برصغیر میں معیشت کے حالیہ 50 برس


اٹھارہویں صدی میں اہل یورپ کی آمد سے پہلے ہندوستان ایک اقلیم تھا۔ حملہ آوروں کی مسلسل یلغار اور داخلی جنگ و جدل سے سکڑتی پھیلتی مغل سلطنت کی مجموعی معاشی پیداوار عالمی معیشت کا 24.4 فیصد تھی۔ نئی دنیا یعنی امریکہ کے وسائل کا استحصال کرنے، غلاموں کی تجارت اور ابتدائی صنعتی ایجادات کے باوجود 1700ء میں پورے یورپ کی معاشی پیداوار عالمی معیشت کا 23.3 فیصد تھی۔ 1947ء میں انگریز رخصت ہوا تو عالمی معیشت میں ہندوستان کا حصہ محض 2 فیصد رہ گیا تھا۔ حالانکہ عالمی جنگوں کی براہ راست تباہی سے ہندوستان کو واسطہ نہیں پڑا۔ غیر ملکی حکمرانوں نے مقامی وسائل کا استحصال کیا لیکن اپنی ضرورت کے تحت ہی سہی، ہندوستان کو انتظامی ڈھانچے، جدید قوانین، تار ، ریلوے، طبی سہولتوں، آبپاشی اور تعلیم کی مدد سے جدید دنیا کی دہلیز پر لا کھڑا کیا۔ انگریز سے آزادی اور تقسیم کا معاملہ تو مذاکرات کی میز پر نمٹ گیا تھا، منٹو کے کردار ایشر سنگھ (ٹھنڈا گوشت) اور سکینہ (کھول دو) ابنائے وطن کی چیرہ دستی سے برآمد ہوئے تھے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں ضیا آمریت کی مزاحمت میں سینہ سپر ہونے والے صحافی جوہر میر مرحوم کا ایک شعر یاد کر لوں، ’’مرے وطن کی شکستہ جبیں پہ لکھا ہے / جو چیز ٹوٹ کے بنتی ہے، ٹوٹ جاتی ہے‘‘۔ پاکستان میں ربع صدی بعد ہی یہ مرحلہ آن پہنچا، ’’اے خرد مند سن، ہم جو دو بھائی تھے…‘‘ بنگالی ہم وطنوں نے ہم سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ بنگلہ دیش کا قیام فوجی شکست نہیں، سیاسی بندوبست کی ناکامی کا نتیجہ تھا۔ یہ فیصلہ آپ کیجئے کہ متحدہ پاکستان میں 1951 سے حکومت کون چلا رہا تھا، سیاست دان یا ریاستی اہلکار؟ تاریخ کا پہیہ الٹی سمت چلانا ممکن نہیں، جو ہوا، سو ہوا۔ 1972 میں سابق برطانوی ہند تین آزاد ریاستوں میں بٹ گیا۔ آج ہمیں کچھ بنیادی معاشی اشاریوں کی مدد سے گزشتہ پچاس برس میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کے خدوخال پر غور کرنا ہے۔

1972  میں پاکستان کی آبادی چھ کروڑ بیس لاکھ، بنگلہ دیش کی آبادی چھ کروڑ نوے لاکھ اور بھارت کی آبادی اٹھاون کروڑ بیس لاکھ تھی۔ 2022 میں پاکستان کی آبادی 23 کروڑ، بنگلہ دیش کی آبادی 16 کروڑ نوے لاکھ اور بھارت کی آبادی ایک ارب 41کروڑ ہے۔ گویا پچاس برس بعد بنگلہ دیش کی آبادی پاکستان سے چھ کروڑ کم ہے جبکہ بھارت کی آبادی میں تقریباًڈھائی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں پاکستان کی آبادی قریب چار گنا بڑھی ہے۔ آبادی میں اندھا دھند اضافہ صحت اور معیار زندگی میں ترقی کا نشان نہیں بلکہ عوام کی معاشی اور سیاسی بے دست و پائی کا نسخہ ہے۔ کسی بھی ملک کے لئے ہر برس پیدا ہونے والے پچاس لاکھ بچوں کے لئے تعلیم، صحت اور روزگار کی ضمانت دینا دشوار ہے لیکن ہمارا المیہ یہ کہ تعلیم اور صحت وغیرہ قومی ترجیحات میں بہت نیچے آتی ہیں۔ ماہرین معیشت شیرخوار بچوں کی شرح اموات کو کسی ملک کی ترقی میں بہت اہمیت دیتے ہیں۔ چھوٹے بچے بیماری اور دوسری مشکلات کا مقابلہ کرنے میں کمزور ہوتے ہیں۔ چنانچہ زندہ پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں میں شیر خوارگی کی عمر میں اموات کی شرح پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ 1972 میں پاکستان میں شیر خوار بچوں کی شرح اموات 139تھی جو اب 56.8رہ گئی ہے۔ پچاس برس پہلے بنگلہ دیش میں یہی شرح 164تھی جو اب کم ہو کر 22.6رہ گئی ہے۔ 1972میں بھارت میں بچوں کی شرح اموات 137تھی جو اب 27.6رہ گئی ہے۔ واضح ہو کہ عالمی سطح پر شیر خوار بچوں کی موجودہ شرح اموات 26.7ہے جس میں براعظم افریقہ کے غریب ترین ممالک بھی شامل ہیں۔ گویا بنگلہ دیش کی کارکردگی عالمی اوسط سے بہتر ہے اور بھارت اس کے بہت قریب ہے جبکہ پاکستان گزشتہ پچاس برس میں اس اشاریے میں عالمی معیار ہی نہیں بلکہ اپنے توام ممالک یعنی بھارت اور بنگلہ دیش سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ بنگلہ دیش کی معیشت میں عورتوں کی بڑھتی ہوئی شرکت نے اس ضمن میں بنیادی کردار ادا کیا ہے کیونکہ شیر خوار بچوں کی صحت کا ماؤں کی غذا، طبی سہولتوں تک رسائی اور معیار زندگی سے گہرا تعلق ہے۔

آئیے اب اس جائزے میں شرح خواندگی کی طرف بڑھتے ہیں۔ 1972 میں بنگلہ دیش کی شرح خواندگی 47 فیصد جبکہ پاکستان کی شرح خواندگی 21.7 فیصد تھی گویا نصف سے  بھی کم۔ یہ جو دائیں بازو کے حلقوں میں ملک ٹوٹنے کے بعد بنگال کے ’’ہندو اساتذہ‘‘ پر الزام تراشی کی مسلسل کوشش کی گئی وہ محض پروپیگنڈے کی دھول اڑانے کے مترادف تھی۔ قریب سات کروڑ آبادی میں ایک کروڑ ہندو تھے اور مشرقی پاکستان میں ہندو آبادی کی حالت زار جوگندر ناتھ منڈل کے اکتوبر 1950ء میں لیاقت علی خان کے نام استعفے میں پڑھ لیجئے۔ دراصل بنگال متحدہ ہندوستان کے ان منطقوں میں شامل تھا جنہیں انگریزی بندوبست سے 1757 ہی میں تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ بنگال قریب دو سو برس سے تعلیم میں پنجاب اور سندھ جیسے علاقوں سے آگے تھا۔ تقابل کےلئے یہ گواہی کافی ہے کہ 1972 میں بھارت کی شرح خواندگی 34.5 فیصد تھی یعنی بنگلہ دیش سے کافی پیچھے تھی۔ آج پچاس برس بعد پاکستان میں شرح خواندگی 58فیصد ہے اور بنگلہ دیش میں 74.6فیصد ہے۔ بھارت میں شرح خواندگی 81فیصد ہو چکی ہے۔ اس وقت عالمی شرح خواندگی 86.3فیصد ہے۔ گویا بھارت اب شرح خواندگی میں عالمی اوسط کے قریب پہنچ چکا ہے۔ بنگلہ دیش میں شرح خواندگی میں اضافے کی رفتار سست ہے لیکن پاکستان سے سولہ فیصد زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ شرح خواندگی معیار تعلیم کی ضمانت نہیں۔ یہ بہرحال واضح ہے کہ عام آدمی کو تعلیم دینے میں پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ابھی اس موضوع پر کچھ دیگر بنیادی اشاریوں پر بات ہونا باقی ہے۔ زندہ رہے تو اگلی بار یہیں سے بات شروع کریں گے۔ (جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments