نربھیا واقعے کے دس برس: دلی گینگ ریپ نے کیا کچھ بدلا؟


نربھیا
نوٹ: اس رپورٹ میں جنسی تشدد سمیت ایسا مواد شامل ہے جو کچھ قارئین کے لیے پریشان کُن ہو سکتا ہے۔

ایک دہائی قبل دسمبر میں دہلی میں ایک ہولناک اجتماعی عصمت دری اور قتل کا ایک واقعہ پیش آیا، جس کے بعد انڈیا میں سب کی توجہ اس موضوع کی طرف مرکوز ہوئی جو اس سے قبل قومی سطح پر زیربحث نہیں رہا، یعنی خواتین پر تشدد کا مسئلہ۔

جب 23 برس کی جیوتی سنگھ کو دہلی میں ایک بس ڈرائیور اور اس کے پانچ ساتھیوں نے گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تو اس واقعے نے دنیا کو چونکا کر رکھ دیا۔

جیوتی، جسے میڈیا نے ’نربھیا‘ یا ’بے خوف‘ کا خطاب دیا تھا، نے اس ظلم کا مقابلہ کیا۔ اس جنسی تشدد کے دوران انھیں اندرونی چوٹیں آئیں اور انھیں برہنہ حالت میں بس سے نیچے پھینک دیا گیا۔ وہ اس تشدد کے واقعے کے دو ہفتے کے اندر ہی دم توڑ گئیں۔

اس واقعے نے احتجاج کے ایک نئے سلسلے کو جنم دیا۔ دہلی میں انصاف کے حصول کے لیے سینکڑوں نوجوان خواتین اور مردوں نے سخت سردی میں مارچ کیا۔ مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے پانی اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔

’خوف‘ اس حملے کی میری اپنی پہلی یاد ہے۔ مجھے وہ خوف یاد ہے جب میں نے اس پر ہونے والے تشدد سے متعلق خوفناک رپورٹس پڑھی تھیں۔۔۔ نربھیا کے جسم کے اندر لوہےکا راڈ گھسایا گیا اور ان کی آنتیں باہر نکالی گئی تھیں۔

میں خود کو کافی جنگجو سمجھتا تھا، دہلی میں اکثر سڑکوں پر ہراسانی جیسے واقعات کا مشاہدہ کرتے ہوئے بڑا ہوا تھا، مگر اس واقعے نے مجھے بھی خوفزدہ کر دیا۔

سنہ 2012 کے مظاہرے کسی حد تک تبدیلی کا سبب بنے۔ خواتین کے خلاف تشدد پر قوانین میں ترامیم متعارف کرائی گئیں، پولیس کی ناقص تفتیش کے لیے سزاؤں کا تعین کیا گیا اور مجرموں کے لیے سخت سزائیں متعارف کرائی گئیں۔ سزائے موت کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا۔
لیکن ایک دہائی بعد انڈیا میں خواتین کے لیے اب بھی اہم خطرات موجود ہیں۔ گذشتہ دہائی میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

ایک خاتون جو ریپ جیسے جرائم کے خلاف برسرپیکار ہیں وہ جیوتی سنگھ کی ماں آشا دیوی ہیں۔

نربھیا ریپ کیس دلی

ان کے اس تجربے نے انھیں اپنی بیٹی کی یاد میں نربھیا جیوتی ٹرسٹ قائم کرنے کی ترغیب دی۔ انڈین قانون میں ریپ متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے لیے نام ظاہر کرنا ضروری نہیں ہے لیکن آشا نے سنہ 2015 میں اپنی بیٹی کا نام عام کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ ’گھناؤنے جرائم کرنے والوں کو شرم آنی چاہیے، متاثرین کے اہل خانہ کو نہیں۔‘

آشا نے نہ صرف اپنی بیٹی کے لیے انصاف کی مہم چلائی بلکہ وہ اس جدوجہد کے ذریعے دوسروں کے لیے بھی ایک اہم سہارا ثابت ہوئی ہیں۔ اس عرصے میں بہت سے ایسے لوگوں نے آشا سے رابطہ کیا ہے۔

انھوں نے دہلی میں اپنے چھوٹے سے فلیٹ میں مجھے بتایا کہ ’بعض اوقات آگے بڑھنے کے لیے صرف اُمید کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

ان کے مطابق’عام مقدمات میں پیچیدہ عدالتی عمل کا حصہ بننا مشکل محسوس ہوتا ہے، اس لیے میں نے جو کچھ سیکھا ہے اسے شیئر کرتی ہوں اور قانونی مدد کے لیے ان کی رہنمائی کرتا ہوں۔‘

’میں نے بہت سارے لوگوں میں سے صرف مُٹھی بھر لوگوں کا سراغ لگایا ہے اور ان سے بات کی ہے۔‘

ان میں سے ایک سیما کشواہا ہے، جو جیوتی کی موت کے وقت ایک طالبہ تھیں اور اس ریپ اور قتل کے واقعے کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ نیو دہلی کے احتجاج میں شامل ہوئی تھیں۔

ان کے ساتھ فلیٹ میں رہنے والی 20 طالبات میں سے نصف کو تو پریشانی میں مبتلا ان کے گھر والوں نے واپس بلا لیا مگر وہ شہر میں ہی رہیں، اور اپنی تعلیم جاری رکھی۔

Delhi rape

وہ قانون کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور جیوتی کے کیس میں عدالتی سماعتوں کا حصہ بن گئیں۔ انھوں نے محسوس کیا کہ انھیں جیوتی کے خاندان کو انصاف کی تلاش میں مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ سیما بالآخر قانونی ٹیم میں شامل ہوگئیں۔ اس مقدمے میں ملوث چار ملزمان کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔

جب آخری لمحات میں سپریم کورٹ کی سماعت میں اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ ملزمان کو پھانسی دی جائے گی، سیما سیدھی دوڑے دوڑے آشا کے گھر پہنچیں اور جیوتی کی تصویر کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بتایا کہ انھوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ اس کے بعد وہ خوشی اور غم کے جذبات میں زاروقطار رونا شروع ہوگئیں۔

ان کے مطابق ’پورے ملک کی نظریں اس مقدمے پر تھیں، اور یہ ضروری تھا کہ ریپ کرنے والوں کو پھانسی دے دی جائے۔‘

سنہ 2013 میں قتل اور گینگ ریپ کے گھناؤنے واقعات کے لیے سزائے موت لانے کا فیصلہ جزوی طور پر حکومت کا ایک عوامی مقبولیت حاصل کرنے جیسا اقدام تھا کیونکہ ملک بھر میں مظاہروں میں اضافہ ہوا تھا۔ اس سے اس خیال کو تقویت ملی کہ ریپ میں زیادہ تر اجنبی، ناخواندہ، غریب یا بے روزگار افراد ملوث ہوتے ہیں۔
نربھیا کے گینگ ریپ اور قتل میں ملوث تمام افراد بھی اسی پس منظر کے حامل ہیں۔

لیکن
انڈین حکومت کے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ریپ کے تمام واقعات میں سے 95 فیصد سے زیادہ میں ملوث مجرم متاثرین کے جاننے والے ہوتے ہیں۔۔۔ رشتہ دار، دوست، پڑوسی اور ساتھ کام کرنے والے۔

India

انڈیا میں سنہ 2012 سے جرائم میں اضافہ ہوا ہے

پنکج (ان کا اصل نام نہیں) کی 13 برس کی بہن کو ان کے گھر کے قریب ایک کھیت میں ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔

پنکج کو کھیتوں سے اپنی بہن کی لاش ملی۔ ان پر بار بار چاقو کے وار کیے گئے اور ان کی گردن میں بانس کی چھڑی گھونپ دی گئی تھی۔

پنکج کی بہن پر حملہ جیوتی کے ریپ اور قتل سے قبل موسم گرما میں ہوا تھا اور وہ بھی اتنا ہی وحشیانہ تھا۔

یہ واقعہ مشرقی انڈیا کی غریب ریاستوں میں سے ایک کے دور دراز گاؤں میں پیش آیا، جو دارالحکومت سے بہت دُور تھا، اور صرف مقامی اخبارات میں اس کی خبر تھی۔
پنکج نے مجھے اپنے چھوٹے کچے مکان میں بیٹھ کر بتایا کہ ’ان کی کہانی کبھی سامنے نہیں آئی، کوئی غم و غصہ نہیں تھا، انصاف کے لیے کوئی چیخ و پکار نہیں ہوئی۔‘

جیوتی کے برعکس، جس پر اجنبیوں نے حملہ کیا تھا، ان کی بہن کے معاملے میں گرفتار کیے گئے چار افراد میں سے سبھی جاننے والے تھے، جن میں ایک پڑوسی اور ایک ٹیچر بھی شامل تھے، جو انھیں سکول کے بعد ٹیوشن پڑھاتے تھے۔

پنکج نے مجھے بتایا کہ ’جب پولیس نے استاد کو گرفتار کیا، تو میں نے سوچا کہ انھوں نے غلطی کی ہے کیونکہ ایک ‘استاد’ کا اپنے شاگرد کے ساتھ بہت مقدس رشتہ ہوتا ہے۔

’جب انھوں نے اعتراف جرم کیا اور حملے میں استعمال ہونے والا چاقو برآمد کرنے میں مدد کی تو پھر مجھے یقین ہوا۔‘

نربھیا

ان افراد کو سنہ 2016 میں مقامی عدالت نے مجرم قرار دیا تھا اور انھیں سزائے موت سنائی تھی۔ لیکن ان کی اپیل پر، ہائی کورٹ نے انھیں سنہ 2021 میں یہ کہتے ہوئے بری کر دیا تھا کہ اگرچہ یہ جرم سنگین تھا، استغاثہ اس کے خلاف ثبوت فراہم کرنے میں ’بُری طرح ناکام‘ رہا تھا۔ استاد سمیت چاروں ملزمان نے بعد میں صحت جرم سے انکار کر دیا۔

پولیس حکام کی جانب سے شواہد غلط طریقے سے جمع کرنا اور گواہی کی ریکارڈنگ کئی ریپ کے مقدمات میں بری ہونے کی وجہ بنی ہے، جس میں گذشتہ ماہ کا ایک کیس بھی شامل ہے، جس سے متاثرہ خاندانوں کو ملزمان کے پاس جانے کا خطرہ لاحق ہے۔

پنکج کا بھی یہی حال تھا۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ’وہ گاؤں کے بازار میں آئے اور مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔‘
پھر بھی انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔

صرف اخباری تراشے کے ساتھ مسلح ہو کر وہ اپنی بہن کے لیے انصاف حاصل کرنے کی کوشش میں دہلی چلا گیا۔ اور وہ اخباری مضمون جو انھوں نے بہت احتیاط سے رکھا تھا وہ آشا دیوی کے بارے میں تھا۔

پنکج کے لیے آشا سے ملاقات نے ایک اہم دروازہ کھولا۔ جیوتی کا مقدمہ لڑنے والے ایک سینئیر وکیل اب ہائی کورٹ میں ان کی بہن کے قاتلوں کو بری کیے جانے کے خلاف اپیل کر رہے ہیں۔

پنکج کہتے ہیں کہ ’مجھے انصاف کے نظام پر بھروسہ ہے۔‘

نربھیا

انڈین نظام انصاف میں بھلے ہی مقدمات کی بھرمار ہو اور انصاف کے حصول کا عمل سست ہو لیکن ریپ جیسے مقدمات میں اس کی کارکردگی تسلی بخش ہے کیونکہ اس سے ججز کو احتساب کے مطالبے پر عمل کرنے، میڈیا کی توجہ اور عوامی ہمدردی حاصل ہوتی ہے، جس چیز کو بہت کم کوریج ملتی ہے وہ ہے گھروں کے اندر تشدد۔

گھریلو تشدد انڈیا میں خواتین کے خلاف سب سے بڑا جُرم ہے، جہاں ریپ کے مقابلے میں چار گنا زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

45 سالہ سنہا نے بی بی سی ’100 ویمن‘ کو بتایا کہ ان کے شوہر نے انھیں زیادہ جہیز کا مطالبہ کرنے پر اکثر مارا پیٹا لیکن 24 دسمبر 2000 کو تشدد کے ان واقعات نے تباہ کن موڑ لیا۔

ان کے مطابق ’ایک رات، غصے کے عالم میں، انھوں نے مٹی کا تیل پھینکا، ماچس جلائی اور میرا چہرہ، سینہ اور بازو جلایا۔‘ انھیں ان کے جوان بیٹے کے سامنے جلا دیا گیا۔

لیکن وہ با اثر تھے۔ اور انھوں نے اس کی اطلاع پولیس کو نہیں دی۔ انھوں نے سنہا کے خاندان کو بتایا کہ وہ مر چکی ہیں۔

ہسپتال میں صحت یاب ہونے کے دوران سنہا نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ ان کے شوہر نے ہی ان پر حملہ کیا تھا۔

ایک صحافی جس نے گھریلو تشدد سے لڑنے والی خواتین کی بہت سی کہانیاں سنی تھیں نے بتایا کہ یہ میرے لیے بھی حیران کن تھا۔ والدین اپنی بیٹیوں کو کمزور حالت میں کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟

سنہا نے جو تشدد برداشت کیا اسے گھر کی چار دیواری کے پیچھے چھپا کر رکھا گیا تھا۔ لیکن 12 سال بعد نربھیا پر حملے نے اسے بدل دیا۔

سنہ 2013 میں سنہا کو ایک ڈرامے میں مدعو کیا گیا تھا، جس کا نام نربھیا کے نام پر رکھا گیا تھا اور زندہ بچ جانے والوں کی حقیقی شہادتوں پر مبنی تھا، جس کا مقصد خواتین کے خلاف تشدد کے بارے میں خاموشی کو توڑنا تھا۔

اگلے چار برس تک، سنہا نے اپنی کہانی دنیا بھر کے ناظرین کے ساتھ شیئر کی۔ وہ اس کاسٹ کی وہ واحد رکن جو پیشہ ور اداکار نہیں تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس ڈرامے نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ اس نے مجھے بدل دیا۔ ہماری پرفارمنس کے بعد سامعین میں بہت سے لوگ آتے اور اپنی اپنی کہانیاں شیئر کرتے۔ اس نے مجھے اپنے صدمے پر قابو پانے میں مدد کی۔ میں اب تنہا محسوس نہیں کرتی تھی۔‘

نربھیا

ان کے مطابق صدمے پر قابو پانے، مدد کے حصول اور انصاف کے لیے لڑنے کے سفر میں یہ تنہائی میری گفتگو میں بار بار آنے والا موضوع تھا۔

برکھا بجاج نے پریشانی میں مبتلا خواتین کے لیے ایک کرائسس لائن شروع کی۔ ایک تربیت یافتہ ماہر نفسیات اور دماغی صحت پریکٹیشنر برکھا پہلے ہی امریکہ میں جنسی استحصال سے بچ جانے والوں کے ساتھ کام کر چکی تھیں لیکن نربھیا کیس ان کی زندگی میں ایک اہم موڑ تھا۔

سنہ 2012 کے آخر میں وہ شمال مشرقی انڈیا میں ٹرین میں اکیلی سفر کر رہی تھیں، ان کے ڈبے میں کوئی دوسری عورت نہیں تھی۔ جیوتی کے حملے کی تفصیلات ان کے دماغ میں چل رہی تھیں اور خوف کے بادل مزید گہرے ہوتے جا رہے تھے۔

انھوں نے اپنے ہاتھ میں سرخ مرچ والا پاؤڈر ہاتھ میں رکھ کر اپنے جوتوں پر ہی سونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اگر کوئی ناخوشگوار واقع ہو گیا تو ایسے میں اطلاع دینے کے لیے ان کے پاس کوئی ہیلپ لائن بھی نہیں تھی۔

برکھا بجاج

یہ بھی پڑھیے

انڈیا: نربھیا ریپ اور قتل کیس کے چار مجرموں کو پھانسی دے دی گئی

حیدرآباد کیس: کیا انڈیا کا عدالتی نظام ریپ کے مقدمات سے نمٹنے میں ناکام ہے؟

دلی، شہریت بل اور ریاستی انتخابات: بے جے پی کہتی ہے ’شاہین باغ والے آپ کی بہن بیٹیوں کا ریپ کریں گے‘

انھوں نے مجھے ویڈیو چیٹ پر بتایا کہ ’اس احساس نے میرے تمام خوف کو نتیجہ خیز بنا دیا۔‘

اگرچہ یہ ہیلپ لائن اجنبیوں کے ذریعے ریپ جیسے مقدمات میں متاثرین کی مدد کے لیے قائم کی گئی تھی، لیکن پچھلے نو برسوں سے انھوں نے اپنا زیادہ تر وقت گھر میں تشدد سے بچنے کی کوشش کرنے والی خواتین کی کالوں کا جواب دینے میں صرف کیا ہے۔

برکھا کہتی ہیں کہ ’ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک بہت بہتر ریاستی انفراسٹرکچر کی ہے، جو خواتین کی مدد کرے جب وہ ایسی شادیوں سے باہر نکلتی ہیں اور جب وہ عدالتی جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتی ہیں تو ان کے لیے سستی قانونی وکلا کی فراہمی بھی اس میں شامل ہے۔‘

اسی احساس نے سیما کو اب عملی سیاست میں آنے پر مجبور کیا ہے۔

اس سال کے آغاز میں سیما نے بہوجن سماج پارٹی میں شمولیت اختیار کی، جو دلتوں کے حقوق کے لیے لڑتی ہے۔ یہ ایک کمیونٹی ہے جو کہ ہندو ذات کے گہرے امتیازی نظام کی سب سے نچلی سطح پر ہے۔

خود ایک دلت، سیما انصاف، خاص طور پر صنفی انصاف کے لیے جنگ لڑ رہی ہیں اور اپنی برادری کے مساوی حقوق کے لیے لڑنے میں یقین رکھتی ہیں۔ وہ امید کرتی ہیں کہ بطور سیاست دان وہ ذات پات اور صنفی مساوات دونوں کو نافذ کرنے میں زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں۔

Delit

وہ کہتی ہیں کہ ’جنسی تشدد ایک مسئلہ ہے، لیکن معاشرے میں عدم مساوات ہمارے خاندانوں، شادیوں کے ڈھانچے، سیاست میں پھیلی ہوئی ہے۔۔۔ ان سب کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

نربھیا کی والدہ، آشا دیوی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ خواتین کی حفاظت کے لیے بڑی تبدیلی لانا انتہائی مشکل ہے۔
ان کے مطابق ’ہم نے سوچا کہ ہم دوسری لڑکیوں کے لیے چیزیں بدل دیں گے، لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘

وہ پولیس اور سرکاری وکلا کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتیں۔ ان کے مطابق عدالتی عمل ایک پیچیدہ طریقہ کار ہے، جس میں معلومات کا حصول مشکل ہے۔

ان کے مطابق ’میں تعلیم یافتہ نہیں ہوں، لیکن میں ایک جنگجو ہوں اور میں نے اپنی بیٹی کو انصاف دلانے کا وعدہ کیا تھا۔ دوسروں کے درد کو سن کر صدمہ ہوتا ہے، لیکن انصاف کے لیے ان کی طویل اور تنہا جنگ میں ان کے ساتھ رہنا مجھے سکون بھی دیتا ہے، جس طرح کچھ لوگ میرے ساتھ کھڑے تھے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments