رمیز راجہ کا پشاور کو غیر محفوظ قرار دینے کا غیر ذمہ دارانہ بیان


پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودگی چئیر مین اور پاکستان کے سابقہ دائیں ہاتھ کے اوپنر بیٹر رمیز راجہ نے کہا ہے کہ ہم مغربی کھلاڑیوں کو پشاور میں نہیں کھلا سکتے۔ اور ساتھ ہی ساتھ پشاور کو ریڈ زون بھی قرار دیا۔

اب رمیز راجہ کے اس بیان کو ذمہ دارانہ بیان کہیں یا بالکل غیر ذمہ دارانہ بیان گردانے کیونکہ اگر ہمارے کرکٹ بورڈ کے چئیر مین خود بیان دے رہے ہوں کہ ہم بیرونی کھلاڑیوں کو پشاور نہیں لا سکتے تو بیرونی کھلاڑی کیونکر بولیں گے کہ ہم پشاور میں کھیلنے کے لئے تیار ہیں۔

دوسری بات یہ کہ ایسے کون سے کھلاڑی ہیں جنھوں نے یا تو کوئی بیان دیا ہو یا کسی نے اس سلسلے میں ان سے پوچھا ہو کہ وہ پشاور میں کھیلنے کے لئے تیار ہیں کہ نہیں اور انھوں نے یہ بیان دیا ہو کہ وہ پشاور میں کسی بھی صورت میں کھیلنے کے لئے تیار نہیں۔

ڈیرن سیمی جب پشاور زلمی کے کپتان، کوچ اور منٹور تھے تو خیبر پشتونخوا کے چپے چپے میں گھومے اور میڈیا نے ان کی ہر ہر جگہ کی تصویریں اور آڈیو ویڈیو ویژول دکھائیں۔ لیکن نہ تو انھوں نے ایسی بات کہی کہ یہ علاقہ خطرناک ہے اور نہ وہ گھومتے پھرتے کسی سے کترائے۔

اگر ہم پنڈی، لاہور، ملتان اور کراچی میں بیرونی کھلاڑیوں کو سیکیورٹی یا تحفظ کی یقین دہانی کرا سکتے ہیں اور ان کی حفاظت کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں تو پشاور میں کیوں نہیں۔ کیا پشاور میں ملکی قوانین اور ملکی رٹ رائج نہیں۔

بیرونی کھلاڑیوں پر تو حملہ لاہور میں ہوا تھا اس کے بعد غیر ملکی کھلاڑیوں نے یہاں آنا چھوڑ دیا تھا۔ اگر اس حملے کے بعد شکر ہے لاہور محفوظ ہو سکتا ہے تو اس شکریے کا موقع پشاور کو کیوں نہیں دیا جا سکتا ہے۔

ٹیم پاکستان میں آدھے سے زیادہ کھلاڑی پشاور اور گردونواح سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور زیادہ تر اچھے کھلاڑی اس دوران ٹیم پاکستان کے لئے کارگر ثابت ہوئے جب پشاور میں ایک بھی بین الاقوامی میچ منعقد نہیں ہو پا رہا ہے اگر پشاور میں بین الاقوامی یا پی ایس ایل کے میچز منعقد ہوتے تو ٹیلنٹ کا کیا معیار ہوتا یا اگر پشاور میں بین الاقوامی اور پی ایس ایل کے میچ ہونے لگے تو ٹیلنٹ کا کیا معیار ہو گا۔

عمران خان پر حملہ پنڈی اور لاہور کے درمیان ہوا اور پنڈی اور اسلام آباد میں حالات بالکل اچھے نہیں تھے لیکن ٹیسٹ میچ پنڈی میں ہوا کیونکہ ہم نے بیرونی کھلاڑیوں کو ڈرایا نہیں، ہم نے پنڈی کو غیر ملکی کھلاڑیوں کے لئے ریڈ زون قرار نہیں دیا۔

ہم نے کب آئی سی سی کے ماہرین کو مدعو کیا ہے کہ انھوں نے پشاور کا دورہ کیا ہو اور انھوں نے پشاور کی سیکیورٹی صورت حال پر بے اطمینانی کا خدشہ ظاہر کیا ہو۔

عمران خان نے جب پاکستان کو غیر ملکی ٹیموں کے لئے غیر محفوظ کہا تھا تو پورے ملک میں واویلا مچا تھا لیکن آج جب پی سی بی کے چئیرمین پشاور کو غیر ملکی کھلاڑیوں کے لئے غیرمحفوظ قرار دے رہے ہیں تو پی ٹی آئی بالعموم اور عمران خان بالخصوص ایسے خاموش ہیں جیسے پشاور صرف اے این پی کی ذمہ داری ہو اور صرف وہ پشاور کی حق کے لئے آواز اٹھائے گی۔

الیکشن کے لئے تو مردان، چارسدہ اور پشاور کے تین تین حلقوں سے کھڑے ہوتے ہیں لیکن آج جب پشاور پر بات ہو رہی ہے تو منہ کو تالے لگائے ہوئے ہیں اور پھر بندے کا تعلق بھی کرکٹ سے ہی ہو تو پھر سوال تو بنتا ہے اور کئی سالوں سے وہاں ان کی حکومت بھی ہو۔

عرصہ ہوا پشاور خصوصاً ارباب نیاز سٹیڈیم ملکی اور بین الاقوامی میچز کے لئے استعمال نہیں ہو رہا ہے۔ جب کہ اس کے مرمت پر کام بھی ہو رہا ہوتا ہے اور بقول رمیز راجہ ارباب نیاز سٹیڈیم میں اب بھی کام جاری ہے۔

اگر پشاور میں بیرونی دنیا کے کونسلیٹس قائم ہیں اور وہ محفوظ ہے تو ان ممالک کے کھلاڑی بھلا کیسے پشاور میں غیر محفوظ ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ نہ صرف ان کو ہم احساس تحفظ دلا رہے ہیں بلکہ تحفظ دے بھی رہے ہیں لیکن ان کی ٹیموں کو نہ صرف پشاور کو غیر محفوظ ہونے کا گردان کر وا رہے ہیں بلکہ عدم تحفظ کا احساس اور خوف بھی ان میں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہم اگر کراچی، لاہور، پنڈی ملتان یا دیگر شہروں میں غیر ملکی کھلاڑیوں کو تحفظ دے سکتے ہیں تو پشاور میں کیوں نہیں؟

اگر ہم کشمیر میں کشمیر پریمیئر لیگ کرا سکتے ہیں اور وہاں غیر ملکی کھلاڑیوں کونہ صرف لا سکتے ہیں اور ان کو تحفظ بھی دے سکتے ہیں تو پشاور میں کیوں نہیں؟

غیر ملکی کھلاڑی تو دبئی سے بھی آنے کو تیار نہیں تھے لیکن جب یہاں کی سیکیورٹی اور تحفظ کا خود سے مشاہدہ اور تجربہ کیا تو ہر سال آنے لگے۔

بالکل اس طرز کا ایک تجربہ پشاور میں بھی کیا جاسکتا ہے جس کے بعد نہ صرف غیر ملکی کھلاڑی پشاور آئیں گے بلکہ پہلے کی طرح لنڈی کوتل، طورخم یا ڈیورنڈ لائن دیکھنے کے لئے بھی جائیں گے اور پشاور کے خیبر بازار، قصہ خوانی اور نمک منڈی کے فوڈ سٹی میں بھی جائیں گے رہا تحفظ یا مہمان نوازی تو پھر پشاور والوں کو اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی اور تحفظ کرنا آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments