہاں سے اس لئے چلا آیا کہ اس کے لئے آپ کو اپنے گیت گاتے ہوئے دیکھنا بہت قابل افسوس تھا“

اندھیرے میں میں نے اس کے چہرے کے (تاثرات) کو جانچنے کی کوشش کی۔
” پارک واقعی بہت جھگڑالو ہے“ وہ اونچی آواز میں ہنسی جیسے وہ خوش ہوئی ہو۔
” وہ ایک اچھا آدمی ہے“ میں نے کہا
”ہاں ضرورت سے زیادہ اچھا“
” مس حاہ کیا آپ کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کی محبت میں گرفتار ہو“
” اوہ بمہربانی مجھے مس حاہ مت کہیں۔ اگر آپ میرے بھائی بھی ہوتے تو بڑے بھائی ہوتے“
”پھر میں آپ کو کیسے پکاروں؟“
” مجھے صرف میرے پہلے نام، ان سک، سے پکاریں“
”ان سک۔ ان سک“ میں مدہم آواز میں بڑبڑایا ”ہاں یہ بہتر ہے“ میں نے کہا
”آپ میرا سوال کیوں گول کر گئیں؟ ”
”کون سا سوال؟“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ہم چاول کے کھیت کے پاس سے گزر رہے تھے۔ موسم گرما کی ایک رات جب میں نزدیک و دور کے چاول کے کھیتوں سے آنے والی مینڈکوں کے ٹرانے کی آوازیں سن رہا تھا ایسی آوازیں جیسے ہزاروں سخت خولوں کو آپس میں رگڑا جا رہا ہو۔ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میری حسیات میں یہ آوازیں ان گنت ستاروں کے ٹمٹمانے میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ میری حسیات میں ایک سمعی آواز کے ایک بصری شبیہ میں تبدیل ہونے کا عجیب عمل وقوع پذیر ہو چکا تھا۔ پھر اس وقت میرے احساسات گڈ مڈ کیوں ہو رہے تھے جب میں نے مینڈکوں کے ٹرانے کی آواز کو ستاروں کی ٹمٹماہٹ میں تبدیل ہوتا محسوس کیا تھا۔

لیکن اس وقت ایسا نہیں تھا کہ جب میں نے مینڈکوں کے ٹرانے کی آواز سنی تو اسی وقت میں نے دمکتے ستاروں کو بھی آسمان سے تقریباً پھوار کی طرح نیچے آتے دیکھا ہو۔ جب میں نے ستاروں پر نظر ڈالی تو میں نے واضح طور پر اپنے اور ایک ستارے، اور اس ستارے اور ایک دوسرے ستارے کے درمیان ڈرا دینے والے فاصلے کو دیکھا۔ ایسے جیسے میری آنکھوں کی نظر زیادہ سے زیادہ بڑھتی جا رہی ہو۔ اس نا قابل گزر راستے پر نظر ڈالنے سے سحر زدہ ہو کر میں بالکل مبہوت کھڑا یہ محسوس کر رہا تھا کہ اندر ہی اندر میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رہ گیا ہے۔ وہ برداشت کرنا اتنا مشکل کیوں تھا؟

گزرتے وقتوں میں اندھیرے آسمان پر ٹمٹماتے ستاروں پر نظر جمانا مجھے اتنا مشکل اور (نا قابل برداشت) کیوں لگتا تھا؟

” آپ کیا سوچ رہے ہیں؟“ خاتون نے مجھ سے پوچھا

”مینڈکوں کا ٹرانا“ یہ کہتے ہوئے میں نے اوپر آسمان پر نظر ڈالی جو دھند چھا جانے سے چھپ گیا تھا اور ستارے مدہم ہوتے جا رہے تھے۔

”ہاں، ہاں۔ مینڈکوں کا ٹرانا۔ میں نے یہ پہلے نہیں سنا۔ میرا خیال تھا کہ موجین میں مینڈک آدھی رات کے بعد ٹراتے ہیں“

”آدھی رات کے بعد ؟“

” ہاں۔ آدھی رات کے بعد مالک مکان اپنا ریڈیو بند کر تا ہے تو تب مجھے مینڈکوں کے ٹرانے کی آواز آتی ہے“

” آپ اتنی دیر تک کیوں جاگتی رہتی ہیں؟“
” بعض اوقات بس نیند بالکل آتی ہی نہیں“
نیند بالکل نہیں آتی، یہ بات شاید صحیح ہے۔
” کیا آپ کی بیوی خوبصورت ہے؟“ اس نے اچانک پوچھا
”ہاں وہ خوبصورت ہے“ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

”آپ خوش ہیں، کیوں یہ صحیح نہیں؟ آپ امیر ہیں، آپ کی بیوی خوبصورت ہے اور آپ کے بچے پوجنے کے قابل ہیں۔“

”میرے ابھی تک بچے نہیں ہیں سو میں سوچتا ہوں کہ میں ذرا سا کسی حد تک کم خوش ہوں۔“
”واقعی؟ آ پکے کوئی بچے کیوں نہیں ہیں۔ جب کہ آپ کی شادی ہوئے، کتنا عرصہ گزر چکا ہے؟“
”بس تین سال سے کچھ زیادہ“
 ”آپ تنہا سفر کیوں کر رہے ہیں جبکہ آپ کسی خاص کام سے بھی نہیں آئے؟“
یہ مجھ سے ایسے سوال کیوں پوچھ رہی ہے؟
 میں خاموشی سے ہنسا۔ اس نے اب مجھ سے پہلے سے زیادہ چہکتی آواز میں پوچھا
”اس کے بعد میں آپ کو اپنا بڑا بھائی سمجھوں گی چنانچہ کیا آپ مجھے سیول لے چلیں گے؟“
”اوہ کیا آپ سیول جانا چاہتی ہیں؟“
”ہاں!“
; ”آپ کو موجین پسند نہیں ہے؟“

”میرا خیال ہے اسی لمحے میں یہاں پاگل ہو جاؤں گی۔ سیول میں میرے بہت دوست ہیں۔ اوہ خدایا! میں سیول جانے کے لئے مر رہی ہوں“ اس نے میرا بازو سختی سے جکڑ لیا۔ مگر پھر فوراً ہی چھوڑ دیا۔

میں نے اچانک خود کو بہت پرجوش محسوس کیا۔
میں غصے میں آیا، غصے میں آیا اور پھر غصے میں آیا اور میرا وہ جوش و جذبہ غائب ہو گیا۔

”لیکن اب تم جہاں بھی جاؤ۔ وہ تمہارے کالج کے دنوں سے مختلف ہو گا اور چونکہ تم ایک خاتون ہو۔ اس لیے تم جہاں بھی جاؤ تمہیں یہی محسوس ہو گا کہ تم پاگل ہو رہی ہو جب تک تم ایک خاندان میں گم نہ ہو جاؤ۔“

”میں نے اس کے بارے میں بھی سوچا لیکن اس وقت میں محسوس کرتی ہوں کہ اگر میرا خاندان ہوتا تب بھی میں پاگل ہو جاتی اور اگر یہاں کوئی ایسا شخص بھی ہوتا جس سے مجھے محبت ہوتی تب بھی میں یہاں رہنا نہیں چاہتی اور میں اس شخص سے یہ جگہ چھوڑ دینے کی استدعا دیتی“

”لیکن میرے تجربے کے مطابق، سیول میں رہنا ہمیشہ بہترین ثابت نہیں ہوتا۔ وہاں ذمہ داریاں ہیں، صرف ذمہ داریاں۔“

”لیکن یہاں نہ تو ذمہ داریاں ہیں، نہ غیر ذمہ داریاں۔ بہرحال میں سیول جانا چاہتی ہوں۔ کیا تم مجھے ساتھ لے جاؤ گے؟“

”چلو اس کے بارے میں سوچتے ہیں۔“
”تم مجھ سے وعدہ کرو گے، کیوں کیا نہیں کرو گے؟“
میں صرف مسکرایا۔ ہم اس کے گھر پہنچ گئے۔
”تم کل کیا کر رہے ہو“ اس نے مجھ سے پوچھا

میں غالباً صبح کے وقت اپنی ماں کی قبر پر جاؤں گا۔ اس کے بعد میرا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے میں سمندر پر چلا جاؤں۔ وہاں ایک گھر ہے جس میں میں ٹھہرا کرتا تھا۔ ہو سکتا ہے میں اسے دیکھنے چلا جاؤں۔ ”

تم وہاں دوپہر کے وقت کیوں نہیں جاتے؟ ”
”لیکن کیوں؟“
”میں بھی جانا چاہتی ہوں۔“ کل ہفتہ ہے اور آدھی چھٹی ہے صرف (آدھا دن) ہے ”
”چلو پھر ایسا ہی کرتے ہیں“
ہم نے ملنے کی جگہ اور وقت کا تعین کیا اور جدا ہو گئے۔

عجیب طرح کی مایوسی محسوس کرتے ہوئے میں آہستہ آہستہ رات کی گلیاں گزرتے واپس اپنی چچی کے گھر پہنچ گیا۔

جب میں بستر میں گھس گیا تو سائرن بجا کر کرفیو کا اعلان ہوا۔ یہ ایک اچانک اور شوریلی آواز تھی جو بہت طویل تھی۔ تمام مسائل اور خیالات سائرن کی آواز تلے دب گئے۔ آخر میں دنیا میں (اس آواز کے سوا) کچھ باقی نہ رہا۔

یہاں تک کہ اس آواز کے بارے میں بھی محسوس ہوتا تھا کہ اتنی طویل مدت تک ہی جاری رہے گی کہ اس کے ہونے کا احساس ہی ختم ہو جائے گا۔ عین اس وقت وہ آواز اچانک اپنی قوت کے خاتمے کے ساتھ رک گئی اور ایک لمبی آہ کے ساتھ مدہم ہوتے ہوتے گم ہو گئی۔ صرف میرے اندر موجود سوچیں ایک بار پھر زندہ ہو گئیں۔ میں نے اس گفتگو کے بارے میں سوچا جو میں نے اس خاتون کے ساتھ صرف کچھ دیر پہلے ہی کی تھی۔ اگرچہ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ ہم نے بہت سے موضوعات پر گفتگو کی تھی۔

میرے کانوں میں صرف چند الفاظ ہی باقی رہ گئے تھے۔ کچھ دیر بعد جب یہ الفاظ میرے کانوں سے میرے دماغ اور میرے دماغ سے میرے دل تک پہنچیں گے تو ان میں سے کتنے غائب ہو چکے ہوں گے؟ نہیں، آخر کار یہ سارے کے سارے سرے سے غائب ہو سکتے ہیں۔ چلو آہستہ آہستہ سوچتے ہیں۔ اس نے کہا تھا کہ وہ سیول جانا چاہتی ہے۔ اس نے مایوس آواز میں کہا تھا۔ میں نے اچانک اسے اپنی باہوں میں جکڑ لینے کی خواہش محسوس کی اور پھر۔ نہیں۔ صرف یہی بات میرے دل میں رہ جائے گی۔

لیکن جب میں موجین سے چلا جاؤں گا تو یہ بات بھی دل سے بالکل مٹ جائے گی۔ میں سو نہ سکا۔ یہ دوپہر کے قیلولے کی وجہ سے بھی تھا۔ تاریکی میں میں نے دیوار سے لٹکے ہوئے سفید لباسوں کو جو ناخوش و ناراض بھوتوں کی طرح مجھ پر حقارت کی نظر ڈال رہے تھے، سختی سے گھورتے ہوئے ایک سگریٹ سلگایا۔ میں نے سگریٹ کی راکھ سر سے اوپر کی طرف کہیں ایسی جگہ جھاڑی جہاں سے صبح اسے آسانی سے صاف کیا جا سکتا تھا۔ ان مینڈکوں کی آواز ”جو صرف آدھی رات کے بعد ٹراتے تھے“ کہیں سے بہت مدہم مدہم آ رہی تھی۔ کہیں سے کسی گھڑیال کے ایک بجانے کی آواز آئی۔ کہیں سے کسی گھڑیال نے 2 بج جانے

کا اعلان کیا۔ کہیں سے کسی گھڑیال نے تین بجا دیے، کہیں سے ایک گھڑیال نے چار بجا دیے۔ کچھ دیر بعد کرفیو ختم ہونے کا سائرن بجا۔ گھڑیال اور سائرن، ان میں سے کوئی ایک صحیح وقت پر نہیں تھا۔ سائرن کی آواز اچانک شوریلی اور دیر تک جاری رہنے والی تھی۔ تمام مسائل اور خیالات سائرن کی آواز میں جذب ہو گئے۔ آخر میں دنیا میں کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا۔ اس دنیا میں صرف سائرن ہی باقی رہ گیا تھا۔ وہ آواز بھی لگتا تھا کہ صرف اتنی دیر تک ہی جاری رہے گی کہ اس کے ہونے کا احساس جاتا رہے۔

عین اسی وقت آواز اپنی قوت ختم ہو جانے پر رک گئی اور ایک لمبی آہ کے ساتھ مدہم ہوتے ہوتے ختم ہو گئی۔ کہیں خاوند اور بیویاں شاید ہمبستری کر رہے ہوں گے۔ نہیں خاوند اور بیویاں نہیں بلکہ طوائفیں اور ان کے گاہک۔ مجھے معلوم نہیں کہ مجھے یک دم ایسا مضحکہ خیز خیال کیوں آیا۔ کچھ ہی دیر بعد میں گہری نیند میں کھو چکا تھا۔

دریا کے سمندر تک پھیلے ہوئے طویل کنارے

صبح ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ ناشتے سے پہلے میں نے ایک چھتری لی اور گاؤں کے پاس اپنی والدہ کی قبر پر گیا۔ اپنی پتلون کے پائنچوں کو اپنے گھٹنوں تک تہہ کرتے ہوئے میں نے بارش میں گھٹنوں کے بل بار بار بہت جھک کر قبر کو خراج عقیدت پیش کیا۔ بارش نے مجھے ایک انتہائی مثالی طور پر عقیدت مند بیٹا بنا دیا تھا۔ ایک ہاتھ سے میں نے قبر پر اگے لمبے گھاس کو اکھاڑا۔ گھاس کو اکھاڑتے ہوئے میں نے اپنے سسر کے بارے میں سوچا جو اس وقت میری ترقی کے سلسلے میں مختلف اہم شخصیات سے مینیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنی جاندار ہنسی کے ساتھ مل رہا ہو گا۔ جب میں نے اس بارے میں سوچا تو مجھے ایسا لگا جیسے میں رینگ کر قبر میں داخل ہو رہا ہوں۔

واپسی پر میں نے گھاس والے کنارے کے ساتھ والی سڑک پر جانے کا فیصلہ کیا گو وہ راستہ گھوم کر جاتا تھا۔

تیز ہوا نے بارش کو پھوار میں تبدیل کر دیا تھا اور سارا منظر بارش میں رقص کرتا محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے چھتری بند کر دی۔ کنارے کے ساتھ چلتے ہوئے، میں نے دریا کے ساتھ کنارے کی ڈھلوان کے نیچے گھاس پر دور دراز کے کھیتوں سے گاؤں کے اسکول کی طرف جاتے ہوئے بچوں کا ہجوم دیکھا۔ اس ہجوم میں کچھ بڑی عمر کے لوگ بھی تھے اور برساتی پہنے ایک پولیس والا ڈھلوان پر لیٹے سگریٹ پیتے ہوئے کہیں دور دیکھ رہا تھا۔ ایک بڑھیا اپنی زبان چلاتے ہوئے کسی نہ کسی طرح اس ہجوم میں سے اپنا راستہ بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ میں ڈھلوان کے نیچے پہنچا پولیس والے کے پاس سے گزرتے ہوئے اس سے پوچھا۔

”کیا ہوا“ ”
”کسی نے خودکشی کر لی“ اس نے مکمل طور پر دلچسپی سے خالی آواز میں جواب دیا۔
”کون تھا“
”گاؤں کی کوئی بار میں کام کرنے والی تھی ہر موسم گرما میں ان میں سے دو ایک خودکشی کر لیتی ہیں“
”یہ بڑی سخت جان تھی سو میرا خیال تھا کہ شاید بچ جائے، لیکن وہ بھی تو آخر انسان ہے“

میں نیچے دریا تک گیا اور ہجوم میں شامل ہو گیا۔ مردہ عورت کا رخ دریا کی طرف تھا سو میں اس کا چہرہ نہ دیکھ سکا۔ لیکن اس کے بال مستقل طور پر گھنگریالے تھے اور اس کے اعضاء سفید اور پھولے ہوئے تھے۔ اس نے ایک پتلی سرخ جرسی اور سفید اسکرٹ پہن رکھی تھی۔ صبح سویرے

سردی ہوئی ہو گی۔ یا شاید اسے وہ لباس پسند ہوا ہو۔

اس کا سر ربڑ کے جوتوں پر رکھا تھا جن پر نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور ایک سفید رومال جو کسی چیز کے گرد لپٹا ہوا لگتا تھا کیونکہ وہ ہوا سے اڑ نہیں رہا تھا۔ اس کے بے جان لٹکے ہوئے ہاتھ سے چند فٹ دور بارش میں زمین پر پڑا تھا۔ اس عورت کا چہرہ دیکھنے کے لئے بہت سے بچوں کے پیر ندی میں تھے اور ان کا رخ اس راستے کی جانب تھا ان کے سکول کے نیلے لباسوں کا عکس پانی میں الٹا نظر آ رہا تھا۔ لاش کے اردگرد سبز پرچم۔ عجیب طور پر میں نے اپنے اندر اس مردہ عورت کے لئے شدید جسمانی خواہش کو زور پکڑتے محسوس کیا۔ میں نے فوراً وہ جگہ چھوڑ دی۔ مجھے معلوم نہیں اس عورت نے کیا کھایا لیکن ہو سکتا ہے کوئی ایسی چیز جسے۔ ”میں نے پولیس والے سے کہا۔

اس طرح کی عورتیں عام طور پر سائنائڈ لیتی ہیں۔ وہ مٹھی بھر خواب آور گولیاں کھا کر کوئی تماشا پیدا نہیں کرنا چاہتیں۔ اس کے لئے بہر طور ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ مجھے موجین آتے ہوئے بس میں خواب آور گولی بنانے کا خواب یاد آیا۔ دھوپ کا معصوم چمکیلا پن، ہوا کی ٹھنڈک جو جلد کو لچک عطا کرتی ہے اور سمندر کی جانب سے آنے والی نمکین ہوا۔ اگر کوئی ان تین عناصر سے کوئی خواب آور دوا بنائے۔ لیکن شاید وہ دوا پہلے سے موجود ہے۔

مجھے اچانک معلوم ہوا کہ گزشتہ رات اپنے بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے نیند نہ آنے کی وجہ یہ تھی کہ میں اس کے آخری اوقات پر نظر رکھ سکوں۔ مجھے محسوس ہوا کہ کرفیو اٹھنے کے سائرن کی آواز پہلے آئی ہو گی پھر اس عورت نے زہر کھایا ہو گا اور اس کے بعد ہی میں سو گیا ہوں گا۔ یک دم مجھے احساس ہوا کہ وہ عورت میرے جسم کا حصہ تھی۔ ایک حصہ جو تکلیف دہ تھا جس کا خیال رکھنا ضروری تھا۔ میں نے چھتری سے سختی سے بارش جھاڑی اور اپنی چچی کے گھر واپس آ گیا۔

 وہاں میرے انتظار میں مقامی ٹیکس آفس کے سربراہ چو کا ایک خط پڑا تھا۔
”اگر تمہارے کرنے کو کچھ نہیں ہے تو میرے پاس آ جاؤ۔“

میں ناشتے کے بعد ٹیکس آفس چلا گیا۔ اب بارش تو نہیں ہو رہی تھی مگر آسمان پر ابھی تک بادل چھائے ہوئے تھے۔ میں نے سوچا کہ میں چو کے ارادے کو بھانپ سکتا۔

وہ مجھے اپنے آفس میں براجمان ہونے کے منظر کا نظارہ کرانا چاہتا تھا۔ نہیں، شاید میں چیزوں کو توڑ مروڑ رہا تھا۔ میں نے اور طرح سے سوچنے کا فیصلہ کیا۔ کیا وہ اپنے کام (پیشے ) سے مطمئن تھا؟ وہ شاید اس سے مطمئن تھا؟ چو ایک ایسا آدمی تھا جو پوری طرح موجین میں اپنی جگہ موجود تھا جو مکمل طور پر موجین میں براجمان تھا۔

پھر میں نے فیصلہ کیا کہ مختلف طرح سے اس پر سوچوں۔ کسی کو اچھی طرح نہ جانتے ہوئے، کسی کو اچھی طرح جاننے کی اداکاری کرنا اس شخص کے نکتہ نظر سے ایک خوفناک بدقسمتی ہوتی ہے۔

ہم میں کسی پر نکتہ چینی کرنے یا کم از کم اس کے بارے میں فیصلے دینے کی خواہش کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اتفاق سے ہم اسے جانتے ہیں جو بغیر بازو کی قمیض پہنے اپنی پتلون گھٹنوں تک تہہ کیے بیٹھا خود کو پنکھا جھل رہا تھا۔ وہ بھدا سا لگ رہا تھا اور جب اس نے ایسے اشارے اور انداز و اطوار اختیار کیے جن سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ گھومنے والی کرسی میں ایستادہ ہونے پر بہت مغرور ہے، تو مجھے اس پر بہت افسوس ہوا۔

” کیا آپ مصروف نہیں ہیں؟“ میں نے اس سے پوچھا۔

” میرے پاس کرنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ جب آپ کسی ذمہ دار حیثیت میں ہوتے ہیں تو آپ کو کسی کام کی ساری ذمہ داری سنبھالنے کے بارے میں کچھ (الفاظ) بڑ بڑانا پڑتے ہیں۔“

لیکن حقیقت میں چو اتنا بھی فارغ نہیں تھا جتنا ظاہر کر رہا تھا۔ بہت سے لوگ مختلف کاغذات پر اس کے دستخط لینے آئے اور ان سے زیادہ کاغذات کا اس بکس میں ڈھیر لگتا گیا جن میں ایسے مسائل کے بارے میں (کاغذات) تھے جنہیں دیکھنا ابھی باقی تھا۔

” ہم آج کچھ مصروف ہیں کیونکہ یہ مہینے کا اختتام ہے اور آج ہفتہ (بھی) ہے۔ اس نے کہا۔ لیکن اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اتنا مصروف ہونے پر وہ فخر محسوس کر رہا ہے۔ مصروف اتنا مصروف کہ اس پر فخر کرنے کا وقت بھی نہ ہو۔ سیول میں میرے ساتھ ایسے ہی تھا۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کے لوگ واقعی زندگی گزارنے کے بارے میں مقابلتاً بہت کم ترقی یافتہ ہیں؟ یہاں تک کہ وہ مصروف نظر آنے میں بھی زیادہ بد صورتی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ کسی کے کسی بھی عمل میں کسی بھی طرح کی بد صورتی خواہ وہ ڈاکا زنی ہی کیوں نہ ہو قابل افسوس ہوتی ہیں۔ ایک ایسی چیز جو لوگوں کو ناراض کر دیتی ہے۔ چیزوں کو ترتیب اور ہمواری کے ساتھ مستعدی سے سر انجام دینے کی اہلیت سب سے بڑھ کر اعتماد اور بھروسے میں اضافہ کرتی ہے۔

” تم مس حاہ کو جانتے ہو۔ کل رات والی۔ کیا وہ مستقبل میں ممکنہ بیوی ہو سکتی ہے۔“ میں نے اس سے دریافت کیا۔

”تمہارے خیال میں اب میں اسی قابل رہ گیا ہوں؟“ اس نے کہا۔
” کیوں“ اس میں کیا برائی ہے؟ ”

”دیکھو، میرے لڑکے، چونکہ تم ایک امیر کبیر اور با اثر بیوہ سے شادی کی وجہ سے کھاتے پیتے بن گئے ہو۔ تمہارا مطلب ہے کہ میں خود کو ایک سوکھی سڑی موسیقی کی استاد جس کا کچھ اتا پتا معلوم نہیں ہے (شادی کر کے ) مطمئن ہو جاؤں۔ یوں جیسے وہ اپنے آپ سے بہت مطمئن ہو، اس نے زور دار قہقہہ لگایا۔

”جب تم جتنی کمائی ہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے خواہ عورت کوئی بھیک منگی ہی کیوں نہ ہوا“

” مجھے معلوم ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ چونکہ میرے اپنے رشتہ دار وغیرہ (اہم جگہوں پر ) نہیں ہیں اس لئے میری بیوی کے جاننے والوں میں کچھ اہم اور با اثر شخصیات ضرور ہونی چاہئیں“ اس نے جواب دیا۔ جس انداز سے اس نے گفتگو کی اس سے ہم دونوں دو سازشی لگ رہے تھے۔

”ہم بڑی مضحکہ خیز دنیا میں رہتے ہیں۔ جب میں نے سول سروس کا امتحان پاس کیا تو شادیاں کرانے والوں کا ایک سیلاب آ گیا۔ تاہم وہ صرف نا گفتہ بہ قسم کی پیشکشیں ہی لاتے رہے۔ یہ سو چنا واقعی عورتوں کے لئے بڑا ہی غیر دانشمندانہ (غیر مناسب) ہوتا ہے کہ شوہر حاصل کرنے کے لئے ان کا صرف عورتیں ہونا ہی کافی ہے“

”کیا مس حاہ انہی عورتوں میں سے ایک ہے؟“
” وہ ایک نمائندہ مثال ہے۔ جس طرح وہ میرا تعاقب کرتی ہے وہ ایک حقیقی مصیبت ہے“
” مجھے تو وہ ایک ذہین عورت لگی تھی“

”وہ ٹھیک ہے، ذہین ہے۔ لیکن میں نے اس کا خاندانی پس منظر دیکھا اور واقعی اس کا خاندان اتنا گیا گزرا ہے کہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ یہاں فوت ہو جائے تو کوئی ایک بھی ایسا مناسب آدمی (اس کے خاندان میں ) نہیں ہے جو یہاں آ کر اس کے معاملات دیکھ سکے“ مجھے اسے جلد دوبارہ دیکھنے کی خواہش محسوس ہوئی۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ اسی کسی جگہ پر مر رہی تھی۔ میں اسے جلد دوبارہ ملنا چاہتا تھا۔

” پارک جو ایسی باتیں نہیں جانتا۔ اس کی محبت میں گرفتار ہے“ چو نے غصے سے کہا۔
”پارک؟“ میں نے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا۔

” وہ اسے ملتجیانہ خطوط لکھتا ہے جو وہ مجھے دکھا دیتی ہے جس کا مطلب ہے جیسے پارک وہ محبت نامے مجھے ہی لکھتا ہو۔“

اسے دیکھنے اور ملنے کی میری خواہش مکمل طور پر غائب ہو گئی۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد پھر تازہ ہو گئی۔

” پچھلی بار میں اسے ایک بدھ مندر لے گیا۔ میں اس سفر سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی امید رکھتا تھا مگر وہ بے حد تیز تھی۔ اس نے مجھے کہا کہ شادی سے پہلے وہ ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھے گی“

”پھر؟“
» ”الٹی میری بے عزتی ہو گئی، بس یہی ہوا“ میں نے اس (حاہ) کا (دل ہی دل میں ) شکریہ ادا کیا۔

جب ہماری ملاقات کا وقت آیا، میں گاؤں سے کچھ دور، سمندر کی طرف پھیلے دریا کے کنارے پر گیا۔ دور ایک زرد چھتری دیکھی جا سکتی تھی۔ یہ وہی تھی۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ بادلوں میں گھرے آسماں تلے چل رہے تھے۔

” میں نے آج تمہارے بارے میں کچھ پوچھ گچھ کی ہے“
” کیا واقعی تم نے ایسا کیا ہے؟“
”تمہارا کیا خیال ہے میں نے کس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دی؟“

میں بالکل اندازہ نہ لگا سکا۔ وہ عورت خود ہی خود کھلکھلا کر ہنسی پھر کہا ”میں نے تمہارے خون کا گروپ ڈھونڈ لیا ہے“

”………………………………“

”ہاں، تمہارا خون گروپ، میرا خون کی قسموں پر بڑا گہرا ایمان ہے۔ اگر لوگوں کی شخصیات خون کے زیر اثر ہوتیں جیسا کہ حیاتیات کی کتابوں میں ہوتا ہے۔ تو پھر صرف چند ہی قسم کی مختلف شخصیات ہوتیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟“

” یہ ایمان نہیں ہے۔ یہ خواہش بھری سوچ ہے۔“
 ”میں ہمیشہ ان چیزوں پر یقین کرتی ہوں جن پر میں یقین کرنا چاہتی ہوں“
” یہ کس قسم کا خون کا گروپ ہے؟“
”یہ وہ قسم ہے جسے احمق کہا جا تا ہے“

گرم دم گھٹنے والی ہوا میں ہم تکلیف دہ ہنسی ہنسے۔ میں نے اس کی شخصیت پر نظر ڈالی۔ اس نے ہنسنا بند کر دیا تھا اور اپنے سختی سے بند ہونٹوں کے ساتھ وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے بالکل اپنی ناک کی سیدھ میں دیکھ رہی تھی۔ اس کی ناک کی نوک پر پسینے کا ایک قطرہ ٹھہرا ہوا تھا۔ وہ کسی بچے کی طرح میرے پیچھے پیچھے آ رہی تھی۔ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ یوں لگا کہ وہ ایک دم پریشان سی ہو گئی ہے۔ میں نے فوراً اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ کچھ دیر بعد میں نے دوبارہ اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس دفعہ لگا کہ وہ حیران نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے بیچ سے کمزور سی ہوا چھن رہی تھی۔

” جب تم سیول پہنچو گی تو وہاں کیا کرو گی؟“ میں نے اس سے پوچھا۔

”ایک ایسے اچھے بڑے بھائی کے ہوتے ہوئے، وہ میرا خیال رکھے گا، کیوں کیا خیال نہیں رکھے گا؟“ اس نے میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا۔

” بہت سے اہل مرد موجود ہیں لیکن۔ کیا تمہارے لئے گھر جانا بہتر نہیں ہے؟“
” میں اس جگہ کو گھر پر ترجیح دیتی ہوں“
”پھر قیام کیوں نہیں۔ ؟“
”تو پھر تم مجھے لے جانا نہیں چاہتے؟“ اس کا چہرہ بگڑ گیا اور اس نے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔

حقیقت میں مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ میں کیا سوچ رہا تھا۔ میں حقیقت میں اس عمر سے گزر چکا تھا جب دنیا کو صرف جذبات و احساسات کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اگرچہ میں نے جان بوجھ کر ایک امیر اور با اثر بیوہ کو شعوری طور پر تلاش نہ کیا ہو، جیسا کہ کچھ گھنٹے پہلے چو نے بیان کیا تھا، مگر آخر میں میں نے حقیقت میں اسے ایک اچھی بات ہی سمجھا تھا۔

میں نے اپنی بیوی کے لئے ایک مختلف قسم کی محبت محسوس کی تھی۔ اس محبت سے مختلف جو میں نے اس عورت کے لئے محسوس کی تھی جو مجھے چھوڑ گئی تھی۔ پھر بھی اس کے باوجود ان کناروں پر جو سمندر تک پھیلے ہوئے تھے، بادلوں میں گھرے آسمان تلے جلتے ہوئے میں نے اس کا ہاتھ ایک بار پھر تھام لیا۔ میں نے اسے اس گھر کے بارے میں بتایا جس میں ہم جا رہے تھے۔ ایک سال اپنے پھیپھڑوں کی گندگی صاف کرنے کے لئے میں نے اس گھر میں ایک کمرہ لیا تھا۔

یہ میری والدہ کی وفات کے بعد کی بات ہے اس سال (جو میں نے یہاں سمندر کے کنارے گزارا تھا) میرے ارسال کیے جانے والے خطوط میں لفظ ”اداس“ تلاش کرنا بڑا آسان ہے۔ اگرچہ یہ اب ایک گھٹا ٹوپ لفظ بن چکا ہے۔ ایک مردہ لفظ جو لوگوں کے سینوں میں کسی طرح کے احساسات جگانے کی اہلیت نہیں رکھتا، میرے لئے ان دنوں صرف یہی ایک لفظ تھا جسے مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میں استعمال کر سکتا ہوں، صبح کے وقت ساحل پر اوپر سے نیچے چلتے ہوئے وقت کے بوجھل پن کا احساس،

دوپہر کے قیلولے کے بعد اوپر کی طرف چلتے ہوئے اپنے ابرؤں سے ٹپکتے ہوئے ٹھنڈے پسینے کو صاف کرتے ہوئے خالی پن کا احساس، بے صبری و بے قراری جس سے میں سمندر کے قابل رحم بین سننے کا انتظار کرتا، اپنے ہاتھوں اپنے دل کو دباتے ہوئے جو کسی ڈراؤنے خواب سے جاگ کر زور زور سے دھڑکتا۔ ایک لفظ ”اداس“ سے میں نے اس وقت ایسی زندگی کو بیان کیا جس کے ساتھ یہ چیزیں سیپیوں کے خولوں کی طرح چپک گئی تھیں۔ جب میں اب اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو صرف ایک خالی خولی لفظ استعمال کرتا ہوں۔

ایک ایسے شہر میں رہتے ہوئے جہاں سمندر کا تصور تک بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک آدمی کسی تاثر سے عاری ڈاکیے سے وصول کیے ہوئے خط میں لفظ ”اداس“ پڑھ کر کیا محسوس کر سکتا ہے؟ یہاں تک کہ اگر میں بذات خود خط کو ساحل سمندر سے بھیجتا اور پھر شہر میں خود ہی وصول کرتا تو کیا میں اس ایک لفظ میں موجود تمام تر احساسات کو جو اب اتنی وافر ہمدردی کے ساتھ دے سکتا؟ بالکل سچی اور صحیح بات یہ ہے، میرا خیال ہے کہ غیر واضح طور پر میرے قیاسات اور سوالات تب بھی ہوتے جب میں اپنے میز کی جانب ایسے خطوط لکھنے کے لئے بڑھتا اور میرا جواب میرا خیال ہے ’نہیں‘ ہوتا۔ اس کے باوجود میں نے ایسے خطوط لکھے جن میں لفظ ”اداس“ لکھا تھا اور انہیں تمام سمتوں میں نیلے سمندر کی بھدی تصویروں والے پوسٹ کارڈوں کے ذریعے بھیجا۔

» ”تمہارے خیال میں وہ کس قسم کا شخص ہو گا جس نے اس دنیا کا پہلا خط لکھا ہو گا“ میں نے پوچھا۔

” اوہ خطوط! دنیا میں خط وصول کرنے سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ میں حیرت سے سوچتی ہوں وہ کون شخص ہو گا؟ وہ یقیناً تمہاری طرح کوئی تنہا شخص ہو گا“ اس کے ہاتھ میرے ہاتھوں میں داخل ہو گئے۔ مجھے یوں لگا جیسے اس کے ہاتھوں نے یہ الفاظ ادا کیے ہوں۔

”اور تمہاری طرح بھی“ میں نے کہا۔
”ہاں“
ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور مسکرا دیے۔

ہم اس گھر میں پہنچ گئے جسے ڈھونڈ رہے تھے۔ ایسے لگتا تھا وقت اس گھر اور اس کے مکینوں کے پاس سے گزر گیا ہو، بغیر کوئی نشان چھوڑے۔ مالک مکان نے میرے ساتھ پرانے وقتوں کی طرح ہی سلوک کیا اور میں پھر اپنے پرانے وقت میں چلا آیا۔ میں نے اس پرانے جوڑے کو وہ تحائف پیش کیے جو ساتھ لایا تھا اور انہوں نے مجھے میرا پرانا کمرہ دے دیا۔

اس کمرے میں میں نے اس سے اس کی بے صبری چھین لی۔ بالکل اسی طرح جیسے آپ کسی حملہ آور سے جو تیزی سے آپ کی طرف آ رہا تھا، اس کا چاقو چھین لیں جیسے کسی شخص سے اس کا چاقو چھین لیں جو اگر اس سے نہ لیا جائے تو وہ شدید مایوس ہو کے کسی کو مار دے۔ میں نے اس سے اس کی بے صبری لے لی۔ وہ بپھرے ہوئے سمندر پر تھی۔ ہم وہاں خاموشی میں بہت دیر تک بیٹھے رہے۔

”میں سیول جانا چاہتی ہوں۔ مجھے صرف یہی خواہش ہے“ اس نے طویل خاموشی کے بعد کہا۔ اپنی انگلیوں سے میں اس کے رخساروں پر بے معنی نقوش بنا رہا تھا۔

” کیا تمہارا خیال ہے کہ اس دنیا میں واقعی کوئی اچھا شخص ہو سکتا ہے؟“ میں نے سگریٹ کو جو سمندر کی طرف سے چلنے والی ہوا سے بجھ چکا

تھا، دوبارہ سلگاتے ہوئے پوچھا۔

”کیا آپ مجھے ملامت کر رہے ہیں؟ جب تک آپ ان کی اچھائی پر یقین نہ رکھتے ہوں میرا خیال نہیں کہ آپ کوئی (اچھا آدمی) پا سکیں“

میں نے سوچا ہم یقیناً بدھ مت کے ماننے والے ہیں۔
”کیا تم اچھی خاتون ہو؟“
”ان سک۔ جب تک تمہیں مجھ پر یقین ہے۔“
میں نے پھر سوچا یقیناً ہم بدھ مت کے پجاری ہیں۔ عورت میرے اور قریب ہو گئی۔
” آؤ نیچے سمندر پر چلیں۔ وہاں میں تمہارے لئے گاؤں گی“ اس نے کہا۔ مگر ہم وہاں سے ہلے نہیں۔
” آؤ نیچے سمندر پر چلیں۔ یہاں بہت گرمی ہے“

ہم اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر نکل پڑے۔ ہم نے ریتلے ساحل کو عبور کیا اور ایک چٹان پر بیٹھ گئے جہاں سے کوئی گھر نظر نہیں آتا تھا۔ لہریں آئیں۔ اپنی بانہوں میں احتیاط سے جھاگ کو چھپا کر جسے انہوں نے ہمارے قدموں میں انڈیل دیا۔ اس نے مجھے بلایا۔ میں نے اپنا سر اس کی طرف گھمایا۔

” کیا کبھی تم نے خود سے نفرت کی؟“ اس نے بڑی جاندار آواز میں پوچھا جو لگتا تھا زبردستی پیدا کی گئی ہے۔ میں نے اپنی یادوں کو تلاش کیا۔ اپنا سر ہلاتے ہوئے میں نے کہا۔

”ہاں۔ جب ایک دوست نے جو میرے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہتا تھا مجھے بتایا کہ میں خراٹے لیتا ہوں مجھے واقعتاً مزید زندہ رہنے کی خواہش نہ رہی“ میں نے اسے ہنسانے کے لئے کہا۔ مگر وہ ہنسی نہیں صرف خاموشی سے اپنا سر ہلاتی رہی۔ ایک طویل خاموشی کے بعد اس نے کہا ”میں حقیقت میں سیول نہیں جانا چاہتی۔ میں نے اسے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دینے کو کہا۔ اس کے ہاتھ کو سختی سے تھامتے ہوئے میں نے کہا۔

” آؤ ہم ایک دوسرے سے جھوٹ نہ بولیں“
” یہ جھوٹ نہیں ہے“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں تمہارے لئے ”ایک کھلے دن میں“ گاؤں گی۔
”لیکن آج تو آسمان ابر آلود ہے“

میں نے آریا میں جدا ہونے کے بارے میں سوچتے ہوئے کہا۔ آؤ ابر آلود دنوں میں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں۔ آؤ اپنے ہاتھ پھیلا کر رکھیں اور اگر کوئی آ کر انہیں تھام لیتا ہے تو آؤ اسے اپنے قریب کر لیں۔ میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ مجھے اس سے محبت ہے لیکن لفظ محبت کی ناموزونیت نے مجھے اس لفظ کو ادا کرنے سے روک دیا۔

í جب ہم واپس گاؤں میں پہنچے تو اندھیرا چھا چکا تھا۔ گاؤں میں داخل ہونے سے پہلے ہم نے ساحل پر ایک دوسرے کو بو سہ دیا۔

” جب تک تم یہاں ہو میں نے شاندار طریقے سے تمہارے ساتھ لگے رہنا ہے۔ چنانچہ میں تمہیں خبردار کرتی ہوں“ جدا ہوتے ہوئے اس نے مجھ سے کہا۔

”لیکن چونکہ میں زیادہ مضبوط ہوں۔ سو آخر میں تم سیول تک کھنچتی چلی جاؤ گی“ میں نے کہا

جب میں گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ پارک آیا تھا اور اب جا چکا تھا۔ وہ کسی کتاب کی دو تین جلدیں چھوڑ گیا تھا کہ اگر میں موجین میں بور ہو گیا ہوں تو (انہیں پڑھ لوں ) میری چچی نے بتایا کہ وہ شام کو پھر آنے کا کہہ گیا ہے۔ تھکن کا بہانہ کرتے ہوئے میں نے اپنی چچی سے کہا کہ میں اس شام کو کسی سے نہیں مل سکتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سے بہانہ کریں گی کہ میں ابھی تک سمندر سے واپس ہی نہیں آیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی بھی چیز مجھے پریشان کرے۔ کوئی بھی چیز نہیں۔

میں نے اپنی چچی سے باہر جا کر سوجو (شراب) خرید کر لانے کو کہا اور اس وقت تک شراب پیتا رہا میں اس کے نشے میں دھت ہو کر سو گیا۔ صبح سویرے میں اچانک جاگ گیا۔ بغیر کسی وجہ سے میرے دل خوف سے دھک دھک کر رہا تھا۔

”ان شک“ میں بڑبڑایا۔ پھر میں فوراً ہی دوبارہ گہری نیند میں ڈوب گیا
…………………………
کیا تم موجین چھوڑ رہے ہو
میں اپنی چچی کے جھنجھوڑنے سے جاگا۔ صبح کافی گزر چکی تھی۔ چچی نے مجھے ایک تار تھما دیا۔
¥ ”27 تاریخ کو تمہیں ایک کانفرنس میں شرکت کرتی ہے۔ براہ مہربانی فوراً آ جاؤ۔ پنگ“

27 تاریخ پرسوں پڑتی تھی اور پنگ میری بیوی کا نام ہے۔ میں نے اپنا دکھتا ہوا سر تکیے پر رکھ دیا۔ میں گہرے گہرے سانس لے رہا تھا۔ میں نے اپنی سانس ہموار کرنے کی کوشش کی۔ میری بیوی کے ٹیلی گرام نے ان تمام سوچوں اور اعمال پر بالکل واضح روشنی ڈال دی جن میں میں موجین پہنچنے کے بعد مصروف رہا تھا۔ ہر چیز میری پہلے سے موجود سوچوں کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئی تھی۔ میری بیوی کے ٹیلی گرام میں یہی لکھا ہوا تھا۔ میں نے اس کی تردید میں اپنے سر کو جھٹکے دیے۔ ہر چیز اس آزاد کی وجہ سے ہوئی تھی جو عام طور پر سیاحوں کو حاصل ہوتی ہے۔ میری بیوی کے ٹیلیگرام میں لکھا تھا۔ میں نے اس کی تردید میں اپنے سر کو جھٹکا۔

ہر چیز وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری یادداشت سے مٹ جائے گی۔ ٹیلی گرام میں لکھا تھا۔ لیکن میں نے اپنے سر کو جھٹکا یہ کہتے ہوئے کہ اس کے داغ /زخم باقی رہ جائیں گے۔ ہم بہت دیر تک بحث مباحثہ کرتے رہے۔ آخر میں ٹیلیگرام اور میں ایک سمجھوتے پر پہنچ گئے۔ آؤ مثبت طریقے سے قبول کر لیں۔ صرف اس بار، اس بار اور ہمیشہ کے لئے، صرف اس بار کے لئے، اس موجین، اس دھند، تنہائی کے حصول کے لئے پاگل پن، پاپ گیت، ایک بار (شراب خانے ) میں کام کرنے والی لڑکی کی خود کشی، بے وفائی، غیر ذمہ داری، آؤ ایک بار ساری چیزوں کو قبول کر لیں، آخری بار اور صرف ایک بار۔ اس کے بعد میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کے محدود حصار میں زندگی بسر کروں گا اوہ ٹیلیگرام، آؤ اس معاہدے پر مہر ثبت کر دیں۔ میں اپنے وعدے پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہوں۔ ہم نے وعدہ کیا لیکن ٹیلی

گرام کی طرف پیٹھ کر کے اس کی آنکھوں سے نظر بچا کر میں نے ایک خط لکھا۔

”مجھے اچانک سیول بلا لیا گیا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ خود تمہیں آ کر مطلع کروں لیکن گفتگو ہمیشہ ہمیں غیر متوقع سمتوں میں لے جاتی ہے۔ چنانچہ میں تمہیں ملنے کی بجائے تمہیں خط لکھ رہا ہوں۔ میں مختصر بات کروں گا۔ مجھے تم سے محبت ہے۔ کیوں؟ کیوں کہ تم میری اپنی ذات ہو، کیونکہ تم میری گزشتہ ذات کی ایک شبیہ ہو جسے میں پیار کرتا ہوں اگرچہ یہ بڑا کمزور (پیار) ہے۔ اگرچہ میں نے اپنی گزشتہ ذات کو اپنی موجودہ ذات میں بدلنے کے لئے ہر طرح سے کوشش کی ہے، میں تمہیں روشنی اور سورج کی روشنی میں لانے کے لئے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ مجھ پر یقین رکھو۔ جونہی سیول میں تمام تیاریاں مکمل کر کے تم سے رابطہ کروں گا۔ برائے مہربانی اس وقت موجین چھوڑ کر مجھے سے سیول میں آ ملنا۔ میرا خیال ہے ہم خوش رہ سکتے ہیں۔“

میں نے یہ لکھا اور پھر اس سارے خط کو پڑھا۔ میں نے اسے پھر پڑھا۔ پھر اسے پھاڑ دیا۔ ایک جھٹکے کھاتی بس پر بیٹھے ہوئے، میں نے کوئی چیز سڑک کے ساتھ دیکھی یہ ایک سفید سائن بورڈ تھا۔ اس پر واضح کالے حروف میں لکھا تھا ”آپ موجین چھوڑ رہے ہیں۔ خدا حافظ“ مجھے شدید قسم کی شرمندگی کا احساس ہوا۔ جاگ گیا۔ بغیر کسی وجہ کے میرا دل خوف سے دھک دھک کر رہا تھا۔

 ”ان سک“ میں بڑبڑایا۔ پھر میں فوراً ہی دوبارہ گہری نیند میں ڈوب گیا
…………………………
کیا تم موجین چھوڑ رہے ہو؟
± میں اپنی چچی کے جھنجھوڑنے سے جاگا۔ صبح کافی گزر چکی تھی۔ چچی نے مجھے ایک تار تھما دیا۔
¥ ”27 تاریخ کو تمہیں ایک کانفرنس میں شرکت کرنی ہے۔ براہ مہربانی فوراً آ جاؤ۔ پنگ“

­ 27 تاریخ پرسوں پڑتی تھی اور پنگ میری بیوی کا نام ہے۔ میں نے اپنا دکھتا ہوا سر تکیے پر رکھ دیا۔ میں گہرے گہرے سانس لے رہا تھا۔ میں نے اپنی سانس ہموار کرنے کی کوشش کی۔ میری بیوی کے ٹیلی گرام نے ان تمام سوچوں اور اعمال پر بالکل واضح روشنی ڈال دی جن میں میں موجین پہنچنے کے بعد مصروف رہا تھا۔ ہر چیز میری پہلے سے موجود سوچوں کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئی تھی۔ میری بیوی کے ٹیلی گرام میں یہی لکھا ہوا تھا۔ میں نے اس کی تردید میں اپنے سر کو جھٹکے دیے۔ ہر چیز اس آزادی کی وجہ سے ہوئی تھی جو عام طور پر سیاحوں کو حاصل ہوتی ہے۔ میری بیوی کے ٹیلیگرام میں لکھا تھا۔ میں نے اس کی تردید میں اپنے سر کو جھٹکا۔

ہر چیز وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری یادداشت سے مٹ جائے گی۔ ٹیلی گرام میں لکھا تھا۔ لیکن میں نے اپنے سر کو جھٹکا یہ کہتے ہوئے کہ اس کے داغ /زخم باقی رہ جائیں گے۔ ہم بہت دیر تک بحث مباحثہ کرتے رہے۔ آخر میں ٹیلیگرام اور میں ایک سمجھوتے پر پہنچ گئے۔ آؤ مثبت طریقے سے قبول کر لیں۔ صرف اس بار، اس بار اور ہمیشہ کے لئے، صرف اس بار کے لئے، اس موجین، اس دھند، تنہائی کے حصول کے لئے پاگل پن، پاپ گیت، ایک بار (شراب خانے ) میں کام کرنے والی لڑکی کی خود کشی، بے وفائی، غیر ذمہ داری، آؤ ایک بار ساری چیزوں کو قبول کر لیں، آخری بار اور صرف ایک بار۔ اس کے بعد میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کے محدود حصار میں

زندگی بسر کروں گا۔ اوہ ٹیلیگرام، آؤ اس معاہدے پر مہر تصدیق ثبت کر دیں۔ میں اپنے وعدے پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہوں۔ ہم نے وعدہ کیا لیکن ٹیلی گرام کی طرف پیٹھ کر کے اس کی آنکھوں سے نظر بچا کر میں نے ایک خط لکھا۔

”مجھے اچانک سیول بلا لیا گیا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ خود تمہیں آ کر مطلع کروں لیکن گفتگو ہمیشہ ہمیں غیر متوقع سمتوں میں لے جاتی ہے۔ چنانچہ میں تمہیں ملنے کی بجائے تمہیں خط لکھ رہا ہوں۔ میں مختصر بات کروں گا۔ مجھے تم سے محبت ہے۔ کیوں؟

کیوں کہ تم میری اپنی ذات ہو، کیونکہ تم میری گزشتہ ذات کی ایک شبیہ ہو جسے میں پیار کرتا ہوں اگرچہ یہ بڑا کمزور (پیار) ہے۔ اگرچہ میں نے اپنی گزشتہ ذات کو اپنی موجودہ ذات میں بدلنے کے لئے ہر طرح سے کوشش کی ہے، میں تمہیں روشنی اور سورج کی روشنی میں لانے کے لئے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ مجھ پر یقین رکھو۔ سیول میں تمام تیاریاں مکمل کر کے تم سے رابطہ کروں گا۔ برائے مہربانی اس وقت موجین چھوڑ کر مجھے سیول میں آ ملنا۔ میرا خیال ہے ہم خوش رہ سکتے ہیں۔ ”

میں نے یہ لکھا اور پھر اس سارے خط کو پڑھا۔ میں نے اسے پھر پڑھا۔ پھر اسے پھاڑ دیا۔ ایک جھٹکے کھاتی بس پر بیٹھے ہوئے، میں نے کوئی چیز سڑک کے ساتھ دیکھی یہ ایک سفید سائن بورڈ تھا۔ اس پر واضح کالے حروف میں لکھا تھا ”آپ موجین چھوڑ رہے ہیں۔ خدا حافظ“ مجھے شدید قسم کی شرمندگی کا احساس ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments