آرمی پبلک سکول کے ایک شہید بچے کا اپنی ماں کے نام خط
پیاری امی جان السلام وعلیکم،
16 دسمبر ایک بار پھر آن پہنچا، آپ سے بچھڑے ہوئے آٹھ سال ہونے کو آئے۔ اس لئے سوچا کہ یہ خط آپ کو لکھوں، کیوں کہ مجھے پتا ہے کہ آپ آٹھ سال گزرنے کے باوجود آج بھی پہلے دن کی طرح دکھی ہیں اور جیسے جیسے دسمبر ستم گر قریب آتا ہے آپ کی بے چینیاں بڑھ جاتی ہیں۔ وہ دن آپ اور آپ جیسی کئی ماؤں پر قیامت بن کر آیا تھا۔ آپ نے تو اس دن ہمیں عام دنوں کی طرح تیار کر کے اسکول بھیجا تھا آپ کو خدا حافظ کہتے ہوئے نہ جانے اس دن میرا دل کیوں اداس تھا اور مجھے یاد ہے آپ بھی بار بار میری طرف دیکھ رہی تھیں اور میرا ماتھا بھی چوما تھا۔ اس دن جو کچھ ہوا اس کو دہرا کر میں آپ کو مزید دکھی نہیں کر سکتا، ہاں مگر اس دن آپ کو روتا سسکتا اور بلکتا ہوا دیکھ کر میں کچھ بھی نہ کر سکا، اس کا بہت دکھ ہے، میں بے بس تھا امی، آپ کو تسلی بھی نہیں دے سکتا تھا۔
پیاری امی اس واقعہ پر اب آٹھ برسوں کی دھول پڑ چکی ہے بہت سے ذہن اس واقعہ کو بھول چکے ہیں کچھ کے ذہنوں میں یہ واقعہ دھندلا چکا ہے۔ اور تو اور بہت کم میڈیا میں اس واقعہ کی بازگشت سنائی دیتی ہے آپ یہ سوچ کر افسردہ نہ ہوا کیجئے یہ ہی تو دنیا کا دستور ہے۔
امی جان مجھے افسوس صرف ایک بات کا ہے کہ ہماری قربانی سے ہمارے حکمرانوں نے، چاہے وہ ظاہری ہوں یا اصلی، کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ہم شہیدوں کے قاتل ماسٹر مائنڈ تو آزاد گھوم رہے ہیں اور چند کارندوں کو پھانسی دے کر انصاف کا ڈھونگ رچایا گیا اور بظاہر آپ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اور تو اور اصل مجرموں کا ترجمان با آسانی فوج کی قید سے فرار ہوجاتا ہے، اور ہمارا میڈیا مہر بلب رہتا ہے، اور ہر چھوٹے بڑے مسئلہ پر سوموٹو لے کر انصاف کرنے والے بھی ایسے نظر آتے ہیں جیسے انہوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں، کچھ سنا ہی نہیں۔ اور اب سونے پر سہاگہ یہ کہ انہی مجرموں سے اب مذاکرات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے، اور انہیں سوات میں اپنی سرپرستی میں ایک بار پھر قدم جمانے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ چلئے چھوڑئیے، میں بھی کیا باتیں چھیڑ بیٹھا، یہ تو تخت و تاج والوں کی باتیں ہیں، ہم خاک نشینوں کا اس سے کیا تعلق، چلئے ہم اپنی باتیں کریں۔
مجھے پتا ہے امی جان آپ کا زخم آج بھی تازہ ہے آپ ہر عید، بقرعید، شب برات پر مجھے یاد کر کے روتی ہیں۔ جب میں آپ سے شب برات پر پٹاخوں کے لئے پیسے مانگتا تھا تو آپ مجھے ابو سے ڈرایا کرتی تھیں۔ بقرعید پر ابو کے ساتھ بکرا خرید کر لانے کی سب سے زیادہ خوشی مجھے ہوتی تھی۔ اب منی کو ستانے والا نہیں رہا، گڈو بھیا کے ساتھ کرکٹ کھیلنے والا بھی نہیں رہا، آپ یہ سب یاد کر کے بہت روتی ہیں۔
امی ابو بھی اندر سے ٹوٹ گئے ہیں مگر وہ ظاہر نہیں کرتے۔
پچھلے مہینے میری سال گرہ کے دن آپ دونوں بہت روئے تھے، گڈو اور منی بھی آپ دونوں کو دیکھ کر بہت اداس ہو گئے تھے۔ ابو تو اکیلے میں میری تصویر دیکھ دیکھ کر رو رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ اگر آج میں ان کے ساتھ ہوتا تو 22 برس کا ہوتا اور ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتا۔
گڈو اور منی تو بہت چھوٹے تھے مگر ان کو تھوڑا تھوڑا یاد ہے دونوں آج تک اندر سے سہمے ہوئے ہیں۔
امی میرے کچھ دوستوں کے ماں باپ اس واقعہ کے بعد تو دنیا میں بالکل تنہا رہ گئے۔ ان کو جاکر تسلی دیجئے گا اور بتائیے گا کہ ہم سب یہاں بہت خوش ہیں۔ شاید ان کے دل کو کچھ قرار آ جائے۔
پیاری امی جان مجھے پتا ہے ساری دنیا پہلے کی طرح نارمل زندگی گزار رہی ہے مگر آپ اور آپ جیسی بہت سی مائیں ہر روز ذہنی کرب سے گزرتی ہیں ان کی زندگی کا اب کوئی دن بھی نارمل نہیں رہا۔
مگر میں اور میرے سارے دوست یہاں پر بالکل ٹھیک ہیں۔
دیکھئے امی اب زیادہ مت روئیے ورنہ میں بھی اداس ہو جاؤں گا۔ پیاری امی جان یہ خط لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ میں آپ کو بتا سکوں کہ میں بہت اچھی جگہ پر ہوں اور یہاں پر بہت خوش ہوں۔
آپ کو جب بھی میری یاد ستائے تو یہ سوچ لیا کیجئے کہ آپ کا بیٹا بہت اچھی جگہ پر ہے اور بہت خوش ہے اور اولاد کی خوشی میں ہی تو ماؤں کی خوشی ہوتی ہے۔
اٹھیے اپنے آنسو پونچھیے اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھئیے۔
گڈو، منی کو پیار دیجئے گا اور ابو کو سلام کہیے گا۔
فقط آپ کا شہزادہ بیٹا
- آرمی پبلک سکول کے ایک شہید بچے کا اپنی ماں کے نام خط - 14/12/2022
- برطانیہ کے وزیر اعظموں کے استعفے اور پاکستانی سیاستدان - 30/10/2022
- اللّہ میرے دل کے اندر، میں مومن حق قلندر اور ناجائز قبضہ - 28/10/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).