سانحۂ مشرقی پاکستان اور ہنری کسنجر کے انکشافات
بنگلہ دیش کے قیام کا پس منظر
مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کا قیام، پاکستانی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ 1947 ء میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد جب پاکستان ایک الگ ملک کے طور پر معرض وجود میں آیا تو مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان تقریباً 2200 کلومیٹر کا فاصلہ حائل تھا جس کے نتیجے میں ثقافتی، انتظامی اور معاشی تضادات کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ دونوں حصوں کی زبان اور ثقافت میں مذہب کی قدر مشترک کے سوا کچھ بھی مشترک نہ تھا۔
رہی سہی کسر مغربی پاکستان کی افسر شاہی اور جاگیر دار اشرافیہ کی استحصالی اور نسل پرستانہ ذہنیت نے پوری کر دی جس کے مطابق بنگالی کم تر عقل اور کمزور جسمانی ساخت کے لوگ تھے اور اسی لائق تھے کہ انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں قومی وسائل میں برابر کی شراکت داری اور سول و ملٹری ملازمت میں اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کے مواقع سے بھی محروم رکھا گیا۔ مشرقی پاکستان میں تعینات شدہ بیوروکریسی کی اکثریت کا تعلق بھی مغربی پاکستان سے تھا۔
اس حوالے سے پاکستان کے ایک مشہور بیوروکریٹ نے اپنی کتاب میں واقعہ نقل کیا ہے کہ پچاس کی دہائی میں جب حکومت پاکستان نے بیت الخلاء کے سامان کا کوٹہ مختص کرنا چاہا تو اس میں مشرقی پاکستان کا کوئی حصہ نہ رکھا گیا۔ مغربی پاکستان کی افسر شاہی کے خیال میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کو بیت الخلاء کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ وہاں کیلے کے پتے وافر مقدار میں موجود تھے اور مشرقی پاکستان کے لوگ ان پتوں سے بیت الخلاء کی حاجت پوری کر سکتے تھے 1۔
بنگالی زبان کا مسئلہ
پاکستان کے قیام کے صرف تین ماہ بعد ہی 10 دسمبر 1947 ء کو زبان کے مسئلہ پر ڈھاکہ کے سکولوں اور کالجوں کے طلبہ نے صوبائی سیکرٹریٹ کے سامنے بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے کے حق میں مظاہرہ کیا تھا۔ یہ لسانی فسادات کا آغاز تھا جس نے پاکستان کی وحدت میں پہلی دراڑ ڈال دی تھی۔ قیام پاکستان کے حق میں 97 فیصد ووٹ دینے والے بنگالی اپنی زبان اور قومی تشخص کے متعلق انتہائی حساس تھے اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھے، جبکہ پاکستان کے ارباب اختیار بنگالی عوام کے مزاج کو سمجھنے میں بری طرح ناکام اور زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے بدستور نظریہ پاکستان کے سراب میں گم تھے۔
21 مارچ 1948 ء کو ڈھاکہ میں بطور گورنر جنرل اپنے اکلوتے دورۂ مشرقی پاکستان میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بانی پاکستان نے واضح کیا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہو گی۔ یہی بیان جب انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے دہرایا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا اور جن نوجوان طالب علموں نے یہ ہنگامہ کیا تھا ان میں بنگلہ دیش کے بانی لیڈر شیخ مجیب الرحمان کا نام بھی شامل تھا۔
جنوری 1952 ء میں اس وقت کے بنگالی نژاد وزیر اعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین کے اردو کو بطور قومی زبان کے نافذ کرنے کے اعلان نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور بطور احتجاج ڈھاکہ میں 21 فروری 1952 ء کو عام ہڑتال کی گئی جس کے دوران مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ سے متعدد طلباء جاں بحق ہو گئے۔ اسی واقعے کی یاد میں ہر سال 21 فروری کو دنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
عوامی لیگ کا قیام اور مسلم لیگ کی پسپائی
قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی مسلم لیگ تقسیم ہو گئی تھی اور مشرقی پاکستان کی مسلم لیگ نے اپنا نام تبدیل کر کے عوامی مسلم لیگ رکھ لیا تھا کیونکہ مشرقی پاکستان کی قیادت کی رائے میں مغربی پاکستان کی مسلم لیگ محض جاگیردار طبقے پر مشتمل تھی اور اسے صرف اپنے طبقے کا مفاد ہی عزیز تھا۔ مسلم لیگی قیادت کی طرف سے مذہب کے منفی استعمال کے ردعمل کے طور پر عوامی مسلم لیگ نے آگے چل کر اپنا نام عوامی لیگ رکھ لیا اور بنگلہ دیش کے قیام کے وقت مرکزی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ دوسری طرف قرار داد پاکستان پیش کرنے والے شیر بنگال مولوی فضل الحق نے مزدور کسان پارٹی کے نام سے اپنی الگ سیاسی پارٹی بنالی تھی جس نے 1954 ء کے صوبائی انتخابات جگتو فرنٹ کے پلیٹ فارم کے تحت لڑے اور اتنی بڑی کامیابی حاصل کی کہ مشرقی پاکستان سے پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا صفایا ہو گیا تھا۔
مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی خواہش
اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد جلد ہی مغربی پاکستان کی سیاسی اور انتظامی قیادت مشرقی پاکستان کو اپنے لئے بوجھ سمجھنے لگی تھی اور جلد از جلد اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی 2۔ اس طرز فکر و عمل کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ مغربی پاکستان کی سیاسی اشرافیہ جاگیردار طبقے پر مشتمل تھی جبکہ مشرقی پاکستان میں زرعی اصلاحات کے بعد جاگیر دار طبقے کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ یہی حال سول اور فوجی افسر شاہی کا تھا جس کی اکثریت مغربی پاکستان سے تعلق رکھتی تھی اور اپنے نوآبادیاتی پس منظر کی وجہ سے مغربی پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور امریکی و برطانوی اسٹیبلشمنٹ کی حلیف تھی۔ اس حوالے سے دس سال تک ملک کے حکمران رہنے والے چیف مارشل لا ءایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کے دو واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں انہوں نے مشرقی پاکستان سے چھٹکارا پانے کی خواہش کا اظہار کیا 3۔
بنگالی اکثریت کا انکار
مغربی پاکستان کے حکمران طبقے کو معلوم تھا کہ بنگالیوں کی آبادی پاکستان کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد ہے، چنانچہ قومی وسائل تقسیم ہوں گے تو بنگالیوں کو 100 روپے میں سے 54 روپے ملیں گے۔ 100 روپے میں سے 54 روپے بنگالیوں کا جائز حق تھے مگر مغربی پاکستان کے حکمرانوں کو اچانک اسلام یاد آ گیا اور انہوں نے کہا کہ اسلام مساوات، برابری اور Parityکا درس دیتا ہے۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کے لوگ تسلیم کریں کہ انہیں 100 روپے میں سے 54 کے بجائے 50 روپے ملیں گے اور باقی 50 روپے 46 فیصد آبادی والے مغربی پاکستان کے حصے میں آئیں گے۔ یہ مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ کھلی زیادتی تھی، مگر مشرقی پاکستان کے لوگوں نے قومی اتحاد کے لیے یہ قربانی دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔
دوسرے مرحلے میں مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے ”ون یونٹ“ ایجاد کر لیا۔ ون یونٹ کا مطلب پاکستان کی صوبائی وحدتوں کا انکار تھا۔ لیکن ون یونٹ سے پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کو کوئی خاص نقصان نہیں ہو رہا تھا، اصل نقصان مشرقی پاکستان کا تھا۔ مشرقی پاکستان اکثریت میں تھا، اس لئے وسائل اور روزگار میں اس کا حصہ 54 فیصد تھا، لیکن ون یونٹ بنگالیوں کی اکثریت کو ہڑپ کر گیا۔ یہ معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا۔ پاکستان وجود میں آیا تو پوری دنیا میں ”ایک آدمی ایک ووٹ“ کا اصول رائج تھا، مگر انتخابات ہوتے تو پہلے ہی مرحلے میں اقتدار بنگالیوں کے ہاتھ آ جاتا، چنانچہ 1947 ء سے 1970 ء تک ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر انتخابات کی نوبت ہی نہ آئی۔ 1970 ء میں نوبت آئی تو شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت کو نہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے تسلیم کیا، نہ مغربی پاکستان کی اکثریتی سیاسی جماعت کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں مشرقی پاکستان کے حق حکمرانی کو قبول کیا۔
درج بالا تمام عوامل نے مل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا۔
ہنری کسنجر کا انٹرویو
سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور وقتاً فوقتاً نت نئے انکشافات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے مشہور و معروف امریکی سفارت کار ہنری کسنجر نے 2016 ء میں ایک جریدے ”دی اٹلانٹک“ کو دیے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ نومبر 1971 ءمیں اس وقت کے پاکستانی صدر اور پاک فوج کے سربراہ جنرل یحٰیی خان نے امریکی صدر رچرڈنکسن سے کہہ دیا تھا کہ ان کا ملک (پاکستان) ، مشرقی پاکستان کو آزاد کردے گا اور مارچ 1972 ء تک یہ عمل مکمل ہو جائے گا۔ یہ ایک حیرت انگیز انکشاف ہے کیونکہ اس وقت (نومبر 1971 ء) تک بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ بھی نہیں کیا تھا۔ بھارت نے تین دسمبر 1971 ء کو مشرقی پاکستان پر جارحیت کی تھی اور 16 دسمبر 1971 ء کو خون ریز فسادات کے بعد پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
ہنری کسنجر 22 ستمبر 1973 ء سے لے کر 20 جنوری 1977 ء تک امریکا کے 56 ویں سیکرٹری خارجہ رہے، انہوں نے 20 جنوری 1969 ء سے تین نومبر 1975 ء تک امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ 1969 ء سے 1977 ءتک انہوں نے امریکا کی خارجہ پالیسی میں اہم اور نمایاں کردار ادا کیا۔ 2016 ءمیں معروف میگزین ”دی ایٹلانٹک“ کے ایڈیٹر ان چیف جیفری گولڈ برگ کو اپنے انٹرویو میں ہنری کسنجر نے امریکی انتخابات سے قبل عالمی تاریخ سے متعلق معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔
بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی تاریخ اور چین کے دروازے امریکا پر کھلنے کے تناظر میں انہوں نے 1971 ء کے واقعات بھی بیان کیے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ذریعے چین سے تعلقات قائم کرنے کے بعد امریکا نے پاکستان پر زور دینا شروع کیا کہ وہ بنگلہ دیش کو آزاد کر دے۔ دوسری طرف چین بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا خواہاں تھا۔ دی اٹلانٹک کے ایڈیٹر ان چیف نے مشرقی پاکستان سے متعلق جو سوال ہنری کسنجر سے پوچھے ان کے جواب قارئین کے استفادے کے لئے ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔
”گولڈبرگ: کیا 1971 ء کے دوران بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والے بحران کے نتیجے میں ہونے والی قتل و غارت گری، چین سے تعلقات کے مقابلے میں کسی قدر و قیمت کی حامل نہ تھی؟
ہنری کسنجر: انسانی حقوق امریکی پالیسی کا لازمی حصہ ہیں لیکن قومی سلامتی بھی اتنی ہی اہم ہے۔ کچھ مواقع ایسے ہوتے ہیں جن میں ان دونوں کے درمیان انتخاب کی ضرورت نہیں ہوتی، جس سے اخلاقی مسئلہ نسبتا آسان ہوجاتا ہے لیکن کچھ ایسے مواقع بھی ہوتے ہیں کہ جن میں ایک تنازع ابھرتا ہے اور صدر کو ایک سے زائد فیصلے کرنا ہوتے ہیں، جن کا دار و مدار تنازع کے حجم، اس کے حل کے لئے دستیاب وسائل، معاملات کے فوری اور دور رس اثرات اور حتمی طور پر اس بات پر ہوتا ہے کہ اگر صدر آگے بڑھنے کے لئے کسی مخصوص راستے کا انتخاب کر لیتا ہے تو کیا امریکی عوام اس کی کوششوں کو آگے بڑھانے پر رضامند بھی ہوں گے یا نہیں۔
ان سب عوامل کا خیال خاص طور پر اس وقت رکھا جاتا ہے جب ایک ملک امریکا کی سلامتی کے لئے اہم ہوتا ہے یا پھر عالمی حالات ہماری اقدار کے برعکس چل رہے ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق پر ہمارے زور دینے کے نتیجے میں عراق میں ایک نئی قوم کی تعمیر کا ہدف ناکامی سے دو چار ہو گیا جبکہ انسانی حقوق کو نظرانداز کرنے سے روانڈا میں قتل عام ہو گیا۔ تمام پالیسی ساز پوری دنیا میں بالعموم اور مشرق وسطی میں بالخصوص اس طرح کے چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش پر آپ کے سوال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح یہ مسئلہ ہمارے ہاں عوامی بحث و مباحثے میں کنفیوژن کا شکار ہو گیا۔ چین سے تعلقات اور بنگلہ دیش میں لوگوں کو پہنچنے والی تکالیف کے مابین کبھی بھی کوئی چوائس نہیں تھی۔ ایک انٹرویو میں اس حوالے سے تمام تفصیلات بیان کرنا ناممکن ہے۔ تاہم مجھے کچھ اصولوں کی وضاحت کا موقع دیں۔
( 1 ) چین سے تعلقات کا آغاز 1969 ءمیں ہوا (چین سے تعلقات کا بنیادی مقصد سوویت یونین اور چین کے درمیان دوریاں پیدا کرنا تھا: ع م) ۔
( 2 ) بنگلہ دیش کا بحران مارچ 1971 ءمیں شروع ہوا۔
( 3 ) اس وقت تک ہم چین کے ساتھ کچھ انتہائی خفیہ رابطے کر چکے تھے اور ایک اہم پیش رفت کے قریب تھے۔
( 4 ) یہ رابطے پاکستان کے ذریعے قائم ہوئے تھے جو بیجنگ اور واشنگٹن دونوں کے لئے بات چیت میں انتہائی قابل قبول شراکت دار تھا۔
( 5 ) بنگلہ دیش کا بحران اپنی اصل میں پاکستان کے بنگالی حصے کے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرنے کا عمل تھا۔ (مغربی) پاکستان نے نہایت پر تشدد طریقے سے اس تحریک کی مزاحمت کی اور اس دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔
( 6 ) ان سنگین خلاف ورزیوں کی سرعام مذمت کرنے سے چین سے مذاکرات کا پاکستانی چینل تباہ و برباد ہوجاتا جس کی چین سے تعلقات کی تکمیل کے لئے آئندہ کئی ماہ تک ہمیں ضرورت تھی۔ نکسن انتظامیہ یہ سمجھتی تھی کہ چین سے تعلقات کا آغاز اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ جنوبی ایشیاء میں امن کا حصول۔ دوسری طرف سوویت یونین سے سفارت کاری کو نئے سانچے میں ڈھالنے کا ہدف بھی اہم تھا۔ بنگلہ دیش میں رونما ہوتی ہوئی ٹریجڈی کو دیکھنے والے امریکی سفارت کار چین سے تعلقات کے حوالے سے بالکل لاعلم تھے، وہ دل دکھانے والا نقشہ کھینچتے تھے لیکن ہم سرعام اس پر ردعمل ظاہر نہیں کر سکتے تھے۔ تاہم صورت حال کو سنبھالنے کے لئے ہم نے سفارتی کوششوں کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو بڑی مقدار میں خوراک فراہم کی۔
( 7 ) پاکستان کے ذریعے چین سے تعلقات قائم کرنے کے بعد امریکا نے پاکستان پر زور دینا شروع کیا کہ وہ بنگلہ دیش کو خودمختاری دے دے۔ نومبر میں پاکستان کے صدر جنرل یحٰیی خان نے امریکی صدر نکسن سے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ وہ مارچ ( 1972 ء) کے مہینے میں مشرقی پاکستان کو آزاد کر دیں گے۔
( 8 ) آنے والے مہینے، یعنی دسمبر 1971 ء میں بھارت نے سوویت یونین کے ساتھ فوجی معاہدہ کرنے کے بعد مشرقی پاکستان پر چڑھائی کردی، تاکہ ہندوستان میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کے بوجھ کو کم کیا جا سکے (اور بھارتی بنگال میں علیحدگی کی تحریک کا زور توڑا جا سکے۔ ع م) ۔
( 9 ) امریکا کو پاکستانی قوم پرستی، چین کے شکوک و شبہات، بھارت کے مقاصد اور سوویت یونین کے دباؤ کے درمیان سے راستہ نکالنا پڑا۔ اس دوران یقیناً بہت سے سمجھوتے کیے گئے اور ان کا ذکر کرنے کے لئے الگ سے ایک کتاب درکار ہے لیکن جو نتیجہ نکلا اس پر کسی معذرت کی ضرورت نہیں ہے۔ مارچ 1972 ء تک بحران شروع ہونے کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں بنگلہ دیش آزاد ہو گیا۔ بھارت اور پاکستان کی جنگ ختم ہو گئی اور فروری 1972 ء میں بیجنگ میں سربراہ اجلاس کے ساتھ ہی چین کے ساتھ تعلقات کا عمل بھی مکمل ہو گیا۔ شام، لیبیا، مصر، عراق اور افغانستان سے موازنہ کیا جائے تو 1971 ء میں جو قربانیاں دی گئیں ان سے کہیں زیادہ نتائج حاصل کیے گئے۔ ”
حاصل کلام:
درج بالا حقائق اور انکشافات کی روشنی میں پاکستانی تاریخ کے کچھ اہم پہلو سامنے آتے ہیں۔ پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا فائدہ کس کو ہوا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کے الگ ہوتے ہی پاکستان، بنگالیوں کی بجائے پنجابی اکثریت کا ملک بن گیا اور یہاں کی جاگیردار سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ لیکن اس سلسلے میں صرف پنجاب کا ذکر درست نہیں۔ پنجاب کے دو تزویراتی (strategic) اتحادی بھی تھے، یعنی مہاجر اور پٹھان۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے ان تینوں پر طاقت، مناصب اور مالی وسائل کے در کھول دیے۔
دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ سوویت یونین کے خلاف پاکستان کا جو کردار طے ہوا تھا، اس حوالے سے مشرقی پاکستان کی رکاوٹ دور ہو گئی اور مغربی پاکستان کی سول، ملٹری اور مذہبی اشرافیہ نے دل و جان سے امریکا کی خدمات سرانجام دیں۔ ورنہ غالب امکان یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت اپنے محل وقوع کی وجہ سے کبھی بھی سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت کی حمایت نہ کرتی۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مارچ 1972 ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا فیصلہ ہو چکا تھا تو پھر فسادات کے نتیجے میں انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کے ضیاع کی کیا ضرورت تھی؟ اس ضمن میں 1947 ء میں برصغیر کی تقسیم کے دوران ہونے والے فسادات کا ذکر بھی ضروری ہے۔ تب بھی طے شدہ منصوبے کے تحت برصغیر کی تقسیم اگست 1948 ء میں وقوع پذیر ہونی تھی لیکن ناقابل فہم وجوہات کی بنیاد پر اگست 1947 ء میں جلدی بازی کرتے ہوئے ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کر دیا گیا جس کے نتیجے میں نہ صرف ایک بدترین انسانی المیے نے جنم لیا بلکہ اس دوران ہونے والے غلط فیصلوں کے نتائج آج بھی پورے خطے کی عوام بھگت رہی ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ دونوں مرتبہ ( 1947 ء اور 1971 ء) ، مذہبی اور لسانی فسادات سوچی سمجھی سازش کے تحت منظم کروائے کیے گئے تاکہ انسانوں کے درمیان مستقل بنیادوں پر نفرت کی فصل کاشت کی جا سکے اور یہ خطہ مکمل طور پر مغربی طاقتوں کا سیاسی، معاشی اور ثقافتی غلام بنا رہے۔
ہنری کسنجر کے انٹرویو کی روشنی میں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ امریکہ نہ صرف دنیا کے مختلف ممالک کے معاملات میں براہ راست (direct) اور بالواسطہ (indirect) مداخلت کرتا رہتا ہے بلکہ الٹا اسے اپنا حق اور ذمہ داری بھی سمجھتا ہے اور اس کے لئے امریکا کی سلامتی، امریکی عوام کی فلاح و بہبود، جمہوریت اور آزادی کا پرکشش نعرہ بھی استعمال کرتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی سامراج پچھلی سات دہائیوں میں جہاں جہاں بھی گیا ہے، وہاں کے انسانوں کے لئے خانہ جنگی، غربت، سیاسی عدم استحکام، قتل و غارت گری اور آمریت کا باعث ہی بنا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ وطن عزیز پاکستان کا نوجوان انسانی تاریخ کا درست شعور حاصل کرے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسان دوست اور انسان دشمن طاقتوں کی پہچان پیدا کرے۔ ریاستی نظام کے مختلف اداروں، سٹیک ہولڈرز اور ان کے آپس کے تعاملات (interaction) کو سمجھے۔ نیز شخصیات اور جذباتی نعروں پر مبنی بحثوں سے نکلتے ہوئے اپنے اندر اجتماعیت، نظم و ضبط اور اخلاص کی خوبیاں پیدا کرے۔ پھر ہی ایک خودمختار، خوشحال اور انسان دوست معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
حوالہ جات:
1.https://www.humsub.com.pk/288311/basharat-raja-90/
2.https://www.humsub.com.pk/434267/hamid-mir-27/
3.https://juraat.com/30/11/2016/4051/
4.https://www.jasarat.com/sunday/2016/12/16/129683/
5.https://www.theatlantic.com/international/archive/2016/11/kissinger-order-and-chaos/506876/
- افریقی اقوام کی غلامی میں ”نوآبادیاتی کرنسی“ کا کردار - 17/04/2023
- پس قانون: پاکستانی قانون پر برطانوی نوآبادیاتی اثرات - 07/03/2023
- سانحۂ مشرقی پاکستان اور ہنری کسنجر کے انکشافات - 15/12/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).