ڈیپ فیک: ’مجھ پر خوف طاری ہو گیا، میرا چہرہ پورن ویڈیو پر لگایا گیا تھا‘

سارہ میکڈرموٹ اور جیس ڈیوس - بی بی سی نیوز


کیٹ
کیٹ کی جعلی ویڈیو بنائی گئی تھی۔ کسی نے مصنوعی ذہانت کا استمعال کر کے ان کے چہرے کو کسی اور کے ساتھ جوڑ دیا تھا
سوچیں اگر آپ کا چہرہ ڈیجیٹل طور پر ایڈٹ کر کے ایک پورن ویڈیو پر لگا دیا جائے اور اسے انٹرنیٹ پر شیئر کر دیا جائے۔ ایک خاتون نے اپنے ساتھ ہونے والے خوفناک واقعے کا انکشاف کیا۔

ایک دن اپنے ٹوئٹر پر نظریں دوڑاتے ہوئے کیٹ آئزک اپنے نوٹیفکیشنز میں ایک پریشان کن ویڈیو دیکھ کر لرز گئی۔

پہلی بار عوامی سطح پر اس بارے میں بات کرتے ہوئے کیٹ کا کہنا تھا کہ ’مجھ پر خوف طاری ہو گیا، کسی نے میرا چہرہ استعمال کر کے اسے پورن ویڈیو پر ڈال دیا تھا اور ایسا دکھایا کہ گویا یہ میں تھیں۔‘

کیٹ کی جعلی ویڈیو بنائی گئی تھی۔ کسی نے مصنوعی ذہانت کا استمعال کر کے ان کے چہرے کو ڈیجیٹل طریقے سے کسی اور کے ساتھ جوڑ دیا تھا، ایک پورن اداکارہ کے جسم پر۔

یہ ویڈیو ان کے ٹیلی وژن کو دیے گئے انٹرویوز کی فوٹیج کو استعمال کر کے بنائی گئی تھی۔ اس ویڈیو میں انھیں سیکس کرتے دکھایا گیا۔

وہ کہتی ہیں ’میرا دل ڈوب گیا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ مجھے صرف یہ یاد ہے کہ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ یہ ویڈیو ہر جگہ چلی جائے گی۔ یہ بہت خوفناک تھا۔‘

ماضی میں، ہائی پروفائل مشہور شخصیات اور سیاستدان ڈیپ فیکس کا سب سے عام ہدف تھے۔ ویڈیوز ہمیشہ فحش نہیں ہوتی تھیں کچھ مزاحیہ مقاصد کے لیے بنائی جاتی تھیں لیکن حالیہ برسوں میں صورتحال بدل گئی ہے، سائبر سکیورٹی کمپنی ڈیپ ٹریس کے مطابق، ڈیپ فیکس میں سے 96 فیصد کسی فرد کی مرضی کے بغیر بنائے گئے فحش مواد ہیں۔

ریوینج پورن کی طرح، ڈیپ فیک پورنوگرافی وہ ہے جسے تصویر کی مدد سے جنسی استحصال کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک ایسی اصطلاح، جس میں رضامندی کے بغیر سیکس کی تصاویر لینا، بنانا یا شیئر کرنا شامل ہے۔

ڈیپ فیک

سکاٹ لینڈ میں پہلے سے ہی ایسی تصاویر یا ویڈیوز شیئر کرنا جرم ہے جو کسی دوسرے شخص کو ان کی رضامندی کے بغیر مباشرت کی حالت میں دکھاتی ہیں لیکن برطانیہ کے دیگر حصوں میں، یہ صرف اس وقت ایک جرم ہے، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس طرح کے اقدامات کا مقصد متاثرہ فرد کو تکلیف پہنچانا تھا۔

یہ ایک قانونی سقم ہے جس کا مطلب ہے کہ ویڈیو بنانے والوں کو اکثر قانونی نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

طویل انتظار کے بعد بھی برطانیہ بھر میں آن لائن سیفٹی بل کا حکومتی منصوبہ لامتناہی نظرثانی کے مراحل کے باعث رکا ہوا ہے۔ نئے قوانین ریگولیٹر آفکم کو کسی بھی ایسی ویب سائٹ کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار دیں گے جو برطانیہ کے صارفین کو نقصان پہنچا رہی ہے، چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں تاہم اس ماہ کے شروع میں، وزیر ثقافت مشیل ڈونیلان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی ٹیم اب بل پیش کیے جانے کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

30 سالہ کیٹ نے سنہ 2019 میں #NotYourPorn مہم کی بنیاد رکھی۔ ایک سال بعد، یہ مہم بالغوں کی تفریحی ویب سائٹ پورن ہب سے غیر مصدقہ صارفین کی جانب سے اپ لوڈ کی گئی تمام ویڈیوز کو ہٹوانے میں کامیاب رہی جو کہ اس ویب سائٹ کا زیادہ تر مواد بنتا ہے۔

لہٰذا کیٹ کا خیال ہے کہ جو بھی ان کے ڈیپ فیک کے پیچھے تھا وہ ان انسانی حقوق کی سرگرمیوں سے ناراض ہوا تھا اور انھیں ڈرانے کی کوشش کی تھی۔

لیکن انھیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ شخص کون ہے یا ان کی ویڈیو کو کس کس نے دیکھا ہوگا اور جب وہ دیکھ سکتی تھیں کہ ان کا چہرہ ایک فحش اداکارہ کی فوٹیج پر لگایا گیا تھا، ویڈیو کافی حقیقی لگ رہی تھی اور انھیں خدشہ تھا کہ شاید دوسروں کو دھوکہ ہو جائے۔

’یہ خلاف ورزی تھی، میری شناخت کو اس طرح استعمال کیا گیا جس کی اجازت میں نے نہیں دی تھی۔‘

ویڈیو کے نیچے، لوگوں نے برے تبصرے چھوڑنا شروع کر دیے اور کہا کہ وہ کیٹ کے گھر تک پیچھا کریں گے، ان کا ریپ کریں گے، اس حملے کی فلم بنائیں گے اور فوٹیج انٹرنیٹ پر شائع کریں گے۔

’آپ اپنے خاندان کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔‘

انھوں نے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا ’اگر انھوں نے یہ مواد دیکھا تو وہ کیسا محسوس کریں گے؟‘

خطرہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب ویڈیو کے نیچے کیٹ کے گھر اور کام کے دونوں ایڈریس دیے گئے۔

’میں بہت زیادہ پریشان ہو گئی کہ میرا پتہ کون جانتا ہے؟ کیا یہ کوئی ہے جسے میں بھی جانتا ہوں کہ جس نے یہ کیا ہے؟‘

’میں سوچ رہی تھی کہ میں واقعی مشکل میں پڑ گئی ہوں، صرف انٹر نیٹ پر بدکلامی کرنے والے چند لوگ نہیں بلکہ یہ ایک حقیقی خطرہ تھا۔‘

اپنے تجربے کی وجہ سے اب وہ دوسروں کی مدد کرتی ہیں۔ کیٹ جانتی ہیں کہ اگر کوئی ایسا کرے تو کیا کرنا چاہیے لیکن اُس وقت وہ خود سکتے میں چلی گئی تھیں۔

وہ کہتی ہیں ’اس وقت میں نے ان باتوں پر عمل نہیں کیا جس کا مشورہ آج میں خود دیتی ہوں۔‘

ان کے ایک ساتھی نے اس ویڈیو اور دھمکی آمیز کمنٹس کو ٹوئٹر کو رپورٹ کیا لیکن ایک بار کوئی ڈیپ فیک مواد شائع ہو جاتا ہے تو اس کی آن لائن ترسیل کو روکنا ممکن نہیں ہوتا۔

کیٹ کہتی ہیں ’میں چاہتی تھی کہ ویڈیو انٹرنیٹ سے ہٹا دی جائے لیکن میں اس کے لیے کچھ کر نہیں سکتی تھی۔‘


اگر ہمارا جعلی مواد بن جائے تو کیا کریں؟

شواہد جمع کریں: یہ متضاد محسوس ہو سکتا ہے، آپ چاہتے ہیں کہ سب کچھ مٹا دیا جائے لیکن ویڈیوز ڈاؤن لوڈ کرنا، صارفین کے نام اور یو آر ایلز کے سکرین شاٹ جمع کرنا ضروری ہے۔ انھیں ایک محفوظ فولڈر میں رکھیں اور پاس ورڈ کے ذریعے اسے محفوظ بنائیں۔

اکاؤنٹس کو رپورٹ کریں: ایک بار جب آپ ثبوت جمع کر لیں تو اسے رپورٹ کریں۔

پولیس سے رابطہ کریں: یہ ضروری ہے کہ آپ فہرست بنائیں کہ کب کیا ہوا ہے اور جو ثبوت آپ نے جمع کیے ہیں انھیں شیئر کریں۔ پولیس کو بتائیں۔


آن لائن فورمز میں ڈیپ فیکس کے لیے ایک بازار ہے۔ لوگ اپنی بیویوں، پڑوسیوں اور ساتھی کارکنوں کی ویڈیوز بنانے کی درخواستیں پوسٹ کرتے ہیں اور جیسا کہ ایسا لگتا ہے کہ ناقابل یقین ہے یہاں تک کہ اپنی ماؤں، بیٹیوں اور کزنز کی بھی۔

مواد کے تخلیق کار مرحلہ وار ہدایات کے ساتھ جواب دیتے ہیں انھیں کس طرح کے مواد کی ضرورت ہے، یہ مشورے دیتے ہیں کہ عکس بندی کے کون سے زاویے بہترین ہوتے ہیں اور کام کے لیے قیمت بھی بتائی جاتی ہے۔

جنوب مشرقی انگلینڈ میں مقیم ڈیپ فیک مواد بنانے والے گورکیم نے بی بی سی سے بات کی۔ انھوں نے اپنی تسکین کے لیے مشہور شخصیات کے ڈیپ فیکس بنانا شروع کیے۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کو ’اپنے تصورات کو ان طریقوں سے محسوس کرنے کے قابل بناتے ہیں جو پہلے ممکن نہیں تھا۔‘

اس کے بعد گورکیم نے ان خواتین کا رخ کیا جن میں انھیں کشش محسوس ہوئی بشمول ان کی روزمرہ کی ملازمت کے ساتھی جن کو وہ بمشکل جانتے تھے۔

’ان میں سے ایک شادی شدہ تھیں، دوسری ایک رشتے میں تھیں‘۔ وہ مزید بتاتے ہیں ’ان خواتین کا جعلی مواد بنانے کے بعد کام پر جا کر عجیب محسوس ہوا لیکن میں نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا۔ میں ایسے ظاہر کر سکتا ہوں کہ جیسے کچھ بھی غلط نہیں ہوا، کسی کو شک نہیں ہوگا۔‘

یہ جان کر کہ وہ اپنے شوق سے پیسہ کما سکتے ہیں گورکیم نے حسب ضرورت ڈیپ فیکس کے لیے کمیشن لینا شروع کر دیا۔ خواتین کے سوشل میڈیا پروفائلز سے فوٹیج جمع کرنا، انھیں یہ ڈیپ فیکس بنانے کے لیے کافی مواد مل جاتا۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے حال ہی میں زوم کال ریکارڈنگ کا استعمال کرتے ہوئے ایک عورت کو ڈیپ فیک کیا۔

وہ تسلیم کرنے ہیں کہ کچھ خواتین کو ڈیپ فیک کر کے نفسیاتی طور پر نقصان پہنچایا جا سکتا ہے لیکن وہ اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں بے حس دکھائی دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اخلاقی نقطہِ نظر سے مجھے نہیں لگتا کہ ایسی کوئی چیز ہے جو مجھے روکے، اگر میں کمیشن سے پیسہ کمانے جا رہا ہوں تو میں یہ کروں گا، یہ آسان ہے۔‘

ڈیپ فیکس کا معیار بے حد مختلف ہو سکتا ہے اور اس کا انحصار ویڈیو بنانے والے شخص کی مہارت اور استعمال شدہ ٹیکنالوجی کی نفاست پر ہے۔

ڈیپ فیک

لیکن سب سے بڑی ڈیپ فیک پورن ویب سائٹ چلانے والے تسلیم کرتے ہیں کہ اب یہ یقینی طور پر جاننا آسان نہیں رہا کہ آپ چھیڑ چھاڑ والی تصاویر دیکھ رہے ہیں یا نہیں۔

ان کی سائٹ پر ایک ماہ میں تقریباً ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ آتے ہیں اور ایک وقت میں تقریباً 20,000 ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں۔ وہ امریکہ میں مقیم ہیں اور میڈیا سے شاذ و نادر ہی بات کرتے ہیں لیکن وہ گمنام طور پر بی بی سی سے بات کرنے پر راضی ہوئے۔

ان کے خیال میں عام خواتین کا جعلی مواد ان کے لیے ممنوعہ ہے لیکن سلیبریٹیز، سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور سیاستدانوں کی فحش ویڈیوز بنانا جائز ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان (مشہور شخصیات)کا مواد مرکزی دھارے میں دستیاب ہے۔ وہ عام شہریوں سے مختلف ہیں۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ وہ اس سے ذرا مختلف طریقے سے نمٹتے ہیں، وہ اسے بھول جاتے ہیں۔ مجھے ان کی رضا مندی کی ضرورت نہیں، یہ ایک خیالی مواد ہے، یہ حقیقت نہیں۔‘

کیا انھیں لگتا ہے کہ وہ جو کر رہے ہیں وہ غلط ہے؟ وہ کسی حد تک خواتین پر پڑنے والے اثرات سے انکاری ہیں۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ ان کی شریک حیات کو نہیں معلوم کہ وہ آمدنی کے لیے کیا کرتے ہیں۔

’میں نے اپنی بیوی کو نہیں بتایا، میں خوفزدہ ہوں کہ پتا نہیں اس پر اس کا کیا اثر ہو۔‘

ڈیپ فیک سافٹ ویئر اب سے کچھ عرصہ پہلے تک آسانی سے دستیاب نہیں تھے اور عام آدمی کے پاس جعلی مواد بنانے کی مہارت نہیں ہوتی تھی لیکن اب، 12 سال سے زیادہ عمر کا کوئی بھی فرد قانونی طور پر درجنوں ایپس ڈاؤن لوڈ کر سکتا ہے اور چند کلکس میں قابل بھروسہ جعلی مواد بنا سکتا ہے۔

کیٹ کے لیے یہ تشویشناک اور ’واقعی خوفناک‘ ہے۔ انھیں یہ بھی خدشہ ہے کہ آن لائن سیفٹی بل ٹیکنالوجی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھے گا۔

’تین سال پہلے، جب بل کا پہلا مسودہ تیار کیا گیا تھا، ڈیپ فیک تخلیقات کو ایک پیشہ ورانہ مہارت کے طور پر دیکھا گیا تھا جس میں کسی کو تربیت حاصل کرنا ہوتی ہے نہ کہ صرف ایپ ڈاؤن لوڈ کرنی پڑے۔‘

کیٹ کہتی ہیں کہ وہ ایسا کرنے والوں کو جیتنے نہیں دیں گی

کیٹ کہتی ہیں کہ وہ ایسا کرنے والوں کو جیتنے نہیں دیں گی

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم کئی برس پیچھے ہیں اور (بل) کے مندرجات پرانے ہیں، بہت کچھ شامل نہیں۔‘

لیکن تخلیق کار گورکیم کے لیے ڈیپ فیکنگ کو جرم قرار دینے سے چیزیں بدل جائیں گی۔

’اگر مجھے آن لائن ڈھونڈا جا سکتا ہے تو میں وہیں رک جاؤں گا اور شاید کوئی اور شوق تلاش کروں گا۔‘

اس سارے معاملے کا کیٹ کی صحت اور دوسرے لوگوں پر بھروسہ کرنے کی صلاحیت پر گہرا اثر پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے پیچھے وہ نہ صرف انھیں ڈرانے اور نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے تھے بلکہ انھیں خاموش کرنے کی بھی کوشش کر رہے تھے۔

لیکن اب وہ پہلے سے زیادہ پر جوش ہیں۔ انھیں احساس ہوا کہ وہ اس سب سے دور جانے کے بارے میں زیادہ سوچتی رہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں انھیں جیتنے نہیں دوں گی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ڈیپ فیکس کا استعمال خواتین کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے اور ٹیک فرموں بشمول وہ ایپس جو چہرے کی تبدیلی کو ممکن بناتی ہیں، انھیں حفاظتی اقدامات کرنے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔

’کسی بھی ایپ کو جنسی مواد کا پتہ لگانے کے قابل ہونا چاہیے۔‘

’اگر کمپنیوں نے اپنی ایپس کو جنسی استحصال کا مواد بنانے سے روکنے کے لیے پیسہ، وسائل اور وقت نہیں لگایا تو وہ جان بوجھ کر غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں۔ وہ مجرم ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments