حاملہ بیٹی کی ویڈیو


شمسہ اور وقار نے خود شمسہ کے مطالبے پر شادی سے پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ وہ پانچ سال تک ماں باپ نہیں بنیں گے۔ بات مگر ان دونوں کے درمیان ہی تھی۔ دونوں کے رشتہ دار اور دوست احباب بار بار خوشی کی خبر کے لئے پوچھتے رہتے تھے۔ مگر ادھر مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ آخر شادی کے پانچ سال بعد شمسہ حاملہ ہو گئی۔ البتہ کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے ڈاکٹروں نے پانچ ماہ تک بہت احتیاط برتنے کا مشورہ دیا۔ تشخیص کے مطابق حمل ضائع ہونے کا خطرہ نظر آ رہا تھا، اس لئے انہوں نے یہ خبر اپنے تک محدود کیے رکھی۔

دونوں کی خوش قسمتی سے پانچ ماہ بھی گزر گئے۔ ڈاکٹروں نے بھی کہہ دیا کہ اب خطرہ ٹل چکا ہے، لیکن دونوں میاں بیوی نے اس کے باوجود ایک مہینہ مزید انتظار کیا۔ آخرکار اس جوڑے نے اپنے چاہنے والوں کو ایک خوشگوار سرپرائز دینے کے لئے ویڈیو بنائی۔ اس ویڈیو میں شمسہ کے پیٹ کا حجم صاف اعلان کر رہا تھا کہ وہ پانچ چھ ماہ کی حاملہ ہے۔ ان دونوں نے اپنی خوش کن گفتگو سے اس ویڈیو کو خاصا دلچسپ بنا دیا تھا۔ مذکورہ ویڈیو سب سے پہلے شمسہ کی والدہ کو بھیجی گئی۔

شمسہ کی والدہ، تمکنت بانو اس ویڈیو کو دیکھ کر بہت مسرور ہوئیں۔ ایک تو اس ویڈیو میں دونوں میاں بیوی بہت پرمسرت نظر آ رہے تھے۔ پھر ان کا انداز بتا رہا تھا کہ دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔ تمکنت بانو تو نواسی نواسے کا اتنے برسوں سے انتظار کر رہی تھیں۔ اب اس خبر کی خوشی سے سرشار وہ اپنا موبائل لے کر اپنے خاوند جلیل نقی کے پاس پہنچیں۔ نقی صاحب تو تھوڑی سی ویڈیو دیکھتے ہی آگ بگولا ہو گئے۔

”یہ کیا بے غیرتی ہے؟ بدتمیزی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ مگر اس نے تو کینیڈا جا کر اپنی تہذیب کو یکسر بھلا ہی دیا ہے۔ وہاں کے رنگ میں رنگی گئی ہے پوری کی پوری“ اور پھینکنے کے سے انداز میں، موبائل تمکنت کو واپس کر دیا۔

غصے سے ان کا برا حال ہو رہا تھا اور تمکنت بانو جو چند منٹ پہلے یہ ویڈیو دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں اب خاوند کے غصے سے سہم کر رہ گئیں۔ جلیل نقی کچھ دیر شمسہ کو برا بھلا کہنے کے بعد تمکنت بانو پر برس پڑے

”یہ سب تمہاری ناقص تربیت کا نتیجہ ہے، وغیرہ وغیرہ“ ۔ جب تمکنت بانو کو کافی کوس چکے تو خود ہی اعلان کر دیا

”آج کے بعد میں اس بے حیا لڑکی کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتا“ اور بغیر کچھ بتائے گھر سے باہر نکل گئے۔

تمکنت حیران و پریشان وہیں کھڑی رہ گئیں۔

اس کے بعد ہونے والے واقعات کی جڑیں چونکہ تمکنت بانو اور جلیل نقی کے ماضی میں ہیں، لہٰذا پہلے اسے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

جلیل نقی کو گریجویٹ ہونے کے باوجود مشکل سے ایک کلرک کی نوکری ہی مل سکی۔ انہوں نے پرائیویٹ ایم اے بھی کر لیا، لیکن عہدے میں کوئی ترقی نہ ہوئی۔ سرکاری نوکری چھوڑ کر کہیں اور جانے کی ہمت بھی نہیں تھی۔ تمکنت بانو سے شادی البتہ ان کی خوش قسمتی ثابت ہوئی۔ جو تھیں تو صرف میٹرک پاس، لیکن دانائی انہیں ودیعت میں عطا ہوئی تھی۔

تمکنت بانو نے چند ہی برسوں میں، کچھ تو شوہر کی محدود آمدنی سے پس انداز کیا اور باقی اپنے تمام زیورات بیچ کر، پانچ مرلے کا ایک گھر قسطوں پر خرید لیا۔ جتنا وہ پچھلے مکان کا کرایہ دیتے تھے، اتنی ہی اس مکان کی ماہانہ قسط تھی۔ دس سال کے اندر مکان کی بقایا اقساط بھی ادا ہو گئیں اور وہ اس مکان کے باقاعدہ مالک ہو گئے۔

اسی دوران میں وہ تین بیٹوں کے ماں باپ بن چکے تھے۔ البتہ اس کے بعد مختلف وجوہات کی بنا پر سات سال تک کوئی اور اولاد نہ ہو سکی۔ آٹھویں سال قدرت پھر مہربان ہوئی اور ان کے گھر ایک خوبصورت بیٹی نے جنم لیا۔ تمکنت کی خواہش پر اس کا نام شمسہ رکھا گیا۔

شمسہ کی پیدائش کے فوراً بعد ہی جلیل نقی کی ہیڈ کلرک کے عہدے پر ترقی ہو گئی۔ ہیڈ کلرک سے اوپر کے تمام عہدے صرف انہیں مل سکتے تھے، جنہوں نے سول سروس کا امتحان پاس کیا ہو۔ اس لئے جلیل نقی آخرکار اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

جلیل نقی ایک حد تک کھلے دماغ کے آدمی تھے۔ انہوں نے شادی کے آغاز سے ہی عہد کر رکھا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو اس گھٹن کا شکار نہیں ہونے دیں گے، جس میں سے خود انہیں گزرنا پڑا تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنے بیٹوں کو بوقت ضرورت مشورے ضرور دیے تھے لیکن تعلیم کے دوران مضامین کے چناؤ اور بعد میں پروفیشن کے انتخاب میں کسی قسم کی دخل اندازی نہیں کی تھی۔

یوں ان کی سروس کے دوران ہی تینوں بیٹوں نے اپنی اپنی مرضی کے مضامین میں تعلیم مکمل کی اور یکے بعد دیگرے تینوں کے تینوں اعلٰی عہدوں پر فائز ہو گئے۔ جب تک شمسہ نے عالمی تاریخ میں ایم اے کرنے کے بعد مزید تعلیم کی خواہش کا اظہار کیا، تب تک تینوں بیٹے بال بچوں والے ہو کر اپنے اپنے عالی شان گھروں میں منتقل ہو چکے تھے۔

حالانکہ شمسہ ابھی تک وہیں تھی مگر پھر بھی تمکنت بانو اور جلیل نقی کو ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ گھر اب ویران ہو چکا ہے۔ بیٹوں کے پاس تو اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ وہ ماں باپ سے ملنے کے لئے آتے لیکن اس گھر کی دیواریں تو پوتے پوتیوں کی آوازیں سننے کو بھی ترستی رہتی تھیں۔ جلیل ایک حوصلہ مند انسان تھے مگر اب کبھی کبھی نیند میں انہیں یوں لگتا جیسے گھر کی چھت کسی بھی وقت ان پر آن گرے گی۔ کمرے کی دیواریں، انہیں کسی قبر کی طرح جکڑ لیں گی۔ وہ ایسے خوابوں سے ڈر کر جاگتے تو تمکنت کے بار بار پوچھنے کے باوجود نہ بتاتے کہ اصل میں انہوں نے کیا دیکھا تھا۔

شمسہ کے سامنے تو دونوں میاں بیوی بہت محتاط رہتے تھے مگر جیسے ہی وہ کسی کام سے باہر جاتی یا اپنی کسی سہیلی سے ملنے چلی جاتی تو وہ دونوں اپنے بیٹوں کی باتیں لے کر بیٹھ جاتے۔ دونوں ہی کی باتوں سے کبھی تو یہ گمان ہوتا جیسے وہ دوسرے کو اپنا دکھ سنا رہے ہیں اور گاہے ایسا سماں باندھنے کی کوشش ہوتی کہ ساتھی کو حوصلہ دیا جا رہا ہو۔

”اگر وہ چاہتے تو ہم اس گھر کی دو منزلیں اور بنا لیتے۔ پھر سب مل جل کر یہیں رہتے“ ۔ تمکنت بانو گلہ کرنے کے انداز میں کہتیں

”تمکنت بانو! تم بھول رہی ہو۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ اب ہر بہو کو ایک علیحدہ ڈریسنگ روم درکار ہوتا ہے۔ جہاں اس کی ایک اپنی سنگھار میز ہو۔ وہ تو یہاں ممکن نہیں تھا نا! ”جلیل نقی اپنے طور پر وجہ بتانے کی کوشش کرتے

”ہماری تو ایک ہی الماری میں سب کے کپڑے آ جاتے تھے اور سنگھار میز کی تو نہ مجھے کبھی ضرورت پڑی، نا ہی بال سنوارنے کے لئے غسل خانے سے باہر آپ کو کسی آئینے کی حاجت ہوئی۔ ہمارے زمانے میں تو چلو دو چار کریمیں شریمیں بازار میں آ گئی تھیں مگر ہماری ماں کے زمانے میں تو بس ایک تبت سنو ہوتی تھی تمام امراض کی دوا“ ۔

”تم اپنی باتیں نہ کرو۔ تم تو صرف سرمہ بھی لگا لیتیں تو مجھ پر قیامت ڈھانے کے لئے کافی ہوتا تھا۔ اور میں تمہاری آنکھوں میں جھانک کر ہی جان لیتا تھا کہ میں نے بال درست بنائے ہیں یا نہیں؟“ ۔

یہ اور اسی انواع کی دوسری باتیں لفظوں کی ادلی بدلی کے ساتھ اکثر دہرائی جاتیں مگر نہ تو دونوں ایک دوسرے کو حوصلہ دینے میں کامیاب ہوتے اور نا ہی گلے شکوے سے ان کے دلوں کی بھڑاس نکلتی۔

تینوں بیٹوں نے حالانکہ الگ الگ مضامین میں تعلیم مکمل کی تھی۔ علیحدہ علیحدہ محکموں میں ملازم تھے۔ جدا جدا خاندانوں میں شادیاں ہوئی تھیں۔ پھر بھی ایک بات تینوں میں مشترک تھی۔ تینوں ہی دو دو تین تین ہفتوں کے بعد فون کرتے۔ پہلے ماں سے حال چال پوچھتے۔ پھر دونوں کو باری باری تاکید کرتے کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھا کریں۔ باقاعدگی سے ڈاکٹروں کو چیک کراتے رہا کریں، اور اسی نوعیت کے دوسرے مشورے۔

تینوں میں سے کسی کو بھی کبھی توفیق نہ ہوئی کہ ماں باپ کی مالی مدد کا بھی سوچتے۔ وہ تو الٹا جب بھی باپ سے گفتگو کرتے تو گھما پھرا کر ایک ہی بات دہراتے ”ابا! آپ کا زمانہ کتنا اچھا تھا! کتنے تھوڑے پیسوں میں سارا کنبہ پل جاتا تھا! ہم تو اتنی محنت کے باوجود گھر کے اخراجات ہی مشکل سے پورے کر پاتے ہیں“ ۔

باپ کو بھی پورا پورا ادراک تھا کہ وہ اس قسم کی باتیں کیوں کرتے ہیں؟ ان کو خدشہ رہتا تھا کہ کہیں باپ کچھ پیسے نہ مانگ بیٹھے۔ جلیل نقی بھی ان سے ایسے کسی موضوع پر بحث سے گریز کرتے اور انہی کی ہاں میں ہاں ملا کر بات ختم کر دیتے۔ حالانکہ ہر دو چار مہینے کے بعد جب بھی کسی بہو کی کوئی نئی تصویر دیکھنے کو ملتی تو اس کے زیورات میں کچھ نہ کچھ اضافہ ضرور ہوا ہوتا تھا۔

شمسہ اپنی تعلیم کے دوران بھی جہاں تک ممکن ہوتا ماں کا ہاتھ بٹاتی اور باپ کا خیال رکھتی تھی۔ اب باپ کے ریٹائر ہونے کے بعد اس نے اپنی ذمہ داریوں میں خود ہی اضافہ کر لیا تھا۔ البتہ اس کے اپنے سب کام رک گئے تھے۔ مزید تعلیم کا بندوبست ہو نہیں رہا تھا اور اس کی سخت کوشش کے باوجود کوئی نوکری بھی نہیں مل رہی تھی۔

تمکنت کو اب سب سے زیادہ فکر بیٹی کی شادی کی تھی اور ساتھ ساتھ یہ دھڑکا بھی لگا رہتا کہ وہ بھی اپنے گھر والی ہو جائے گی تو دونوں میاں بیوی اس گھر میں جیسے یتیم ہو کر رہ جائیں گے۔ جلیل نقی کی پنشن سے بمشکل گزارا ہو رہا تھا۔ بیٹوں کی طرف سے کوئی مالی امداد حاصل نہ تھی۔ اگرچہ اس کے وعدے وعید ہوتے رہتے تھے۔ تینوں بیٹے چونکہ اعلٰی عہدوں پر فائز تھے اس لئے شمسہ کے لئے جو بھی رشتہ آتا اس میں بھرپور جہیز کی توقع بھی شامل ہوتی۔ میل ملاقات میں جب لڑکے والوں پر عیاں ہو جاتا کہ ان کی خواہش کے مطابق جہیز نہیں مل سکے گا تو وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ جاتے۔

شمسہ کو یوں بھی شادی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اس دوران میں یورپ، امریکہ اور کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں اپنے لئے کسی سکالرشپ کی تلاش میں تھی۔ اس کی اسی تلاش کے سلسلہ میں اس کی ایک درخواست کینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں پہنچی۔ وقار امین اس یونیورسٹی میں بین الاقوامی معاملات کا پروفیسر تھا۔ شمسہ کی درخواست اتفاقاً اس کی نظر سے بھی گزری۔ اس نے تمام جزیات جاننے کے بعد پاکستان میں اپنے والدین کو شمسہ کے گھر رشتہ کے لئے جانے کو کہا۔

وقار امین کے ماں باپ اور بہنیں، جو اس امر پر بہت خوش تھے کہ آخرکار وقار کو بھی کوئی لڑکی پسند آ گئی ہے، وہ شمسہ کے گھر پہنچے اور اپنا مدعا بیان کیا۔ انہوں نے جلیل نقی اور تمکنت بانو پر پہلی ہی ملاقات میں واضح کر دیا کہ انہیں کسی بھی نوعیت کا جہیز نہیں چاہیے۔ لڑکی نے شادی کے فوراً بعد کینیڈا چلی جانا ہے، جہاں وقار کے پاس اپنا گھر ہے، اور اس میں ضرورت کی ہر چیز موجود ہے۔ لڑکی بس صرف اپنے گرمیوں کے کپڑے ساتھ لے جائے۔ سردیوں کے لئے یوں بھی وہیں سے خریدے جا سکیں گے۔ جلیل نقی اور تمکنت بانو کے لئے یہ امر نہایت مسرت کا باعث تھا، انہوں نے بات آگے بڑھانے کی ہامی بھر لی۔

شمسہ کو بھی اس رشتہ میں کافی مثبت پہلو نظر آ رہے تھے، مگر ہاں میں جواب دینے سے پہلے وہ اپنے ہونے والے شوہر سے رو برو ملاقات کو ضروری خیال کرتی تھی۔ چنانچہ وقار امین کو پاکستان آنا پڑا۔ دونوں کی علیحدگی میں ملاقات ہوئی۔ بہت سے دیگر معاملات پر بھی تفصیلی گفتگو کی گئی اور شمسہ نے شادی کے بعد کم از کم پانچ سال تک ماں نہ بننے کی شرط بھی وقار سے منوا لی۔ وقار نے اس شرط کو ان دونوں کے درمیان راز رکھنے کا وعدہ لے لیا۔

چند ہی دنوں میں ضروری تیاری کے بعد قریبی مہمانوں کی موجودگی میں نکاح ہو گیا۔ پھر بغیر کسی رسوم و رواج اور نمود و نمائش کے رخصتی بھی ہو گئی۔ دونوں کی خوش قسمتی سے ایک ماہ میں ہی شمسہ کا ویزا بھی لگ گیا۔ منصوبہ بندی تو پہلے ہی سے ہو رہی تھی سو، جو بھی اگلی فلائٹ ملی، دونوں میاں بیوی اس پر کینیڈا سدھار گئے۔

بے شک تمام تقریبات نہایت سادگی سے انجام پائی تھیں اور شمسہ کے ماں باپ کو بہت ہی کم اخراجات کا سامنا کرنا پڑا تھا، مگر پھر بھی، وہ ان کی تنگدستی میں اضافے کے لئے کافی تھا۔ رہی سہی کسر شمسہ کے بھائیوں نے پوری کر دی تھی۔ ایک تو انہوں نے اس فرض کی ادائیگی میں والدین کی کوئی مدد نہیں کی دوسرے ان کی بیویوں اور بچوں نے آ کر وہ نخرے اٹھوائے کہ خدا کی پناہ۔ تمکنت بانو نے بیٹوں کی محبت میں جو بن پایا کیا۔ پاس موجود پائی پائی خرچ کر ڈالی بلکہ قرض بھی لینا پڑا۔ اس دلدوز احساس کی وجہ سے شمسہ نے کینیڈا پہنچ کر فوراً نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ مزید تعلیم کے خواب کو اس نے فی الحال تھپکیاں دے کر سلا دیا۔

جلیل نقی نے ریٹائرمنٹ کے بعد سے یہ معمول بنا لیا تھا کہ وہ روز صبح سویرے سیر کے لئے نکل جاتے۔ وہیں قریب ہی ایک چھوٹی سی پارک تھی۔ وہاں اور بھی انہی کی طرح کے کچھ لوگ آتے اور سیر کے بعد بیٹھ کر اپنے اپنے دکھوں کے رونے روتے۔ سب کے مسائل قریباً ایک ہی طرح کے تھے۔

جلیل نقی واک سے واپس آتے تو تمکنت بانو نے چائے تیار کر لی ہوتی تھی۔ صحن میں ایک میز کے گرد تین کرسیاں بچھی ہوئیں تھیں۔ تیسری کرسی پر کبھی کبھی شمسہ ان کا ساتھ دیا کرتی تھی۔ دو کرسیوں پر دونوں میاں بیوی براجمان ہو جاتے۔ مل کر چائے پیتے اور ادھر ادھر کے موضوعات پر بات چلتی رہتی۔ جلیل نقی اس دوران میں کبھی کبھی اخبار پر بھی ایک نظر ڈالتے مگر ان کا زیادہ دھیان بیوی پر ہی ہوتا۔ موجود اور محدود آمدنی میں گھر کے اخراجات کا تخمینہ روز ہی زیر بحث آتا اور تقریباً روز ہی اس منصوبہ بندی پر نظر ثانی کی ضرورت پیش آ جاتی۔ بیٹوں کی طرف سے لاپرواہی کا دکھ دونوں کو ہی تھا مگر اب انہوں نے اس موضوع پر بات کرنی چھوڑ دی تھی۔

یوں اگرچہ تنگدستی تو تھی مگر جلیل نقی کی نرم روی، تمکنت بانو کے سگھڑ پن اور دونوں کے ایک دوسرے کو معقول عزت دینے کی وجہ سے زندگی بہر حال بڑی حد تک سکون سے چل رہی تھی۔ چائے ختم ہوتے ہی تمکنت بانو برتن اٹھا کر کچن میں گھس جاتیں۔ جلیل نقی اخبار کے تفصیلی مطالعہ میں مصروف ہو جاتے۔ دن کے وقت ایک عورت گھر کی موٹی موٹی صفائی کرنے، دو گھنٹے کے لئے آ جاتی تھی۔ اس سے زیادہ کا بوجھ وہ اٹھا نہیں سکتے تھے۔ باقی سب کام تمکنت اور شمسہ مل کر انجام دے لیتی تھیں۔

شمسہ کی شادی کے بعد تیسری کرسی وہاں سے اٹھا لی گئی تھی مگر دونوں میاں بیوی کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اگرچہ دونوں کے درمیان بہت جوش و خروش والی محبت تو کبھی جگہ نہ بنا سکی تھی مگر ایک سیدھا سادا خوش کن سا پیار ان کے درمیان ہمیشہ رہا تھا۔ کبھی کبھی زندگی کے دیگر مسائل ان کے پیار کو تھوڑا دھندلانے میں ضرور کامیاب ہو جاتے تھے مگر حالات کے قابو میں آتے ہی وہ پھر سے توانا ہو جاتا۔ اب چونکہ وہ دونوں ہی اس گھر میں باقی رہ گئے تھے، اس لئے دونوں ہی ایک دوسرے کا پورا پورا خیال رکھنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔

ادھر شمسہ نے کینیڈا پہنچتے ہی نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ وقار نے بھی اس کا ساتھ دیا اور وہ جلد ہی ایک ہائی سکول میں تاریخ کے استاد کی جاب حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ وقار کی اپنی تنخواہ ہی دونوں میاں بیوی اور گھر کے اخراجات کے لئے کافی سے زیادہ تھی۔ شمسہ نے وقار کی مرضی سے اپنی پہلی تنخواہ پوری کی پوری جلیل نقی کو بھیج دی۔

جلیل نقی کو اولاد کی طرف سے ملنے والی یہ پہلی امداد تھی۔ ساتھ ہی انہیں شمسہ اور وقار کی طرف سے ایک ویڈیو پیغام بھی ملا۔ اس پیغام میں انہوں نے جلیل اور تمکنت، دونوں کے لئے محبت اور احترام کا اظہار کیا تھا، جو تمکنت بانو اور جلیل نقی کے لئے مزید مسرت کا باعث بنا۔ اسی ویڈیو میں ان سے یہ درخواست بھی کی گئی تھی کہ وہ اب اپنے گھر اور رہن سہن پر بھی توجہ دیں۔ اپنی خوراک کا خیال رکھیں اور ڈاکٹروں کے مسلسل معائنے میں رہیں۔ انہیں تاکید کی گئی تھی کہ وہ اخراجات کی پرواہ نہ کریں۔ اب وہ دونوں کینیڈا میں اتنا کما رہے ہیں کہ ان کی اچھی زندگی کے تمام اخراجات بآسانی برداشت کر سکتے ہیں۔

جب تین ماہ تک شمسہ انہیں پیسے بھیجنے کے بعد گھر وغیرہ کو اچھا رکھنے پر زور دینے لگی تو جلیل نقی نے بھی پر پرزے نکالنے شروع کیے ۔ اب انہوں نے نئے نئے ٹریک سوٹ بنوائے، ماڈرن جوگرز خریدے اور ایک بڑے پارک میں صبح کی سیر کے لئے جانے لگے۔ اس بڑی پارک میں سب صاحب ثروت لوگ ہی آیا کرتے تھے۔ واک کے بعد وہ سب ایک قریبی ریستوراں میں بیٹھ کر ناشتہ کرتے اور ایک دوسرے کو بتاتے کہ اب اس نے کون سا نیا پلاٹ خریدا ہے؟ کہاں پر پلاٹ اس وقت سستے ہیں اور جلد ہی مہنگے ہونے والے ہیں۔ یہ سب لوگ جائیداد میں ہونے والی اونچ نیچ سے بھی خوب واقف تھے۔ جلیل نقی ان میں بیٹھنے لگے تو وہ بھی ایسی گفتگو کا حصہ بن گئے۔ پہلے تو انہوں نے صرف دکھاوے کے لئے ہی بتانا شروع کیا کہ وہ بھی ایک نئے پلاٹ کی تلاش میں ہیں۔ لیکن جب ان کی خواہش پر شمسہ نے انہیں پیسے بھی بھیج دیے تو انہوں نے بھی ایک نئی کالونی میں ایک پلاٹ خرید لیا۔ پھر گاڑی بھی بدل لی۔

اب جلیل نقی بھی خود کو وہاں آنے والے دوسرے لوگوں کے لیول کا آدمی سمجھنے لگے۔ ساتھ ہی گھر میں بھی کچھ تبدیلیاں آ گئیں۔ ایک کی بجائے دو دو ملازمائیں گھر کے کام کے لئے رکھ لی گئیں اور گھر کا ناک نقشہ بھی بدل گیا۔

جلیل صاحب اب واک سے واپسی کے بعد گھر آتے تو پہلے اخبار کا مطالعہ کرتے اور پھر چائے پیتے یا تمکنت سے بات چیت کرتے۔ گھر کے اخراجات کا مسئلہ اب زیر بحث ہی نہیں آتا تھا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ جلیل نقی میں ایک اور تبدیلی بھی آ گئی تھی۔ اس تبدیلی کی بڑی وجہ تو اس پارک میں آنے والے لوگ ہی تھے۔ جلیل نقی بھی اب چونکہ خود کو ان جیسا ہی سمجھ رہے تھے تو ان کے رنگ میں رنگے بھی جا رہے تھے۔

وہ سب ریٹائرڈ مگر جائیدادوں والے اور دولت مند لوگ تھے۔ دل سے ہوں نہ ہوں مگر بظاہر کافی مذہبی نظر آتے تھے۔ داڑھیاں تو بے شک کم ہی لوگوں نے رکھی ہوئی تھیں مگر پلاٹوں کی خریدوفروخت کے علاوہ ان کا دوسرا موضوع مذہب ہی ہوتا تھا۔ ان کی دیکھا دیکھی جلیل نقی نے بھی ویسے ہی رنگ ڈھنگ اختیار کر لئے۔ پھر دو سال کے اندر ہی انہوں نے دو پلاٹ خریدے اور اچھے منافع پر فروخت کر دیے۔ اسی وجہ سے اب وہ خود کو پراپرٹی کا اچھا بزنس مین سمجھنے لگے تھے۔ اگرچہ شمسہ کی طرف سے امداد لگاتار جاری تھی اور وہ اس سے فائدہ بھی اٹھا رہے تھے مگر اب رفتہ رفتہ جلیل نقی کی نظر میں اس کی اہمیت کم ہوتی جا رہی تھی۔ وہ بزعم خود یہ سمجھنے لگے تھے کہ پراپرٹی کے بزنس میں انہوں نے جو پیسہ بنایا ہے وہ سب ان کی ذاتی ذہانت کی وجہ سے ہی ہو پایا ہے۔

جلیل نقی کے پراپرٹی بزنس میں ہونے والی ترقی کی خبر جیسے ہی ان کے بیٹوں اور بہوؤں کو ملی تو ان کے رویے ہی تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔ وہ جو ٹیلی فون پر بھی ہفتوں بعد ہی ان کی خیریت دریافت کرتے تھے، اب ہر مہینے، باری باری، ان کی تیمارداری کے لئے باقاعدہ حاضر ہونے لگے۔

”آپ کی بہو کتنے دنوں سے آپ کی صحت کے بارے میں فکر مند تھی اور بچے بھی دادا، دادی سے ملنے کی ضد کر رہے تھے، اس لئے مجھے بھی مصروفیت کے باوجود آنا ہی پڑا“ ۔

تینوں میں سے جو بھی بیٹا، اپنے بیوی بچوں سمیت بن بلائے آن وارد ہوتا، وہ کچھ ایسے ہی الفاظ سے آغاز کرتا۔ پھر بات، باپ کے سائڈ بزنس اور شمسہ کی طرف سے لگاتار مالی امداد کی طرف مڑ جاتی۔

”ابا کو تو شمسہ کی طرف سے مدد مل گئی اور انہوں نے اس عمر میں بھی اپنا سائڈ بزنس جما لیا۔ اب ماشا اللہ وہ مہنگائی کے جن کی گرفت سے آزاد ہو چکے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ تنخواہوں میں گزارا کرنے کے لئے بار بار بجٹ بناتے اور اس میں رد و بدل کرتے رہتے ہیں مگر تنگدستی ہے کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہی“ ۔

جلیل نقی انتہائی اطمینان سے بیٹوں، بہوؤں کے ایسے جھوٹ سنتے اور انہیں دلاسا دیتے ہوئے کچھ نہ کچھ مالی مدد بھی کر دیتے۔ وہ نہ نہ کرتے ہوئے یہ سب جیبوں میں ڈال، رسمی شکریہ ادا کرتے اور اپنی راہ لیتے۔

تمکنت بھی بیٹوں، بہوؤں اور پوتے پوتیوں کے آنے سے بہت خوش ہوتیں۔ ان کی خوب خاطر تواضع بھی کرتیں مگر ساتھ میں مالی امداد کے حق میں وہ ہرگز نہ تھیں۔ انہوں نے کئی بار اپنے طور پر جلیل نقی کو سمجھانے کی کوشش بھی کی مگر بے سود۔ جلیل نقی شاید اس انداز میں اپنی کسی انا کی تسکین کا سامان کرتے تھے، اس لئے ہر بار تمکنت بانو کو خاموش کرا دیتے۔

تنگ آ کر تمکنت بانو نے شمسہ کو تمام حالات سے آگاہ کر دیا۔ شمسہ نے بھی اپنی سی کوشش کی اور باپ کو حقیقت پسند ہونے کے مشورے دیے مگر سب بے کار گئے۔ شمسہ سے تو وہ الٹا ناراض بھی ہوئے، سو آخر کار وہ بھی ہمت ہار کر خاموش ہو گئی۔ ڈانٹ کھانے کے باوجود اس نے نہ تو اپنی طرف سے آنے والی مالی امداد کو روکا اور نا ہی اس میں کوئی کمی کی۔

زندگی اپنی چال چلتی ہوئی اس مقام پر آ گئی جہاں شمسہ نے اپنے ہونے والے بچے کی خوش خبری سنانے کے لئے اس ویڈیو کا سہارا لیا جس کا ذکر آغاز میں ہو چکا ہے۔

جلیل نقی اب وہ پہلے والے کھلے دماغ کے انسان نہ رہ گئے تھے۔ روپے کی بہتات اور ظاہراً مذہبی لوگوں کی صحبت نے انہیں کافی تنگ نظر اور قدامت پسند آدمی بنا دیا تھا۔ اسی لئے انہوں نے اس تضحیک آمیز رد عمل کا مظاہرہ کیا جو تمکنت بانو کے لئے بھی انتہائی غیر متوقع تھا۔ جلیل نقی کے اس رویے پر درگزر کرنا انہیں اپنی ہمت سے زیادہ دکھائی دیا تو انہوں نے چند روز بعد شمسہ کو پوری صورت حال سے آگاہ کر دیا۔

شمسہ کے لئے یہ سب برداشت کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ اسی دکھ میں اس نے جلیل نقی کی مالی امداد یکسر بند کر دی۔ تمکنت بانو نے بھی اسے منع کر دیا کہ جب تک حالات پھر سے بہتر ڈگر پر نہیں آ جاتے، یہی اچھا ہے کہ وہ انہیں بھی کچھ نہ بھیجے۔

جلیل نقی تو اب شمسہ کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہ رکھنا چاہتے تھے اس لئے اٹھتے بیٹھتے تمکنت کو بھی سمجھاتے رہتے کہ خاوند کی حکم عدولی پر بیوی کس قدر گناہ کی مرتکب قرار پا جاتی ہے۔ اس لئے اب تمکنت بھی بیٹی کو اسی وقت کال کرتیں، جب جلیل نقی اپنی مارننگ واک کے لئے پارک گئے ہوتے۔ پاکستان میں نئی صبح کا یہ وقت کینیڈا میں گزشتہ شام کا سمے ہوتا۔ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں ماں بیٹی اپنے دکھ شیئر کرتیں اور اکثر ہی ان کی کال کا اختتام اشکوں کی دھند میں ہوتا۔

آخرکار، وقت آنے پر شمسہ ایک خوبصورت اور صحت مند بیٹے کی ماں بن گئی۔ یہی موقع اس کی انتہائی خوشی کا بھی تھا اور اسی وفور سے اس کے صبر کا پیمانہ بھی چھلک اٹھا۔ اپنی مکمل صحت یابی کے بعد اس نے پھر ایک ویڈیو بنائی۔ اس بار براہ راست جلیل نقی سے مخاطب ہو کر۔ اس نے اس ویڈیو میں جی بھر کر دل کی بھڑاس نکالی۔

اس لمبی چوڑی ویڈیو میں اگرچہ اس نے اپنے بیٹے کی پیدائش کا ذکر تو کیا تھا مگر اس کی شکل تک دکھانے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ اس ویڈیو کا آغاز ہی نہایت طنزیہ انداز میں کیا گیا تھا۔

”آپ میرے والد ہیں لیکن میری مرضی کے خلاف۔ کیونکہ ایسا ہونے میں آپ کا کوئی عمل تو شامل ہے مگر میری خواہش جاننے کی کسی نے بھی کوشش نہیں کی۔ اگر میں جانتی کہ آپ کا کردار کسی وقت اتنا تبدیل ہو جائے گا تو میں آپ کے گھر پیدا ہونے کے فوراً بعد ہی خود کو قتل کر دیتی“ ۔

اسی طرح کی بہت سی دیگر تلخ باتوں کے علاوہ اس ویڈیو میں اس کی طرف سے درج ذیل سوالات بھی شامل تھے۔

”آپ اب چونکہ بہت مذہبی شخصیت بن چکے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اپنے تئیں خدا کے بھی نہایت قریب جا پہنچے ہوں تو آپ سے ایک سادہ سا سوال ہے۔ اسلامی فقہ کے مطابق لفظ نکاح کے کیا معنی ہیں؟ نہیں پتہ؟ اچھا چلیں میں بتائے دیتی ہوں۔ فقہ کے مطابق لفظ نکاح کا مطلب ہے، ایک شرعی معاہدہ جس کے ذریعے ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان جنسی تعلق جائز اور پیدا ہونے والی اولاد کا نسب صحیح ہو جاتا ہے۔

اب آپ بتائیے، جب میرا نکاح ہو چکا تھا تو میرے وقار کے ساتھ جنسی تعلقات تو شرعی لحاظ سے بھی جائز تھے۔ پھر میرے ہونے والے بچے کی خبر آپ کے لئے اس قدر قابل اعتراض کیوں ٹھہری؟ اور اگر اس خبر کی بجائے آپ کو تکلیف میری ویڈیو کی وجہ سے پہنچی تھی تو وہ بھی کیوں؟ کیا مجھے چھ ماہ کے حمل کے ساتھ اپنا پیٹ اپنے لباس کے علاوہ بھی کسی طرح چھپا کر رکھنا چاہیے تھا؟ اگر ہاں! تو بھئی آخر کس وجہ سے؟

آپ کے غصے نے میرے دماغ میں ایک اور سوال کو بھی جنم دیا۔ کیا آج تک دنیا کا کوئی عظیم سے عظیم مرد بھی ماں کے بطن کی بجائے کسی اور طرح سے پیدا ہوا ہے؟ مثلاً وہ آسمان سے گرایا گیا ہو، کسی درخت پر پھل کی صورت میں نمودار ہوا ہو یا پھر زمین کا سینہ چاک کر کے باہر آیا ہو؟

ایک اور بات بتائیے! کیا خدا نے آج تک کسی اعلٰی سے اعلٰی مرد کو بھی یہ توفیق دی ہے کہ وہ زندگی میں صرف ایک بار ہی سہی مگر ایک بچے کو اپنے ہی بطن سے پیدا کر سکے؟ جب قادر مطلق نے اپنی اس اہم ترین صفت سے صرف عورت کو نوازا ہے تو وہ خدا کی اس عنایت کو دنیا سے کیوں چھپاتی پھرے؟ ”

جلیل نقی تک یہ ویڈیو پہنچی تو انہوں نے تھوڑی سی دیکھنے کے بعد طیش کے عالم میں اسے ڈیلیٹ کر دیا۔ شمسہ کو تمکنت کے ذریعے یہ خبر مل گئی۔ اس نے مذکورہ ویڈیو اس سوال کے ساتھ دوبارہ بھیجی کہ جسے آپ چند ماہ پیشتر تک اپنی اولاد میں سب سے اعلٰی اور عزیز ترین کہتے تھے، اب اس کی پوری ویڈیو دیکھنے کے بھی روادار نہیں رہ گئے؟

جلیل نقی نے تب یہ ویڈیو پوری دیکھی۔ ایک بار، دو بار، تین بار اور پھر شمسہ کو میسج لکھا کہ وہ اس ویڈیو کو تین بار دیکھ چکے ہیں مگر وہ خود کو اس کے کسی سوال کے لئے بھی جواب دہ نہیں سمجھتے۔ یوں باپ اور بیٹی کے درمیان ایک بار پھر خاموشی کا وقفہ آ گیا۔

اس سناٹے نے جلیل نقی کے غصہ کو کچھ اور ہوا دی۔ وہ مسلسل مضطرب رہنے لگے۔ اسی اضطراب کے عالم میں انہوں نے دو ایسے پلاٹ خرید لئے جو ان کے خیال میں جلد ہی خاصہ منافع دینے والے تھے۔ البتہ اس نوع کے سودے سے پہلے جس جانچ پڑتال کی ضرورت تھی، وہ انہوں نے نہیں کی۔ کچھ سودا کرانے والے ایجنٹ نے بھی ہوشیاری دکھائی اور انہیں جلد از جلد خریداری نمٹانے پر مجبور کر دیا۔ سو اس معاملے میں جو گھپلا تھا، جلیل نقی اسے دیکھ ہی نہ سکے۔ نتیجہ وہی ہوا جو عام طور پر ایسے لین دین میں ہوتا ہے۔ دونوں پلاٹوں میں ایک بڑا فراڈ نکل آیا۔

جلیل نقی نے ایک بڑے وکیل کے ذریعے معاملات کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کی مگر جب قسمت سے ہی دشمنی مول لے لی جائے تو کوئی کل سیدھی پڑتی ہی نہیں۔ جلیل نقی کے وکیل نے بھی فیس تو ان سے وصول کی لیکن مخالف پارٹی سے بھاری رشوت لے کر مقدمہ ہار گیا۔ وہ خود بھی جانتا تھا کہ یہ ہار صرف جلیل نقی کی ہے۔ اسے تو اس ہار میں بھی فائدہ ہی ہوا تھا۔

شمسہ نے اچھے تعلقات کے دنوں میں باپ کو بار بار سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ وہ پراپرٹی کے بزنس کو ممکنہ حد تک خطرات سے محفوظ رکھنے کے طریقے پر چلیں۔ بے شک انہیں منافع کم ہو لیکن نقصان کا اندیشہ بالکل نہ ہو۔ اس کا استدلال تھا کہ کاروبار میں تو کئی بار ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے لئے بہت مضبوط اعصاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ان کے ساتھ کبھی ایسا ہوا تو وہ دماغی خلفشار کا شکار ہو سکتے ہیں۔

شمسہ نے تو انہیں اس کاروبار سے قطعی دوری اختیار کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ اس کا سوال تھا کہ انہیں یہ سب کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ گھر میں سب ٹھیک ہے۔ وہ انہیں جو پیسے بھیج رہی ہے، وہ اس سے آرام اور سکون کی زندگی گزار سکتے ہیں تو پھر کیوں خود کو کاروبار کے اس عذاب کا شکار کر رہے ہیں؟ مگر شمسہ کی بات اس وقت انہیں اچھی نہ لگی تھی۔

اب دو پلاٹوں کی رقم ڈوب جانے کے علاوہ وکیل کی فیس اور عدالتوں کے چکروں میں وہ مالی طور پر خاصے کمزور ہو گئے تھے۔ اگرچہ ان کے پاس ابھی تک ایک اچھا پلاٹ باقی تھا مگر اب دماغ ہی غصہ کی لپیٹ میں تھا تو کوئی اچھا فیصلہ کیسے ہوتا؟

خون کا دباؤ قابو سے باہر ہو رہا تھا اور چند ہفتوں میں ہی جلیل نقی کو دو بار ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ اس کے بعد وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ بوڑھے اور نزار نظر آنے لگے۔ بیماری کے اخراجات نے انہیں مالی طور پر ایک اور جھٹکا دیا اور تینوں بیٹے بھی اپنی بے اعتنائی کی پرانی ڈگر پر واپس چل پڑے۔

”ابا! آپ نے ہمیں ہمیشہ کم عقل ہی گردانا اور کبھی ہم سے رائے لینے کی کوشش نہ کی، ورنہ آپ اس طرح کے فراڈ سے بچ سکتے تھے۔ ہمارے پاس بھی اچھی معلومات تھیں، اگر آپ ہمیں اس قابل سمجھتے تو۔“ ۔

جلیل نقی مسلسل ذہنی خلجان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اکثر رات کو کسی ڈراؤنے خواب کی وجہ سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے۔ تمکنت پوچھتیں تو کہتے نیند نہیں آ رہی، شاید دماغ میں خشکی بڑھ گئی ہے۔ پھر آخر ایک شب جب ایسے ہی کسی خوف نے دل پر دباؤ ڈالا اور اٹھ کر بیٹھ گئے تو تمکنت کے سوال پر بولے

”میرے ساتھ اب یہ اکثر ہونے لگا ہے۔ سو جاتا ہوں تو ایسے لگتا ہے جیسے میرا دماغ ایک وسیع و عریض جنگل ہے اور میں اس کے درختوں سے ٹکریں مارتا پھر رہا ہوں۔ کبھی کبھی کسی درخت سے ایسی تلخ بو آتی ہے کہ خدا کی پناہ! مزید برداشت نہیں ہوتا۔ یوں میں اپنے ہی دماغ کے اس جنگل سے واپس بیداری کی طرف لوٹ آتا ہوں۔ نجانے میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے!“ ۔

تمکنت ان کی ڈھارس بندھانے کی کوشش کرتیں اور وہ دوبارہ سے سونے کی سعی میں مصروف ہو جاتے۔

بیماری اور کمزوری ان کے اعصاب پر بھی اثرانداز ہوئے۔ انا کے آسمان پر چڑھے جلیل نقی جلد ہی زمین پر آن گرے۔ انہوں نے اپنا آخری پلاٹ بھی اونے پونے داموں فروخت کر دیا مگر مالی حالات تھے کہ نہ سنورنے کی قسم کھائے بیٹھے تھے۔

ایک دن مایوسی کے اندھیروں میں گرتے گرتے انہیں نجانے کیا خیال آیا کہ انہوں نے شمسہ کو فون کر دیا۔ اس سے اپنے گزشتہ رویے پر معافی مانگی اور مالی مدد بھی طلب کی۔ شمسہ کو اچھا تو نہیں لگا کہ باپ کی شفقت ان کی کاروباری بربادی کے بعد واپس پلٹی ہے مگر پھر بھی اس نے دوبارہ سے ماں باپ کی مالی مدد شروع کر دی۔ البتہ شمسہ نے فیصلہ کیا کہ اگر آئندہ کبھی وہ حاملہ ہوئی تو اپنے باپ کو کوئی ویڈیو نہیں بھیجے گی۔ بیٹی کے پیٹ میں آنے والے مہمان کی جھلک، بہوؤں کے کانوں میں نئے بُندوں اور باریش بوڑھوں کے مشورے سے خریدی جائیداد میں اب اسے کوئی تعلق نظر نہیں آتا تھا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments