پاکستان میں اینٹی امریکہ بیانیہ کا چورن کب سے شروع ہوا؟


برطانوی سامراج کی نوے سالہ حکومت سے کے بعد 1947 میں برصغیر میں مسلم قومیت کے نعرے پہ قائم ہونے والی مملکت پاکستان میں کبھی بھی اینٹی امریکہ نہ سوچ تھی، البتہ کمیونسٹ و سوشلسٹ نظریات کے حامل افراد دوسری جنگ عظیم کے بعد تاج برطانیہ کی سلطنت کے محدود ہونے کا ادراک کر چکے تھے نیز یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کا نیا ٹھیکیدار امریکہ کی شکل میں خطے میں اپنا اثر رسوخ بڑھاتا جا رہا ہے

ایسے میں پاکستان کے ہمسایہ میں روس جیسی سلطنت نے اردگرد کی ریاستوں کی متحدہ یونین بنا کر ایک کمیونسٹ حکومت اور مشرقی یورپ و شمالی امریکہ و مشرق وسطیٰ و چند ایشیائی و افریقی ممالک میں کمیونسٹ بلاک قائم کیا، اسی کے پڑوس میں چین میں ماؤزے تنگ کی قیادت میں ایک عظیم تبدیلی آ چکی تھی، مگر چینی حکومت کے عزائم کیونکہ ہمسائے روس کی طرح عالمی ٹھیکیداری کے نہ تھے، اس لئے امریکہ اور روس کی سرد جنگ میں چین لاتعلق رہا، البتہ عالمی اسی سطح پہ روس اور امریکہ کی شکل میں دو بڑے بلاک بظاہر متحارب نظر آنے لگے، تیسری دنیا کے ممالک میں اپنی اپنی حلیف حکومتوں کا قیام، اور اپنی پراڈکٹس کے لئے مارکیٹ ان دونوں کی ترجیح تھے۔

ایسے میں نوزائیدہ مملکت جس کے بانی قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کے قیام کے ایک ہی سال کے بعد انتقال کر گئے۔ پاکستان نے ابتدا میں امریکی بلاک کو اپنا ملجیٰ و ماویٰ جاناور لیاقت علی خان مرحوم کے دور میں دھڑلے سے امریکہ کی جھولی میں بیٹھنا پسند کیا۔ امریکی گندم کے تحفے والے اونٹوں پہ تھینک یو امریکہ کی تختیوں کے ساتھ کراچی کی سڑکوں پہ گشت کرا کے ہم نے امریکہ سے محبت اور وفاداری کے اعلان کیے۔ سیٹو اور سینٹو معاہدے میں شمولیت کر کے امریکی بلاک کا وفادار رکن بنے،

پاکستان میں 1951 میں لیاقت علی خاں کے امریکہ کی طرف جھکاؤ اور کشمیر کے حصول میں ان کی ناکامی کی وجہ سے فوج کے بہت سے افسر ان سے نالاں تھے جن میں میجر جنرل اکبر خان بھی شامل تھے۔ اکبر خان فوج میں فیض کے افسر اعلیٰ تھے۔ 23 فروری 1951 کو اکبر خان کے مکان پر اک میٹنگ ہوئی جس میں کئی فوجی افسروں کے ساتھ فیض اور سجاد ظہیر نے بھی شرکت کی۔ میٹنگ میں حکومت کا تختہ پلٹنے کی تجویز پیش کی گئی لیکن اسے ناقابل عمل کہتے ہوئے مسترد کر دیا گیا۔ لیکن فوجیوں میں سے ہی کسی نے حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بات جنرل ایوب خان تک پہنچا دی۔ اس کے بعد میٹنگ کے شرکا کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ تقریباً پانچ سال انہوں نے پاکستان کی مختلف جیلوں میں گزارے۔

پاکستان میں ایوب خانی آمریت کے دوران سب سے پہلے ایوب خان نے 1965 کی جنگ کے دوران امریکی ترجیحات اور رویے کو دیکھنے کے بعد Friends Or Not Masters کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ بھی چھپ چکا ہے، اس کتاب میں پہلی بار پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ یا حکمران طبقے کی طرف سے امریکہ سے براربری کی سطح پہ تعلقات کے اظہار کا مطالبہ سا تھا۔ اس کے بعد ایوب خاں کے ہی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے راولپنڈی سازش کیش کے بعد بکھرے ہوئے اینٹی سامراج یا اینٹی امریکہ دانشور، سیاست دان، صحافیوں کو اکٹھا کر کے ڈاکٹر مبشرحسن کی رہائش گاہ لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، جس کے چار بڑے نعرے تھے
اسلام ہمارا دین
سوشلزم ہماری معیشت
طاقت کا سرچشمہ عوام
جمہوریت ہماری سیاست ہے

اور 1970 ء ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کوایک انقلابی پارٹی کے طور پر اس وقت عوام میں پذیرائی ملی تھی جب پاکستان شدید معاشی اور سیاسی بحران کا شکار تھا۔

ایوب خان اور ان کے بعد یحییٰ خان کی ناقص حکومتی پالیسیوں کے خلاف عوام کا ایک سیلاب امڈ آیا تھا۔
جگہ جگہ ریاستی مشینری کے خلاف لو گوں کی بھرپور مزاحمتی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔

معلوم ہوتا تھا کہ اگر الیکشن نہ ہوئے تو عوام کا یہ انقلابی ریلا حکومت کو ہی نہیں بلکہ پورے ریاستی نظام کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ ایسے وقت میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ الیکشن کرا کے اقتدار سیاسی جماعتوں کے حوالے کر دے، او متحدہ ر پاکستان میں پہلی بار بالغ رائے دہی بنیاد پہ عام انتخابات ہوئے

بھٹو صاحب نے اپنی پارٹی کے قیام کے موقع پہ جو بیانیہ بنایا تھا، اسے پنجاب میں بہت پذیرائی ملی اس کے علاوہ ان کے آبائی صوبے سندھ میں کچھ کچھ پذیرائی ملی، جب کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پی پی پی کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی

مشرقی پاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح کے حامی شیخ مجیب الرحمن کی جماعت نے اکثریت حاصل کی اور متحدہ پاکستان کی واحد اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئے

پہلی دفعہ بالغ رائے دہی پہ ہونے والے انتخابات نے مقتدر قوتوں کو ششدر تو کیا ساتھ ساتھ خوفزدہ بھی کر دیا کہ متحدہ پاکستان کا وزیراعظم ایک بنگالی ہو گا

دسمبر 1970 میں سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا
اب مغربی پاکستان ہی اصلی تے وڈا پاکستان تھا
سو 80 اسی سے زائد سیٹیں لینے والی پی پی پی نے مرکز پنجاب اور سندھ میں حکومتیں قائم کیں جب کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بعد ا زاں اقتداری گرفت مضبوط ہونے پہ من مرضی کی حکومتیں قائم ہو گئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں بھٹو پی پی پی کی حکومت کا کریڈٹ یہ ہے کہ جنگ کی ہزیمت کے بعد پژمردہ عوام کو حوصلہ دیا، مسلح افواج کی عزت و حرمت کو بقا دی نیز تمام سیاسی قوتوں کو اکٹھا کر کے متفقہ آئین (آئین 1973 ء) دیا۔ عرب ممالک سے خصوصاً عرب ریاستوں سے تعلقات بڑھاکر پاکستانی ہیومن ریسورس کے لئے ملازمت کے مواقع پیدا کیے۔ اور کچھ زرعی اصلاحات بھی کیں کیونکہ پی پی کا نعرہ سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ تسلط کا خاتمہ بھی تھا۔ ساتھ مقامی پرائیویٹ صنعتوں کو بھی قومیایا او حکومتی تحویل میں لے لیا یقیناً پی پی پی کے ان سب اقدامات کو اسٹیبلشمنٹ کی بھر پور حمایت حاصل تھی۔

جہاں پی پی پی کی حکومت مسلسل یہ کامیابیاں حاصل کر رہی تھی، اندرونی طور پہ پارٹی کے اینٹی سامراج اور اینٹی امریکہ بیانیہ رکھنے والی اساسی قیادت میں سے بیشتر یا تو بھٹو صاحب کے کھلم کھلا مخالف ہو گئے یا پارٹی چھوڑ گئے۔ اگر ہم اس وقت کے اخبارات پڑھیں تو پی پی پی چھوڑنے والے سب لوگوں کے موقف میں ایک یکسانیت نظر آئے گی کہ پارٹی پہ اشرافیہ اور مراعات یافتہ جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے نے قبضہ کر لیا ہے۔ پارٹی اپنے اساسی چار نکاتی بیانیہ سے انحراف کر چکی ہے۔
جب کہ کامیاب اسلامی سربراہ کانفرنس کروانے، غیر جانبدار ممالک کی تحریک میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو اب بزعم خود فخر ایشیا اور ملکی سطح پہ قائد عوام کہلوانے لگے تھے

اسی مقبولیت کے زعم میں آپ نے مارچ 1977 ء میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا جس میں بکھری ہوئی اپوزیشن نے پی این اے کی شکل میں نو ستاروں کا اتحاد قائم کر لیا۔ الیکشن کے نتائج کو بنیاد بنا کر ہزیمت شدہ پی این اے نے دھاندلی کی تحریک شروع کی جو مذہبی ٹچ کے ساتھ تحریک نظام مصطفے بنا دی گئی۔ بھٹو صاحب نے پہلے پارلیمنٹ میں اور پھر راولپنڈی میں عوامی جلسے میں سائرس وانس کا خط لہرایا اور امریکہ کی اپنی حکومت ختم کرنے کی دھمکی بھی بیان کی اس دوران بھٹو صاحب نے اپنے پرانے اینٹی سامراج دوستوں سے رابطے بحال کرنے کی کوششیں، مگر مقتدرہ قوتوں نے آپ کی چھٹی طے کرلی تھی

سو پانچ جولائی 1977 ء سے سیاہ مارشل لائی رات نے اس ملک کو ضیائی تاریکیوں کے حصار میں لے لیا۔ اس دوران روس افغان جنگ میں ہم حلیف تھے سو گیارہ سال کسی کو ”امریکہ دشمنی” یاد نہ آئی
اپریل انیس سو چوراسی 1984 میں جب بی بی واپس تشریف لائیں تو لاہور میں

ان کے تاریخ ساز استقبال کے موقع پر مدتوں سے ضیائی تشدد برداشت کرنے والے اور اپنی محبوب قیادت سے بچھڑے کارکنوں نے پرانے ہوائی اڈے سے مینار پاکستان تک امریکی جھنڈے جلا کر اور ”بھٹو کا قاتل امریکہ“ کے نعرے لگا کر بے نظیر بھٹو کا استقبال کیا۔ اور اگلے ہی روز پریس کانفرنس میں بی بی کا اس سارے عمل سے لاتعلقی کا اظہار تاریخ کا حصہ ہے ( راوی فرخ سہیل گوئندی)

اس کے بعد اینٹی سامراج ہونے کی دعویدار پی پی پی نے ہمیشہ کے سوشل ڈیموکریٹ ہونے کے بیانیے کو اپنا لیا۔ پاکستان میں اینٹی امریکہ کا بیانیہ لے کر مرحوم قاضی حسین احمد بھی جارج بش سینئر کے زمانے میں اٹھے اور اسلامک فرنٹ اور پاسبان کے کینٹیر لے کر مارکیٹ میں نکلے لیکن ان کا چورن اتنا نہ بک سکا۔ کیونکہ جماعت اسلامی کے خمیر میں کبھی بھی استعمار دشمنی نہیں رہی سو ان کا یہ چورن نہ بکا۔
جنرل پرویز مشرف نے بھی ”سب پہلے پاکستان“ کے نعرے سے اینٹی امریکہ بیانیہ بیچنے کو شش کی، مگر ایک ہی امریکی کال پہ ڈھیر ہونے والے اس ”دلیر“ کا ڈھیر ہونا بھی ایک واقعہ ہے

مسلم لیگ نون ق ج ض وغیرہ کے بیانیہ میں کبھی اینٹی امریکہ یا اینٹی سامراج ہونے کا نعرہ تھا ہی نہیں، سو ان کا یہ چورن تھا ہی نہیں۔

ہمارے محترم بزرگان کو نواز شریف کی ذات میں چی گویرا نظر آتا ہے، مگر مشرف کے زمانے میں جدہ روانگی اور اب عمرانی حکومت میں لندن قیام نے میاں صاحب کے انقلابی قائد بننے کی خواہش پہ پانی پھیر دیتے ہیں۔
اب پی ٹی آئی اور عمران خان بھی ”اینٹی امریکہ“ کا بیانیہ لے کر میدان عمل میں آئے ہیں مگر جیسے ہلکی ہلکی ڈھولک بجاتے ہیں اس سے اندازہ بھی ہو رہا ہے اور ظاہر بھی ہو رہا ہے کہ دل بھی کرتا ہے کہ انقلابی ہو جاؤں، مگر سنا ہے کہ سالے! پھانسی چڑھا دیتے ہیں۔ سو! اب دیکھتے ہیں یہ بیانیہ کتنا سنجیدہ ہے یا غیر سنجیدہ!

طالب علم کا اس تحریر کہ آخر میں یہی تجزیہ ہے کہ امریکہ مخالف ہونے کا مطلب امریکی پالیسیوں اور اس امریکی رجیم کی مخالفت ہے جو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا ہتھ چھٹ غنڈہ بن کر باقی دنیا میں من مرضی کی بدمعاشی کرتا ہے، امریکہ دشمنی و مخالفت کا مطلب امریکی عوام اور اس خطہ زمین کی دشمنی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہر وہ قوم جو حمیت و غیرت رکھتی ہے، جس کی سیاسی و جمہوری قیادت اپنی جڑیں عوام میں رکھتی ہے اسے استعمار دشمنی زیب دیتی ہے۔

قرضوں پہ پلنے والے اور بھیک امداد پہ چلنے والی مملکتوں کی سیاسی جماعتیں جب امریکہ دشمنی کا بیانیہ بنائیں تو پہلے اپنا ”پچ پانی“ دیکھ لیں، ایسا نہ ہو کہ ہزیمت اٹھانی پڑے۔
اور آخری بات! پاکستان کی سیاسی جمہوری تاریخ جو کہ اس چوہتر برس میں تیس سے پینتیس برس ہے کوئی بھی سیاسی جماعت ”حقیقی امریکہ دشمن“ نہ تھی اور نہ اسے سوٹ کرتا تھا اور نہ آئندہ سوٹ کرے گا

ہاں! حل کیا ہے؟ وہ میں نہیں بتا سکتا۔ مجھے اپنے بچوں کے ساتھ گھر رہنا ہے

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments