معصوم بچے آٹزم کے شکنجے میں


پچھلے دنوں ایک دوست کے ہاں گیا تو وہاں ایک بچے سے ملاقات ہوئی۔ پہلی نظر میں ہی یہ بچہ معذور سا لگا۔ اس کے منہ سے وقتاً فوقتاً رال بہنے لگتی تھی اور اس کا سر بار بار ایک طرف ڈھلک جاتا۔ بچے کی عمر چار سال کے قریب ہوگی لیکن وہ اب بھی سہارا لے کر اور ڈگمگاتے ہوئے چلتا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی ہڈیاں اس کا توازن برقرار رکھنے سے قاصر ہیں۔ وہ اپنے باپ سے باتیں بھی کرتا جا رہا تھا جو میرے لئے ناقابل فہم تھیں کیونکہ یہ بے ربط تھیں اور محض آوازوں پر مشتمل تھیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ بچہ کس مرض کا شکار تھا؟ یہ آٹزم کا شکار تھا۔

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر ساٹھ میں سے ایک بچہ آٹزم کے شکنجے میں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس بیماری سے نمٹنے کے لئے ایک عرصے سے مختلف تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں، والدین کے لئے آگاہی مہم چلائی جاتی ہیں، لٹریچر اور میڈیا کے ذریعے آٹزم سے خبردار کیا جاتا ہے، نیز مختلف ادارے بھی ایسے بچوں کو خدمات فراہم کرنے کے لئے مصروف عمل ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک پاکستان یا دوسرے ترقی پذیر ممالک میں اس بیماری سے نمٹنے اور حتی الوسع تدارک کی واقفیت نہیں پائی جاتی۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں آٹزم کے شکار بچے سنگین رویوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہیں خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی اور ان سے وہی توقعات رکھی جاتی ہیں جو ایک نارمل بچے سے رکھی جاتی ہیں۔ نیز مناسب ماحول نہ ہونے کی وجہ سے اس بیماری کی شدت بڑھ جاتی ہے اور پھر یہ بچے یا تو گھر سے گم ہو کر کوڑے کرکٹ میں رلتے ہیں یا گداگر تنظیموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

آٹزم کا لغوی مطلب خود محوری اور خود تسکینی ہے، یہ کوئی متعین مرض نہیں بلکہ مختلف ذہنی و نفسیاتی عوارض کا مجموعہ ہے۔ اس بیماری کے شکار بچوں میں مندرجہ ذیل علامات پائی جاتی ہیں۔

یہ بچے آئی کانٹیکٹ رکھنے میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں، اپنی ماں یا سرپرست سے چمٹے رہتے ہیں، دیر سے مانوس ہوتے ہیں، سیکھنے کے معاملے میں کمزور ہوتے ہیں، اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں، کچھ آٹسٹک بچوں میں تشدد کا رجحان بھی پایا جاتا ہے جیسے خود کو یا دوسروں کو مارنا پیٹنا، آٹسٹک بچے سماجی میل جول سے کتراتے ہیں، بولنا اور چلنا دیر سے شروع کرتے ہیں، بار بار ایک ہی عمل سرانجام دیتے ہیں، ان کے چہرے کے تاثرات اور باڈی لنگویج عام بچوں سے مختلف ہوتی ہے، آٹسٹک بچے یا تو زیادہ ہمدرد ہوتے ہیں یا بالکل ہمدردی کا اظہار نہیں کرتے۔ اگرچہ یہ بچے بولنا دیر سے سیکھتے ہیں لیکن اشاروں کی زبان جلد سیکھ جاتے ہیں، نیز مختلف آوازیں نکال کر بھی اپنا مدعا پیش کرتے ہیں، جنہیں والدین یا قریبی افراد سمجھ سکتے ہیں۔

آٹزم کے شکار بچوں میں کئی ایک خوبیاں بھی ہوتی ہیں جو انہیں دوسرے بچوں سے ممتاز کرتی ہیں، چونکہ یہ بچے کمزور دماغ کی وجہ سے بیک وقت مختلف امور کی انجام دہی سے قاصر ہوتے ہیں اس لئے ردعمل میں یکسوئی کی قوت سے مالا مال ہو جاتے ہیں۔ وہ کوئی کام کرتے ہوئے باقی چیزیں نظروں سے اوجھل کر دیتے ہیں اور ایک ہی چیز پر فوکس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں انوکھے اور غیر معمولی نتائج حاصل کرنے کے لئے آٹزم کے شکار افراد کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ ان لوگوں کی یاداشت بہترین ہوتی ہیں اور ماضی بعید کے واقعات بھی انہیں بخوبی یاد رہتے ہیں۔ آٹسٹک لوگ ریاضی، آرٹس اور جمالیات میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں، اس لئے اچھے ریاضی دان، فنکار اور ادیب بن سکتے ہیں۔ آئن سٹائن، نیوٹن اور موسیقار موزرٹ ایسے کردار ہیں جو آٹزم کا شکار رہے ہیں۔

آٹزم کا کوئی علاج نہیں اس لئے اس کے شکار بچے خصوصی نگرانی کے مستحق ہوتے ہیں۔ اگر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا جائے تو آٹزم کے اثرات بجا طور پر کم کیے جا سکتے ہیں۔ عام طور پر آٹسٹک افراد نقصان دہ ثابت نہیں ہوتے اور مسلسل تربیت سے یہ معاشرے کے کارآمد افراد بن سکتے ہیں۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ تمام بچوں کو اٹھارہ سے چوبیس ماہ کے دوران اس بیماری کے تشخیصی مراحل سے گزارنا چاہیے۔ عمومی طور پر یہ تشخیص، مشینی نہیں ہوتی بلکہ مختلف معیارات جیسے سوالات جوابات، رویہ، حرکات و سکنات اور ردعمل کے تحت ماہرین آٹزم کی جانچ کرتے ہیں۔

نیز کبھی کبھار مشینی سکریننگ بھی بروئے کار لائی جاتی ہیں جیسے ڈی این اے یا بصری اور سمعی جانچ کے لئے۔ نیز نیویارک پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کی جانب سے ایک بلڈ ٹیسٹ بھی وضع کیا گیا ہے جو خون میں بعض حیاتیاتی مادے کو نوٹ کر کے آٹزم کی تشخیص کرتا ہے۔ یاد رہے کہ فی الوقت تشخیص کے یہ سارے طریقے سو فیصد نتائج دینے سے قاصر ہیں۔ ہاں اگر علامات پوری طرح واضح ہوجائیں تو آٹزم کا فیصلہ کرنا آسان ہوتا ہے۔

آٹزم کی وجوہات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکیں لیکن ماہرین کی رائے ہے کہ اس میں جینیاتی عوامل کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی عوامل بھی شامل ہیں۔ آٹزم کے شکار بچوں کے والدین یا قریبی افراد خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، متبادل طرق ہائے علاج جیسے ہومیو پیتھک وغیرہ بھی ٹرائی کریں، ذاتی مشاہدہ ہے کہ کتنے ہی ایسے افراد رو بصحت ہوئے جنہیں ڈاکٹر لاعلاج قرار دے چکے تھے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ نظریہ ہے کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے اور یہاں ملنے والی معمولی تکالیف کا بھی بیش بہا اجر ملنے والا ہے۔

قرآنی آیت ہے کہ ”لا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین“ یعنی کوئی انسان آنکھوں کو ٹھنڈک دینے والی ان چیزوں کے متعلق نہیں جانتا جو اس سے مخفی رکھی گئی ہیں۔ آٹزم کا شکار بچہ کسی گھر میں ہو تو یقیناً گھر والے ہر دم ترحم کے احساس سے سلگتے ہوں گے لیکن ہمیں ایسے موقع پر دین کی تعلیمات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں حتی الوسع اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے، شکوے شکایتوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور خدا کے رحم و فضل کا امیدوار رہنا چاہیے۔

والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ باقی خاندان اور میل جول رکھنے والوں کو سمجھائے کہ وہ ان کے سپیشل بچے سے سپیشل رویہ رکھے، اور اگر وہ اس ہدایت سے روگردانی کریں تو اپنا بچہ ان کے قریب نہ پھٹکنے دیں کہ یہ آپ کے بچے کی زندگی کا سوال ہے۔ جاننا چاہیے کہ یہ بچے خود کے ساتھ بہترین وقت گزار سکتے ہیں، ان کے لئے رنگین کتابوں اور نت نئی چیزوں کا بندوبست کریں اور پھر دیکھیں کہ وہ کیسے نارمل بچوں سے بھی زیادہ زندگی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments