منٹو کی شاداں اور اکیسویں صدی کی لڑکی!


جج صاحب!
کہانی سنیں گے میری؟

کہانی تو وہی ہے جو منٹو کو عدالت کے کٹہرے میں گھسیٹ لائی تھی اور اب مجھے۔ کہاں بدلتی ہے عورت کی کہانی، بس کبھی وقت آگے پیچھے ہو جاتا ہے اور کبھی چہرے بدل جاتے ہیں۔

کیسے کہوں؟ کہاں سے شروع کروں؟

میں اکیلا ہونے سے ڈرتی ہوں، کپکپی چھوٹ جاتی ہے مجھے جیسے جاڑا آ گیا ہو، چھوٹی بچیوں کو اکیلا دیکھ کر حالت مزید بگڑ جاتی ہے۔ میری دائیں ٹانگ میں رہ رہ کر درد اٹھتا ہے، بائیں ٹانگ پہ پڑے نشان چیختے چلاتے ہیں۔ کمر پہ دانتوں کے نشان روتے ہیں۔

عدالت ہمیشہ گواہ مانگتی ہے۔ مظلوم سے ظلم کا ثبوت۔ لائی ہوں گواہ بھی اور ثبوت بھی۔ جی جی ساتھ ہیں دونوں۔ دیکھنا پسند فرمائیں گے بندی کا کٹا پھٹا مضروب جسم۔ دس طویل برس، جنسی تشدد، پانچ برس کی بچی سے پندرہ برس کی لڑکی تک کا سفر۔

پس منظر وہی ہے، جو اکثر ہوتا ہے۔ بڑی حویلی، جوائنٹ فیملی سسٹم، لڑتے جھگڑتے ماں باپ اور ایک چھوٹی بچی، عمر پانچ برس، انیس برس کا فرسٹ کزن اور چھت پہ فالتو سامان رکھنے کا کمرہ۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب وہ مجھے پہلی بار چھت پہ لے کر گیا، آؤ گڑیا تمہیں ستارے دکھاؤں۔ میں خوشی خوشی چھت پہ چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ مجھے چھت پہ بنے کمرے میں لے گیا جہاں فالتو سامان رکھا جاتا تھا۔ پہلے مجھے تین چار تھپڑ مارے، میں رونے لگی تو اس نے کہا کہ اگر میں روئی تو وہ چھری سے میرا گلا کاٹ دے گا۔ یاد رکھو تمہیں میری ہر بات ماننی ہے اور کسی کو بتانا بھی نہیں۔

میرا پاجامہ اتار کر جب اس نے جگہ جگہ چٹکیاں کاٹیں تو میری چیخیں شاید آسمان تک پہنچ جاتیں مگر اس کے وزنی ہاتھ نے میرے منہ سے ایک بھی کراہ کمرے سے باہر نہ جانے دی۔

جج۔ تم نے کسی کو کیوں نہیں بتایا؟

کس کو بتاتی حضور والا، باپ کو جو سارا دن لڑتا تھا، ماں کو جو چھوٹے بہن بھائیوں کے پیچھے خوار ہوتی تھی، گھر کے کام کرتی یا روتی تھی، یا دادی کو جو مجھے پیار کی ایک نظر تک سے محروم رکھتی تھیں کہ پہلی اولاد لڑکی کیوں ہو گئی؟

دوسرے دن اس نے میرا بازو پکڑا اور مجھے پھر اوپر لے گیا۔ میں خوفزدہ تھی اور رو بھی رہی تھی۔ پچھلی رات والی حرکت پھر دہرائی، تھپڑ اور چٹکیاں۔

ایسا کئی راتوں تک ہوا۔ میں انتہائی خوفزدہ ہو چکی تھی۔ کبھی کبھی ماں پوچھ لیتی، کیا روئی ہو؟ وہ فوراً کہتا، آنٹی یہ بھاگتے ہوئے گر گئی، تب سے رو رہی ہے۔

میں نے اس سے چھپنا شروع کر دیا۔ اب وہ میرے نزدیک آتا، اگر کوئی دیکھ نہ رہا ہوتا تو مجھے بالوں سے پکڑ کر اوپر لے جاتا۔ اور وہی کھیل کھیلتا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ ہنستا۔ میں جتنا روتی وہ اتنا زیادہ ہنستا۔

کچھ عرصے بعد چٹکیوں کا کام دانتوں سے لیا جانے لگا۔ میرے چھوٹے سے جسم کو جگہ جگہ سے کاٹتا۔ بعض دفعہ میں درد سے نیم بے ہوش ہو جاتی۔

تین برس گزر گئے۔ ہوسٹل سے جب بھی وہ حویلی آتا یہ سب کچھ پھر سے دہرایا جاتا۔

وہ دوپہر، قیامت کی وہ دوپہر میں کبھی نہیں بھولوں گی۔ آٹھ برس کی تھی میں۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ اسی طرح مجھے وہ اس کمرے میں لے گیا۔ آج چٹکیوں اور تھپڑوں کی جگہ کچھ اور ہونا تھا۔

ایک لمبی پنسل میرا آلہ قتل تھی۔ پاجامہ اتارنے کے بعد اس نے وہ ویجائنا میں ڈالی، زور زور سے گھمانے لگا۔ جب میں درد سے تڑپتی، تب وہ ہنستا، زور زور سے ہنستا۔ بار بار پینسل اندر جاتی، باہر آتی، خون بہتا، میں چیختی اور وہ ہنستا۔ پھر وہی پنسل پیشاب والی جگہ پر بار بار کھبوئی، پنسل کی نوک میرے ننھے منے جسم میں سوراخ کرتی، میں تڑپتی، اور وہ خوش ہوتا۔ خون بہتا رہا پھر میں بے ہوش ہو گئی۔ مجھے اسی حالت میں چھوڑ وہ بھاگ گیا۔

زندگی ختم کیوں نہیں ہوئی، یہ نہیں جانتی۔ ہمارا ملازم سٹور سے کچھ لینے آیا تو مجھے بے ہوش دیکھ کر گھر والوں کو بلانے بھاگا۔ اس کی نیکی کا یہ صلہ ملا کہ میرے باپ نے اسے مار مار کر شدید زخمی کیا اور پھر نوکری سے نکال دیا۔

جب میں ہوش میں آئی تو بجائے اس کے کہ مجھ سے کچھ پوچھا جاتا، ابا نے چھوٹے بھائی کی ہاکی اٹھائی اور مجھے مارنا شروع کر دیا۔ میں جو پہلے سے بے حال تھی، کچھ بولنے کے قابل ہی نہ رہی۔

ویجائنا اور اردگرد کا حصہ بری طرح زخمی تھا۔ میں اٹھ بیٹھ نہیں سکتی تھی۔ پیشاب والی جگہ بھی اس قدر سوج چکی تھی کہ پیشاب انتہائی مشکل سے خارج ہوتا تھا۔ آٹھ برس کی بچی دو دن تک ایسے ہی تڑپتی رہی۔ آخر جب پیشاب آنا بند ہو گیا تو میری ماں مجھے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی۔ لیڈی ڈاکٹر میری حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ ماں نے پوچھنے پر بتایا کہ میں گر گئی تھی۔ ڈاکٹر نے ادھڑی جگہ کی سلائی کی، بارہ ٹانکے لگائے اور پیشاب کی نالی ڈالی۔ تین دن ہسپتال میں رہنا پڑا۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ ڈاکٹر نے ماں کو بتایا کہ ہائمن ٹھیک ہے، بس باہر والی جگہ بہت زیادہ زخمی ہے۔ وہ جگہ میری گواہ ہے آج بھی، کٹی پھٹی۔

اس واقعے کے بعد بھی یہ سلسلہ نہیں رکا۔ باپ سے مار کھا کر اور ماں کی سرد مہری دیکھ کر وہ مزید شیر ہو گیا۔

اب سگریٹ سے سلگائے جانے کی باری تھی۔ جلتا ہوا سگریٹ اور میرا جسم۔
دیکھیں گے آپ؟ کون سا حصہ دکھاؤں؟
سگریٹ کی راکھ بھی بڑے کام کی تھی۔ ان داغوں پر چھڑکنے کے بعد جو بچ جاتی وہ ویجائنا میں ڈال دی جاتی۔

پنسل اور سگریٹ کے بعد حوصلہ مزید بڑھ گیا۔ میں اب بڑی ہو رہی تھی سو کیا حرج تھا اگر دادا ابا کی چھڑی میرے اندر ڈال کر دیکھا جاتا۔ لیکن اب وہ محتاط تھا، دور کھڑا ہو کر چھڑی ویجائنا میں ڈالتا، اور اتنی ہی ڈالتا، جتنی اندر جا سکتی تھی۔ جب میں تڑپتی، وہ ہنس دیتا۔

چھڑی کے بعد اگلی باری پلاس کی تھی۔ پلاس کا ہینڈل جب اندر جاتا، میں تڑپتی اور وہ قہقہے لگاتا۔

کبھی کبھار اس پہ جنون طاری ہو جاتا۔ وہ اس بری طرح مجھے بھینچتا کہ میری ہڈیاں کڑکڑانے لگتیں، اس کی رگیں تن جاتیں اور منہ سے بے تحاشا جھاگ نکلتی جو میرے منہ اور بالوں پر گرتی۔

خاص بات یہ تھی کہ اس سارے عرصے میں اس نے اپنے کپڑے کبھی نہیں اتارے۔ شاید وہ اس قابل ہی نہیں تھا۔ بہت برسوں بعد جب پہلی بیوی سے اس کا بچہ نہ ہوا اور دوسری شادی سے بچہ پیدا ہوا تو میں نے سوچا شاید میں غلط تھی۔ لیکن پھر مجھے علم ہوا کہ مردانہ کمزوری اور بچہ پیدا کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔ بچہ پیدا کرنے کے لئے تو ایک قطرہ چاہیے جو مارے باندھے کہیں دور بھی ٹپکا دیا جائے تو حمل ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی تو ہوتا ہے ریپ میں۔

اچھا تو میں بتا رہی تھی تشدد کے بارے میں، ہم حویلی سے نکل کر علیحدہ گھر میں آ چکے تھے۔ نہ ماں باپ کی چپقلش رکی اور نہ ہی اس شخص کا جنسی تشدد۔

ابا کو وہ بہت اچھا لگتا۔ اصرار کر کے اسے رات ٹھہرنے کو کہتے۔ وہ راتیں میرے لیے عذاب بن جاتیں۔ آدھی رات کو وہ چپکے سے میرے کمرے میں آتا، میرے منہ کو ہاتھ رکھ کے دبا دیتا اور مجھے بالوں سے گھسیٹتے ہوئے اپنے کمرے میں لے جاتا۔ گیارہ بارہ برس کی دبلی پتلی بچی، اور وہ ستائیس اٹھائیس کا ہٹا کٹا مرد۔

میری چھاتی بڑھنا شروع ہو چکی تھی۔ چھوٹے چھوٹے نپلز کو لوہے کے کلپس سے پکڑتا اور پھر انہیں مروڑتا، کبھی ان کلپس کو لائٹر جلا کر گرم کرتا۔ تپتا ہوا لوہا میری جلد کو جلا دیتا۔ میری چیخیں روکنے کے لئے وہ میرے منہ میں کپڑا دے کر ہاتھ پاؤں باندھ دیتا۔ میں مرنے کے قریب ہو جاتی، وہ ہنستا، خوب ہنستا۔ اگلے دن موقع پاتے ہی پوچھتا، کتنے نیل پڑے؟

نہ جانے اذیت کی کتنی راتیں اپنے گھر کی چھت کے نیچے گزار دیں۔ کسے بتاتی؟ اس باپ کو جس نے مجھے لہولہان دیکھ کر ہاکی سے مارا تھا یا اس ماں کو جس نے میرا ادھڑا ہوا جسم خود دیکھا تھا اور انجان بنی رہی تھی۔

نویں میں پہنچی تو مجھے پڑھانے کے لئے موصوف کی ڈیوٹی لگا دی گئی۔ روئی پیٹی کہ اس سے نہیں پڑھنا۔ ماں باپ کا کہنا تھا کہ تم نہ پڑھنے کے بہانے کرتی ہو۔ باپ نے خوب مارا، کیا کرتی؟ پڑھانے بیٹھتا تو اس کا ایک ہاتھ یا میری ٹانگوں کے بیچ ہوتا یا نپلز مروڑتا، یا لائٹر سے میرے بازو جلاتا۔

ایک بار میری بہت قریبی سہیلی نے میرے بازو پہ وہ داغ دیکھ کر پریشان ہو کر پوچھا کہ یہ کیا؟ میرے بتانے پہ وہ میرے ساتھ مل کر رو دی۔ بہت عقل مند لڑکی تھی وہ۔ اس نے مجھے سمجھایا کہ اب کے وہ تمہیں لے کر چھت پہ جائے تو چیخ پڑنا۔ زور سے، پوری قوت سے۔ اس وقت تک جب تک وہ تمہیں چھوڑ کر بھاگ نہ جائے۔ اگر کوئی آ گیا تو کہہ دینا، چوہا تھا، چھپکلی تھی۔ میں ایسا اپنی حویلی میں کرنا چاہتی تھی۔ پندرہ برس عمر تھی میری جونہی وہ مجھے لے کر چھت پہ جانے لگا۔ میں زور سے چیخی اور چیختی چلی گئی۔ بالوں کی پونی ایک دم چھوڑ کر غائب ہو گیا وہ۔ میرے چچا آ رہے تھے میری طرف کہ کیا ہوا؟ اس دن سے میرے پنجرے کی سلاخیں ٹوٹنی شروع ہوئیں۔ میں جان گئی کہ اب میں بڑی ہو گئی ہوں۔

اس شخص کی ڈھٹائی دیکھیے کہ پہلی بیوی سے بچہ نہ ہونے پر میرے لئے رشتہ بھیج دیا۔ ابا فوراً راضی کہ گھر کا رشتہ، لیکن اب میں اتنی بڑی ہو چکی تھی کہ میں اس کے خلاف کھڑی ہو گئی۔

میں اس سے بات کرنا چاہتی تھی۔ جب وہ آیا اور میں نے پوچھا کہ تم کیوں مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو؟ جواب سنیں گے آپ اس کا؟ تم استعمال شدہ ہو، تمہارا جسم پہ ہر طرح کا داغ ہے۔ کون رکھے گا تمہیں بیوی بنا کر، سو میں ہی کر لیتا ہوں شادی۔

جج صاحب، یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ میری چیخیں کافی تھیں اسے بھگانے کے لئے۔
میرا پورا جسم زخموں سے اٹا ہوا ہے۔ میں کئی بار مرتے مرتے بچی ہوں۔ میری زندگی ایک درد ہے۔

میں شاداں ہوں، منٹو کی شاداں جسے خان بہادر نے مسواک سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اسی طرح جیسے میں پینسل اور چھڑی کا شکار بنی اور مرتے مرتے بچی۔

خان بہادر چھوٹ گیا تھا جب اس کی بیوی نے بیان دیا کہ وہ کسی قابل نہیں۔ بچے تو اس نے بھی پیدا کر لیے تھے قابل نہ ہونے کے باوجود۔ میرا قاتل بھی باپ بن چکا ہے اور ایک وکیل بھی جو عدالت میں ریپ کے مقدموں میں اپنے مرد موکلین کا دفاع کرتے ہوئے کہتا ہے

جناب عالی، آٹھ برس کی لڑکی کے ساتھ کیا گیا جنسی فعل ریپ نہیں ہو تا۔

جج صاحب، شاداں کو اپ انصاف نہیں دے سکے تھے، مجھے بھی نہیں ملے گا اور نہ ہی ان ہزاروں عورتوں کو جو اس تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔

میں ایک جیتی جاگتی لاش ہوں اور شاید اس بدنما معاشرے کے ماتھے کا جھومر بھی۔
( یہ سچی کہانی ہے اور اس کہانی کے سب کردار زندہ ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments