غم زياده خوشی، قلِيل ملی“ ــ سندھی کے قادرالکلام شاعر ــ لعل محمّد ”لعل“


سندھی زبان کے جہان سخن میں روایتی شاعری کے دور کے چند نمائندہ شاعروں میں اپنی پیدائش کے لحاظ سے شمالی سندھ سے متعلق، لعل محمد ”لعل“ کا نام ان منفرد شاعروں میں سرفہرست ہے، جس کا کلام اپنے بھرپور لہجے کے باعث پڑھنے میں بھی لطف دیتا ہے تو اپنے پیغام کے لحاظ سے بھی دیرپا اور گہرا ہے۔ جنہوں نے قیام پاکستان سے قبل اپنی قلمی خدمات کا آغاز کیا اور اپنی کم و بیش چھ دہائیوں پر مشتمل مشق سخن اور مشقت قلم سے گلشن شعر میں اپنے حصے کی مہک بکھیری۔

ایڈوکیٹ لعل محمد ”لعل“ کی ولادت سندھ کے تاریخی و ثقافتی و علمی و ادبی حوالے سے مشہور شہر اور ”سندھ کے پیرس“ کہلانے والے شکارپور میں 21 جنوری 1923 ء کو داد محمد دایو کے گھر میں ہوئی۔ شکارپور کی مٹی سے جنم لینے والے معروف ویدانتی سندھی کے اثاثی شاعر ’سامی‘ (بھائی چین راء بچو مل لنڈ) سے 180 برس بعد اسی مٹی سے پیدا ہونے والے، اپنے ادبی خواہ ذاتی رفیق اور ہمعصر شاعر، شیخ ایاز سے عمر میں صرف ایک ماہ بڑے، لعل محمد نے جب اس دنیا میں آنکھ کھولی، تو (آگے چل کر ان کے ہمعصر سخن نوا بننے والوں میں سے ) سندھی کے قادر الکلام شاعر عبدالکریم گدائی، کامریڈ حیدر بخش جتوئی اور عثمان علی انصاری اس وقت 21 برس کے نوجوان، کھیئلداس ”فانی“ 9 برس کے لڑکے، قاضی عبدالحی ”قائل“ 6 سال، گوبند پنجابی 5 برس، مخدوم طالب المولیٰ، ڈاکٹر عطا محمد ”حامی“ اور شیخ عبدالرزاق ”راز“ 4 برس، جبکہ تاج صحرائی محض 2 برس کے نونہال تھے۔ جبکہ نثار بزمی، لعل محمد ”لعل“ سے ایک سال بعد ، نورالدین سرکی 4 سال، نیاز ہمایونی 7 برس اور آغا سلیم 12 برس بعد اس جہان رنگ و بو میں آنے تھے۔

لعل محمد نے ابتدائی تعلیم شکارپور ہی سے حاصل کرنے کے بعد ، میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی اسکول شکارپور سے، جبکہ انٹر کا امتحان سی۔ اینڈ ایس۔ کالج (سیٹھ چیلاسنگھ، سیتل داس کالج) شکارپور سے پاس کیا، جو اس وقت (قیام پاکستان تک) سندھ کے صرف تین انٹرمیڈیٹ کالجوں میں سے ایک تھا۔ اس فہرست میں باقی دو کالجوں میں سے ایک، ’ڈی۔ جے۔ سندھ کالج کراچی‘ ، جبکہ دوسرا، ’گورنمنٹ کالج حیدرآباد‘ تھا (جو ’کاری موری کالج‘ کے نام سے زیادہ مقبول ہے، جو اب یونیورسٹی بن چکا ہے۔ )

انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد لعل محمد، محکمۂ بیراج میں کلرک کی حیثیت سے تعینات ہوئے۔ اس حیثیت سے کچھ عرصہ شکارپور اور اس کے مضافاتی علاقوں میں ملازمت کرنے کے بعد ان کا تبادلہ محکمے نے کراچی کر دیا۔ انہی ایام میں انہوں نے 1948 ء میں بی۔ اے۔ (آنرز) کا امتحان پاس کر کے، قانون کی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کی اور 1952 ء میں ایس۔ ایم۔ لا کالج کراچی سے ایل۔ ایل۔ بی۔ کی ڈگری حاصل کر لینے کے بعد وہ سرکاری ملازمت سے مستعفی ہو گئے اور کراچی ہی سے عملی وکالت کا آغاز کر دیا۔ وہ ’جی ایم شاہ اینڈ کمپنی‘ نامی ایک قانونی فرم کے ساتھ جونیئر وکیل کی حیثیت سے منسلک ہو گئے۔ مگر ان کو اپنی صلاحیتوں کی بنا پر کراچی کے ماہر قانون دانوں کے حلقوں میں اپنا نام پیدا کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔

کچھ عرصہ بعد وہ وکالت کو عارضی طور پر خیرباد کہہ کر، 1954 ء میں اپنی علمی قابلیت اور تدریسی صلاحیت کی بنا پر قائداعظم کی مادر علمی، سندھ مدرسة الاسلام کراچی میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے، اور اپنے آپ کو اس عظیم درسگاہ کا مثالی استاد ثابت کیا۔ جہاں اپنی تدریسی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ وہ ”سندھ مدرسہ کرانیکل“ نامی اسکول میگزین کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ جس کے انگلش اور سندھی سیکشن کی تدوین کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس کی تزئین و آرائش کا کام بھی بخوبی انجام دیا۔ انہوں نے سندھ مدرسے میں اپنی ملازمت کے پہلے ہی برس کے اختتام پر 1955 ء میں ’بی۔ ٹی‘ کا امتحان بھی نمایاں نشانات کے ساتھ پوزیشن ہولڈر کے طور پر پاس کیا۔

شعر و سخن کی لگن، لعل کو شاید ان کی پیدائش ہی سے تھی۔ انہوں نے شعر کے ابتدائی فنی اصول، بشمول علم عروض اپنے شہر کے معروف صوفی شاعر فقیر غلام علی ”مسرور“ سے سیکھے اور لڑکپن ہی سے ان کا کلام ”سندھو“ اور ”ادیب سندھی“ جیسے اس دور کے معروف سندھی رسائل و جرائد میں شائع ہونا شروع ہو گیا۔ ان کے دوست اور سندھ کے باکمال شاعر، شیخ ایاز اپنی خود نوشت کے جلد دوم میں لعل محمد ”لعل“ کے حوالے سے رقم طراز ہیں :

”اس دور میں لعل محمد ’لعل‘ اور نعیم صدیقی میرے بہترین دوست تھے۔ لعل محمد ’لعل‘ سندھی غزل کی تراش خراش کے ماہر تھے۔ طبعیت کے لحاظ سے سادہ طبع اور سچے انسان تھے۔ لعل محمد ’لعل‘ کی ادبی سرگرمیوں سے شکارپور میں 1941 ء میں سندھی بزم ادب کی داگ بیل پڑی اور انہی کی کوششوں سے مسلم سندھی ادبی سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا، جس کے وہ خود سیکریٹری جنرل بھی منتخب ہوئے۔ جس کے زوردار مشاعرے ’جمانڑی ہال‘ (موجودہ میونسپل آفس) میں منعقد ہوا کرتے تھے۔

ان مشاعروں کے توسط سے شکارپور میں ادبی شعور بڑھنا شروع ہوا۔ جس میں ایک تو بزرگ شعراء مثلاً: لطف اللہ بدوی، فقیر غلام علی مسرور اور فقیر عبدالوہاب ”ناظم“ جیسے شعراء کو اپنی شاعری عوام تک پہنچانے کا موقع ملتا رہا اور دوسری جانب نوجوانوں میں بھی شعر کہنے کا شوق پیدا ہوا۔ جن میں شیخ ایاز، احسان احمد بدوی، نعیم صدیقی اور رشید احمد لاشاری شامل ہیں۔ اس زمانے میں رشید احمد لاشاری شکارپور میں رہائش پذیر تھے اور ان کی دوستی ’لعل‘ کے ساتھ خاصی گہری تھی۔ درحقیقت رشید احمد لاشاری کو ادبی طور پر سرگرم کرنے میں لعل محمد صاحب کا بڑا ہاتھ تھا۔ ”

شیخ ایاز، ’لعل‘ کے حوالے سے ایک اور جگہ لکھتے ہیں :

”لعل محمد ’لعل‘ ، اردو کے کلاسیکی رنگ میں غزل کہتے تھے اور اردو کے پرانے اساتذہ: انشا، مومن، ناسخ وغیرہ ان کے دل پسند شاعر ہوا کرتے تھے۔ وہ بہت پختہ شاعری کرتے تھے اور شعر میں بندش کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ ہمیں ان کے نام ’لعل‘ اور تخلص ’احمر‘ میں بھی بندش نظر آتی تھی۔ دراصل لعل محمد تغزل، میں کلاسیکی معاملہ بندی کے بڑے استاد تھے۔ لاڑکانے کے غزل گو شاعر، ان کی بنسبت تک بند محسوس ہوا کرتے تھے۔ “

کراچی میں اپنی ابتدائی رہائش اور سندھ مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دینے والے ایام میں، لعل محمد کی ادبی قربت، شیخ عبدالحلیم ”جوش“ ، سرشار عقیلی، نیاز ہمایونی، ڈاکٹر ایاز حسین قادری، شیخ عبداللہ ”عبد“ ، شیخ مراد علی ”کاظم“ اور ان جیسے اور اس دور کے معروف شعراء کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ان کی طبیعت کے ادبی تحرک میں اضافہ ہوا۔ دیگر رفقائے سخن کے ساتھ ساتھ یہ لعل کی خوش بختی تھی کہ انہیں اپنے دور کے سندھ کے عظیم ادبی عالموں، علامہ آئی آئی قاضی اور شمس العلماء علامہ عمر بن محمد داؤد پوتہ کی قربت و صحبت کا شرف بھی حاصل ہوا۔

بلکہ وہ دونوں ان کے شعر و سخن کی یکتائی کے ساتھ ساتھ ادبی طور پر سرگرم رہنے کے بھی معترف تھے۔ اس عشق سخن اور اس درجہ ہمت افزائی کے پیش نظر لعل محمد نے 1951 ء میں علامہ داؤد پوتہ اور شیخ عبدالحلیم ”جوش“ کے مشورے پر ”آفتاب“ کے نام سے ایک ماہنامہ ادبی جریدے کا اجراء کیا، جو اپنے شائع کردہ معیاری ادبی مواد کی بدولت کچھ ہی عرصے میں سندھی ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوا۔ مگر چونکہ ”آفتاب“ غیر تجارتی بنیادوں پر خالصتاً ادب کی خدمت کے لیے شائع ہونے والا رسالہ تھا، لہاذا مالی مشکلات کے باعث اس رسالے کی اشاعت زیادہ طویل عرصے تک جاری نہ رہ سکی۔ لعل محمد اس دوران اس دور کے وفاقی دارالحکومت کی حیثیت سے موجود اس ’روشنیوں کے شہر‘ میں منعقدہ مشاعروں سمیت دیگر علمی و ادبی سرگرمیوں کے متحرک اور سرگرم شریک کے طور پر بھی نظر آتے رہے۔

1960 ء میں لعل محمد ”لعل“ ، اپنے والد بزرگوار کی خرابیٔ طبع کے باعث شکارپور واپس آ گئے اور کچھ عرصہ اوتھ کمشنر کی حیثیت سے اپنا معاش جاری رکھا۔ جس کے بعد انہوں نے یہاں بھی کراچی کی طرح باضابطہ طور پر قانون کی مشق شروع کرتے ہوئے، عملی وکالت کا آغاز کیا اور کچھ ہی عرصے میں سول اور آئینی امور کے ماہر وکیل کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ جلد ہی ان شمار شکارپور اور اس کے گردونواح کے باصلاحیت ماہرین قانون میں ہونے لگا۔

اس دوران انہوں نے 1969 ء میں مقامی بار میں شمولیت اختیار کی اور اس کے بعد ایک طویل عرصے تک وہ بار کی سرگرمیوں میں تواتر سے حصہ لیتے رہے۔ وہ دو مرتبہ ”ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن شکارپور“ کے صدر بھی منتخب ہوئے اور اس حیثیت میں انہوں نے کامیاب ادوار گزارے۔ وہ قانون کی مشق کے ساتھ ساتھ قانون کی تدریس کا کام بھی کرتے رہے اور 1990 ء میں شکارپور میں نو قائم شدہ ”حاجی مولا بخش لا کالج“ کے اولین پرنسپل کے طور پر بھی تعینات ہوئے۔ یہ لا کالج خود انہی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ کیونکہ شکارپور میں لا کالج کا قیام لعل صاحب کا دیرینہ خواب تھا۔ جس کی تعبیر انہوں نے اپنی زندگی میں ہی دیکھ لی۔ جہاں سے وہ 1994 ء میں رٹائر ہوئے۔

جناب لعل نے اپنے کار وکالت کے دوران اپنے بڑے صاحبزادے کے نام پر ”اعجاز پبلیکیشن“ کے نام سے اپنے اشاعت گھر کی داگ بیل ڈالی۔ جس کے تحت متفرق کتب کی اشاعت کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ اس اشاعتی سلسلے کی پہلی شائع کردہ کتاب مولا بخش سانگی کا مجموعۂ کلام بعنوان ”دور ساغر“ تھا۔ انہوں نے اسی اشاعتی سلسلے کے تحت 1993 ء میں اپنا پہلا اور واحد مجموعۂ سخن، بعنوان ”گونج“ بھی شائع کیا۔ جس میں غزلیات، منظومات اور چند قطعات شامل ہیں۔

لعل محمد ’لعل‘ ، شکارپور ڈسٹرکٹ ہسٹاریکل سوسائٹی کے تا دم مرگ صدر بھی رہے۔ جس کی جانب سے انہوں نے شکارپور کی تاریخ کے حوالے سے متعدد سیمینارز بھی منعقد کروائے۔ انہوں نے انگریزی میں شکارپور کی تاریخ کے حوالے سے متفرق مضامین بھی تحریر کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف ادوار میں ملک کے سربراہان مملکت کو شکارپور کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے تحریری صورت میں منصوبے اور تجاویز بھی بھیجتے رہے، جن میں سے انہی کی تحریر شدہ ایک تفصیلی انگریزی تحریر، بعنوان ”شکارپور کے لیے کچھ تجاویز“ رسالے کی صورت میں طبع ہوئی، جس میں شہر کی ظاہری آرائش کے ساتھ ساتھ شکارپور کی نکاسیٔ آب (بالخصوص بارانی آب) کے حوالے سے جامع منصوبہ، شاہی باغ کی تزئین نو، شہر کے چاروں طرف پکی سڑک کی تعمیر، شکارپور اسٹیڈیم کی تعمیر اور دیگر کئی اہم تجاویز شامل تھیں، جن میں سے کچھ پر عمل ہونے سے شکارپور کا نقشہ ہی بدل گیا، اور اگر ان تمام تر تجاویز کو من و عن عملی جامہ پہنایا جاتا، تو شکارپور آج واقعی ”سندھ کا پیرس“ بن چکا ہوتا۔ اپنے شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے اس نہج کی فکر، لعل محمد ”لعل“ کی اپنی جائے پیدائش کے ساتھ محبت کا جیتا جاگتا ثبوت گردانا جا سکتا ہے۔

لعل محمد ’لعل‘ ، سندھی کے ساتھ ساتھ اردو، انگریزی، عربی اور فارسی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ شاعری کے لحاظ سے ان کا شمار سندھی شاعری کے روایتی دور کے اہم شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کا کلام فارسی رنگ سے سجی اس دور کی مروجہ سندھی غزل کی روایت کا بہترین غماز ہے۔ شیخ ایاز سے قربت کے باوجود ان کا کلام سندھی جدید ادب کی راہ کا راہی نہ بن سکا۔ لعل محمد ”لعل“ کے کلام میں زبان و بیان کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت کا حسن بھی جابجا نظر آتا ہے۔

”شاعر کا گیت“ کے عنوان سے اپنی ایک حسین نظم میں لعل، اپنے مسجود ملائکہ ہونے کے مرتبے کا اعلان، کمال قدرت کلام سے کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

آزاد میں پرندہ جنت کے گلستاں کا
میں آسماں کا تارہ، میں نور کہکشاں کا
میں روح زندگانی نغمات کے جہاں کا
پوشیدہ راز ہوں میں قدرت کی داستاں کا
قالب میں ابن آدم کے گرچہ بند ہوں میں،
پر سربلند ہوں میں

ہر انسان کی طرح شاعر کو بھی اپنی مٹی کے ساتھ والہانہ محبت ہوتی ہے، جس کا اظہار جس طرح ہر عام آدمی اپنے اپنے انداز اور رنگ ڈھنگ میں کیا کرتا ہے، شاعر کو عام لوگوں کے مقابلے میں اظہار پر زیادہ قدرت ہوا کرتی ہے، تو وہ ایسے جذبات کا اظہار انتہائی نزاکت سے کرتا ہے، جس طرح سندھی سخن کے ’لعل‘ نے اپنی اس نظم میں اپنی سرزمین سندھ کے لیے کیا ہے :

سندھ! تیری نہ کبھی شان کو مٹنے دیں گے
تیری عظمت کا نہ پرچم کبھی جھکنے دیں گے
شمع تیری کو کریں خون جگر سے روشن
نور تیرے کی ضیا کو نہیں بجھنے دیں گے
نظم کے ساتھ ساتھ لعل محمد ’لعل‘ کی غزل میں رنگ تغزل بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے :
غم، خوشی کا ترجمان ہو گا تو کیا!
شادماں، ناشادماں ہو گا تو کیا!
غم کا افسانہ بیاں ہو گا تو کیا!
موت کا دن مہرباں ہو گا تو کیا!
کوئی لوٹا ہے عدم سے کب بھلا،
لامکاں اک دن مکاں ہو گا تو کیا!
ایک اور غزل میں اسلوب ’لعل‘ دیکھیے :
ہر شے میں تیرے حسن کا جلوہ دکھائی دے
میری نگاہ شوق کو وہ پارسائی دے!
سمجھوں گا خود کو فاتح قسمت، جو میرا نام،
تیرے حسین نام کا حصہ سنائی دے

لعل محمد ”لعل“ صرف (اپنے دور کی مروجہ) طویل اور متوسط بحور پر ہی غزلیات کہنے میں قدرت نہیں رکھتے تھے، بلکہ وہ مختصر بحروں پر بھی کمال غزل کہتے ہیں۔ ایک مختصر بحر (خفیف مسدس مخبون محذوف) میں کہی ہوئی ان کی غزل میں ان کے قلم سے نکلتے رومان کے رنگوں کا لطف لیجیے، جو غزل کی محبوب ترین بحروں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے :

دل لگی تجھ سے دلبری آئی
عشق کی روح کو خوشی آئی
حسن تیرے پہ ہے جہاں ششدر
چاند تاروں کو بھی غشی آئی
آج پھر تیری یاد کے باعث،
درد فرقت میں کچھ کمی آئی
اک تمنا نہ ہو سکی پوری
بے وجہ ”لعل“ زندگی آئی
ایک اور حسین غزل میں ’لعل‘ کا اظہار تمنا و انداز تغزل دیکھیے :
کبھی تو آؤ! دکھے دل کو کچھ قرار آئے
وفا کے نام پہ دنیا کو اعتبار آئے
گلاب بن کے کھلے آس، میری بانہوں میں،
جو تیری مخملی آغوش کی بہار آئے
’لعل‘ کی یہ غزل بھی اظہار میں ان کی اور غزلیات سے کم نہیں :
دل کی حسرت بس درون دل رہی
زندگی اپنی بہت مشکل رہی
ایک تھا دل، وہ بھی میرا کب رہا!
جس کی گمشدگی سر محفل رہی

اتنی حسین غزلیات میں طرز و انداز بیاں کا لطف اٹھانے کے سفر میں لگے ہاتھوں ’لعل‘ کی ان سطور کی مہک بھی محسوس کرتے چلیں :

کھلے پھول دلبر! مگر تم نہ آئے
گلابوں میں مجھ کو نظر تم نہ آئے
کیا نام تیرے تمنا کا گلشن،
اجڑ جائے گا یہ، اگر تم نہ آئے
عیادت کو اعدا بھی آئے ہمارے،
کیا تم نے زخمی جگر، تم نہ آئے
کٹھن تھا سفر ”لعل“ کی زندگی کا
سہارے کو پر ہمسفر! تم نہ آئے
یا پھر،
خوشی بھی عارضی ٹھہری، اداسی عارضی ٹھہری
ہماری زندگی بھی، یا خدا! کیا زندگی ٹھہری
نہ تم اپنے، نہ دل اپنا، نہ کوئی آشنا اپنا
بہت صبر آزما اے جان! تیری دلبری ٹھہری
تیری یادوں کی محفل کو سدا آباد رکھتے ہیں
تیری فرقت میں تیرے ہی الم سے ہمدمی ٹھہری

کہا جاتا ہے کہ سندھی کے معروف شاعر، شیخ ایاز کو لعل محمد ’لعل‘ کی مندرجہ ذیل غزل بہت پسند تھی، جس کا حوالہ ایاز نے اپنی کسی نوشت میں بھی دیا ہے :

غم زیادہ خوشی، قلیل ملی
زندگی جیسے بے دلیل ملی
جنت مۂ ملی، پہ غیروں کو
ہم کو اشکوں کی سلسبیل ملی
آگ سینے کی ہو رہے گلزار،
گر کہیں نعمت خلیل ملی
چشم عاشق کا کچھ کرم بھی تھا،
تم کو صورت اگر جمیل ملی
دل ناکام کو ملی ہر شے،
جو ملی، درد کے قبیل ملی
ہجر میں خوش رہی، نہ وصل میں شاد،
آرزو کس قدر علیل ملی
بے وجہ ”لعل“ دل ملا برباد
بیخودی پر نہ بے دلیل ملی

نظم کے حوالے سے انہوں نے عمومی موضوعات کے ساتھ ساتھ اپنی من پسند شخصیات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بھی اپنی قلمی فسوں کو استعمال کیا۔ اپنی ایک نظم میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

یوں مانند منصور کیا جان کو قربان
اس طرح شہادت کی سعادت ملی تجھ کو
تو زندہ و جاوید نہیں صرف جہاں میں،
اللہ سے عقبہ کی بھی عظمت ملی تجھ کو
تم آئے تو مزدور کی قسمت ہوئی بیدار
جگمگ ہوا دہقان کی قسمت کا ستارہ
بت خانے امارت کے ہوئے نیست اور نابود
لوگوں کو میسر ہوا جینے کا سہارا

لعل صاحب کو دو بیٹوں اور چار صاحبزادیوں کی اولاد عطا ہوئی۔ ان کے بڑے بیٹے اعجاز احمد سرکاری ملازم رہے، جبکہ ان کے دوسرے صاحبزادے، ایاز احمد انہی کے شعبے وکالت سے وابستہ ہیں، مگر ان کے خاندان میں ان کے قلمی ورثے کو ایک ادیب یا شاعر کی حیثیت سے بالواسطہ آگے بڑھانے والا کوئی نہیں، البتہ ان کا پورا خاندان ان کے فن اور قلمی کارناموں کی قدر کرنے والا ضرور ہے۔ جس کی دلیل لعل محمد ”لعل“ صاحب کا شائع شدہ واحد مجموعۂ کلام ”گونج“ ہے، جس کی ترتیب کا کام تو صاحب کتاب نے خود انجام دیا، البتہ اس کی اشاعت کے دیگر اہم ترین مراحل طے کرنے میں انہی کے بڑے صاحبزادے اعجاز احمد نے اپنے والد کے دست راست کا کردار ادا کیا اور 1993 ء میں اس کتاب کو شائع کروا کر، اسے دنیا بھر کے سندھی قارئین کے حلقوں تک پہنچانے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے۔

1997 ء میں لعل محمد ”لعل“ کی صحت، بڑے غدود میں خرابی کی وجہ سے متاثر ہوئی۔ جس کے باعث انہیں کراچی کے لیاقت نیشنل ہسپتال میں زیر علاج رہنا پڑا اور ایک جراحت کے عمل سے بھی گزرنا پڑا۔ کچھ عرصے بعد وہی عارضہ حل کی جانب بڑھتا ہوا دکھائی نہ دینے کی صورت میں انہیں مزید علاج کے لیے شہر کے سب سے بڑے ہسپتال، آغا خان یونیورسٹی ہاسپیٹل میں علاج کی غرض سے رہنا پڑا، جہاں ان کا ’پراسٹیٹ‘ کا ایک اور آپریشن کرنا پڑا۔

مگر وہ اس دوسرے آپریشن کے کئی دن گزرنے کے باوجود بھی جانبر نہ ہو سکے، اور 74 برس، 3 ماہ، 2 ہفتے کی عمر پاکر، 5 مئی 1997 ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ انہیں کراچی میں گلشن اقبال بلاک 3 کے شہر خموشاں میں اپنی شریک حیات کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔ مگر اس ”لعل سخن“ کا چھوڑا ہوا ادبی ورثہ، ان کا اسلوب سخن، ان کے یکتا کلام کی نکہت اور ان کا ادبی و صحافتی تحرک، ان کو سندھ کے ادبی حلقوں میں ایک طویل عرصے تک حیات رکھے گا اور ان کے اس خیال کی طرح ان کے طرز سخن اور اظہار دل کی جستجو کرتا رہے گا:

جہاں حسن سیرت کا سائل رہے
محبت ہوس کی نہ مائل رہے،
غرض اور نفرت کی دنیا سے دور،
ہر اک شخص الفت کا قائل رہے،
مرے دل کی کرنا وہیں جستجو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments