کامیڈی ہے کیا؟


جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہو رہا ہے کہ کامیڈی فلم وہ ہے جس میں طنز و مزاح کی کہکشاں جا بجا محسوس ہو۔ ماہرین کے مطابق ایسی فلم جس میں ہنسنے ہنسانے کے عناصر موجود ہوں اور جس کا اختتام بھی پر مسرت ہو، ہنسی مذاق، مسخرہ پن عام لوگوں کے پیش نظر دکھایا جائے وہ طربیہ یا کامیڈی کہلاتی ہے۔ ہماری کامیڈی فلموں میں معاشرتی اور رومانی ڈرامے کو ایسے ہی انجام سے دوچار کرایا جاتا ہے۔ ان فلموں میں معاشرے کے مسائل کو پیش کیا جاتا ہے جس سے کوئی نہ کوئی مثبت نتیجہ ضرور اخذ ہوتا ہے۔

ابتدائی خاموش فلموں کے دور میں بھی کامیڈی فلمیں بنائی گئیں جو کامیاب رہیں۔ اولین کامیڈی فلم ’لاروز آروز‘ ( پانی کا چھڑکاؤ) ہے جو 1895 میں فلمساز اور ہدایتکار ’لوئی لامئیر‘ نے بنائی۔ اس ایک منٹ کی فلم میں مالی سے ایک لڑکے کا مذاق دکھایا گیا ہے۔ پاک و ہند میں بسنے والوں کے ذہن میں اس دور ( 1895 سے 1927 تک) کے کامیڈین چارلی چیپلن کا نام کبھی نہیں بھولتا۔ جب 1920 کی دہائی میں بولتی فلموں کا آغاز ہوا تو کامیڈی فلموں نے ثابت کیا کہ وہ مضحکہ خیز موقع محل کے ساتھ اب مکالموں سے بھی بھر پور نتائج دے سکتی ہیں۔ پھر بولتی فلموں میں ’لارل ا ینڈ ہارڈی‘ ، ’تھری اسٹوجز‘ ، ’نارمن وزڈم‘ ، ’پیٹر سیلرز‘ کے نام ابھرتے ہیں۔

ہر ایک چیز کی طرح کامیڈی فلموں کی شکلیں بھی وقت کے ساتھ بدلتی گئیں اور یوں اس کی کئی ایک اقسام ہو گئیں جیسے :

غیر حقیقی کامیڈی:

معمول کی صورت حال پر غیر متوقع نامعقول اور بے تکے رد عمل پر بننے والی کامیڈی فلمیں عوام نے بہت پسند کیں۔ جیسے :

’ اٹس آ میڈ میڈ میڈ میڈ ورلڈ ( 1963 ) ‘ ۔

ایکشن کامیڈی:

جرات مندانہ کرتبوں اور مزاحیہ حرکات سے بھرپور سنسنی خیز پلاٹ پر بننے والی ایکشن فلمیں بھی عوام نے پسند کیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 1980 کی دہائی میں اداکار ایڈی مرفی نے ایسی فلموں سے خوب نام کمایا۔

مارشل آرٹس فلمیں :

یہ فلمیں اداکار جیکی چین جیسے لوگوں کی وجہ سے ہانگ کانگ فلمی صنعت کا بنیادی ستون بن گئیں۔

یار دوست فلمیں :

بے جوڑ جوڑی والی مزاحیہ فلمیں بھی کامیاب ہوئیں جیسے ہالی ووڈ کی ’رش آوار‘ ۔

پر اسرار مزاحیہ فلمیں :

اسرار بھری کامیڈی فلمیں ہالی ووڈ میں 1930 اور 1940 کی دہائی میں مقبول ہوئیں تب سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس کی بہترین مثال ’پنک پینتھر‘ سیریز کی فلمیں ہیں۔

طلسماتی کامیڈی:

ایسی فلموں میں افسانوی داستانوں کے مافوق الفطرت طلسمی موقع محل کو مزاحیہ سوانگ کے ساتھ طنز یہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً اداکار رابن ولیمز کی ’نائٹ ایٹ دی میوزیم‘ ۔ کامیڈی میں بالعموم ہیرو مشکلات پر غالب آ جاتا ہے۔ لیکن شرط ہے کہ اس کی کامیابی واقعات کی رفتار کا لازمی منطقی نتیجہ ہو۔ پھر اس کامیابی کے لئے جن وسائل کا اہتمام کیا گیا ان کا جواز بھی کہانی اور کرداروں میں موجود ہو۔ وہ کامیڈی فلم جس کا انجام کہانی کی روح سے ہم آہنگ ہو عوام میں زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ یہ فلمیں تفریح کا سامان ضرور فراہم کرتی ہیں مگر طنز و مزاح میں سنجیدگی اور متانت کا ہونا شرط ہے۔ تا کہ ظرافت سطحی کامیڈی نہ بن جائے۔ ایسی فلمیں ہر دور میں بنتی رہیں اور ہمیشہ بنیں گی۔

ہالی ووڈ، بھارتی، فرانسیسی، برطانوی، آسٹریلوی، چینی، عربی، ترکی، خود ہماری یا کسی بھی ملک یا زبان میں بننے والی مزاحیہ فلموں میں چند باتوں کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے ورنہ عوام یہ فلموں مسترد کر دیتے ہیں :

فلم کا اختتام: یہ انجام پر مسرت ہونا لازمی ہے۔ اس طرح فلم بین، فلم دیکھنے کے بعد مطمئن اور خوش ہوں گے۔

فلم کا دورانیہ: فلم کا دورانیہ ایسا ہو کہ فلم بین محظوظ ہو سکیں۔ طوالت ہمیشہ اکتاہٹ کا باعث بنتی ہے اور دل چسپی کا عنصر جاتا رہتا ہے۔ خواہ وہ ایک سین ہو یا پوری فلم! دیگر فلمی اقسام کے مقابلے میں کامیڈی فلموں میں اداکاری، ہدایتکاری اور خصوصیت کے ساتھ 200 فی صد زیادہ صحیح ایڈیٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے جو کہانی پر گرفت رکھے ورنہ پھر یہ سننے کو ملتا ہے کہ فلم بور تھی۔

کہانی:کہانی کے پلاٹ میں ربط ہونا ضروری ہے۔ کہانی میں کرداروں کی خصوصیات نمایاں ہونا بھی ضروری ہیں۔
بھارتی فلمی صنعت کے ابتدائی کامیڈین:

یوں تو بمبئی کی فلم نگری میں بہت سے خواتین و حضرات کامیڈین گزرے جیسے نور محمد چارلی، محمود، اسرانی وغیرہ لیکن یہاں کچھ ابتدائی فنکاروں کا ذکر کیا جاتا ہے :

گوپ اور یعقوب:

گوپ وشن داس کاملانی المعروف گوپ ( 1913 سے 1957 ) اور یعقوب خان المعروف یعقوب ( 1903 سے 1958 ) : ویسے تو ان دونوں نے کوئی بہت زیادہ فلمیں ایک ساتھ نہیں کیں لیکن سنیما بینوں نے اس جوڑی کو بہت سراہا۔ جیسے فلم

” سگائی“ ( 1951 ) ، ”پتنگا“ ( 1949 ) اور ”بے قصور“ ( 1950 ) ۔ اس دور کے بعض فلمساز، ہالی و وڈ کی مزاحیہ جوڑی لارل اینڈ ہارڈی کو ذہن میں رکھ کر ان دونوں کے لئے فلمیں لکھواتے اور بنواتے۔ جو اکثر کامیابی سے ہم آہنگ بھی ہوتیں۔ ہمارے ہاں کے بعض فلمی مورخوں نے ان فلموں کو ہالی ووڈ کی ’نقل‘ قرار دیا ہے۔ اگر ایک مزاحیہ کردار کا دبلا اور ایک کا موٹا ہونا لارل اینڈ ہارڈی کی نقل ہے تو پھر آغا ناصر صاحب اور کمال احمد رضوی صاحب کے ’الف نون‘ کو کیا نام دیا جائے گا؟ بات کہانی اور بر محل کامیڈی کی ہوتی ہے۔

یعقوب: اس دور کے جانے مانے کامیڈین تھے۔ یہ 1930 سے 1950 کے عرصے میں بمبئی میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکاروں میں سے تھے۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس دور کی فلموں کے ’کریڈٹس‘ سے لگایا جا سکتا ہے۔ جیسے ہدایتکار ایس کے اوجھا، فلمساز کے آصف اور مصنف حسرتؔ جے پوری صاحبان کی فلم ”ہلچل“ ( 1951 ) جس میں دلیپ کمار، نرگس اور ستارہ دیوی جیسے فنکار تھے۔ فلم کے کریڈٹس میں تمام ناموں کے آخر میں لکھا ہوا آتا تھا۔ اور آپ کے پسندیدہ، یعقوب۔ انہوں نے فلموں میں ہیر و کے کردار اور پھر ولن کے کردار بھی اس طرح ادا کیے کہ گویا وہ ہمیشہ سے یہ ہی کرتے آئے ہوں۔ یعقوب صاحب نے 34 سال کے عرصے میں 100 سے زیادہ فلمیں کیں۔

گوپ: حیدرآباد، سندھ میں پیدا ہونے والے گوپ نے بمبئی جا کر فلم ”انسان یا شیطان“ ( 1933 ) میں ایک چھوٹے سے کردار سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ فلم کی کاسٹ میں اداکارہ نرگس کی والدہ جدن بائی بھی تھیں۔ گوپ نے منفی کردار بھی ادا کیے ۔ جیسے فلم ”ترانہ“ ( 1951 ) جس میں دلیپ اور مدھوبالا جیسے اداکار تھے۔ گوپ نے اپنے 24 سالہ فلمی سفر میں 140 سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ فلم ”تیسری گلی“ کی فلم بندی کے دوران 1957 میں سیٹ پر ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ مذکورہ فلم 1958 میں ریلیز ہوئی۔

جانی واکر: ( 1926 سے 2003 ) :

بدر الدین جمال الدین قاضی المعروف جانی واکر کا بمبئی فلم نگری کے کامیڈین میں ایک بہت بھاری بھرکم نام ہے۔ اداکار اور مصنف بلراج سہانی نے ان کی ملاقات ہدایتکار، فلمساز، اداکار، کوریوگرافر اور مصنف وسنتھ کمار شیوشنکر المعروف گرودت سے کروائی۔ یہ ملاقات جانی واکر کی قسمت کے تالے کی چابی ثابت ہوئی۔ فلمساز و اداکار دیو آنند کی فلم ”بازی“ ( 1951 ) جس کے ہدایتکار گرو دت تھے اس میں جانی واکر کا کردار ایک شرابی کا تھا۔

انہوں نے ایسی بے ساختہ اداکاری کی کہ گرودت نے ان کا نام ہی ایک مشہور اسکاچ وہسکی ”جانی واکر“ کے نام پر جانی واکر رکھ دیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش 300 فلمیں کیں۔ جانی واکر کی آخری فلم ”چاچی 420“ ( 1997 ) ہے۔ ان کو بھارتی فلم انڈسٹری کے معتبر ایوارڈ، فلم فیئر ایوارڈ سے دو مرتبہ نوازا گیا۔ پہلا ایوارڈ بہترین معاون اداکار فلم ”مدھومتی“ ( 1958 ) اور دوسرا فلم ”شکار“ ( 1968 ) کے بہترین کامیڈین کا۔

واضح ہو کہ اس فلم کے ہدایتکار آتما رام جو عظیم ہدایتکار، فلمساز اور اداکار گرودت کے سگے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ 1994 میں آنجہانی ہو گئے۔ جانی واکر کا فلمی نام جانی واکر ضرور رکھا گیا لیکن وہ اس سے لاتعلق رہے۔ البتہ آخری ایام میں وہ فلمی دنیا کے نشے سے آزاد ہو گئے تھے اور برملا کہتے تھے کہ اب کامیڈی کا معیار بدل گیا ہے۔ صاف ستھری کامیڈی اب پرانا قصہ ہے۔ وہ یہ بھی کہتے کہ میں نے 300 فلمیں کیں، کبھی فلم سنسر بورڈ نے میری ایک لائن بھی بیہودہ کہہ کر نہیں کاٹی۔

کوئی مانے یا نہ مانے گرو دت کی شکل میں جانی واکر کے پیچھے ایک مضبوط اعتماد اور حوصلہ فلم انڈسٹری میں پہلے دن سے ہی موجود تھا۔ 10 اکتوبر 1964 کو ان کے دنیا سے گزر جانے کے بعد جانی واکر میں پہلے والا ولولہ کم ہونے لگا۔ جانی واکر عوام کو باکس آفس کی جانب کھینچتے تھے۔ نام ہی کافی ہے والی بات۔ فلم تقسیم کار زور دیتے کہ ان کی فلم میں جانی واکر ہو اور خاص تاکید کی جاتی کہ ان پر ایک گانا بھی فلم بند ہو۔ بھارتی فلم انڈسٹری کے یہ دوسرے خوش قسمت اداکار ہیں جن کے نام پر فلم ”جانی واکر“ ( 1957 ) بنی۔

اداکارہ مدھو بالا پر پہلی فلم ”مدھو بالا“ ( 1951 ) ملیالم زبان میں بنی تھی۔ جانی واکر نے ایک فلم ”پہنچے ہوئے لوگ“ ( 1986 ) بطور ہدایتکار بھی بنائی۔ بمبئی فلم نگری میں جانی واکر وہ پہلے اداکار ہیں جنہوں نے اپنا سیکریٹری/منیجر رکھا۔ اور یہ ہی وہ اولین اداکار ہیں جو اتوار کے روز کام سے مکمل چھٹی کرتے تھے۔

پاکستانی فلموں کے کامیڈین:

بھارتی فلم انڈسٹری کی طرح پاکستان میں بھی لاہور، کراچی اور ڈھاکہ سے بہت سے کامیڈین مشہور ہوئے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں :

نذر ( متوفی 1991 ) :

سید محمد نذر حسین شاہ المعروف نذر ہماری انڈسٹری کے ابتدائی کامیڈین میں ان کا بڑا نام ہے۔ ان کا دور ”تیری یاد“ ( 1948 ) سے لے کر ان کی آخری فلم ”باجی“ ( 1963 ) تک ہے۔ میری خوش قسمتی کہ میں نے کراچی ائرپورٹ کے رہائشی علاقے میں ان کو ایک سائکل اسٹینڈ پر کئی ایک مرتبہ دیکھا اور گفتگو کی۔ وہ اسٹینڈ ان کے عزیز کا تھا جن کا نام بھی عزیز تھا اور ان کی ایک آنکھ نہیں تھی۔ نذر صاحب جب بھی کراچی ائرپورٹ پر آتے یا جاتے لازمی اس سائیکل اسٹینڈ پر آتے۔ میں نے ان میں رتی بھر غرور نہیں دیکھا۔ نذر صاحب کو پاکستان فلم انڈسٹری میں تیس سال خدمات انجام دینے پر 1982 میں خصوصی نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

لہری ( 1929 سے 2012 ) :

کانپور، بھارت میں پیدا ہونے والے سفیر اللہ المعروف لہری اپنے خاندان سمیت پاکستان بننے کے بعد کراچی ہجرت کر گئے۔ یہاں انہوں نے ریڈیو پاکستان کراچی جیسی عظیم درسگاہ سے فن کے سفر کا آغاز کیا اور اسٹیج سے ہوتے ہوئے فلموں میں آئے۔ لہری کو 11 نگار ایوارڈ اور صدارتی تمغہ حسن کارکردگی ( 1996 ) سے نوازا گیا۔ ان کی اولین فلم ”انوکھی“ ( 1956 ) اور آخری فلم ”دھنک“ 1986 میں ریلیز ہوئی۔ اسی سال انہیں بیماریوں نے آ لیا۔ اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر نے ان کا ماہانہ وظیفہ 2500 / روپے مقرر کر دیا جو انہیں زندگی بھر ملتا رہا۔ مگر افسوس ہے کہ اس میں کبھی ایک روپے کا اضافہ نہیں کیا گیا۔

رنگیلا ( 1937 سے 2005 ) :

محمد سعید خان المعروف رنگیلا کا کام چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے 11 عدد نگار ایوارڈ اور صدارتی تمغہ حسن کارکردگی ( 2005 ) حاصل کیا۔ مزاحیہ اداکاری کے ساتھ ہدایتکاری، فلمسازی، گلوکاری، گیت نگاری بھی کی۔ یہ مصنف بھی تھے۔ انتقال سے کچھ عرصے پہلے میری الحمرا، لاہور میں ان سے بیک اسٹیج پر ایک مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔ بات چیت سے بالکل اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ اندر سے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ ہے ایک کامیڈین کی تعریف!

نرالا ( 1937 سے 1990 ) :

سید مظفر حسین زیدی المعروف نرالا ہماری فلمی دنیا کے نامور کامیڈین ہیں۔ ان کی پہلی فلم ”اور بھی غم ہیں“ ( 1960 ) اور آخری فلم ”چوروں کا بادشاہ“ ( 1988 ) تھی۔ نرالا صاحب کی یادگار ترین فلم ”ارمان“ ( 1966 ) ہے جس پر انہیں سال کے بہترین کامیڈین کا نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔ یہ آخر تک اسٹیج اور فنکشنوں میں کام کرتے رہے۔ نامور فلم اور ٹیلی وژن اداکار جناب کمال ایرانی نے نرالا صاحب سے میری ملاقات کروائی تھی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ جیسے وہ پردہ سیمیں پر نظر آتے تھے بالکل ویسی ہی ان کی گفتگو کا انداز تھا۔ کہیں سے بھی اداکاری محسوس نہیں ہوتی تھی۔

شہنشاہ ظرافت منور ظریف ( 1940 سے 1976 ) :

مقبولیت کی انتہا دیکھئے کہ مزاحیہ اداکار منور ظریف کو اس کے پرستاروں نے شہنشاہ ظرافت کا خطاب دیا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ 1970 کی دہائی کے مقبول ترین اور سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار تھے۔ بر صغیر پاک و ہند کے تمام کامیڈین کا کہنا ہے کہ بلا شبہ وہ اس خطے کے سب سے بڑے کامیڈین ہیں، ان میں جونی لیور بھی شامل ہیں۔ یہ بات مجھے کامیڈین خالد نظامی نے ایک ملاقات میں بتائی۔ جونی لیور سے ان کی ملاقات ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہوئی۔

حقیقت یہ ہے کہ مجھے باقاعدہ سنیما سے جوڑنے والے کوئی اور نہیں بلکہ منور ظریف ہیں۔ ہمارے گھر کے بالکل سامنے دو سنیما گھر تھے۔ جہاں ہر جمعہ کو نئی اردو اور پنجابی فلم کی نمائش ہوتی تھی۔ میں ہر ایک جمعہ کو کم از کم ایک نئی فلم سنیما میں ضرور دیکھتا تھا۔ منور ظریف اور رنگیلا کی فلمیں میری ترجیح ہوتیں۔ میں نے فلم ”جیرا بلیڈ“ ( 1973 ) ، ”بنارسی ٹھگ“ ( 1973 ) ، ”پردے میں رہنے دو“ ( 1973 ) ، ”منجی کتھے ڈاہواں“ ( 1974 ) ، ”نوکر ووہٹی دا“ ( 1974 ) ، ”زینت“ ( 1975 ) اور بہت سی فلموں کے پہلے دن کا پہلا شو دیکھا۔

وہ پنجابی بہت تیزی سے بولتے تھے کچھ سمجھ آتا کچھ نہ آتا لیکن کمال کے فنکار تھے۔ انہیں تین عدد نگار ایوارڈ سے نوازا گیا: پہلا فلم ”عشق دیوانہ“ ( 1971 ) میں اسپیشل ایوارڈ، دوسرا بہترین کامیڈین فلم ’‘ بہارو پھول برساؤ ” ( 1972 ) اور تیسرا فلم“ زینت ” ( 1975 ) ۔ انہوں نے پندرہ سالوں میں 300 سے زیادہ فلمیں کیں۔ بحیثیت ایک فلم بین کے میں نے منور ظریف کو مکالموں میں ہمیشہ چست، حاضر دماغ اور بروقت دیکھا۔

سین کے موقع محل کے حساب سے مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ اداکاری نہیں بلکہ میرے سامنے مجھ سے ہی فی البدیہ مکالمہ کر رہے ہیں۔ نامور اداکار علی اعجاز کے بقول منور اپنی لائنیں خود سے ہی بہتر کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ کامیڈین عمر شریف منور ظریف صاحب کو کامیڈی کا ماؤنٹ ایورسٹ کہتے تھے۔ اور یہ بھی کہ کامیڈی میں نام کمانے کے لئے دبستان منور ظریف کو اپنانا ہو تا ہے۔

کامیڈی ایک مشکل ترین کام:

بات کو ختم کرتے ہوئے ایک اہم ترین نکتے کی طرف آتا ہوں۔ میں نے جن عظیم کامیڈین کا ذکر کیا ہے ان کی فلمیں بار ہا دیکھیں۔ پھر اپنی فلمی صنعت کے کچھ جید کامیڈین سے بھی نشستیں رہیں۔ کمال ایرانی صاحب اور توقیر ناصر نے چکر باز چچا بھتیجے کے کامیڈی کردار پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں ایک ڈرامہ ”سہارے“ میں کیا۔ میں اس ڈرامے کا معاون پروڈیوسر تھا۔ پھر جاوید شیخ نے اسی مرکز سے حمید کاشمیری صاحب کا لکھا ڈرامہ ”دوسری لڑکی“ میں سنجیدہ مناظر کے ساتھ کامیڈی سین بھی کیے ۔

پھر اسی زمانے میں میری دعا سلام موسیقار اور کامیڈین خالد نظامی سے ہوئی۔ اس کی معرفت اسٹیج کامیڈین رزاق راجو سے۔ پھر۔ ”ففٹی ففٹی“ میں اسماعیل تارہ، ماجد جہانگیر، زیبا شہناز اور دیگر اداکاروں سے شعیب منصور صاحب کو کام لیتے دیکھا۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ جو کچھ ہالی ووڈ، بھارتی اور پاکستانی فلمی کامیڈین نے کام کیا وہ مذاق ہر گز بھی نہیں۔ جو کچھ کامیڈی کے بارے میں کتابوں میں پڑھا اس سے کہیں زیادہ مشاہدے نے بتلا دیا کہ کامیڈی کرنا سخت ترین کام ہے۔ اپنی روح کو اپنے ہاتھ سے باہر نکالنا ہی کامیڈی ہے۔ ہالی ووڈ، بھارت اور پاکستان کے تمام خواتین و حضرات کامیڈین کو میں ہاتھ اٹھا کر سلام اور خراج عقیدت پیش کرتا ہوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).