ملکہ الزبتھ دوم کی موت: وہ لمحہ جب تاریخ رُک گئی

جونی ڈائمنڈ - شاہی امور کے نامہ نگار


Queen Elizabeth II
NPG
یہ وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ رُک جاتی ہے، چاہے ایک منٹ، ایک گھنٹے، ایک دن یا پھر ایک ہفتے کے لیے۔ اس لمحے میں تاریخ رک جاتی ہے۔

پوری زندگی اور دور حکومت میں، دو بالکل مختلف ادوار کے دو لمحات اس دھاگے کو روشن کرتے ہیں جس نے کئی دہائیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ رکھا ہے۔ ہر ایک پر ایک کرسی، ایک میز، ایک مائیکروفون، ایک تقریر۔ دونوں میں ہی اونچی پچ والی آواز ہے، وہ مناسب چنے ہوئے الفاظ، عوامی سطح پر بولنے کے بارے میں وہ ہلکی سی ہچکچاہٹ، جس نے بظاہر ان کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑا۔

پہلا لمحہ اس وقت کا ہے جب برطانوی عوام جنگ کے بعد کے شدید موسم سرما میں بے حال تھے۔ ایک نوجوان خاتون، جو ابھی ایک لڑکی ہی تھیں، بال بنائے ہوئے سیدھی بیٹھی ہیں اور ان کی گردن میں موتیوں کے ہار کی دو لڑیاں ہیں۔ ان کی جوان بے عیب جلد ان کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے۔ ان کے سامنے ایک نئی زندگی کا دروازہ کھل رہا ہے۔

اور وہ اپنی یہ زندگی دنیا بھر میں انھیں سننے والے سامعین کے نام کرتی ہیں۔ وہ ان کو بتاتی ہیں کہ وہ یہ کام تن تنہا نہیں کر سکتیں اور آنے والے برسوں میں ان کا ساتھ مانگتی ہیں۔

دوسری تقریر زیادہ رسمی ہے۔ تقریباً سات دہائیوں کے بعد، یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر وہ ایک میز کے پیچھے بیٹھی ہیں جہاں ان کے والد بادشاہ کی یونیفارم پہنے ہوئے تصویر بھی موجود ہے۔

ان کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ وہ ایک نیلا لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں اور ان کی گردن میں موتیوں کے ہار کی تین لڑیاں ہیں۔ گزری دہایاں ان کے چہرے پر اپنا نقش چھوڑ چکی ہیں لیکن ان کی آنکھوں کی چمک ویسی ہی ہے اور ان کی آواز بھی واضح ہے۔ ان کے سامنے پڑا میز تقریبا خالی ہے، سوائے ان کے والد کی تصویر اور ایک گہری خاکی ٹوپی کے، جس کے سامنے ایک بیج لگا ہوا ہے۔

وہ بہت عرصہ پہلے ختم ہونے والی جنگ کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’سب نے اس میں کردار ادا کیا۔‘

دو مختلف ادوار سے جڑے دو لمحات: پہلی میں ملکہ کی اپنی 21ویں سالگرہ پر کی گئی نشریات اور دوسری تصویر یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے 75 سال مکمل ہونے سے متعلق

دو مختلف ادوار سے جڑے دو لمحات: پہلی میں ملکہ کی 21ویں سالگرہ کے موقع پر نشریات کے دوران کی تصویر اور دوسری یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے 75 سال مکمل ہونے پر

یہ خاکی ٹوپی آگزلری ٹیریٹوریل سروس کی سیکنڈ سب آلٹرن ونڈسر کی ہے۔ یہ وہ سروس ہے جس میں شامل ہونے کے لیے نوجوان الزبتھ نے اپنے والد سے التجا کی تھی تاکہ وہ یونیفارم پہن کر خدمات سر انجام دے سکیں۔ اس جنگ نے ان کی شخصیت میں اہم کردار ادا کیا۔

75 سال بعد اس عظیم اور تاریخِی فتح کی سالگرہ کے موقعے پر اس ٹوپی کو ایک فخریہ مقام حاصل ہے جب وہ قوم سے خطاب کر رہی ہیں۔

یہ ٹوپی ایک سادہ سی یادگار ہے، خدمت کی، جو ان کو بہت عزیز ہے۔ وہ خدمت جس کے لیے انھوں نے اپنی زندگی وقف کی، وہ خدمت جو ان کے نزدیک ان کے سر کے تاج کا مقصد تھا۔

برطانوی فوج کی خدمت: 1952 میں گرینیڈیر گارڈز اور 1957 میں آر اے ایف کے عملے سے ملاقاتیں

برطانوی فوج کی خدمت: 1952 میں گرینیڈیر گارڈز اور 1957 میں آر اے ایف کے عملے سے ملاقاتیں

خدمت کے اس وعدے کے تین دہائیوں بعد ایک لمحہ آیا جب انھوں نے عوامی سطح پر خود احتسابی کی جو کم کم ہی ہوتا ہے۔ گلڈ ہال میں اپنی سلور جوبلی تقریب میں انھوں نے بتایا کہ ’وہ وعدہ میں نے ایسے وقت میں کیا تھا جب میں ناتجربہ کار تھی لیکن مجھے اس کے ایک لفظ پر بھی افسوس نہیں اور نا ہی میں ان الفاظ کو واپس لینا چاہوں گی۔‘

آنے والی دہائیوں میں وہ اپنے بارے میں عوامی سطح پر بہت کم بولیں اور اس سے بھی کم ظاہر کیا۔ براڈ کاسٹ دور میں پیدا ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی انٹرویو نہیں دیا۔ ایک یا دو بار ان کو کسی قابل اعتماد دوست سے کسی غیر متنازع معاملے پر بات چیت کرتے ضرور دکھایا گیا جیسا کہ شاہی زیورات پر۔

ان کے الفاظ کی سخت جانچ پڑتال کی جاتی کہ شاید کوئی تنازع یا پھر ان کی ذات کے بارے میں کوئی چیز نکالی جا سکے۔ لیکن وہ بہت محتاط اور ان کے دوست اتنے وفادار تھے کہ کوئی اہم بات باہر نہ نکل سکی۔

تاہم انھوں نے براڈکاسٹ کے میڈیم کو نظر انداز نہیں کیا۔ یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا کہ ان کی تاج پوشی کی تقریب اور کرسمس کا خطاب ٹی وی پر دکھایا جائے۔ یہ بھی ان کا اپنا فیصلہ تھا کہ پرنسس آف ویلز ڈیانا کے موت پر قوم سے براہ راست خطاب کیا جائے۔ وہ کہتی تھیں کہ ’اگر لوگوں کو میرا یقین کرنا ہے تو ضروری ہے کہ وہ مجھے دیکھ سکیں۔‘

قوم کے لیے خدمت: 1953 میں تاج پوشی اور 1973 میں اس وقت کے وزیر اعظم ایڈورڈ ہیتھ کے ساتھ ایک کنسرٹ میں شرکت

قوم کے لیے خدمت: 1953 میں تاج پوشی اور 1973 میں اس وقت کے وزیر اعظم ایڈورڈ ہیتھ کے ساتھ ایک تقریب میں شرکت

براڈ کاسٹ، اخبارات میں خبریں، بہترین لباس میں تصاویر کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ایک ملکہ کی اس زندگی کا حصہ تھے جس کے لیے انھوں نے اپنی زندگی وقف کرنے کا عہد کیا تھا۔ اپنے احساسات کے بارے میں کھل کر بات کرنا اس عہد میں شامل نہیں تھا۔

ان کا تعلق ایک ایسی نسل اور ایسی قوم سے تھا جو اپنے احساسات کا کھلے عام اظہار کرنے کو ضروری نہیں سمجھتی تھی۔ قوم بدل گئی لیکن وہ نہیں بدلیں۔

ان کی قسمت اور ان کی ذات کا ایک دوسرے سے ٹکراؤ ہونا تھا۔ یہ ان کی قسمت میں تھا کہ وہ اس وقت تاج پہنیں جب ملک تبدیل ہونے جا رہا تھا۔ لیکن بطور ملکہ انھوں نے روایات کے لیے اپنی پسندیدگی کا کھل کر اظہار کیا، جس طرح ہمیشہ کام ہوتے رہے، اور تبدیلی کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کا بھی۔

ان کا دل مضافات میں ہی لگتا تھا، گھوڑوں، کتوں اور ان لوگوں کے درمیان جن کو جانوروں سے اتنا ہی پیار تھا جتنا خود ان کو تھا۔ وہاں ان کو ایک ایسی جگہ کی ضمانت تھی جو زیادہ نہیں بدلی تھی۔

1980 کی دہائی کے اواخر میں وہ کہا کرتی تھیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ لوگ پوری زندگی کے لیے ایک کام نہیں کرتے اور ہر وقت مختلف چیزیں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

حکمراں اور بادشاہت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، ایک ایسا حکمران جو روایت پسند ہے اس پر پوری بادشاہت کے ادارے کا انحصار ہے۔

Two pictures of the Queen, one with Prince Charles and Princess Anne and two corgis, walking in Windsor Great Park in 1956, the other with Prince Philip standing next to a white horse on a farm on the Balmoral Estate in Scotland in 1972

انھیں اپنی زندگی کے دوران دیہی طور طریقے سے لگاؤ تھا

محلات کے دروازوں کے پار تبدیلی کی ہوائیں برطانیہ کو تبدیل کر رہی تھیں۔ وہ برطانوی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر ملکہ بنی تھیں۔ جنگ میں فاتح لیکن تھک جانے والا ملک عالمی، عسکری یا معاشی طاقت نہیں رہا تھا۔

ٹریڈ یونین کے عروج اور فلاحی ریاست کے قیام نے ریاست اور معیشت کی تنظیم میں بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھ دی تھی۔ سلطنت کے حصوں سے انخلا بھی جلد بازی کا شکار ہوا۔

جیسے جیسے ان کا راج آگے بڑھ رہا تھا، اس کے ساتھ ساتھ چرچ اور اشرافیہ کے دو بڑے روایتی برجوں کا پرانا نظام کمزور ہو رہا تھا۔ معاشی ترقی اور شہرت نے حادثاتی پیدائش کو معاشرتی کامیابی کے معیار میں پیچھے چھوڑ دیا۔

سامان – فرج، واشنگ مشین، ٹی وی – نے گھروں اور زندگیوں کو بدل دیا۔ خواتین نے کام کرنا شروع کر دیا اور ایک معاشرہ جو پہلے مربوط اور یکساں تھا اب متحرک اور متنوع ہو گیا، جس کا پرانی وفاداریوں اور یقین دہانیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

محل میں بھی تبدیلی آئی، خصوصا شروع کے دور میں۔ شاہی دعوتوں پر نئے چہرے نظر آنا شروع ہوئے، برطانوی عوام ٹی وی پر ملکہ اور ان کے طرز زندگی کو دیکھ سکتے تھے، جنھوں نے پہلی بار کرسمس پر قوم سے ٹی وی پر خطاب کیا اور پھر 1960 میں ایک مکمل ڈاکو منٹری بھی بنائی گئی۔

لیکن یہ بہت چھوٹی تبدیلیاں تھیں۔ ان کا دور حکمرانی ساتویں دہائی میں داخل ہوا تو بادشاہت کا مجموعی چہرہ ان کے پہلے دور سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا چہرہ تھا جسے اگر ان کے والد یا دادا بھی دیکھتے تو حیران نہ ہوتے؛ سینڈرنغم میں کرسمس اور نیا سال، ونڈسز میں ایسٹر، بیلمورل میں موسم گرما کی تعطیلات، ٹروپنگ دی کلر، رائل ایسکوٹ، گارڈز کی تبدیلی اور ریممبرنس سنڈے۔

1969 میں لندن انڈرگراؤنڈ میں سفر اور 1967 میں کرسمس کے موقع پر خصوصی پیغام کی تیاری

1969 میں لندن انڈرگراؤنڈ میں سفر اور 1967 میں کرسمس کے موقع پر خصوصی پیغام کی تیاری

جب چاروں طرف تبدیلی نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا تو انھوں نے مزاحمت کی۔ یہ ان کی تقدیر تھی کہ ان کو تاج ایسے وقت میں ملا جب ملک تبدیلی کے دہانے پر کھڑا تھا اور ایسے وقت میں راج کرنا پڑا جب محل کے آس پاس بھی تبدیلی کا راج تھا۔ ان کے کردار نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ اس تبدیلی کا حصہ نہیں بنیں گی۔ ان کی مزاحمت اور روایت سے محبت ہی ان کی سب سے بڑی قوت تھی لیکن اسی کی وجہ سے غالبا ان کو اپنے سب سے بڑے امتحان کا بھی سامنا کرنا پڑا جب ان کا خاندان ان کے سامنے ٹوٹ رہا تھا۔

خاندان ہمیشہ تاج کے بعد ہی آتا ہے۔ جب ان کے پہلے دونوں بچے، پرنس چارلس اور پرنسس این بہت چھوٹے تھے تو ان کو دنیا کے چھ ماہ کے دورے پر جاتے وقت اسی طرح گھر چھوڑ دیا گیا جیسے خود الزبتھ اور ان کی بہن پرنسس مارگریٹ کو ان کے والدین نے بیس سال پہلے گھر چھوڑ دیا تھا۔

وہ جذبات سے عاری ماں نہیں تھیں لیکن انھوں نے خود کو فاصلے پر ضرور رکھا۔ ان کے سر پر تاج اور اس کے ساتھ آنے والی ذمہ داریوں کا بوجھ اس وقت ڈال دیا گیا تھا جب وہ صرف پچیس سال کی تھیں اور انھوں نے ان ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے اپنایا تھا۔ بچوں سے متعلق بہت سے فیصلے ان کے شوہر کے حوالے کر دیے گئے تھے۔

ان کے تین بچوں کی شادیاں طلاق پر ختم ہوئیں۔ ان کو ازدواجی رشتے پر پختہ یقین تھا۔ یہ ان کے مسیحی عقیدے کا حصہ تھا اور ان کی اس سوچ کا بھی جس کے مطابق یہ ازدواجی تعلق ہی تھا جو کسی معاشرے کو جوڑ کر رکھتا تھا۔

انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ ’طلاق اور علیحدگی آج ہمارے معاشرے کی چند تاریک برائیوں کی وجہ ہیں۔‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سوچ، جو 1940 میں عام تھی، وقت کے ساتھ کمزور ہو چکی تھی۔ لیکن کسی کے بھی والدین اپنے بچے کی شادی کو ناکام ہوتے دیکھ کر خوش نہیں ہوتے۔ 1992 میں، جسے ملکہ نے خود اپنے لیے ایک ’برا سال‘ قرار دیا تھا، ڈیوک اور ڈچس آف یورک کی علیحدگی ہوئی، پرنسس این اور کیپٹن مارک فلپس کی طلاق ہوئی اور پھر شہزادہ چارلس اور ڈیانا کی علیحدگی ہوئی۔

ان کی آپ بیتی لکھنے والے ایک شخص نے لکھا کہ ’یہ ان کی زندگی کا ایک برا وقت تھا جس کی وجہ عوامی سطح پر مشکل وقت کو تسلیم کرنا نہیں بلکہ وہ ناشکری اور طنز تھا جس کا ان کو 40 سالہ دور اقتدار میں سامنا رہا۔‘

ان کے دور کی پہلی دہائی میں تو ملک اور بیرون ملک میں ان کو تعریف کے سوا کچھ نہیں ملا۔ وہ جب بھی کسی بین الاقوامی دورے پر جاتیں تو بڑے مجمعے ان کا استقبال کرتے۔ برطانیہ میں چند لوگوں نے ایک نئی الزبتھین دور کی شروعات کا نعرہ بلند کیا تاہم ملکہ نے سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے فورا ہی اس نعرے سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔

1972 میں شہزادہ فلپ چار بچوں کے ہمراہ جبکہ 1992 میں شاہی جوڑا ونڈسر کاسل کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لے رہا ہے

1972 میں ملکہ اور شہزادہ فلپ اپنے چار بچوں کے ہمراہ جبکہ 1992 میں شاہی جوڑا ونڈسر کاسل کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لے رہا ہے

1960 میں ملکہ اپنے خاندان کے ساتھ ہی مصروف رہیں کیوں کہ ایک نئی ملکہ کا شوق اتر چکا تھا اور جنگ کے بعد پیدا ہونے والی نسل جوان ہو چکی تھی جن کے شوق اپنے والدین سے مختلف تھے۔ 1970 اور 1980 میں ان کی خدمت کرنے کی لگن میں تو کوئی کمی نہیں آئی لیکن میڈیا کی توجہ اب ان کے بچوں، ان کی شادیوں اور ان کے ساتھیوں پر مبذول ہو چکی تھی۔

1990 کے وسط میں ایسا محسوس ہوا کہ ملکہ عوامی موڈ سے لاعلم ہیں۔ اخباری اداریوں میں ملکہ پر براہ راست تنقید ہوئی اور بادشاہت کے مستقبل پر سوال اٹھائے گئے۔ ان کا یہ دور ایک اور سوال کی زد میں تھا۔ ان کا مقام کیا تھا؟ اور ٹونی بلیئر کے غیر رسمی سٹائل کے دور حکومت میں بادشاہت کا کیا مقام تھا؟ لیبر جماعت کی زبردست فتح کے بعد تبدیلی کی خواہش کا اظہار کرنے والے عوام کے لیے روایات کے محافظ محل کا مستقبل کیا تھا؟

چند ہی ماہ بعد اگست کی ایک گرم رات کو پیرس میں ڈیانا کی موت کی خبر آئی۔ کنسنگٹن محل کے باہر تاحد نگاہ پھولوں کے قالین بچھ گئے۔ ملک میں اکثریت نے شہزادی ڈیانا کی موت پر خود کو تنہا محسوس کیا۔

ڈیلی ایکسپریس نے چیختی چنگھاڑتی ہوئی سرخی لگائی، ’میڈم، ہمیں دکھائیں کہ آپ کو کچھ خیال ہے۔‘ سن اخبار نے مطالبہ کیا ’ہماری ملکہ کہاں ہے؟ اس کا جھنڈا کہاں ہے؟‘ پانچ طویل دن ملکہ نے بیلمورال میں گزار دیے جس دوران شاید وہ ملک کے طول و عرض میں پھیلتے ہوئے جذبات سے لا علم تھیں۔ شاید اس کی وجہ، جیسا کہ محل نے بعد میں بتایا، کم عمر پرنس ولیم اور ہیری کو محفوظ رکھنا اور ان کی دل جوئی کرنا تھا۔

لیکن ان کے کردار اور تبدیلی کے لیے ان کی نا پسندیدگی شاید ان کے ان فیصلوں کی وجہ تھی؛ بیلمورال میں دخل اندازی نہیں کی گئی، ان کی غیر موجودگی میں بکنگھم پیلس پر کوئی جھنڈا نہیں لہرایا گیا، شاہی پرچم کبھی نیچے نہیں کیا گیا۔

یہ ایک خوفناک غلط فہمی تھی۔ وہ جلدی جلدی بکنگھم پیلس واپس آئیں جہاں انھوں نے ہر طرف پھول بکھرے دیکھے۔ وہ انھیں دیکھنے کے لیے کچھ دیر رکیں۔

1981 میں ملکہ شہزادہ چارلس اور ان کی منگیتر ڈیانا کے ساتھ جبکہ 1997 میں ڈیانا کو پیش کیے گئے خراج تحسین میں شرکت

1981 میں ملکہ شہزادہ چارلس اور ان کی منگیتر ڈیانا کے ساتھ جبکہ 1997 میں ڈیانا کو پیش کیے گئے خراج تحسین میں شرکت

ایک سابق افسر نے ان کی زندگی پر کتاب لکھنے والے کو بتایا کہ ’ہمیں اعتماد نہیں تھا کہ جب ملکہ گاڑی سے باہر نکلیں گی تو ان پر جملے نہیں کسے جائیں گے۔‘ حالات اتنے خراب ہو چکے تھے۔

انھوں نے خطاب کرنے سے پہلے انکار کر دیا لیکن پھر براہ راست خطاب کرنے پر تیار ہو گئیں۔ انھوں نے قوم سے خطاب بی بی سی کی چھ بجے کی خبروں سے تھوڑی ہی دیر پہلے کیا۔ ملکہ، جو کبھی اپنے خطاب سے قبل براڈ کاسٹ ایگزیکٹیوز کو زچ کر دیتی تھیں، کے پاس تیاری کے لیے وقت نہیں تھا۔

ان کی کارکردگی بے عیب تھی، ان کی تقریر مختصر لیکن جامع تھی۔ انھوں نے ’سبق سیکھنے‘ کی بات کی، انھوں نے بطور ایک ’دادی‘ کے بات کی، انھوں نے ’ڈیانا کی یاد کو تر و تازہ‘ رکھنے کی بات کی۔

یہ ایک فتح تھی جسے بڑے بحران کے ’منہ‘ سے نکال کر حاصل کیا گیا تھا۔ شاہی خاندان، محل اور بادشاہت کے گرد پھیلتا ہوا زہر ختم ہو گیا۔ ان کی حکمرانی میں، صرف ایک بار، قدرت اور کردار تقریباً ایک تباہ کن صورت حال سے ٹکرائے تھے۔

وہ دونوں ملکہ کے عالمی کردار میں بہتر طریقے سے اکٹھے ہوئے۔ ان کی موت کے وقت انھوں نے کئی سال تک کوئی بین الاقوامی دورہ نہیں کیا تھا۔ لیکن دہائیوں تک وہ صرف ایک عالمی شہرت کی حامل ہی نہیں تھیں بلکہ اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیت بھی تھیں۔

ان کے دور کی شروعات سے تو کوئی مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا جب ابھی ان کو ٹی وی کے ذریعے گھر بیٹھے نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ 1954 میں آسٹریلیا کے طویل دورے کے دوران ملک کی ایک تہائی آبادی ان کو دیکھنے کے لیے نکلی۔ 1961 میں انڈیا کے دارالحکومت دلی میں 20 لاکھ افراد ایئرپورٹ سے شہر جانے والی سڑک کے دونوں اطراف موجود تھے۔ صرف کلکتہ میں 35 لاکھ لوگ آخری بادشاہ کی بیٹی کو دیکھنے کے لیے باہر نکلے۔

قدرت نے چاہا کہ وہ برطانوی سلطنت کے زوال کے وقت بھی سامنے آئیں لیکن انھوں نے کبھی بھی جھنڈا اتارنے کی کسی تقریب میں شرکت نہیں کی۔ 1950 اور 1960 کی دہائی میں شاہی خاندان کا کوئی نہ کوئی نمائندہ کسی سابق کالونی سے یونین جیک اتارے جانے کے وقت موجود ہوتا، جہاں برطانیہ کا ترانہ آخری بار بجایا جاتا۔

شاہی خاندان کی خدمت کے عہد کا عزم ہی تھا جس نے ان کو برطانیہ کے نو آبادیاتی نظام کی راکھ سے نئے تعلقات کو جنم دینے پر مجبور کیا۔

ایک جانب برطانیہ میں محلات اور مکانات میں ان کے خونی رشتے موجود تھے تو دوسری جانب دنیا بھر میں پھیلا ہوا ایک خاندان بھی تھا جو متنوع، چھوٹی بڑی، امیر غریب، جمہوریت اور آمریت پر مشتمل اقوام تھیں جن کو انھوں نے یاد دلایا کہ انھیں کیا چیز جوڑتی ہے اور مل کر وہ کیا حاصل کر سکتے ہیں۔

حکومتِ وقت کی طرف سے بین الاقوامی دورے کیے جاتے جو کہ خارجہ پالیسی کا حصہ تھے، اگرچہ اس کا کھل کر اظہار نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ ملکہ کا اثر و رسوخ برطانیہ اور دوسرے ممالک کے بیچ تعلقات کے لیے مفید ہوگا۔

بین الاقوامی فضائی سفر عام ہونے سے قبل رائل یاٹ، ملکہ کی پرواز، بینکویٹ اور گالا یہ سب بہت دلکش لگتا تھا۔ یہ ایک غیر معمولی تجربہ ہوا کرتا تھا۔

مگر اس کے لیے سخت محنت درکار ہوتی تھی جس میں طویل دنوں اور ہفتوں تک دعوتیں، رونمائی و افتتاحی تقاریب، حکام کے ساتھ لنچ، ریاستی سطح کے ڈنر اور تقاریر، جنھیں سب انتہائی صبر کے ساتھ سنتے تھے، شامل ہیں۔ ایسے لوگ جنھوں نے شاہی دوروں کو قریب سے دیکھا ہے ان کے لیے تصور کرنا مشکل ہے کہ اس دوران کوئی مزہ آتا ہوگا۔

Queen Elizabeth II

عالمی کردار: 1965 میں ایتھوپیا کے شاہ ہیل سلیسی کے ہمراہ دریائے نیل کے منبے پہ آبشار دیکھتے ہوئے اور 1979 میں بحرین کے امیر سے ملنے کے لیے اپنی شاہی کشتی سے اترتے ہوئے

وہ برطانیہ سے باہر چھٹیاں منانے بہت کم گئی ہیں۔ غیر ملکی دوروں کا مطلب عموماً کام تھا۔ ان کے غیر ملکی دوروں کے بعد برطانیہ کے ان جگہوں کے ساتھ تعلقات میں تبدیلیاں رونما ہوتی تھیں: جیسے 1965 میں جنگ کے بعد کا جرمنی، 1986 میں چینی معاشی اصلاحات، 1994 میں روس، یعنی اس دور کا خاتمہ جس نے ان کے رشتہ داروں کو قتل کیا۔

جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کی پالیسی کے خاتمے کے بعد 1995 میں وہاں کے ایک دورے کو انھوں نے ’میری زندگی کے بہترین تجربوں میں سے ایک‘ قرار دیا۔ صدر نیلسن منڈیلا نے جواباً کہا ’یہ ہماری تاریخ کے سب سے ناقابل فراموش لمحات میں سے ایک ہے۔‘

ان کے کسی دورے نے تعلقات میں اس قدر تبدیلی کو نمایاں نہیں کیا جتنا 2011 میں آئرلینڈ کے دورے پر ہوا۔ ایک صدی تک کوئی برطانوی حکمراں جنوب کی جانب نہیں گیا تھا۔

ان کے دادا نے 1911 میں آئرلینڈ کے جزیرے کا دورہ کیا تھا جو مکمل طور پر برطانیہ کا حصہ تھا۔ مگر اس کے بعد پُرتشدد بغاوت، تقسیم اور آزادی آئی۔

پھر دوسری عالمی جنگ کے ساتھ تقسیم کرنے والی سرحد کے وجود کے خلاف پُرتشدد کارروائیاں کی گئیں۔ 30 سال تک شمالی آئرلینڈ اور برطانیہ میں برطانوی راج کے خلاف پُرتشدد دہشتگردی کی مہم چلی جسے برطانوی حکومت نے سختی سے دبانا چاہا۔ اس سے ریپبلک میں آرا تقسیم ہوئیں۔

وہاں شاہی دورے کے لیے کبھی بھی اچھا وقت نہیں تھا کیونکہ برطانیہ کو آئرلینڈ سے تقسیم کرنے والے پانی کے پار عدم اعتماد بڑھ گیا تھا۔ گڈ فرائیڈے معاہدے پر دستخط اور طاقت تقسیم کرنے والی اسمبلی کے قیام سے چھ کاؤنٹیز پر مشتمل شمالی آئرلینڈ پر آئینی دعوے کا خاتمہ ہوا۔

ملکہ کی خواہش پر کیے گئے اس ریاستی دورے پر تاریخ سے دور نہیں رہا جا سکتا تھا۔ جارجین ڈبلن کے مرکز میں گارڈن آف ریممبرینس جہاں ان تمام لوگوں کو یاد کیا جاتا ہے جنھوں نے آئرلینڈ کی آزادی کی جدوجہد کی، وہاں ملکہ نے پھولوں کی چادر چڑھائی اور کسی سکرپٹ یا منصوبے کے بغیر اچانک اپنا سر جھکایا۔ انھوں نے ایسا برطانوی راج کے خلاف لڑنے والے تمام مرد و خواتین کے لیے کیا۔ یہ عظیم لمحہ تھا۔

ڈنر کے وقت انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز آئرش زبان میں کیا اور اس طرح تقریباً ہر آئرش شہری کا دل جیت لیا۔ اس تقریر میں انھوں نے معافی والی زبان بولی، اگرچہ اس میں اس قسم کے الفاظ نہیں تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’تاریخی پس منظر کا فائدہ یہ ہے کہ ہم یہ سب چیزیں دیکھ سکتے ہیں جنھیں ہم مختلف انداز میں کرنا چاہتے ہیں، یا یہ چاہتے ہیں کہ ایسا ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔‘

آئرلینڈ کے ریاستی دورے سے قبل ایک سوانح نگار نے لکھا کہ ان کے دور میں ’یہ مشکل ہوگا کہ اسے ایک بڑی کامیابی کہا جائے۔‘ مگر یہ تبصرہ تاریخ نے غلط ثابت کیا۔ چار روز تک بہترین الفاظ اور اقدام کے انتخاب نے صدیوں پرانے عدم اعتماد کو ختم کر دیا۔ شاید یہ ملکہ کی اپنے تاج یا ملک کے لیے سب سے بڑی خدمت تھی۔

آئرلینڈ نے برطانیہ کے کئی وزرائے اعظم کو گھبراہٹ میں مبتلا کیے رکھا۔ ان کے ملکہ بننے کے بعد پہلے وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ یہ معاملہ برطانوی سیاست کو پریشان کرے گا۔ ان کے دورِ حکمرانی کے آخر کے وزرائے اعظموں میں سے ایک بورس جانسن جزیرے کے اندر سرحدی تنازعات میں الجھے رہے، اور یہ کہ اسے برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے معاملے کے تناظر میں کیسے حل کریں۔

ملکہ سب کی بات سنتی تھیں، سبھی ان کے تجربے، برطانیہ اور عالمی تاریخ کے حوالے سے ان کے خیالات کا فائدہ اٹھاتے۔ وزرائے اعظم کے ساتھ ان کی ہفتہ وار بات چیت میں وہ کسی فرد کے لیے لابی نہیں کرتی تھیں اور نہ ہی کسی طریقے سے ایک حکومت پر اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ ان کا کام مشورہ دینا، حوصلہ افزائی کرنا اور متنبہ کرنا تھا۔

اور ان کا کام سننا تھا۔ تمام وزرائے اعظم کو اعتمار تھا کہ انھیں بتائی گئی کوئی بھی بات وہاں سے نہیں نکلے گی۔ تو یہ ایک ایسی شخصیت تھیں جن سے وہ کھل کر بات کر سکتے تھے جو کہ ریاست کے نظام کو مکمل طور پر سمجھتی تھیں۔ کئی وزرائے اعظم کے لیے، جو مسائل میں پھنسے ہوتے تھے، ان کے لیے یہ ریلیف یا سکون کا احساس تھا کہ اس دوران انھیں اس طرح محتاط نہیں رہنا پڑتا تھا جس طرح وہ اپنے ساتھیوں یا مخالفین کے ساتھ گفتگو کے دوران زبان روک کر رہتے تھے۔

انھوں نے اپنے دور حکمرانی کے وسط میں ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’وہ اپنا بوجھ ہلکا کرتے ہیں یا مجھے بتاتے ہیں کہ کیا چل رہا ہے۔‘

’اگر کوئی مسئلہ ہو تو کبھی کبھار ان کی مدد بھی ہوسکتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ۔۔۔ ایک سپنج کی طرح ہے۔‘

یہاں وہ کافی عاجز نظر آئیں۔ بات چیت کے ان ادوار کے دوران اعترافی خاموشی کو تقریباً کسی چیز نے نہیں توڑا، بلکہ ملکہ کو ان کی غیر معمولی کوشش کے لیے سراہا جاتا تھا۔

وائٹ ہال میں ایک سُرخ ڈبے میں تمام ریاستی دستاویزات موجود ہوتی تھیں جن کی ملکہ ریڈر نمبر ون کے طور پر مشہور تھیں۔ یہ ڈبہ ان کے ساتھ ہر جگہ موجود ہوتا تھا چاہے وہ بیلمورل جائیں، کسی دورے پر، رائل ٹرین پر یا بے شک وہ رائل یاٹ پر سوار ہوں۔

1970 کی دہائی میں ان کے پرائیویٹ سیکریٹری کا اندازہ تھا کہ وہ ہر دن میں تین گھنٹے تک دفتر خارجہ کے ٹیلی گرام، پارلیمانی کارروائی کی رپورٹس، وزرا کے پیغام اور کابینہ اجلاس کے منٹس پڑھتی تھیں۔

اور انھیں یاد رہتا تھا کہ انھوں نے کیا پڑھا ہے۔ ان کی یادداشت سے بعض اوقات ان کے وزرائے اعظم بھی حیران ہوجاتے تھے۔ ہیرلڈ مکمیلن نے ایک بار کہا تھا کہ ’میں چونک گیا تھا جب ہر میجسٹی نے پیغامات اور ٹیلی گرام میں بھیجی تمام تفصیل بتائی تھی۔‘

1985 میں سابقہ اور موجودہ وزرائے اعظم کے ساتھ جبکہ 1983 میں امریکی صدر رانلڈ ریگن کے ہمراہ

1985 میں سابقہ اور موجودہ وزرائے اعظم کے ساتھ جبکہ 1983 میں امریکی صدر رونلڈ ریگن کے ہمراہ

تاج کا سیاسی کردار ان کے تخت نشین ہونے تک کافی حد تک کم ہو چکا تھا۔ برطانوی حکمران دو چیزوں میں اپنی رائے دے سکتا تھا: وزیر اعظم بننے اور حکومت بنانے کے لیے کس کو بلایا جائے اور کب پارلیمان کو تحلیل کیا جا سکتا ہے۔

ان کے دور کے آغاز میں کنزرویٹو پارٹی میں رہنما منتخب کرنے کا طریقہ موجود نہیں تھا۔ عام انتخابات سے قبل کنزرویٹو پارٹی کے وزیر اعظم کے استعفے پر انھوں نے تنازعات کے دوران اپنے طور پر فیصلہ سازی کی کہ حکومت بنانے کے لیے کس کو بلایا جائے۔

مگر جب کنزرویٹو پارٹی نے قیادت چننے کا طریقہ اپنا لیا تو پھر ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ دہائیاں گزرنے کے دوران برطانوی سیاست میں پیلس کی جانب سے ایسے کسی فیصلے کی ضرورت نہیں پڑی۔ انتخابات میں کڑے مقابلے کے دوران یہ بحث ہوتی تھی کہ اگر کوئی واضح فاتح نہیں ہوتا تو پیلس کو ایسے کسی سیاسی فیصلے سے ’محفوظ‘ رکھا جائے کہ کس کو حکومت بنانے کے لیے بلانا ہے۔

ملکہ کے پاس ایسی کوئی وجہ نہیں ہوتی تھی جسے بنیاد بنا کر پارلیمان کی تحلیل کو روکا جائے۔ اگر انھوں نے ایسا کیا ہوتا تو یہ غیر معمولی اقدام ہوتا۔ انھیں معلوم تھا کہ انھیں وراثت میں کیسا محدود کردار ملا ہے۔

تاج کی سیاسی آواز بھی خاموشی کے قریب تھی۔ ایک سوانح نگار کے مطابق یہ ’سچ‘ ہوسکتا ہے کہ ان کی کنزرویٹو رہنماؤں سے زیادہ لیبر رہنماؤں سے بنتی تھی۔ مگر باوجود تمام سماجی مشکلات کے جو ان کی مارگریٹ تھیچر کے ساتھ ہو سکتی ہیں، ملکہ نے ان کی آخری رسومات میں شمولیت اختیار کی۔ اس سے قبل یہ اعزاز صرف ایک بار ونسٹن چرچل کو نصیب ہوا تھا۔

ان کے سیاسی خیالات کسی ایک بازو کی طرف جھکے ہوئے نہیں تھے۔ امن کی یادگار سے جنگ کی جدوجہد، نیشنل ہیلتھ سروس، شہریوں کی فلاح و تعلیم کے لیے ریاستی ذمہ داریوں کے دوران ان کا ارتقا کا سفر جاری رہا۔

1980 کی دہائی کے اوائل میں بڑھتے تنازعات، بے روزگاری، بڑے شہروں میں فساد، بجٹ میں کٹوتی، کان کنوں کے احتجاج جس سے مختلف برادریوں کے درمیان دوریوں نے برطانیہ کے لیے ایک ویژن کے تصور کو ختم کر دیا تھا۔

1986 میں پیلس کے پریس افسر کی جانب سے سنڈے ٹائمز کو دی گئی بریفننگ میں بتایا گیا کہ وہ حکومتی پالیسی پر خوش نہیں۔ جنگ کے بعد سیاسی اتفاق رائے پر ملکہ نے بگاڑ پیدا ہوتا دیکھا۔

یہ حکمراں کی سوچ کی مختصر عکاسی کرتا ہے جسے معلوم ہے کہ اس کا کردار بڑھتی تقسیم کے دور میں لوگوں میں اتحاد پیدا کرنا ہے۔

وہ دو بار انتہائی محتاط انداز میں سکاٹ لینڈ کی آزادی کی بحث میں شامل ہوئیں۔ ایک بار 1970 کی دہائی میں اور دوسری بار 2014 میں ریفرنڈم سے قبل۔ کیا یہ سیاسی تھا؟ بعض قوم پرستوں کا خیال ہے ہاں۔ مگر یہ اتنا حیران کن نہیں کہ انھوں نے بادشاہت توڑنے کے کسی فیصلے سے قبل احتیاط کی تجویز دی۔

کیا ان کے سیاسی کردار میں قدامت پسند رویہ جھلکتا تھا؟ شاید کچھ حد تک۔ لیکن آخری بادشاہ جنھوں نے خود کو سیاسی معاملات میں ملوث کیا وہ ان کے دادا جارج پنجم تھے۔ جب ملکہ نے تخت سنبھالا تو ان کا سیاسی کردار کافی حد تک کم ہو چکا تھا۔ ان کا اداراتی منصب باتوں کو خفیہ رکھنا تھا جس میں دوسروں کے ذریعے کام کروایا جاتا ہے۔ انھیں شروع ہی سے اس کی سمجھ آ گئی ہو گی۔ یہاں، تقدیر اور کردار ایک ساتھ چل رہے تھے۔

ریاست کا سربراہ بن کر وہ سیاسی تنازعات سے دور رہیں اور شاہی خاندان کی حکمرانی کو کسی فیشن کے رُخ میں مڑنے نہ دیا۔ اس طرح وہ اپنے کردار میں کامیاب رہیں اور انھیں ریاست کے سربراہ کے طور پر محبت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔

جدید دور میں کسی شاہی خاندان کی حکمرانی میں ایک غیر بیان شدہ کردار ہوتا ہے۔ اسے کسی روایت کی حفاظت یا کسی مثال کی منصوبہ بندی حاصل نہیں ہوتی۔ اسی کردار نے ان کی حکمرانی چلنے میں مدد کی۔

2002 میں پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے روانگی جبکہ 2014 میں شہزادہ فلپ کے ساتھ ایک خوشگوار لمحہ

2002 میں پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے روانگی جبکہ 2014 میں شہزادہ فلپ کے ساتھ ایک خوشگوار لمحہ

ان کے دادا نے اس دور کی بنیاد رکھی جس میں قوم پر حکمرانی نہیں بلکہ ان کی خدمت کی جاتی ہے۔ لیکن انھوں نے زیادہ وقت آسمان سے گرتے پرندوں کو مارنے میں گزارا۔ ان کے والد کا عہد ان کے لیے تقدیر نے طے کیا تھا۔ انھیں ایسے کردار میں ڈھلنا پڑا جس کی انھیں توقع نہ تھی۔ انھیں بطور بادشاہ ہر وقت فوجی لباس پہننا پڑا۔

1990 کی دہائی کے دوران تباہی اور تنقید کے بعد شاہی خاندان کی تقدیر ایک بار پھر چمکی۔ مایوسی نے سیاسی تبدیلی کی امید کو جگایا، سیاسی رہنماؤں کا مذاق بننے لگا اور منفی سوچ عام ہو گئی۔ اس دوران غیر متنازع اور کم فیشن ایبل ملکہ ایک ایسی قوم کے لیے ناقابل فہم استحکام کی علامت بن گئیں جو تبدیلی، مایوسی اور تقسیم میں گھری ہوئی تھی۔

مسلسل صبر کے بعد قوم کے لیے یہ ایک انعام تھا۔ ملکہ نے عوامی سطح پر اپنے جذبات اور خیالات کے اظہار سے پرہیز کیا اور نہ ہی دائیں یا بائیں کے بازو کی طرف جھکاؤ دکھایا۔ انھوں نے کئی دہائیوں تک کسی مقبول مہم میں خود کو نہیں الجھایا اور اپنے سمیت دیگر خاندان کی طرف آنے والی کسی تنقید یا تیر پر جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔

وہ محض درجہ بندی کی وجہ سے اس سب سے دور نہیں رہیں بلکہ یہ ان کی آج بھی حیران کرنے والی وسیع بصیرت تھی کہ انھوں نے ہر گزرتے دن کے ساتھ سطحی بحث یا جدید زندگی کے نفع اور نقصان میں خود کو نہیں الجھایا۔

انھیں معلوم تھا کہ شاہی خاندان کا انداز، روایات، تقاریب، پیدائش، شادی اور موت ماضی سے پریشان لوگوں کو پُرسکون رکھتے ہیں۔ یہ ایک یاددہانی بھی ہے کہ ہر طبقے، عمر اور حالات میں زندگی کی دھن بنیادی طور پر ایک ہی ہوتی ہے۔

ان کا خیال تھا کہ قومی سطح پر زندگی کا ایک بڑا مقصد ہونا چاہیے۔ ایک قدامت پسند قوم جو نہ رکنے والی تبدیلی سے گزر رہی ہے اسے ایک فرد اور دفتر کی شکل میں استحکام کی ضرورت ہے جس کی بہت زیادہ قدر ہو گی۔

انھوں نے کئی برسوں کے تجربے سے خدمت کے نام پر اپنی زندگی آنے والی دہائیوں کے لیے وقف کی۔ اس سے قوم کی نظروں میں شاہی نظام حکمرانی کے لیے محبت پیدا ہوئی۔

ان کے کردار میں ایسی کئی چیزیں تھیں جو برطانوی شہری اپنے اندر دیکھتے ہیں جیسے عاجزی، شکایت نہ کرنا، کفایت شعاری، دانائی، احساس، کم میں خوش، طنز و مزاح کے خشک مزاج کے ساتھ بڑی ہنسی، غصہ نہ آنا اور بہت زیادہ سلیقہ مندی۔

انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ ’میں معیارات کا آخری ادارہ ہوں۔‘ وہ بہتر اخلاق یا آداب پر فخر نہیں کر رہی تھیں۔ بلکہ وہ اپنی زندگی اور کردار کی وضاحت کر رہی تھیں۔

ان کی زندگی اور کام برطانیہ کے لیے بہترین ہونا ضروری تھا۔ یہی ان کی خدمت تھی۔



Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments