ورچوئل آٹزم


ماہرین اطفال اس بات سے پریشان ہیں کہ وہ بچے اور چھوٹے بچے جو دن میں گھنٹوں فون، ٹیبلیٹ اور ٹی وی کے ارد گرد گزارتے ہیں، ان میں آٹسٹک جیسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں، جسے ورچوئل آٹزم کہا جاتا ہے۔

ورچوئل آٹزم کی علامات اکثر اس وقت ختم ہو جاتی ہیں جب بچے اسکرین ٹائم کم کر دیتے ہیں اور آمنے سامنے رابطے، پڑھنے، اور دیکھ بھال کرنے والوں، دوسرے بچوں اور غیر الیکٹرانک کھلونوں کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔

پچھلے پانچ سالوں میں، ڈاکٹروں نے زیادہ سے زیادہ چھوٹے بچوں کے رویے میں غیر معمولی تبدیلیوں کو دیکھا تھا۔ کچھ نے اپنے ناموں کا جواب دینا بند کر دیا تھا، وہ آنکھوں سے رابطہ کرنے سے گریز کرتے تھے، اور اپنے ارد گرد کی دنیا سے لاتعلق ہو گئے تھے۔ آٹسٹک سپیکٹرم ڈس آرڈر (ASD) کی خصوصیات۔ دوسرے اپنی عمر کے لحاظ سے نشوونما کے لحاظ سے پیچھے تھے۔

ورچوئل آٹزم دراصل ایک ایسی حالت ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس وقت ہوتا ہے جب چھوٹے بچے (تین سال سے کم عمر) کو ضرورت سے زیادہ سکرین کی نمائش ہوتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب اسکرین کو زیادہ دیر تک دیکھنے سے آٹسٹک جیسی علامات پیدا ہوتی ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق جس کا مقصد زبان کی نشوونما اور آٹسٹک جیسے رویے پر الیکٹرانک اسکرین کے اثرات کو ظاہر کرنا ہے۔

دور حاضر میں بچوں کو پچھلی نسلوں کے مقابلے میں روزانہ کی بنیاد پر الیکٹرانک میڈیا تک زیادہ رسائی حاصل ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اسکرین کے وقت میں اضافہ میلانوپسن کو ظاہر کرنے والے نیورونز اور گاما امینوبٹیرک ایسڈ (جی اے بی اے ) نیورو ٹرانسمیٹر میں کمی سے منسلک ہے، اور اس کے نتیجے میں غیر معمولی رویے، کم علمی، بچوں کے بولنے کی نشوونما ہوتی ہے۔ ”

نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ جن بچوں نے روزانہ اسکرین ٹائم 3 گھنٹے سے کم دیکھنے میں صرف کیا ان کی زبان میں تاخیر اور توجہ کا دورانیہ کم تھا، جب کہ جن بچوں نے روزانہ اسکرین ٹائم 3 گھنٹے سے زیادہ دیکھنے میں صرف کیا ان کی زبان میں تاخیر، توجہ کا دورانیہ کم اور انتہائی سرگرمی تھی۔ جب کہ، ہم نے پایا کہ آدھے سے زیادہ بچوں ( 66.6 %) میں اسکرین ٹائم کے دوران والدین اور بچوں کا کوئی رابطہ نہیں تھا، تمام معاملات میں تقریر میں تاخیر اور کم توجہ کی اطلاع دی گئی تھی، اور 66.6 % بچوں میں انتہائی سرگرمی پائی گئی۔

یہ ایک اہم دریافت ہے۔ یہ اپنے آس پاس کے لوگوں اور دنیا کے ساتھ بچے کے رابطے اور تعلق کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ سماجی تعلق، جیسے آنکھ سے رابطہ اور مواصلات کی مہارتیں، آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر کی تشخیص کرنے کی کوشش کرتے وقت سب سے زیادہ مشاہدہ کیے جانے والے رویے ہیں۔

ماہرین والدین کو چھوٹے بچوں کے لیے دن میں چار یا اس سے زیادہ گھنٹے اسکرین کی بہت زیادہ نمائش کے خطرے والے عوامل کے بارے میں خبردار کرتے ہیں۔ کم عمری میں اسکرین کی شدید نمائش چھوٹے بچوں کے دماغ میں مسائل پیدا کر سکتی ہے۔

زیادہ تر وقت، بچے کو تخیلاتی ماحول سے صرف مخصوص احساسات (بصری اور / یا سمعی) حاصل ہوتے ہیں، اور وہ ان بصری اور سمعی احساسات کو دوسری قسم کے احساسات سے نہیں جوڑ سکتا: محسوس کرنا چھونا، بدبو، بے ذائقہ، اس کے مطابق نشوونما کرنے سے قاصر۔ ایسے بچے میں، اگر وہ جلد مداخلت نہیں کرتے ( 2۔ 3 سال سے پہلے ) ، تو یہ مسائل زیادہ سے زیادہ شدید ہوتے جائیں گے

یہ تقریر میں تاخیر کا باعث بن سکتا ہے۔ علمی صلاحیتیں بھی متاثر ہو سکتی ہیں، ممکنہ طور پر دماغی عوارض کا باعث بنتی ہیں۔ یہ مسائل بچے کی سماجی تعلقات پر بات چیت کرنے کی صلاحیت کو اسی طرح متاثر کر سکتے ہیں جس طرح نیورو ٹائپیکل بچے ہو سکتے ہیں۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ چھوٹے بچوں میں اسکرین کے وقت میں اضافہ منفی صحت کے نتائج سے منسلک ہے جیسے علمی صلاحیت میں کمی، زبان کی خرابی، موڈ، اور آٹسٹک جیسا رویہ بشمول ہائپر ایکٹیویٹی، توجہ کی کم مدت، اور چڑچڑا پن۔

اگر آپ کے بچے میں آٹزم جیسی علامات ہیں، اور اس کا اسکرین ٹائم بہت زیادہ ہے، تو یہ ورچوئل آٹزم ہو سکتا ہے۔

والدین سے بچوں کے میڈیا کے استعمال اور گھرمیں اسکرین ٹائم کے بارے میں تفصیل سے پوچھنے کے بعد ، ڈاکٹروں نے دریافت کیا کہ تقریباً تمام بچوں نے اسکرین پر اور اس کے ارد گرد زیادہ وقت گزارا ہے۔ بعض صورتوں میں، دن میں دس گھنٹے۔ لیکن جب ڈاکٹروں نے خاندانوں کو بچوں کی سکرین کی نمائش کو ختم یا بہت کم کر دیا تھا، تو ASD کی علامات تقریباً ہمیشہ غائب ہو جاتی تھیں۔

رومانیہ کے ماہر نفسیات ماریئس زمفیر، جو ورچوئل آٹزم کو شناخت کرنے والے ابتدائی ماہرین میں سے تھے انھوں نے یہ اصطلاح بنائی۔ وہ ضرورت سے زیادہ اسکرین مواد دیکھنے والے بچوں میں زندگی میں آگے بڑھنے کی کمی کے بارے میں فکر مند ہے۔ ”بچوں کے دماغ بغیر کسی کوشش کے خوشی حاصل کرنے کے عادی ہوتے ہیں،“

دریں اثنا، 2022 میں 84,000 سے زیادہ جاپانی بچوں اور ان کی ماؤں پر جاری ہونے والی ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ ”لڑکوں کے درمیان، 1 سال کی عمر میں زیادہ اسکرین کا وقت 3 سال کی عمر میں آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر سے نمایاں طور پر وابستہ تھا۔“

ڈیوائس کے استعمال میں تیزی سے اضافے کے ساتھ، ”مصنفین نے نتیجہ اخذ کیا،“ بچوں پر اسکرین ٹائم کے صحت کے اثرات کا جائزہ لینا اور ضرورت سے زیادہ اسکرین ٹائم کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ چھوٹے بچوں کے دماغ کا مطالعہ رویے کے اشارے کو ظاہر کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمر بچے ٹچ سکرین والے آلات کے زیادہ استعمال کی وجہ سے باآسانی ذہنی خلفشار کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت پر فرق پڑتا ہے۔

برطانوی اخبار ڈیلی میل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ٹچ سکرین رکھنے والی ڈیوائسز پر گیمنگ یا دیگر وجوہات کی بنا پر زیادہ وقت گزارنے والے بچے باآسانی ذہنی خلفشار اور عدم توجہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

چائلڈ مائنڈ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ڈیوڈ اینڈرسن کا کہنا ہے کہ اس اسٹڈی کی روشنی میں چھوٹے بچوں کو اسکرین ٹائم کے حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس دوران بچوں کا ذہن تشکیل پا رہا ہوتا ہے۔

اسٹڈی میں شامل ماہرین کے مطابق اس اسٹیج پر بچوں کو زیادہ سے زیادہ انسانی تعامل (Interaction) کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے زبان دانی اور سوشل صلاحیتوں کے فطری سنگ میل عبور کر سکیں۔

اسٹڈی ارکان میں شامل ڈاکٹر اینڈرسن کے مطابق اسی فیز کے دوران بچے لوگوں کے احساسات کو سمجھنے، ان کے جذبات کو جاننے اور زندگی کے نشیب و فراز کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔

امریکا کے سنسناٹی چلڈرن میڈیکل سینٹر کی طرف سے کی گئی اسٹڈی سے شواہد ملے ہیں کہ زیادہ اسکرین ٹائم گزارنے والے بچوں کی ذہنی ساخت میں تبدیلیاں ہو سکتی ہیں، ہسپتال کے ریسرچرز نے 47 پری اسکولنگ کے بچوں کا ایم آر آئی اسکین کیا

یہ تمام بچے ایک گھنٹے سے زائد وقت اسکرین کے سامنے گزارتے تھے، اسکین میں دماغ کی زبان و بیان اور لٹریسی (Language & Literacy Development) سے متعلق حصوں میں فرق نوٹ کیا گیا۔

گو کہ تحقیق نے ذہنی کارکردگی کے حوالے سے زیادہ فرق نوٹ نہیں کیا لیکن اسٹڈی نے چند شواہد کی روشنی میں خبردار کیا کہ بچوں کی ذہنی ڈیولپمنٹ کے عرصے (Development Phase) میں زیادہ اسکرین ٹائم کے حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

تو، والدین کو کیا کرنا ہے؟ ایک چیز کے لیے، بچے کی بنیادی نشوونما کی ضروریات کا احترام کرنا۔ بچوں کے لیے بولنا سیکھنا، استدلال کرنا، اور اہم سماجی مہارتوں کی نشوونما کرنا، انھیں محبت کرنے والے لوگوں کے ساتھ آمنے سامنے بات چیت کرنے اور جتنی بار ہو سکے اپنے تمام حواس کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ بچوں اور چھوٹے بچوں کو اسکرین کا تنہا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اسکرین کا تعلق اپنے پیاروں کے ساتھ ویڈیو کالز تک محدود ہونا چاہیے، جس میں دیکھ بھال کرنے والا ساتھ کھڑا ہو۔

پری اسکول کے بچوں کے پاس دن میں ایک گھنٹے سے زیادہ اسکرین کا وقت نہیں ہونا چاہیے ”تاکہ بچوں کو ان کی صحت اور نشوونما کے لیے اہم سرگرمیوں میں مشغول ہونے کے لیے کافی وقت ملے،

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ، ان کی صحت اور دماغ کی مناسب تشکیل کے لیے، ایک سال سے کم عمر کے بچوں کو اسکرینوں کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔

جب چھوٹے بچے اپنے ارد گرد رینج کرتے ہیں، آزادانہ طور پر اپنے تمام حواس کو جانچنے، چکھنے اور اپنے انتخاب کے ساتھ کھیلنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، تو وہ بھرپور اور زندگی بھر کے اعصابی رابطے بنا رہے ہوتے ہیں۔ ”

ہر روز اپنے بچے کے ساتھ بات کریں اور زیادہ سے زیادہ پڑھیں

ایسے مواد، کھلونے اور گیمز فراہم کریں جن میں ہیرا پھیری کی ضرورت ہو، جیسے کہ پلے آٹا، فنگر پینٹ، اور پلے کچن

دن میں کم از کم ایک بار باہر جائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچے کے پاس اکیلے اور دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کا وقت ہو۔

جب آپ بچوں کے ساتھ ہوں تو اسکرین کا استعمال نہ کریں۔
اپنے بچے یا چھوٹے بچے کو فون نہ دیں (اور اسکرین کو لاک رکھیں، صرف اس صورت میں )

چار سال سے کم عمر بچوں کے ارد گرد ٹی وی کو بند رکھیں، چاہے بچہ اسکرین پر موجود چیزوں پر توجہ نہ دے رہا ہو۔

خاندان کے اراکین اور دیکھ بھال کرنے والوں کو بتائیں کہ یہ اقدامات بچے کی صحت مند نشوونما، پائیداری اور تندرستی کے لیے کیوں ضروری ہیں

دو سال سے پہلے بچے کو سکرین نہ دی جائے۔ دو سے پانچ سال کے بچوں کو پورے دن میں ایک گھنٹے سے کم وقت دیا جائے۔ سونے سے پہلے کم از کم ایک گھنٹہ کسی قسم کی کوئی سکرین نہ ہو۔ آئی کانٹیکٹ، محبت سے بچے کو چھونا، کتابیں پڑھنا گھر میں عام ہو اور کھانے کے وقت سکرین کے استعمال کا رواج نہ ہو۔

سکرین بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھی جائے۔ اس سے والدین کی شمولیت بچوں کی زندگی میں مسلسل رہتی ہے، اور ساتھ ہی عمر کے حساب سے بچوں کے لئے علمی مواد کے انتخاب پر بھی نظر رکھنا آسان ہوتا ہے۔

بچوں کی سکرین کے استعمال پر چیک رکھنے کے لئے والدین کو خود اپنے اوپر بھی کڑی نظر رکھنی ہو گی کہ وہ کتنا وقت سکرین کو دیتے ہیں اور کس قسم کا مواد دیکھتے ہیں۔ والدین ڈاکومینٹری یا معلوماتی پروگرامز دیکھتے ہیں یا کمرشل مٹیریل، اس پر نگاہ رکھیں گے تو بچوں کو بھی آسانی ہو گی۔

بچوں کے سامنے بہترین عملی نمونہ پیش کیا جائے جس میں وہ والدین کے عمل سے سیکھیں کہ کتاب پڑھنا، باہر واک کے لئے جانا، ایکٹو لائف سٹائل گزارنا، فیملی کے ساتھ سکرین۔ فری وقت گزارنا بہت اہم ہے۔ والدین کو اپنا سکرین ٹائم کم رکھنا ہو گا، کمرشل مواد کے بجائے علمی مواد کو ترجیح دینی ہو گی، اور سکرین سے ہٹ کر متبادل اچھی ایکٹیویٹیز کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

اعتدال میں زندگی کا حسن ہے۔ سکرین کے استعمال میں بھی اس اعتدال کا خیال رکھنا ہو گا۔ تین سال کی عمر تک دماغ کی اسی فیصد نمو ہو جاتی ہے اور ان سالوں میں احتیاط اور ہی زیادہ ہو۔ بچے کو پہلے دو سال سکرین سکرین سے دور رکھا جائے، دو سے تین سال کی عمر میں اول تو نہ دیں، اگر دیں تو بہت ہی کم۔

تین سے سات سال: آدھے سے ایک گھنٹہ
سات سے بارہ سال: ایک گھنٹہ

چھوٹے بچوں کے والدین ان کو آرام سکون والی چیز دکھائیں۔ بہت تیز تیز سین بدلنے والے کارٹون یا گیمز سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ موبائل ڈیوائس اور ٹیبلٹس کے استعمال پر خصوصی نظر رکھی جائے اور وقت پر نظر رکھی جائے۔

آج کے دور میں ڈیجیٹل میڈیا سے دور رہنا اور بچوں کو دور رکھنا تو ناممکن ہے، لیکن اگر کچھ اصول اپنے اور بچوں کے لئے شروع سے بنا لئے جائیں، جن پر سب گھر والے مستقل عمل پیرا ہوں تو نقصانات کم کر کے زیادہ فوائد سمیٹے جا سکتے ہیں۔

اسکرین ٹائم کے حوالے سے ایک مخصوص وقت طے کرنے کی ضرورت ہے کہ کب بچے ٹی وی یا ڈیوائس کا استعمال کر سکتے ہیں، رات گئے تک ڈیوائسز کا استعمال نیند کو متاثر کر سکتا ہے۔

والدین کا اس بات کی اہمیت کا احساس کرنا بھی ضروری ہے کہ بچوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنا ان کے ساتھ مسلسل کمیونیکشن کرنا ضروری ہے، اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ بچوں کو کھیلنے کے لیے باہر لے جانا اور کسی کھیل میں باقاعدہ شامل کروانا بچوں کے اسکرین ٹائم کا متبادل ہو سکتا ہے۔ ”

اس بارے میں ہم نے بچوں کی ماہر نفسیات تطہیر فاطمہ سے کچھ سوالات کیے
ورچوئل آٹزم کیا ہے
کیوں ہوتا ہے
اسکی علامات اور وجوہات کیا ہیں
کیا یہ قابل علاج ہے اور ختم ہو سکتا ہے
پاکستان میں کوئی اعداد و شمار ہیں اس کے یا کتنے کیسسز رپورٹ ہوئے ہیں
آپ نے اب تک کتنے ایسے بچوں کا علاج کیا ہے
والدین کی رہنمائی کے لے کوئی پیغام

ورچوئل آٹزم کیا ہے اس سے پہلے ہمیں آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر کر تھوڑا سا دیکھ لینا چاہیے اور آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر میں کیا ہے کہ سوشل تعلقات اور رویوں کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے بچے کو جب بچے کو جب بہت زیادہ اسکرین ٹائم دیکھنے کو ملتا ہے تو جب اس بچے کے اندر اس میں آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر نہیں ہوتا بلکہ آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر جیسی علامت ظاہر ہونی شروع ہوجاتی ہیں سوشل کمیونیکیشن اور behaviour جیسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں

اور اس کی وجوہات یہ ہے کہ تین گھنٹے سے زیادہ اگر آپ کسی تین سال سے کم عمر کے بچوں کو سکرین دیکھنے دیتے ہیں تو اس کے اندر اس طرح کی علامات آجاتی ہیں

اس میں ہم رویہ دیکھتے ہیں ہائپر ایکٹیویٹی دیکھتے ہیں

فکسیشین دیکھتے ہیں ہم بہت اگریشن دیکھتے ہیں بچوں کے اندر کمیونیکیشن ڈلے دیکھتے ہیں یا پھر ایسے بچے مختلف طریقے سے کمیونیکیشن کرتے ہیں اور بعض اوقات بالکل ہی نہیں کرتے اور اس کے علاوہ جو ہے ان کا سوشل انٹرایکشن نہیں ہوتا اور یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ جو والدین بچوں کو فون پکڑا دیتے اور وہ خود ان کے ساتھ کمیونیکیٹ نہیں کرتے اس کا بھی ان بچوں کے اندر ہائپر ایکٹیویٹی بہت بڑھ جاتی ہے

ایسے بچے مختلف طریقوں سے کمیونیکیٹ کرتے ہیں Stimming اسٹیمنگ ہوتا ہے جس میں یہ بچے کوئی بھی جملہ کسی بھی جگہ سے لے کر کسی کارٹون یا فلم سے یاد کر کے بار بار دھراتے ہیں یہ کچھ جملوں کا تکرار کرتے ہیں چاہے وہ ہماری اپنی لینگویج میں ہو یا دوسری لینگویج میں ہوں وہ بھی دہراتے رہتے ہیں

جی بالکل قابل علاج تو ہے مگر ایسے بچوں پر بہت زیادہ آپ کی محنت لگتی ہے خاص طور پر والدین اور والدہ کی زیادہ محنت لگتی ہے اور پھر تھرپی جہاں سے بھی لے رہے ہیں وہاں کی سب سے بڑا چیلنج تو یہی ہوتا ہے کہ بچے کو کیسے اسکرین سے دور رکھا جائے جب آپ سکرین سے اس کو بچانا شروع ہوجاتا ہے پھر ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ بچے کو رائمز پوئمز ایسی چیز جس کا تعلق سکرین کے ساتھ ہو اس کو ہم بچے سے ذرا دور کرتے ہم بالکل نہیں سناتے بالکل نہیں دکھاتے اور کچھ بچوں کو چھ ماہ کچھ

بچوں کو ایک سال ان چیزوں سے دور رکھتے ہیں جن چیزوں کا تعلق اسکرین کے ساتھ ہو تاکہ وہ سب کچھ ان کے دماغ سے دور ہو جائے ختم ہو جائے

برین میں جو نیوروٹرانسمیٹرز کا اپ ڈاؤن ہو رہا تھا وہ ختم ہو جائے

پاکستان میں اس کے اعداد و شمار کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ ابھی تک اس کے اوپر کوئی مکمل ریسرچ نہیں ملی ہے لیکن یہ بہت زیادہ ہے تعداد میں ہے

ابھی تک تو اتنی آگاہی بھی نہیں ہے والدین میں کہ وہ کوئی آ کر بتائیں کہ ہمارے بچے کو ورچوئل آٹزم ہے
اور جو بچے ہمارے پاس آتے وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں

لیکن جو لوگ آتے ہی نہیں ہے اس چیز لے کر وہ اسی طرح کی علامات کے ساتھ بچے کو آگے لے کر چل رہے ہیں ہمارے پاس آنے والے تقریباً تیس سے چالیس فیصد بچے ورچوئل آٹزم کا شکار ہوتے ہیں

کیونکہ کوڈ کے دوران بچوں بہت زیادہ اسکرین ٹائم دیا گیا

بچوں کو فون بہت چھوٹے بچوں کو اور اس سے پہلے بھی جب سے ہمارا والدین فون کا استعمال زیادہ بڑھا خاص طور پر اینڈرائڈ فون پر اس میں بہت زیادہ بچوں کو یہ پکڑا دیا جاتا ہے اور والدین خود بتاتے ہیں کہ ہم خود بچے کو فون دیتے ہیں بچے نے کھانا نہیں کھایا تو ہم اس کے سامنے فون رکھ دیتے پھر وہ کھانا کھاتا ہے یا بچہ یہ کام نہیں کر رہا تو ہم اس کو یہ فون پکڑا دیتے ہیں تو وہ چیخنے چلانے سے باز آ جاتا ہے اور وہ سکون سے بیٹھ جاتا ہے اور یہ تو ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو یہ بہت عام بات ہے کہ چلو بچوں کو فون پکڑا دیا جائے اور وہ آرام سے بیٹھ جائیں گے

جی اور ان میں سے کافی سارے بچوں کا علاج ہو بھی چکا ہے اور ہو بھی رہا ہے اور یہ ہے کہ یہ مین اسٹریم میں چلے بھی جاتے ہیں بس تھوڑی سی مینجمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے کہ بچے کو اسکرین سے دور رکھا جائے اور اکثر اوقات موبائل اور ٹیبلیٹ کے ساتھ ساتھ ٹی وی اسکرین سے بھی دور کر دیا جاتا ہے تاکہ ان کی اگریشن اور دوسری علامات بالکل ختم ہوجائیں آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر والی

والدین کے لئے یہ پیغام ہے کہ خدارا اپنے بچوں کی ذہنی صحت کو لے کر کے بہت زیادہ بہت زیادہ فکر کریں ان کا خیال رکھیں اپنے بچوں پر توجہ دیں اور میں یہ کہوں گی کہ یہ والدین کا بہت زیادہ قصور ہوتا ہے کہ ان کے بچے ان کی وجہ سے اس بیماری ورچوئل آٹزم کا شکار ہوتے ہیں بلکہ والدین خود اپنی مرضی سے اپنے بچوں کو اس بیماری میں مبتلا کر رہے ہیں اللہ نے انھیں صحت مند نارمل اولاد عطا کی مگر انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کو اس بیماری میں مبتلا کر دیا

آج سے آپ دیکھ لیں کہ دس سال پہلے یا بیس سال پہلے کی بات کر لیں تو اتنا زیادہ فون کا استعمال بچوں کو نہیں دیا جاتا تھا تو ان بچوں کی ڈویلپمنٹ میں اور اب بچوں کی صلاحیتوں میں زمین آسمان کا فرق اس طرح سے ہے کہ اب بچے حد سے زیادہ ہائپر ہیں آپ دیکھ لیں آپ کسی مال میں پلے ایریا میں چلے جائیں آپ کو بچوں میں دکھائی دے گا برداشت نہ کرنا کسی بھی چیز کو اور چھوٹی سی بات کو لے کر ہائپر ہوجانا یہ بچوں کے اندر نظر آ رہا ہوتا ہے

تو والدین اس بات کو خدارا غور سے سنیں اس بات کو غور سے سمجھیں اس بات کو کہ یہ آپ کے بچے کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے یہ فون یا جو اسکرین ہے یہ کوئی کردار ادا نہیں کر رہی ہے بچے کی تربیت کے لے آپ نے کرنی ہے تربیت یا اس کا مدرسہ ہے جہاں پے جو سکول ہے جہاں وہ جا رہا ہے وہ تعلیم حاصل کر رہا ہے وہ کرے گی حتی کہ تعلیم کے لے بھی اسکرین کا استعمال نا کریں بلکہ اپنے بچوں روایتی طریقوں سے تعلیم و تربیت کے عمل جاری رکھیں بچوں روزمرہ زندگی سے اسکرین کے استعمال کو جتنا ممکن ہو سکے کم کر دیں اور بچوں کو اسکرین دینے کے بجائے اپنا وقت دیں اپنی محبت اپنا پیار اپنی شفقت اپنی ممتا نچھاور کریں آپ کا بچہ خودبخود اسکرین کا استعمال چھوڑ دے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments