سیتا وائٹ سے محبت کا کھلا اظہار اور ٹیریان کو بیٹی تسلیم کر نے سے انکار؟


باہمی رضامندی سے ہونے والا جنسی عمل غیر انسانی کہلاتا ہے؟
متفقہ جنسی عمل کے نتیجہ میں اولاد کی صورت میں فطرت کا حسین تحفہ نطفہ حرامی کہلاتا ہے؟

کیا اخلاقی اقدار انسانی زندگی سے زیادہ قیمتی ہوتی ہیں؟ آزادانہ سیکس کی صورت میں پیدا ہونے والے بچہ یا بچی کو ناجائز کہنا غیر انسانی رویہ نہیں کہلائے گا؟

اگر معاشرتی سطح پر آزادانہ جنسی تعلق غیر اخلاقی ہے تو اس میں فطرت کے ننھے مہمان کا کیا قصور؟
کیا ایلیجٹیمیٹ ریلیشن اور انٹی میسی کے بیچ کوئی واضح فرق ہوتا ہے؟
کیا آزادانہ یا باہمی رضامندی سے قربت کا رشتہ قائم کرنا غیر اخلاقی عمل کہلائے گا؟

اگر ایک شادی شدہ مرد رات کے اندھیروں میں کسی ریڈ ایریا میں اپنے لئے قربت ڈھونڈتا ہے تو اس کا یہ عمل کس حد تک اخلاقی یا غیر اخلاقی کہلائے گا؟

کیا آزادانہ جنسی تفریح کی ذمہ دار صرف اور صرف خاتون ہوتی ہے یا کہیں ”ذرا سا“ حضرت مرد کا بھی کوئی کردار ہوتا ہے؟

اگر آزادانہ جنسی لمحات کو انجوائے کرنے میں دو افراد برابر کے شریک ہیں تو فطرت کے تحفے کی ذمہ داری اٹھانے کا بوجھ اکیلے خاتون پر کیوں؟

اس قسم کے سوالات ایک کھلے ڈھلے یا معاملات زندگی کو انسانی بنیادوں پر پرکھنے یا کھوجنے والے معاشروں میں تو بلا جھجک کیے جا سکتے ہیں مگر تنگ نظری یا گناہ و ثواب کے محدود معنوں اور پیمانوں کے اوپر انسانی معاملات کو دیکھنے والے معاشروں میں اس قسم کے بے ہودہ سوالوں کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ بند معاشروں میں ثواب اور گناہ کے پیمانے دولت مندوں کی جیب میں ہوتے ہیں جب یہ لوگ شاہی ترنگ میں ہوتے ہیں تو زندگی کی رنگینیوں کو انجوائے کرنے کے لیے یورپ کا رخ کر لیتے ہیں وہاں خوب موج مستی کرنے کے بعد اپنے دیس میں پہنچ کر ہاتھ میں تسبیح اور سر پر ٹوپی پہن لیتے ہیں تاکہ معاشرتی بھرم برقرار رہے اور عمر کے آ خری حصہ میں حج و عمرہ کی ادائیگی کر کے اپنے گناہوں سے مکتی حاصل کر لیتے ہیں۔

ان سارے معاملات میں مذہبی پنڈت ایسے مہمانوں سے بہت راضی رہتے ہیں کیونکہ ان کا راشن پانی انہی کی جیب کا فیضان ہوتا ہے۔ معاشرے کا یہ منافق ترین طبقہ لذت جیب اور لذت جسم سے لطف اندوز ہونے کے لئے مغرب میں پناہ ڈھونڈتا ہے کیونکہ وہ معاشرے انفرادیت اور انسانی ذہن کی پختگی پر یقین رکھتے ہیں اسی لیے یہ طبقہ انفرادیت کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کے لیے ادھر پہنچ جاتا ہے۔ جب یہی منافق طبقہ اپنے معاشرے کا رخ کرتا ہے تو وہاں کے حساب سے ”گیٹ اپ“ اختیار کر کے ”معاشرتی حاجی“ بن جاتا ہے۔

مضمون کے شروع میں اٹھائے گئے سوالات اس وقت میرے ذہن میں پیدا ہوئے جب میں بیرسٹر حسنین کی گفتگو سن رہا تھا جو آج کل عمران خان کے حوالہ سے سیتا وائٹ اور ٹیریان کا کیس دیکھ رہے ہیں اور اب معاملہ کورٹ کے سامنے ہے۔ ٹیریان جو کہ اب تقریباً 27 برس کی ہو چکی ہیں جسے مغربی میڈیا کافی عرصہ تک ”لو چائلڈ“ کہتا رہا جو کہ سیتا وائٹ کی بیٹی ہیں جسے ریاست مدینہ کے دعویدار عمران خان مسلسل ماننے سے انکاری رہے ہیں اور اسے اپنا نام نہیں دینا چاہتے یہاں تک کہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی میں بھی اس کا اندراج پسند نہیں فرماتے۔

سیتا وائٹ کافی امیر کبیر اور خوبصورت خاتون تھیں جو تقریباً 45 سال کی عمر میں کینسر کی وجہ سے چل بسی تھیں، جرمن اسٹریٹ نائٹ کلب میں سیتا وائٹ کا عمران خان سے قائم ہونے والا یہ رومانوی تعلق کوئی زیادہ عرصہ تو نہیں چل سکا مگر اس رشتے کی کوکھ سے ایک خوبصورت بیٹی ٹیریان کا جنم ہوا جس کو اس کے والد کا نام دلوانے کے لیے سیتا عدالتوں کے چکر کاٹتی رہی مگر کردار کے اوج کمال تک پہنچے ہوئے عمران خان نے اپنی بیٹی کو اس قابل نہیں سمجھا۔

شاید پاکستان کی تاریخ میں بھی یہ پہلا واقعہ ہی ہو گا کہ جہاں لوگ اپنا خفیہ پیسہ یا جائیداد چھپاتے ہیں اور اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کرتے مگر باکمال قسم کے صادق و امین نے اپنے دنیاوی اثاثوں کے علاوہ اپنی بیٹی تک کو بھی چھپایا۔ اب اس معاملے کو یہ کہہ کر بھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ یہ ان کے بیچ کا ذاتی معاملہ ہے ہمیں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے، یقیناً ایسا ہی ہونا چاہیے اور ہمیں ہر انسان کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کرنا چاہیے مگر معاملہ اس وقت خراب ہو جاتا ہے جب ایک ایسے شخص کو رجسٹرڈ قسم کا صادق و امین یا مجسمہ باکمال بنا کے پیش کیا جائے یہاں تک کہ وزیراعظم بنا دیا جائے جس نے اپنے 26 سالہ حادثاتی سیاسی کریئر میں صرف خود کو باکمال سمجھا ہو باقی سب اس کی نظر میں مجسمہ شیطان ٹھہرے رہے ہوں تو پھر سوال تو اٹھے گا اور اسے جواب بھی دینا چاہیے کیونکہ راہنما عوامی پراپرٹی بن جاتا ہے۔

ایک سیکولر اور انسان دوست ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی تمام روایات کا احترام کرتے ہوئے میرا یہ ماننا ہے کہ ایک انسان کی ذاتی زندگی میں کسی کو بھی دخل دینے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے اور اخلاقی معیارات کے نام پر کسی کو بھی کسی کے بیڈروم میں تانک جھانک کرنے کی اجازت بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ آج انسانی فکر اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ وہ اپنے فیصلے آزادانہ طور پر خود لے سکے، ان سب آ زادیوں کے باوجود انسان کو اتنا بلند مرتبت ضرور ہونا چاہیے کہ وہ اپنے معاملات کی ذمہ داری کو قبول کرے اور ایسا کرتے وقت اسے کسی بھی قسم کا ”منافقتی چولا“ پہننے کی ضرورت محسوس نہیں ہونی چاہیے۔

کیونکہ مصلحتی یا منافقتی ماسک ہمیشہ وہ لوگ پہنتے ہیں جو کھوکھلی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور یقین مانیں اس قسم کے منافق لوگ نہ صرف اپنی سابقہ زندگی پر نادم ہوتے ہیں بلکہ موجودہ زندگی پر بھی تذبذب کا شکار رہتے ہیں یا وقتی طور پر ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر مذہبی ٹچ دینے میں مصروف رہتے ہیں اور اندر سے وہ وہی رہتے ہیں جو وہ پہلے سے ہوتے ہیں۔ اس قسم کے منافقانہ رویے ہر اس معاشرے کا چلن ہوتے ہیں جہاں انسانی فکر پر بھروسا کرنے کی بجائے مخصوص روایتی پیکیج کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے جس کے متاثرین سب سے زیادہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو پسے ہوئے یا غربت کی سب سے نچلی ترین سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہوتے ہیں۔

خداوندان نظام و سیاست و ریاست کے لئے تو سیکولر یا مذہبی معاشرے ایک طرح سے سونے کی چڑیا کی مانند ہوتے ہیں جہاں جاتے ہیں داستانیں چھوڑ آتے ہیں اور مذہبی معاشروں میں بسنے کے بعد اپنی سابقہ داستانوں سے منکر ہو جاتے ہیں کیونکہ کردار بہت ڈھیلا ہوتا ہے۔ عمران خان نیازی بالکل اسی قسم کی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہے جو اپنے ماضی پر نادم ہے اور اس کا سامنا کرنے سے قاصر ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یورپ کو ہر انسان سے زیادہ جاننے کا دعویٰ رکھنے والا اناء کا یہ پتلا اس بات سے کیسے بے خبر ٹھہرا کہ یورپ والے ”جھولا منصوبے“ پر یقین نہیں رکھتے۔

ہمارے معاشرے میں تو لوگ اپنے نومولود بچے جو جنسی تفریح کا شاخسانہ ہوتے ہیں کوڑے دانوں کے حوالے کر آتے ہیں اسی درد کو مسیحا انسانیت عبدالستار ایدھی نے محسوس کرتے ہوئے جھولا منصوبے کا اجراء کیا تھا اور لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر التجا کی تھی کہ اپنے نومولود کو گندگی یا کچرے کے ڈھیر پر ڈال کر جانوروں کی خوراک بنانے کی بجائے خاموشی سے جھولوں پر ڈال جائیں ان کی ولدیت کے خانے میں عبدالستار ایدھی اپنا نام درج کروانے کے لیے تیار ہے۔

نجانے معاشرے کی نظروں میں حرامی ٹھہرائے گئے کتنے بچوں کو اس عظیم مسیحا نے اپنا نام دیا تھا۔ کیا فرماتے ہیں اہل جبہ و دستار بیچ اس مسئلے کے؟ کیا ایدھی صاحب اس مکروہ عمل کی وجہ سے جہنم کا ایندھن بنے ہوں گے یا جنت کے باغوں کے مہمان؟ سیتا وائٹ جس کے پاس دنیاوی دولت و شہرت کی کوئی کمی نہیں تھی وہ تو صرف اپنی بیٹی کے باپ کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلانے کے لیے اپنی پوری زندگی تگ و دو کرتی رہی اور کیلیفورنیا کی عدالت نے اس بچی کے باپ یعنی عمران خان کو ڈی این اے کے لئے بلوایا تھا مگر وہ نہیں گئے لیکن یہ بات دنیا کے سامنے عیاں ہو گئی کہ ٹیریان عمران نیازی کی بیٹی ہے۔

جو وہ تھے اگر وہی رہتے تو کوئی مضائقہ نہیں تھا سب سے زیادہ خطرناک بات جو ان کی شخصیت سے جڑی ہوئی ہے وہ ہے مذہب کارڈ کا بے دریغ استعمال، جسے استعمال کرتے ہوئے ابھی بھی وہ خود کو ایک کامل مذہبی بنانے میں مصروف ہیں۔ مگر ہمارے خداوندان انصاف کا بھی یہی حال ہے جن دنوں صادق اور امین کا کھیل کھیلا جا رہا تھا تو کسی جج صاحب نے 62، 63 کی روشنی میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ

”اگر آئین کی اس شق کے حساب سے کسی کو پرکھنے کی رسم چل نکلی تو شاید اس شرط پر صرف سراج الحق ہی پورے اتر پائیں“

مطلب ہماری نظر میں یہ نقشہ ایک ”سیٹ پیٹرن“ کے طور پر کہیں نہ کہیں موجود ہے کہ

”جو کوئی بھی مجسمہ کامل ہو گا اس کے سر پر ٹوپی، ہاتھ میں تسبیح اور چہرے پر داڑھی ہو گی اس شباہت کے علاوہ کسی اور روپ میں صادق اور امین کا سہرا سج ہی نہیں سکتا۔ دوسری طرف یورپ کو دیکھ لیں ایک مشرقی باپ جو کبھی مغربی دنیا کا اسیر ہوا کرتا تھا جو اپنی لو چائلڈ کو ساری زندگی اپنا نام دینے سے قاصر رہا اس کے مقابلے میں ایک مغربی ماں جو کبھی اسی مشرقی باپ کی بیوی تھی نے آگے بڑھ کر ٹیریان کو اپنے گلے سے لگا کر اپنے موجودہ بیٹوں کے ساتھ اس کی تصویر شیئر کی۔

اب اخلاقی دوڑ میں کون سرخرو ہوا وہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے۔ کمال کی منافقت ہے اپنی جنسی بھوک مٹانے کے لیے دوسروں کے بیٹیاں چاہیں مگر خود کے شجرہ نسب میں اپنی بیٹی کا حوالہ قبول نہیں۔ سوچتا ہوں اگر واقعی ریاست مدینہ ہوتی تو ایسے بندے کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جاتا؟ اب کیا کریں ہمارا معاشرہ تو نیکوکاروں، زاہدوں، عابدوں، پرہیز گاروں اور دین داروں کی آماجگاہ ہے جہاں ذرا سی بے باک خاتون یا اپنی زندگی اپنے بل بوتے پر گزارنے والی معاشرے کی نظروں میں چالو یا طوائف تو گردانی جا سکتی ہے خود مختار یا آئیڈیل بالکل نہیں، دوسری طرف پارساؤں کو یہ سہولت میسر رہتی ہے کہ وہ جب چاہیں مذہبی شباہت اختیار کریں اور معاشرے میں باعزت مقام حاصل کر لیں کوئی مضائقہ نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments