شنگھائی تعاون تنظیم /گراں خواب چینی سنبھلنے لگے


شنگھائی تعاون تنظیمShanghai Cooperation Organisation (SCO) ) ایک یوریشیائی سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون کی تنظیم ہے جسے شنگھائی میں سنہ 2001 ء میں چین، قازقستان، کرغیزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے رہنماؤں نے قائم کیا۔ یہ تمام ممالک شنگھائی پانچ (Shanghai Five) کے اراکین تھے سوائے ازبکستان کے جو اس میں 2001 ء میں شامل ہوا، تب اس تنظیم کے نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔ 10 جولائی 2015 ء کو اس میں بھارت اور پاکستان کو بھی شامل کیا گیا۔

رکن ریاستیں
چین، قازقستان کرغیزستان
روس تاجکستان
ازبکستان پاکستان بھارت
مبصر ریاستیں
افغانستان بیلاروس
ایران منگولیا
شریک مکالمہ آرمینیا آذربائیجان
کمبوڈیا نیپال سری لنکا ترکی
مہمان شرکاء
اقوام متحدہ
جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم آزاد
ریاستوں کی دولت مشترکہ
ترکمانستان۔
تنظیمی ڈھانچا

سربراہان مملکت کی کونسل شنگھائی تعاون تنظیم میں سب سے بڑا فیصلہ سازی کا حصہ ہے۔ کونسل شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا انعقاد، رکن ممالک کے ’دارالحکومت شہروں میں سے کسی ایک میں، ہر سال منعقد کراتی ہے۔ کونسل جن موجودہ سربراہان مملکت پر مشتمل ہے :

الماس بیگ آتامبایف (کرغیزستان)
امام علی رحمان (تاجکستان)
شوکت میر ضیایف (ازبکستان)
شی جن پنگ (چین)
نور سلطان نظربایف (قازقستان)
ولادیمیر پیوتن (روس)
نریندر مودی (بھارت)
شہباز شریف (پاکستان)

تنظیم کاری کی باضابطہ زبانیں چینی اور روسی ہیں انہی دو زبانوں میں تنظیم کا سرکاری نام ہے دیگر زبانوں میں ہندی و اردو شامل ہیں جو بالترتیب بھارت و پاکستان میں بولی جاتی ہیں :اس موقع پر رکن ممالک کے سربراہان نے جو تقاریر کیں، ان کا خلاصہ یہ ہے

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے روسی کھاد پر سے پابندیاں ہٹانے کے یورپی یونین کمیشن کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان پابندیوں کے خاتمے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ تاہم، کمیشن نے صرف یورپی یونین کے ممالک کے لیے پابندیاں ہٹائیں۔ دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک کے بارے میں کیا خیال ہے؟

چینی صدر شی جن پنگ نے اس موقع پر کہا کہ SCO کے اراکین کو یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر ملکی طاقتوں کو رنگین انقلاب شروع کرنے سے روکنا اور کسی بہانے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی مخالفت کرنی چاہیے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ان کے ملک میں تباہ کن سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کو بہر صورت ممکن بنانے کے ساتھ اس کے امریکا کی جانب سے منجمد اثاثوں کو بحال کرانے کی کوشش کرنا۔

ازبکستان کے صدر شوکت مرزائیف نے کہا کہ تنظیم کے ڈھانچے میں توسیع ہوئی ہے اور شراکت داری کے تعلقات استوار ہوئے ہیں، مصر قطر، بحرین، کویت، مالدیپ، متحدہ عرب امارات اور میانمار کو تنظیم کے ڈائیلاگ پارٹنرز اور بیلاروس کو مکمل رکن کا درجہ دیا گیا ہے۔

ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے SCO ممالک پر زور دیا کہ وہ ایک دوسرے کو ٹرانزٹ رسائی فراہم کریں اور خطے کے لیے لچکدار سپلائی چین کو یقینی بنائیں۔ کرغزستان کے صدر صادر کیپاروف نے کہا کہ ان کے ملک نے 2023 اور 2027 کے درمیان پہاڑی علاقوں کی ترقی کے لیے پانچ سالہ اقدام کا اعلان پیش کیا ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس میں ایس سی او کے رکن ممالک سے حمایت کی درخواست ہے۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی جنہوں نے پہلی مرتبہ اجلاس میں شرکت کی، اپنے خطاب میں کہا کہ امریکہ بین الاقوامی نظام پر اپنی جابر اور مرضی مسلط کر کے آزاد ممالک کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے کہا کہ موجودہ انفراسٹرکچر اور لاجسٹک منصوبوں کے لیے یورپ کو ایشیا سے جوڑنے کا یہ صحیح وقت ہے۔

تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے کہا کہ SCO ممالک کی تمام تر کوششوں کے باوجود، تنظیم کے خطے میں آج بھی تنازعات پائے جاتے ہیں۔ سیکورٹی کے شعبے میں تعاون SCO کی ترجیح ہونی چاہیے۔

قازقستان کے صدر قاسم جومرت توکائیف نے کہا کہ بین الاقوامی مسائل کے حل میں پابندیوں کی شکل میں جابرانہ طریقے سامنے آئے، اس صورت حال میں، باہمی اعتماد پر مبنی ’شنگھائی جذبے‘ کو مضبوط کرنا اور تنظیم کے اندر برابری کی سطح پر کھلی بات چیت کرنا انتہائی ضروری ہے۔

ترکمانستان کے صدر سردار بردی محمدوف نے کہا کہ وہ ایس سی او کے ساتھ کثیر جہتی تعاون کے لیے تیار ہیں۔ 15 اور 16 ستمبر 2022 کو ازبکستان کے شہر سمرقند میں منعقد ہو نے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اس سربراہی اجلاس میں ماحولیاتی تبدیلی سمیت عالمی سیاست کے اہم موضوعات اور رکن ملکوں کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ SCO کی کونسل آف ہیڈز آف اسٹیٹ کا 2019 ء کے بعد یہ پہلا با المشافہ اجلاس تھا، جس میں رکن ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی ہے۔

اس سربراہی اجلاس کی اہمیت اس وجہ سے بھی زیادہ ہو گئی تھی کہ یہ اجلاس روس اور یوکرائن کے مابین جاری جنگ اور امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں ہوا، روس اور چین دونوں اس فورم کے رکن ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا پہلا نام ”شنگھائی فائیو“ تھا۔ اس میں روس، چین، قازقستان، کرغیزستان اور تاجکستان شامل تھے۔ تین سابق سوویت ریاستیں، چین کے ساتھ طویل مشترک سرحد رکھتی ہیں۔ شنگھائی فائیو کا ابتدائی مقصد اس سرحد کو مستحکم کرنا، وسطی ایشیائی ممالک میں امریکی مداخلت کو چین اور روس کا مشترکہ سد باب تھا۔

شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے مقاصد میں یوروشین کے وسیع خطے کی سلامتی کو یقینی بنانا اور اس کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے تجارت، ثقافت اور انسانی ہمدردی میں تعاون کرنا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک مختلف توقعات رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں شنگھائی تعاون تنظیم کو کئی رکاوٹوں اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے وسطی ایشیائی اراکین کے آپس میں جھگڑے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے باہمی جھگڑوں پر نظر ڈالیں تو چین اور بھارت میں سرحدی، جبکہ پاکستان اور بھارت کے مابین بھی کشمیر سمیت دیگر بنیادی تنازعات ہیں، جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کا قیام ممکن نہیں ہوسکا۔

روس اور چین ایشیا میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی روک تھام چاہتے، یوکرائن اور تائیوان کے تنازعات پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ اگرچہ SCO کے بینر تلے فوجی اعتماد سازی کے اقدامات میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے مگر شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے سب سے اہم چیلنج رکن ملکوں کے باہمی تنازعات کا حل اور افغانستان میں پائیدار امن اور سیاسی استحکام کا قیام شامل ہے۔ تنظیم یہ بحران بروقت اور کامیابی سے حل کرسکے تو امریکہ کی قیادت میں قائم علاقائی تعاون کی تنظیموں کا متبادل ہو سکتی ہے ورنہ اس کی افادیت محدود ہی رہے گی۔

علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ”گران خواب چینی سنبھلنے لگے“ علامہ اقبال کی یہ پیشگوئی لگ بھگ ایک صدی بعد شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں کسی حد تک سچ ہوتی محسوس ہوئی جب چین اور روس نے ببانگ دہل کہا کہ ”دنیا اب یونی پولر نہیں رہی“ ۔ دنیا کی استحصال زدہ اقوام واحد سپر پاور کے ورلڈ آرڈر کے متبادل کی خواہشمند ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک میں دنیا کے 40 فیصد لوگ بستے ہیں۔ دنیا کے کل جی ڈی پی میں ایس سی او رکن ممالک کا حصہ 30 فیصد ہے تو یہ ممالک یورپ اور ایشیا کے 60 فیصد رقبے پر پھیلے ہیں۔

ایران، سعودی عرب، قطر، دبئی اور ترکی تنظیم کے رکن بن جاتے ہیں تو عالمی جی ڈی پی کا پچاس فیصد سے زائد حصہ تنظیم کے رکن ممالک کے پاس ہو گا۔ ایسا ہوتا ہے تو عالمی تجارت پر امریکی اجارہ داری کمزور ہو گی یہ اس لئے ممکن ہے کہ اس کا آغاز امریکی پابندیوں کے باوجود بھارت کے روس سے سستا تیل اور کھاد خریدنے سے ہو چکا ہے۔ ایران اور ترکی عالمی پابندیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ترکی کے تین بنک روسی کرنسی میں کاروبار کر رہے ہیں۔ روس اور چین نے اگلے مرحلے میں افریقی ممالک کو تنظیم میں شامل کرنے کا عندیہ دیا ہے اگر یہ کوشش کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر شنگھائی تعاون تنظیم واقعی امریکی بالادستی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی اور دنیا علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر دیکھے گی۔

اس موقع پر ایک افسوس ناک واقعے کا ذکر ضروری ہے۔ اگروزیر اعظم یا کوئی دوسرا فرد ملکی نمایندگی کے لیے بیرونی دورے پر جائے تو اس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جانا چاہیے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جب سے سیاست میں دوسروں کو نیچا دکھانے کا عمل شروع ہوا ہے بیرونی دورے پر ہونے والی کسی غلطی کو نہ صرف نمایاں کیا جاتا ہے بلکہ مرچ مصالحہ لگا کر تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورے میں تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری امریکی ٹیلی وژن کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر پھیلاتی رہیں۔ جس میں وزیر اعظم پاکستان کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ روسی صدر پوٹن کے ساتھ ون آن ون ملاقات میں وزیراعظم اس آلے کو اپنے کان میں درست طور پر نہ لگا سکے جس کے ذریعے وہ پوٹن کی گفتگو کا ترجمہ سن سکتے۔

پوٹن سے گفتگو کے دوران وہ آلہ ان کے کان سے مسلسل گرتا رہا۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے شہباز شریف کی ویڈیو کو ”کرائم منسٹر“ کا عنوان دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر چڑھا دیا جس سے وزیراعظم کی سبکی ہوئی یا نہیں ہوئی لیکن ملک و قوم کی ضرور سبکی کا سامان کیا گیا۔

اس کے مقابلے میں انڈیا کے وزیراعظم کے بارے میں بھارت کے صحافیوں کا رویہ ملاحظہ فرمائیں۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا سمرقند میں قیام دیگر غیر ملکی رہنماؤں کے برعکس مختصر رہا۔ مودی کے شدید ناقد بھارتی صحافیوں نے بھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ کانفرنس میں وزیراعظم نریندر مودی کی نیم دلانہ شرکت کے لئے سرکاری وسائل کا کیوں ضیاع کیا گیا؟ وہاں موجود تمام بھارتی صحافیوں نے یکسوہوکر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ مذکورہ کانفرنس کے دوران ان کے وزیر اعظم نے روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے بارے میں ”تشویش“ کا اظہار کیا ہے۔

اس پیغام کا واحد مقصد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بتانا تھا کہ روس سے مستقل سستے داموں تیل خریدنے کے باوجود ان کا ملک پوٹن کی یوکرین کے خلاف برپا کی جانے والی جنگ کے بارے میں ”خوش“ نہیں ہے۔ ”وسیع تر قومی مفاد“ میں ”مثبت صحافت“ کا یہ ٹھوس اظہار بھارتی صحافیوں کی اپنے ملک سے کمٹمنٹ کی بہترین مثال ہے۔ مگر ہمارے مہربان، وزیر اعظم کو ”کرائم منسٹر“ کہہ کر تمسخر اڑانے میں شاداں و فرحاں نظر آئے کہ وزیراعظم شہباز شریف اپنے کان میں ترجمہ سنانے والا آلہ نہ لگا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments