بے نظیر بے قصور


ویسے تو پنڈی نے ہمیشہ سندھ کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھا ہے ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد پنڈی والوں میں مروت کی کچھ خاص امید تو نہیں رکھی جا سکتی تھی لیکن دو ہزار سات کے ستائیس دسمبر کی شام غریباں نے نہ صرف سندھ دھرتی کے باسیوں کو بلکہ دنیا بھر میں بسنے والے دل والوں کو تیز دھار تلوار کی مانند ایک ایسا گہرا زخم دیا کہ وہ زخم پندرہ سال گزر جانے کے بعد بھی روز اول کی طرح تر و تازہ ہے۔ صرف سندھ ہی نہیں ملک بھر کے عوام محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک شہادت کی خبر سننے کے بعد فرط جذبات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو گئے کیوں کہ محترمہ کو چاروں صوبوں کی زنجیر مانا جاتا تھا۔

بے نظیر بھٹو شہید کا قتل دراصل پاکستان کے عام آدمیوں کی امیدوں کا قتل تھا۔ 27 دسمبر پر صرف بی بی کی برسی نہیں ہے یہ پسینے میں شرابور اس ہاری اور مزدور کے امید کی کرن کی برسی ہے جو اپنی زمین کی کاشتکاری کو چھوڑ کر فصل کو پانی دینے سے پہلے بچوں کی روزی روٹی کے لیے اینٹ کدال لے کر جانے سے پہلے بی بی کو ووٹ دینے جایا کرتا تھا۔ یہ برسی ان لاکھوں خواتین کے ارمانوں کی بھی ہے جو دیہی اور نواحی علاقوں سے نکل کر بی بی کی ایک جھلک دیکھنے گڑھی خدابخش بھٹو جلسے پر جایا کرتی تھیں۔

الغرض بی بی خلق خدا کی لازوال محبتوں کی محور اور توجہ کا مرکز تھیں۔ بی بی 21 جون 1953 ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں اور بی بی کو دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ 27 دسمبر 2007 کو محترمہ کو جسمانی طور پر تو موت کی نیند سلا دیا گیا لیکن روحانی اور جذباتی طور پر وہ آج بھی لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ محترمہ کے نام پر ایسے لوگ بھی ووٹ لے کر سندھ کو لوٹ رہے ہیں کہ جن کا محترمہ اور اس کے نظریے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

اگر کوئی محض ”محترمہ“ بی بی ”یا“ رانی ”کہ کر پکارے یا بات کرے تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے متعلق بات ہو رہی ہے۔ بی بی نے اپنے والد کی بہیمانہ شہادت کے بعد بھی حق حکمرانی عوام کو لوٹانے کے لیے جاری جنگ سے قدم پیچھے ہٹانے کے بجائے اسے جاری رکھا اور ڈٹ کر آمرانہ قوتوں کا مقابلہ کیا اس جدوجہد کے نتیجے میں بی بی کو مختلف ادوار میں اقتدار کے ایوانوں سے مختلف سازشوں کے ذریعے باہر نکال کر جیلوں میں ڈالا گیا اور کبھی ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ بالآخر بی بی 8 سالہ جلاوطنی ختم کر کے پاکستان واپس آئیں اور بنفس نفیس جمہوریت بحالی تحریک کی قیادت کی۔ کارساز سانحے میں اپنی موت کو آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے سینکڑوں شہداء کارساز کو اس وعدے کے ساتھ مٹی ماں کے حوالے کیا کہ اب جمہوریت بحالی کی تحریک نہیں رکے گی۔

سینیئر صحافی عاجز جمالی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ

”یہ نومبر 2007 کی بات ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو اے آر وائی نیوز کے دفتر میں ہم سے اظہار یکجہتی کرنے پہنچی تھیں بیورو چیف رشید چنہ کے دفتر میں ہم نے محترمہ سے بہت ساری آف دی ریکارڈ باتیں کیں لیکن ایک ایسی بات ہوئی جو میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ محترمہ کہہ رہی تھیں کہ میری زندگی کو خطرہ ہے۔ مجھے قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ میں نے اچانک ایک سوال کیا جس کے جواب میں شہید بے نظیر بھٹو نے وہ جملہ کہا جو در اصل میں آپ دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں۔

میں نے پوچھا۔ بی بی جب آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی زندگی کو خطرہ ہے آپ کو قتل کیا جائے گا تو پھر آپ احتیاط کیوں نہیں کرتیں جلسوں میں کیوں جاتی ہیں کیا آپ کی زندگی اہم نہیں ہے اس ملک کے لیے؟ بے نظیر نے میری طرف غور سے آنکھیں ملا کر دیکھا پھر بولیں۔ کیا حضرت امام حسین کو کربلا میں معلوم نہیں تھا کہ انہیں شہید کیا جائے گا؟“

بی بی کے سامنے دو راستے تھے۔ ایک طرف موت دوسری طرف زندگی۔ اگر وہ زندگی بچانا چاہتیں تو ان کے لیے بہت آسان تھا لیکن محترمہ نے عہد وفا کو نبھانا تھا۔ جمہوریت کی بالادستی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے بی بی نے پھولوں کی مالا کے بجائے کانٹوں کے سٹیج پر چلنے کا انتخاب کیا۔ پاکستان میں عام آدمی کے بنیادی حقوق شہری آزادیوں اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنے کے سوا بی بی کا کوئی قصور نہیں تھا۔ دو ہزار سات کے ستائیس دسمبر کا بدبخت سورج مظلوم طبقات کی نمائندہ توانا آواز کی موت کے ساتھ طلوع ہوا اور یوں سندھ کی بے قصور لال قلندر سی لڑکی بی بی بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں خون میں نہلا کر ملک کو ایک بہادر خاتون عوامی لیڈر سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیا گیا۔ پنڈی کی سڑکوں پر بی بی کا بہتا ہوا لہو محترمہ کی بے قصوری کی گواہی دے گیا اور محترمہ نے اپنے لہو سے اپنے والد کے مشن کی آبیاری کر کے دکھائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments