حیدر علی: ایک دور اندیشں بہادر انسان جس نے انگریزوں کا تن تنہا مقابلہ کیا


1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

ہم اس علاقے سے گزر رہے تھے جو کبھی حیدر علی کی ریاست میں تھا۔ میں تصور ہی تصور میں اس دور میں چلا گیا جب حیدر علی تن تنہا انگریزوں، مرہٹوں اور نظام حیدر آباد کا مقابلہ کر رہا تھا۔ حیدر علی کی زندگی کے بارے چند معلومات آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

حیدر علی کی تاریخ پیدائش سے متعلق مختلف آراء پائی جاتی ہیں لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ 1717 ء سے 1722 ء کے درمیان پیدا ہوئے۔ حیدر علی کے آبا و اجداد کے بارے میں بھی مختلف باتیں کہی جاتی ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق افغانستان سے تھا۔ اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ عرب تھے اور ان کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا۔ کچھ کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ سلطان ٹیپو کے آبا و اجداد عرب تھے جس کا ذکر ایک فرانسیسی نے اپنی کتاب میں کیا ہے کہ حیدر علی نے خود بتایا کہ وہ عرب کے قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے ہیں۔

اگر ایسا ہے تو یقینی طور پر یہ لوگ سمندر کے ذریعے ہی اس علاقے میں آئے۔ اگر وہ افغان یا وسطی ایشیا ء سے ہوتے تو وہ ملتان یا پشاور کے راستے ہندوستان میں داخل ہوئے ہوں گے۔ انھوں نے کچھ عرصہ دلی میں بھی گزارا ہو گا اور بعد میں وہ اس علاقے میں آئے ہوں گے۔ میرے خیال میں وہ عرب تھے۔ اس کی وجہ جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر وہ پنجاب یا افغانستان سے ہوتے تو ان کی دلی میں موجودگی کی کوئی نہ کوئی نشانی ضرور ہوتی۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔

محمود خان محمود نے اپنی کتاب
Kingdom of Hyder Ali and Tipu Sultan: Sultanat E Khudadad
میں اس بارے میں لکھا ہے (صفحہ 30 ) کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ حیدر علی کا خاندان قریش سے تعلق رکھتا ہو۔ وہ پہلے مکہ سے بغداد آئے۔ اس وقت بغداد سے ہندوستان آنے کے دو راستے تھے، ایک ایران اور دوسرا افغانستان اور پنجاب۔ اس لیے ممکن ہے کہ وہ کچھ عرصہ پنجاب میں رہے ہوں جس کی وجہ سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ ان کا تعلق پنجاب سے تھا۔

پراکسی فرنینڈس اپنی کتاب
The Tigers of Mysore: A Biography of Hyder Ali & Tipu Sultan
میں (صفحہ 17 ) لکھتے ہیں کہ سولہویں صدی میں حیدر علی کے جد امجد شیخ ولی محمد دلی سے گلبرگہ آئے تھے۔ یہ بات محمود خان محمود کی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ حیدر علی کا تعلق عرب سے ہی لیکن وہ ہندوستان براستہ پنجاب آئے۔ انھوں نے دلی سے جنوبی ہندوستان کا سفر کیا۔ جس کی وجہ سے یہ بات عام ہے کہ ان کا تعلق پنجاب سے ہے۔ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ان آبائی علاقہ پنڈہ بھٹیاں ضلع حافظ آباد تھا۔ یہ علاقہ بھی افغانستان سے آنے والے لوگوں کی گزرگاہ رہا ہے۔

یہ سب جان کر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ان کا تعلق عرب سے ہی تھا۔ وہ ضرور پنڈی بھٹیاں میں ٹھہرے ہو گیں لیکن یہ ان کا اصل وطن نہیں تھا۔

لیون بینتھام بورینگ اپنی کتاب
Haidar Alí and Tipú Sultán and the Struggle with the Musalmán Powers of the South
جو 1893 ء میں شائع ہوئی تھی میں تفصیل سے لکھا ہے کس طرح حیدر علی ایک نواب کی فوج کے سپاہی سے ترقی کرتے کرتے ایک ریاست کا سلطان بنا (صفحہ 20 لے کر 40 ) ۔ میں جو اس کتاب میں پڑھا اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

حیدر علی کے والد کا نام فتح محمد تھا۔ وہ نواب آف کرناٹک کی فوج میں ایک کمانڈر تھے۔ بعد ازاں انھوں نے میسور کے راجہ کی ملازمت اختیار کر لی۔ میسور کے ہندو راجہ نے انھیں نائک کا خطاب بھی دیا اور ایک جاگیر بھی ان کے نام کی۔ حیدر علی کے والد ہندو راجہ کی طرف سے لڑتے ہوئے ایک جنگ میں مارے گئے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ مسلمان ہونے کے باوجود ہندو راجاؤں کی فوج کے سپاہی بھی تھے اور ان کی خاطر جنگیں بھی لڑتے تھے۔ عام طور پر راجہ کا لفظ ہندو حکمرانوں اور نواب کا لقب مسلمان حکمرانوں نے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

حیدر علی نے نواب آف آرکوٹ کی فوج میں ملازمت اختیار کرلی اور چتور کے علاقے میں براہ راست نواب آف آرکوٹ کے نمائندے عبدالوہاب کی ماتحتی میں رہے۔ وہ اپنے والد کی وفات کے بعد وہ میسور کے ہندو راجہ کی فوج میں بھرتی ہو گئے۔ بعد میں جب حیدر علی نے چتور کو فتح کیا تو عبدالوہاب کو قیدی بنا کر میسور لے گیا۔

حیدر علی بڑا قابل آدمی تھا وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر فوج کا کمانڈر بن گیا۔ اس نے ریاست میسور کی طرف سے ریاست کے مخالفین کے ساتھ کئی جنگیں لڑیں۔ حیدر علی نے اپنی ریاست کو بچانے کے لیے ریاست حیدرآباد اور مراٹھوں کے ساتھ بہت سی لڑائیاں لڑیں، ایک وقت میں اس نے بنگلور کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ ایک لمبی تاریخ ہے کہ کس طرح سے حیدر علی نے میسور کے مخالفین کو شکست فاش دی۔ ان میں ریاست حیدرآباد کا بھی کردار سامنے آتا ہے۔ یہ ایک دلچسپ تاریخ ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ چند باتیں میرے لیے بھی نئی تھیں جو نہایت ہی دلچسپ ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ نہایت ہی اختصار سے واقعات آپ کی خدمت میں پیش کروں۔

حیدر علی سپہ سالار سے نواب اور پھر سلطان

حیدر علی نے اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر ریاست میسور میں بے حد مفید اصلاحات کی۔ انھیں کھانڈے راؤ کی زبردست حمایت حاصل تھی۔ راؤ ایک بہت ہی دانا اور حساب کتاب میں بہت ماہر شخص تھا۔ ایک وقت ایسا آیا جب راجہ نے حیدر علی کو نواب کا خطاب دیا۔ یہ کسی بھی مسلمان کو ریاست میسور میں دیا جانے والا پہلا خطاب تھا۔

راجہ کی وفات کے بعد اس کے کمسن بیٹے کو راجہ بنایا گیا اور جس سے خاندان میں بہت سی چپقلش پیدا ہو گئی۔ کچھ لوگ حیدر علی کے خلاف ہو گئے جن کی قیادت کھانڈے راؤ کر رہے تھے۔ ان لوگوں کی آپس میں جنگیں بھی ہوئیں اور ان جنگوں میں کھانڈے راؤ کو شکست ہوئی اور اس طرح ریاست میسور پر حیدر علی کا قبضہ ہو گیا۔ اب وہ نواب کے بجائے سلطان کہلانے لگے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب دلی میں شاہ عالم کا انگریزوں سے معاہدہ ہو گیا اور وہ انگریزوں کی طرف سے دی جانے والی پنشن پر گزارہ کرنے لگا۔

ایسی صورت میں حیدر علی نے اپنی الگ سلطنت کا اعلان کیا اور نواب کی بجائے سلطان بن گیا۔ ایک ان پڑھ انسان جو ریاست میسور کی فوج کا ایک عام آدمی تھا صرف چند سالوں میں اس کا حکمران بن گیا۔ اس نے فتح حاصل کرنے کے بعد کھانڈے راؤ کو جیل میں ڈال دیا۔ راجہ کی ماں اپنی جان بچانے کے لیے کسی اور کی پناہ لینے پر مجبور ہو گئی۔ بعد ازاں حیدر علی نے اپنی ریاست کی حفاظت کے لیے انگریزوں اور مراٹھوں کے ساتھ کئی لڑائیاں بھی لڑیں ان جنگوں میں فرانسیسی فوجیں حیدر علی کے ساتھ تھیں یعنی ایک طرف انگریز اور ان کے حواری نظام اور مراٹھے اور دوسری طرف حیدر علی اور فرانسیسی۔ تاریخ نے فیصلہ انگریزوں کے حق میں دیا۔ حیدر علی نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح نظام اور مراٹھے اس کے ساتھ مل کر انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کریں لیکن ایسا نہ ہوا۔

پھر نہ مراٹھے بچے، نہ ہی نظام اور نہ ہی حیدر علی۔ سب غلام بن گئے، کوئی بلا واسطہ اور کوئی بالواسطہ۔

راکٹ بطور جنگی ہتھیار

لیون بینتھام بورینگ کی کتاب سے مزید پتہ چلتا ہے کہ سلطان حیدر علی اور سلطان ٹیپو کی قیادت میں میسور نے بے حد ترقی کی۔ ریاست میسور کے راجہ نے اپنی فوج کے لیے فرانسیسی لوگوں کی مدد سے راکٹ تیار کروائے۔ حیدر علی کے والد فتح محمد راکٹوں کے بے حد ماہر تھے۔ حیدر علی اور سلطان ٹیپو نے اپنے دور حکومت میں راکٹ بنانے کے کام کو تیزی سے آگے بڑھایا۔ ان کے بنائے ہوئے راکٹوں کو میسوری راکٹ کہا جاتا ہے۔ ریاست میسور اپنے دور کی بہت ہی مضبوط معیشت رکھنے والی ایک ریاست تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس ریاست میں اس وقت فی کس آمدنی یورپ کے لوگوں سے بھی زیادہ تھی۔

بحری فوج کا قیام

سلطان حیدر علی کا دوسرا اہم ترین کارنامہ بحری فوج کا قیام تھا۔ اس سے پہلے کسی بھی مسلمان حکمران نے بحری فوج قائم نہیں کی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کی حکومت سمندر سے کہیں دور تھی۔ ریاست حیدرآباد کا کچھ حصہ خلیج بنگال سے ضرور ملتا تھا لیکن ان کی زیادہ تر توجہ وسطی ہندوستان کی طرف تھی جس کی وجہ سے انھوں نے بحری فوج کا نہیں سوچا۔ بحری فوج بنانے میں فرانس کے لوگوں نے حیدر علی کی بے حد مدد کی۔ حیدر علی کو اس بات کا احساس تھا کہ انگریزوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بحری فوج کا ہونا ضروری ہے۔ حیدر علی اور انگریزوں کی بحری فوجوں کے درمیان لڑائی بھی ہوئی۔

جیسا کہ پچھلے صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ حیدر علی کے آبا و اجداد عرب سے آئے تھے عرب سے جو بھی لوگ آئے وہ زیادہ تر سمندر کے راستے ہی آئے اور ان کی منزل جنوبی ہندوستان ہی تھا۔ صرف محمد بن قاسم نے اپنے آپ کو سندھ تک محدود رکھا تھا۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ حیدر علی کے آبا و اجداد سمندری سفر کے عادی تھے۔ وہ یقیناً سمندری سفر کے معاملات کو بہتر طور پر جانتے ہوں گے۔ اسی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حیدر علی نے بحری فوج کا سوچا اور وہ ایک مضبوط بحری بیڑا بنانے میں بھی کامیاب ہوا۔ حیدر علی کے دور میں میسور کا رقبہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار مربع کلو میٹر تھا۔ آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پاکستانی پنجاب کا رقبہ دو لاکھ پانچ ہزار کلو میٹر ہے۔

ہم چتور سے گزر رہے تھے اور میں چشم تصور سے حیدر علی اور اس کی فوجوں کو تن تنہا انگریزوں کا مقابلہ کرتے دیکھ رہا تھا۔ حیدر علی نے اس علاقے میں اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیں اور 1782 ء میں ایک کامیاب سپہ سالار اور حکمران کی زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔ حیدر علی کی وفات کے وقت سلطان ٹیپو مالابار کی مہمات پر تھا۔ اسے واپس بلایا گیا۔ ان کے چچا نے انھیں سلطان بنانے کی مخالفت کی اور ان کے بھائی کو سلطان بنانا چاہا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ سب نے ٹیپو کی حمایت کی اور اسے ریاست کا سلطان بنا دیا گیا۔

ریاست میسور ایک ہندو ریاست تھی جس کا قیام 1339 ء میں عمل میں آیا۔ حیدر علی اور سلطان ٹیپو نے 1761 ء سے 1799 ء تک یہاں حکومت کی لیکن اس دوران بھی ریاست کے سابقہ حکمران اپنے حق حکمرانی سے دستبردار نہیں ہوئے۔ جبکہ عملاً ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ جیسے ہی سلطان ٹیپو کی شہادت ہوئی تو وہ دوبارہ اس ریاست کے حاکم بن گئے۔ اب ان کے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ موجود نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مراٹھے ریاست میسور کے خلاف تھے اور انھوں نے اسے ختم کرنے کے لیے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ بعد ازاں اس ریاست پر مراٹھوں اور انگریزوں نے باری باری حکومت کی۔ شاید یہ ان دونوں کے درمیان کسی معاہدے کا حصہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments