دبنگ انقلابی یوسف مستی خان بھی داغ مفارقت دے گئے


یوسف مستی خان کا آبائی تعلق مغربی بلوچستان کے گورگیج قبیلے سے تھا۔ ان کا خاندان تقریباً ڈیڑھ صدی قبل محنت مزدوری کی تلاش میں کراچی جا کر آباد ہو گیا تھا۔ ان کا خاندان بنیادی طور پر محنت کش تھا، اس لیے کراچی جا کر بھی ان کو سکوں میسر نہ آیا، اور وہ بہتر زندگی کی تلاش میں پہلے گجرات اور پھر آسام چلے گئے۔ وہیں ان کے والد نے کوئلے کی کانوں کا کاروبار کیا۔ بعد ازاں وہ ایک بار پھر ہجرت کرتے ہوئے برما جا پہنچے۔

یہ وہی زمانہ تھا جب سامراجی ممالک محکوم ممالک کے وسائل اور خام مال کو لوٹنے کے لیے سب سے پہلے ریلوے لائن کی تعمیر کرتے تھے، اور پھر زرعی ممالک میں کپاس اور گندم کی کاشت کے لیے آبپاشی کا نظام، یعنی نہریں تعمیر کرتے تھے، تاکہ ریلوے کے ذریعے خام مال اور زرعی اجناس شہروں اور بندرگاہ تک پہنچا کر اپنے ممالک کو بھیج کر اپنی صنعت کا پہیہ رواں دواں رکھ سکیں۔ یوسف مستی خان کے خاندان میں ٹھہراؤ اس وقت آیا جب برما میں قیام کے دوران ان کے دادا کو نوآبادیاتی ریلوے لائن منصوبوں کو پتھر فراہم کرنے کا ٹھیکہ مل گیا۔ یہیں سے ان کے خاندان کو عروج ملا اور وہ ایک خوشحال زندگی کی طرف بڑھنے لگے۔ یوسف کے دادا کا 1921 ء میں انتقال ہو گیا اور کاروبار ان کے والد اکبر مستی خان نے سنبھال لیا۔ بعد ازاں اٰن کے والد اور دیگر احباب واپس وطن لوٹ آئے اور کراچی میں آباد ہو گئے۔

اکبر مستی خان کے والد نے کراچی آ کر اپنے کاروبار کی بنیاد رکھی اور ایک خوشحال زندگی کا آغاز کر دیا۔ انہیں کراچی اور بلوچستان کے سیاسی، سماجی اور کاروباری حلقوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یوسف مستی خان 18 جولائی 1948 ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے آٹھویں تک تعلیم ایبٹ آباد میں امراء کے سکول میں حاصل کی، لیکن انہیں واپس کراچی بلا لیا گیا۔ بعد ازاں 1969 ء میں انہوں نے نیشنل کالج کراچی سے بی۔ اے۔ کیا۔ ان کے والد تو انہیں کاروبار میں لگانا چاہتے تھے، لیکن انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز 1973 ء میں ملک کی ایک بڑی آئل کمپنی میں مینجر کی ملازمت کر کے کیا، اور انہیں کوئٹہ میں تعینات کر دیا گیا۔

یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا اور نیشنل عوامی پارٹی ولی گروپ، جو صوبہ بلوچستان اور سرحد میں ایک ترقی پسند قوم پرست جماعت کے طور پر ابھری تھی، بلوچستان میں 1970 ء کے الیکشن میں واضح اکثریت سے الیکشن جیت چکی تھی۔ یہ وہی زمانہ تھا جب یوسف مستی خان سیاسی جدوجہد میں بھرپور طریقے سے نمودار ہوئے۔ اس وقت تک میر غوث بخش بزنجو ایک مدبر سیاست دان کے طور پر ابھر کر سامنے آ چکے تھے، اور جب 1973 ء کے آئین کی منظوری میں میر غوث بخش بزنجو نے اہم کردار ادا کیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں بلوچستان کا گورنر مقرر کر دیا۔

اکبر مستی خان اور میر غوث بخش بزنجو کے سماجی رابطے تو تھے، لیکن وہ کاروباری لوگ تھے اور ان کے گھرانے کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ یوسف مستی خان کے کوئٹہ آتے ہی میر غوث بخش بزنجو سے رابطے بڑھ گئے اور جلد ہی وہ ان کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہونے لگے۔ ابھی آئین منظور ہوئے ایک برس بھی نہ ہوا تھا کہ بھٹو حکومت نے بلوچستان پر فوج کشی کر دی۔ یوسف مستی خان نے ملازمت کو خیرباد کہہ دیا اور فل ٹائم سیاست دان کے طور پر مزاحمتی سیاست کو اپنا لیا۔ ان کے دو اہم ساتھی پروفیسر صدیق بلوچ اور گورنر بزنجو کے پرنسپل سیکرٹری بی۔ ایم۔ کٹی ان کے گھر آ چکے تھے۔

بلوچستان کے سیاسی کارکنوں کے خلاف حیدر آباد جیل میں خصوصی ٹربیونل قائم کیا گیا تھا اور حیدرآباد سینٹرل جیل میں مقدمہ چل رہا تھا۔ دہشت کے اس دور میں میاں محمود علی قصوری، عابد حسن منٹو اور دیگر ترقی پسند وکلاء ان کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔ یوسف مستی خان کراچی آ چکے تھے اور انہیں روزانہ تفتیشی مراکز بلایا جاتا تھا، مگر وہ بہت ثابت قدم رہے اور میر غوث بخش بزنجو سے رابطے کا کردار ادا کرتے رہے۔ رہائی کے بعد میر غوث بخش بزنجو نے نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی تو یوسف مستی خان نے پارٹی کو ملکی سطح پر منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

کراچی میں میر صاحب کا قیام بھی مستی لاج میں ہی ہوتا تھا اور اس طرح مستی لاج ایم۔ آر۔ ڈی کی تحریک کا مرکز بن گیا۔ ایم۔ آر۔ ڈی کی تحریک کے دوران ہی یوسف مستی خان ایک قومی راہنما کے طور پر ابھر کر سیاسی دھارے پر نمودار ہوئے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جب 1989 ء میں میر غوث بخش بزنجو کا انتقال ہو گیا تو یوسف مستی خان کو پارٹی کا مرکزی صدر منتخب کر لیا گیا۔

یوسف مستی خان نے پارٹی قیادت سنبھالتے ہی بائیں بازو کے اتحاد اور باہمی انضمام کے لیے باقاعدہ مذاکرات کا آغاز کر دیا۔ پاکستان سوشلسٹ پارٹی، کمیونسٹ لیگ، قومی محاذ آزادی اور دیگر جماعتیں اس سے قبل ہی متحدہ پارٹی کے قیام کا آغاز کر چکی تھیں۔ انہی مذاکرات کا نتیجہ تھا کہ 1999 ء میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی، عوامی جمہوری پارٹی اور نیشنل پارٹی کا انضمام ممکن ہوا اور ایک بڑی کانفرنس میں عابد حسن منٹو کو صدر اور یوسف مستی خان کو جنرل سیکرٹری اور اختر حسین، جو ان دنوں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے رکن بھی ہیں، کو ڈپٹی سیکرٹری جنرل منتخب کر لیا گیا۔

ملک میں سماجی تبدیلی برپا کرنے کے لیے ایک وسیع تر ترقی پسند، انقلابی جمہوری سیاسی جماعت کے قیام کی جدوجہد جاری رہی، جس کے نتیجے میں 2010 ء میں نیشنل ورکرز پارٹی اور کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی نے انضمام کر کے ورکرز پارٹی پاکستان اور نومبر 2012 ء میں ورکرز پارٹی پاکستان، عوامی پارٹی پاکستان اور لیبر پارٹی پاکستان کے باہمی انضمام سے عوامی ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔

کامریڈ یوسف مستی خان کو پاکستان کی سیاست، بالخصوص ترقی پسند سیاست میں اہم مقام حاصل ہے، جنہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ایک قام پرست سیاست دان کے طور پر کیا اور جلد ہی طبقاتی سیاست اپنا کر ملک کے مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات، کسانوں اور مزدوروں کے راہنما بن کر ابھرے۔ وہ میرے رہنما اور عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر ہیں۔ میری ان سے آخری ملاقات اس سال 13۔ 12 مارچ کو عوامی ورکرز پارٹی کی لاہور میں منعقد ہونے والی تیسری کانگریس کے موقع پر ہوئی تھی۔

وہ گزشتہ کئی برسوں سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور میرے صحت بارے پوچھنے پر کہہ رہے تھے کہ اب میں نے کیمو تھراپی بند کروا دی ہے، کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق مرض کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے۔ اس علاج کے دوران کوئی کام نہیں کر پاتا، اس لیے جب تک زندہ ہوں، اپنے کینسر کو بھول کر ملک میں بالادست طبقات کے مسلط کردہ سیاسی، سماجی اور معاشی کینسر کے خلاف اپنا بھرپور کردار ادا کرتا رہوں گا۔ ان کے جذبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی پارٹی کانگریس نے ان کی بیماری کے باوجود انہیں اگلے تین برس کے لیے پارٹی کا نیا صدر منتخب کیا تھا۔

یوسف مستی خان نے ہزاروں سیاسی کارکنوں کے ساتھ کام کیا اور ان کی سینکڑوں سے قریبی دوستی بھی رہی، لیکن ان کے ہم عصر ساتھیوں میں میر غوث بخش بزنجو، عابد حسن منٹو، سی آر اسلم، شمیم اشرف ملک، انیس ہاشمی، چوہدری فتح محمد، فانوس گجر، لال بخش رند، بی۔ ایم۔ کٹی، سید قصور گردیزی، ڈاکٹر عبدالمالک، باجی نسیم شمیم ملک اور حاصل بزنجو قابل ذکر ہیں۔ وہ پارٹی کے ساتھ ساتھ کراچی میں لینڈ مافیا کے خلاف انڈیجینئس رائٹس الائنس، وائس پار مسنگ پرسنز، گوادر پیپلز الائنس، کچی آبادیوں کے عوام کے حقوق، چھوٹے صوبوں کے عوام کے حقوق اور دیگر محاذوں پر قائدانہ کردار ادا کرتے رہے۔

اس سال جون میں اسلام آباد میں بائیں بازؤ کے اتحاد، یونائٹڈ ڈیموکریٹک کا قیام عمل میں آیا تو یوسف مستی خان کو اس کا کنوینیئر مقرر کیا گیا، لیکن وہ اس اجلاس کے چند روز بعد ہی زیادہ بیمار ہو گئے اور اپنا متحرک کردار ادا نہ کر پائے۔ ملک کا موجودہ بحران ترقی پسند اتحاد سے یہ تقاضا کرتا ہے کی پاکستان میں معاشی و سماجی ڈھانچوں کی نشان دہی کی جائے اور یہ واضح کیا جائے کی متبادل نہ صرف ممکن ہے بلکہ ناگزیر ہے۔

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی معاشی و سیاسی بالادستی کا خاتمہ؛ مذہب کی سیاست سے علیحدگی اور تمام مذہبی اقلیتوں کا سیاسی و معاشی تحفظ؛ قومی جبر کا خاتمہ، پاکستان کو کثیر القومی ریاست تسلیم کرنا اور حقیقی جمہوری وفاق کا قیام؛ صنفی جبر کی تمام اقسام اور پدرسری نظام کا خاتمہ؛ زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیری باقیات و بڑی زمینداریوں کا خاتمہ؛ لینڈ مافیاز اور قبضہ گیروں کو لگام دینا؛ متبادل معاشی نظام سے سامراجی بالادستی و قرض غلامی کا خاتمہ اور آزاد خارجہ پالیسی کے تحت پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستی و معاشی تعلقات؛ تمام محنت کش اور محنت کار عوام کو ان کی زندگی کے بنیادی حقوق کی ضمانت؛ نیو لبرل ”ترقی“ اور موسمیاتی تبدیلی کے نتیجہ میں ماحولیات کی تباہی کی روک تھام اور قابل تجدید توانائی کو فروغ کی جدوجہد ہی ملک کو مضبوط بنا دیں فراہم کر سکتی ہے۔

آئیے ہم سب مل کر ملکی آزادی کی تکمیل اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر ملکی معاشی ڈھانچے کی تشکیل نو کر کے پاکستان کو استحصال سے پاک ترقی پسند، جمہوری معاشرے میں ڈھالنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ یہی یوسف مستی خان کی جدوجہد تھی اور یہی انہیں یاد رکھنے کا بہترین راستہ ہے۔

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں۔

pervez-fateh has 55 posts and counting.See all posts by pervez-fateh

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments