ڈاکٹر خالد سہیل کی کتاب زندگی کے راز


مصنف ڈاکٹر خالد سہیل
تبصرہ دعا عظیمی

”زندگی ایک راز ہے اور وقت بھی ایک راز ہے اور وقت کی کوکھ میں بہت سے اور راز بھی پوشیدہ ہیں جن سے شاعر اور دانشور ہمارا تعارف کراتے رہتے ہیں تاکہ ہم وقت کی اہمیت اور افادیت کو بہتر سمجھ سکیں۔“

یہ ڈاکٹر خالد سہیل کی کتاب ’زندگی کے راز‘ کی چند سطور ہیں۔ اس کتاب کو ”کتابی دنیا“ والوں نے زیور طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ کتھئی اور سرمئی رنگوں کے اسرار میں لپٹے سرورق پر سفید رنگ سے کتاب اور مصنف کا نام روشن ہے۔ سرمئی پانیوں پر سورج کی کتھئی روشنی میں تین پرندے آفاق کے چہرے پہ مسکراہٹ بن کر اڑ رہے ہیں۔ سرورق بنانے والے فنکار کے فن کو داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔

ڈاکٹر خالد سہیل جو اپنی نثر کی شگفتگی، بے ساختگی اور روانی کی وجہ سے اپنے قارئین میں بے حد مقبول ہیں۔ یہ کتاب ان کے ادبی، سائنسی اور نفسیاتی کالموں کا مجموعہ ہے۔ یہ کالمز دوسرے کالم نگاروں کے روایتی کالمز کی طرح خشک اور بورنگ نہیں ہیں جس کی وجہ صاحب کتاب کے منفرد موضوعات کا چناؤ بھی ہے اور دلچسپ طرز تحریر بھی۔

یہ کالمز کرہ ارض پر بسنے والے بنی نوع انسان کی کہانی ہے۔ اس کے حیاتیاتی پہلوؤں سے لے کر نفسیاتی، صنفی، سماجی ادبی تبدیلیوں اور ترقی کی صدیوں پر محیط سفر کی تفصیل ہے جو عام فہم ہے۔ یہ کالمز کہانی کی شکل میں ہیں جو قارئین سے مکالمہ کرتے ہیں۔ کہیں قصے سناتے ہیں تو کہیں قاری کو اپنے قدم سے قدم ملا کر چلنے کی دعوت دیتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں۔

درویش کی یہ کتاب بھی ان کے عالی مقصد یعنی انقلاب بذریعہ تعلیم کی طرف ایک اور قدم ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل کا اردو ادب کے قارئین پر یہ احسان ہے کہ بہت سے اردو پڑھنے والے جن کو انگریزی پڑھنے کی عادت نہیں ہے ان کے لیے سائنسی علوم اور ہسٹری کے دروازے اپنی زبان میں کھول دیتے ہیں۔ یہ کالمز ترجمہ شدہ نہیں ہوتے بلکہ ان مضامین کو جذب کرنے کے بعد اس کا نچوڑ، حاصل قارئین کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے عام قارئین کو اپنی زبان میں سائنس، نفسیات تاریخ اور فلسفے کے متعلق مشکل موضوعات پر معلومات حاصل کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔

ایک ماہر نفسیات ادیب ہونے کی وجہ سے وہ جانتے ہیں کہ انسانی ذہن کی دلچسپی کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ انہیں علم ہے کہ کون سا لفظ کہاں کہنا ہے جیسے کہ لفظ ’راز‘ کے کیا اثرات ہیں۔ اس میں کتنا تجسس چھپا ہوتا ہے۔

وہ اپنے آپ کو درویش مانتے ہیں مگر میں نے جب سے لفظ درویش کا مطلب کچھ یوں سنا ہے کہ درویش دو الفاظ کا مجموعہ ہے ویش کا مطلب بکھیرنا اور در کا مطلب موتی ہوتا ہے اور مطلب موتی بکھیرنے والا ہے تو تب سے میں صاحب کتاب کو حقیقی درویش ہی مانتی ہوں کیونکہ یہ درویش علم کے موتی چنتے بھی ہیں، پروتے بھی اور بکھیرتے بھی ہیں۔

یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ ان کی کتابوں میں جتنے صفحات ہیں ان سے کہیں زیادہ معتبر فلسفیوں، دانشوروں اور سائنسدانوں کی سوانح عمریوں کا خلاصہ ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ایسے کالم نگار ہیں جو ہمارا تعارف بڑے بڑے دانشوروں اور سائنسدانوں سے اس طرح کراتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے محلے دار یا رشتے دار محسوس ہونے لگتے ہیں۔

قارئین ان کے مضامین کے توسط سے نہ صرف مختلف سائنسدانوں، فلسفیوں اور محققین اور ادیبوں کے سائنسی، علمی اور ادبی کارناموں سے واقفیت حاصل کرتے ہیں بلکہ انہیں انسانی تاریخ کے مختلف شعبوں میں ہونے والی بتدریج ترقی سے بھی آگاہی ملتی ہے۔

مجھے خیال آتا ہے کہ ڈاکٹر خالد سہیل صاحب اپنے قارئین کو نہ صرف انار چھیل کر پلیٹ بھر کر انار کے دانے پیش کرتے ہیں بلکہ اس کا رس نکال کر گلاس میں ڈال کر دیتے ہیں تاکہ وہ علم و دانش کا علمی اناری جوس پی لیں۔

کتاب ’زندگی کے راز‘ ارتقا کے سفر میں شامل عظیم شخصیات کی تحقیقات، تخلیقات اور خدمات کے سفر کی تاریخی داستان سناتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان تاریخ ساز کرداروں کے بچپن کے واقعات، صنف مخالف سے تعلقات، نفسیاتی بحرانوں ذاتی اور جذباتی زندگی کے ان گوشوں کو بے نقاب کرتی ہے جن کا ذکر اردو زبان کی دوسری کتابوں میں عام نہیں ملتا۔

جیسے کہ وہ ذکر کرتے ہیں کہ تھیلز نے شادی نہیں کی یا نیوٹن کے والد کا نام بھی نیوٹن تھا۔ آئین سٹائین کی سائنسی خدمات کے ساتھ ساتھ کتاب یہ راز بھی کھولتی ہے مثال کے طور پر کہ ان کے کس کس خاتون سے رومانوی مراسم تھے اور یہ کہ مسلمان سائنسدان الحازن کا اصلی نام الحسن تھا۔ انہوں نے ایسی گھڑی بنائی جو پانی سے چلتی تھی اور گھنٹوں اور منٹوں میں صحیح وقت بتاتی تھی۔

وہ سورج کی روشنی میں اس وقت تک کھڑے رہے جب تک ان کا سایہ ان کے قد کے برابر نہیں ہو گیا۔ اس طریقے سے انہوں نے مصریوں کو پیرامڈز کی بلندی کے بارے میں بتایا۔ یہ خشک مضامین کو دلفریب بنانے کے لیے کہیں اقوال زریں کے تارے ٹانکتے ہیں تو کہیں مصرعوں، اشعار اور نظموں کے موتی سجاتے ہیں تو کہیں واقعات سے مالا بنتے ہیں۔

خلا کی بات ہوتی ہے تو ان کی نظم سامنے آتی ہے۔
خلا
خلا اتنا نہیں خالی کہ جتنا ہم سمجھتے ہیں
خلا کی کوکھ ان دیکھی توانائی کا منبع ہے
خلا کا راز پر اسرار دانائی کا مرکز ہے
کہیں یہ قاری کو مخاطب کر کے سوالیہ انداز اپناتے ہیں۔
جیسے کہ کارولو لوروویلی اور وقت کے راز میں انداز یہ ہے
کیا آپ کا وقت کا تصور
رومانوی ہے یا سائنسی؟
عامیانہ ہے یا دانشورانہ؟
کیا آپ وقت کو بیکار سمجھ کر ضائع کرتے ہیں؟ یا اس کی عزت کرتے ہیں؟
کیا وقت ہمارے اندر رہتا ہے یا ہم وقت کے اندر؟
سوالات کا یہ سلسلہ پڑھنے والے کو احساس دلاتا ہے کہ جیسے کوئی بات کر رہا ہو۔
کتاب میں شامل نیوٹن کا ایک قول

”سچ کے سمندر کے کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے مجھے چند سیپیاں مل جاتی ہیں۔“ ایسے ہی زندگی کے راز پڑھتے پڑھتے ایک قاری کے ہاتھ بھی علم کے خزانے، موتی اور سیپیوں سے بھر جاتے ہیں۔

کبھی کبھار محسوس ہوتا ہے ڈاکٹر خالد سہیل سر سید احمد خان کی طرح کسی علمی اور ادبی تحریک کے بانی ہیں۔ مسلمانوں اور اردو پڑھنے والوں کو سائنسی علوم کی طرف مائل کرنے کی کوشش میں، جدید طرز فکر سے روشناس کر کے منطقی انداز میں سوچنے کی دعوت دیتے ہیں۔

انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے لیے انہوں نے کتاب کو چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے سائنس کے راز کا کا آغاز فادر آف سائنٹسٹ تھیلز آف میلیٹس کی کہانی سے ہوتا ہے۔ اگر میری نظر سے ان کی یہ کتاب ’زندگی کے راز‘ نہ گزرتی تو میں عمر بھر نہ جان سکتی کہ تھیلز کون تھے۔ ان کے نام کا مطلب کیا ہے۔

ایک طالبعلم کو اس باب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تھیلز کے فلسفے میں پانی کو کیا اہمیت حاصل ہے۔ چونکہ پانی تھل کہلاتا ہے۔ ان کا نام اسی مناسبت سے تھیلز ہے۔

گو ڈاکٹر خالد سہیل خود انسان دوست ہیں مگر جب بھی سائنسی علوم کی تاریخ کا ذکر ہو وہ خاص طور پر مسلمان سائنسدانوں کا ذکر کرنا نہیں بھولتے بلکہ فرماتے ہیں کہ

”اگر مسلمان فلاسفر اپنے نظریات پیش نہ کرتے اور یونانی فلسفیوں کی تخلیقات کا ترجمہ نہ کرتے تو مغربی سائنس وجود میں نہ آتی۔“ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مصنف کس قدر منصف مزاج ہیں اور ہرگز متعصب انسان نہیں ہیں۔

ایک کالم میں جب روشنی کی سائنسی تفہیم کو چار ادوار میں تقسیم کرتے ہیں تو دوسرے دور میں جابر بن حیان، الخوارزمی الکندی اور الحازن کے شہ پاروں کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہیں اور روشنی کے موضوع پر مسلمان سائنسدانوں کی تحقیقات کا بالخصوص ذکر کرتے ہیں۔

قاری کتاب کے دوسرے باب کی طرف بڑھتا ہے تو اس پر انسانی نفسیات کے بہت سے راز کھلتے ہیں۔
نفسیات کے باوا آدم سگمنڈ فرائڈ کی اڈ ایگو اور سپر ایگو اور ڈیفینسیو میکانزم کی اصطلاحات، تحلیل نفسی
لاشعور کے جنسی تضادات،
انسانی نفسیات میں خواب کی اہمیت
کارل ینگ اور اجتماعی شعور، انٹروورٹ اور ایکسٹروورٹ کے تصور،
سالیوان کے گڈ می اور بیڈ می کا ذہنی صحت سے تعلق کا نظریہ،
مرے بوون اور خاندان کی نفسیات اور تکونی رشتے
جان بولبی اور بچے کے پہلے دو سال
ایرک ایرکسن اور انسانی زندگی کے مختلف ادوار ان کی اپنی زندگی کا تعارف
ابراہم ماسلو اور اور انسانی ضروریات کے پانچ طبقات
ایرک فرام ان کی کتاب دا آرٹ آف لونگ کے محبت کے بارے میں جدید نظریات کے متعلق بہت سا علم ہے۔

میری رائے ہے کہ جو کوئی انسانی شخصیت کی پرتوں کو سمجھنا چاہے وہ نفسیات کا خلاصہ ان دس اقساط سے حاصل کر سکتا ہے، جو وہ بڑی بڑی ڈگریاں لے کے نہیں لے سکتا۔

ایک تو یہ اپنی زبان میں ہے دوسرے عام فہم ہے تیسرے دلچسپ بنا کے بتائی گئی بات چیت کے سے انداز میں ہے جو صرف ڈاکٹر خالد سہیل کا خاصہ ہے۔

اس کے بعد قاری ادب عالیہ کے اسرارورموز سمجھتا ہے جس کے لیے ڈاکٹر صاحب نے کیمیو اور سارتر کے فلسفے کا انتخاب کیا ہے۔ کیمیو کے ناول اجنبی کا تعارف کراتے ہیں بتاتے ہیں کہ ژال پال سارتر کا وجودیت کا فلسفہ انسان کو اپنے اعمال اور ان کے نتائج قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ انسان ایک بہتر انسان بن سکے۔ کتاب ہیمنگ وے، خلیل جبران اور سلویا پلاتھ اور خودکشی کے متعلق بہت سے رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل سلویا پلاتھ کے بارے میں کہتے ہیں۔

”سلویا پلاتھ کی ادبی کرامت یہ ہے کہ انہوں نے محبت کی موت کی کوکھ سے ادب عالیہ کو جنم دیا۔ وہ خود تو فوت ہو گئیں لیکن نسوانی ادب کو زندہ جاوید کر گئیں۔“

سو اسی طرح اگلے باب میں عورتوں کی آزادی اور خود مختاری کے راز بیان کرتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ
اگر ہم اکیسویں صدی کی عورتوں کا اٹھارہویں صدی کی عورتوں سے مقابلہ کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ
”اکیسویں صدی کی عورتوں کو ووٹ دینے کا حق
تعلیم حاصل کرنے کا حق
ملازمت کرنے کا حق
اپنا شریک حیات چننے کا حق
بینک اکاؤنٹ کھولنے کا حق
اکیلے رہنے کا حق
کار چلانے کا حق
اور کئی ایسے حقوق حاصل ہیں جو اٹھارہویں صدی کی عورتوں کو حاصل نہیں تھے۔ ”

اس کتاب میں ان تمام خواتین کی کوششوں کا ذکر ہے جنہوں نے دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کیں۔ جن میں امریکہ کی بیٹی فریڈسن، فرانس کی سییمون دی بووا، آسٹریلیا کی جرمین گریر ایما گولڈ ایک غیر روایتی نن اینائیس نن کے نظریات اور خواتین کو سماج میں اپنی خودمختار حیثیت سے جینے کا حق دلوانے میں جو خدمات سر انجام دیں ان کا تفصیلی ذکر ہے۔ فریڈا فرام رائخمین جو ایک ماہر نفسیات تھیں جنہوں نے ایک کامیاب تھیراپسٹ بننے کے اصول وضع کیے۔ روس کی لو سیلوم جنہوں نے عورت کی آزادی کے راز جاننے کی کوشش کی جو ایک ذہین عورت تھیں۔ ان کی زندگی کے نشیب و فراز کی کہانی بیان کی۔ سیاہ فام شاعرہ اوڈری لورڈی اور ویمن ازم کی تحریک اور قربانیوں کا ذکر ہے۔ آخر میں فہمیدہ ریاض صاحبہ اور ان کی شاعری اور اردو ادب کی مایہ ناز تخلیق کار کی کاوشوں، شاعری اور ذات پر گفتگو ہے۔

پانچواں باب انسانی ارتقاء کے راز کے نام سے ہے جس میں ڈارون اور زندگی کے ارتقا سے لے کر سٹیون ہاکنگ اور کائنات کا ارتقا، کارل مارکس اور انسانوں کا سماجی ارتقا، ہیگل اور انسانی تاریخ کا ارتقا، یو وال ہراری اور انسانوں کا معاشرتی ارتقا کا مکمل جائزہ ہے۔

کتاب ’زندگی کے راز‘ کے آخری باب میں مصنف اپنے کالم میں

کین ولبر کا ذکر کرتے ہیں جو اکیسویں صدی کے ماہر نفسیات، سماجیات اور روحانیت تھے۔ جنہوں نے انسانی شعور کے ارتقا کا ایک نیا نظریہ پیش کیا۔

جس کی تفصیل کچھ ایسے ہے کہ

” کین ولبر کا کہنا ہے انسانی شعور کا ارتقا انفرادی اور اجتماعی طور پر تین مراحل سے گزر کر تین منازل تک پہنچتا ہے۔

پہلی سٹیج والے انسانوں کی زندگی کا دائرہ فقط اپنے تک محدود ہوتا ہے (me stage) یا ایگوسینٹرک سٹیج کہتے ہیں۔ دوسری سٹیج (us stage) یا ایتھنوسینٹرک سٹیج ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی قوم اور خاندان کے لیے قربانیاں دیتے ہیں۔ جب کہ تیسری منزل پر رہنے والے پوری انسانیت کی بھلائی کے لیے سوچتے ہیں۔ اسے آل آف اس سٹیج (all of us stage) یاورلڈسینٹرک سٹیج کہتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ تیسری سٹیج تک پہنچنے والے بہت نایاب افراد ہوتے ہیں۔

آخری باب میں خلاصہ ہے کہ انسانیت ایک دوراہے پہ کھڑی ہے ایک راستہ غصہ، نفرت، تشدد اور جنگ کی طرف لے جاتا ہے جب کہ دوسرا محبت، پیار، دوستی امن کی طرف لے جاتا ہے۔ کتاب میں محبت کی قوس قزح بھی ہے اور سچ کے رشتے داروں کے افسانے بھی۔

میں آخری باب سے ابتدائیہ پر واپس آؤں گی۔
”درویش کی زنبیل سے“

میں سمجھتی ہوں درویش کی زنبیل سے نکلا ہوا صرف ایک جملہ اگر ہم جیسے انسان سمجھ لیں تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ ہر قسم کی شدت پسندی ختم ہو جائے۔

یہ جملہ ہے
”دنیا میں اتنے سچ ہیں جتنے انسان
اور اتنی ہی حقیقتیں ہیں جتنی آنکھیں۔

سچ تو یہ ہے کہ زمین پر انسان کے ارتقا کی ساری کہانیاں جو کسی نہ کسی سچائی پر مبنی ہیں۔ بے شک یووال ہراری کے مطابق انسان آج سے ستر ہزار برس پہلے افریقہ میں رہتے ہوں گے یا آگ پر پکا کھانا کھانے کے بعد آنتوں کی طرف جانے والا خون ذہن۔ کی طرف جانے سے کگنیٹیو ریولوشن آیا ہو گا یا یہ کہ بندر اور انسان کے اجداد مشترکہ ہوں گے۔ یا مسلم فلاسفر ابن خلدون کے مطابق کرہ ارض پر ارتقا لاکھوں سال سے ہو رہا ہے پہلے یہاں معدنیات

پھر نباتات بنے
پھر سمندر میں زندگی پیدا ہوئی
پھر مچھلیاں بنیں
پھر جانور بنے

پھر انسان بنے۔ یہ سب بہت علم افروز ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ مجھے حاصل مطالعہ یہ جملہ لگا جو سب کی نذر ہے۔ درویش فرماتے ہیں۔

”انسانی خوشی کا راز مادی چیزوں کی بجائے بامعنی زندگی میں ہے۔ وہ حرص کی بجائے قناعت میں ہے۔ اپنی ذات کو پہچاننے میں ہے۔ ہم بس اتنا جانتے ہیں کہ وہ انسان جو اپنی ذات کو پہچانتے ہیں، دوسرے انسانوں سے ہی نہیں جانوروں اور پرندوں سے بھی پیار کرتے ہیں اور خدمت خلق کرتے ہیں وہ ذہنی طور پر صحتمند، خوشحال اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔“ میرے لیے زندگی کا یہ راز سب سے اہم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments