گلزار ملک کا ناول: صدی کی آخری محبت


گلزار ملک ایک صاحب مطالعہ، بلند فکر اور نقش کار افسانہ نگار اور ناول نویس ہیں۔ وہ نوجوان نسل کے ان نمایاں افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں لکھنا شروع کیا۔ گلزار ملک 3 جون 1970 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ اصل نام گلزار احمد ہے۔ آپ کا ادبی سفر تین دہائیوں پر مشتمل ہے۔ آپ نے گورنمنٹ سائنس کالج فیصل آباد سے فزکس میں ماسٹر کیا۔ پچھلی دہائی میں گلزار نوجوان نسل کے نمائندہ تخلیق کار بن کر ابھرے ہیں۔

آپ کے افسانے نہ صرف ملک کے تمام قابل ذکر ادبی جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں بلکہ فیس بک پیج ”داستان“ کے ذریعے اردو اور تراجم کی صورت میں دنیا کی دوسری زبانوں میں سوشل میڈیا پر پڑھے جا رہے ہیں جس سے آپ کی عالمی سطح پر پہچان بنی ہے۔ گلزار کا پہلا افسانوی مجموعہ ”آزادی کے لئے ایک مزدور کی موت“ ( 2001 ) ہم خیال پبلشرز سے شائع ہوا۔ یہ جبر و استبداد کے خلاف احتجاجی ادب میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ”آگ“ ( 2006 ) ۔ ”اندھوں کی بستی میں محبت“ ( 2011 ) ، ”گرتے ہوئے پیڑوں کی سرگزشت“ ( 2018 ) اور ”محبت سمند ر اور وہ“ ( 2018 ) ایسے افسانوی مجموعے ہیں جو ادبی دنیا میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ آپ کا پنجابی افسانوی مجموعہ ”کڑی جہڑی ندی سی“ ( 2008 ) ماں بولی کے لئے توشہ خاص سمجھا جاتا ہے۔ آپ کا پہلا ناول صدی کی آخری محبت (ناول) ( 2015 ) فکشن ہاؤس لاہور نے چھاپا اور اب دوسری بار مثال پبلشر فیصل آباد نے اسے چھا پا ہے جبکہ ناول ”گمشدہ میراث“ ( 2020 ) میں فکشن ہاؤس لاہور نے چھاپا ہے جبکہ ناول ”مٹی کے خدا“ دیوانے کا خواب ”“ برباد ہوتی دنیا ”بالترتیب فکشن ہاؤس لاہور اور مثال پبلشر فیصل آباد کے پاس زیر طباعت ہیں۔

مختصر کہانیوں کی کتاب“ شہرزاد ”ایک سو ایک کہانیوں پر مشتمل ہے ابھی طباعت کے مراحل میں ہے۔ آپ کے افسانوں پر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں ایم اے لیول کا کام ہو چکا ہے۔ جبکہ ایف سی یونیورسٹی لاہور، گیریزن یونیورسٹی لاہور نے ایم فل لیول کا کام آپ کے افسانے اور ناول پر کروایا ہے۔ آپ کی ادبی خدمات کے صلے میں الطاف حسین حالی ادبی ایوارڈ 2022 کے لئے نامزد کیا گیا ہے گلزار ملک ان دنوں پنجابی مجلہ“ جاگ ”کی ادارت کرتے ہیں اور اردو لٹریری میگزین“ الکلام ”یاسمین لٹریری فارم اور ادبی تنظیم“ تمثیل گر ”سے وابستہ ہیں۔

صدی کی آخری محبت

یہ ناول گلزار ملک کی اپنی جنم بھومی سے محبت کی عمدہ مثال ہے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے تاریخ کا بڑی عمیق نگاہی سے مطالعہ کیا ہے جس کا اظہار ہمیں ان کے ناول میں ملتا ہے اس کا زمانہ تقریباً دو سے تین صدیوں کو گھیرے ہوئے ہے

عشق مجازی سے حقیقی تک کا یہ سفر پڑھنے والے کو ایک انوکھے سحر میں مبتلا کر دیتا ہے اور دنیا کی مادی محبتوں کی بجائے حقیقی محبت کی جانب راغب کرتا ہے

ایک کے بعد ایک نئی کہانی قاری کو اپنے ساتھ باندھے رکھتی ہے

مصنف نے اس ناول میں پنجاب کی تہذیب کا عروج اور مٹتی ہوئی تہذیب کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے جس کا اظہار ہمیں جا بجا ملتا ہے اس کے علاوہ مذہبی انتہا پسندی اور مذہب کے نام پر ہونے والی خرافات سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے

تاریخی شعور بھی اس ناول کا اہم عنصر ہے۔ اس ناول کی ابتدا پنجاب کی تہذیب کی بھرپور عکاسی سے ہوتی ہے گٹی سکول والی جو مصنف کی جنم بھومی ہے وہاں سے کہانی کا آغاز ہوتا ہے اور وہاں کے کرداروں کو مختلف صورتوں میں پیش کیا جاتا ہے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ گٹی سکول والی ایک ایسا مرکز محبت ہے جس کے گرد عشق و محبت کی لازوال داستانیں گھومتی ہیں جن کا اختتام محبت حقیقی پر ہوتا ہے جن میں گٹی کے ایک کردار ولیا کی محبت، بورے بند کی مایا سے محبت اور فاؤنٹین ہاؤس میں موجود ایک کردار انجلی کی فوجی سے محبت شامل ہیں

ناول کا مرکزی کردار دائم ہے جس کے ساتھ پیدا ہونے سے لے کر آخر تک عجیب و غریب واقعات پیش آتے ہیں جیسا کہ بچپن میں اس کے بستر میں سانپ گھس آتا ہے اور بعد میں وہ سانپ اس کے ہاتھ میں مرا ہوا پایا جاتا ہے اسی طرح لڑکپن میں وہ ایک گھاٹی میں داخل ہوتا ہے جو اس کے لیے راستہ بناتی جاتی ہے گہرائی میں اترنے کے بعد اسے ایک قیمتی موتی ملتا ہے جسے اٹھا کر مالدار بننے کی بجائے نفس کی خواہش سمجھ کر ٹھکرانا اس کے لیے نئے راستے کھول دیتا ہے دائم جب جوان ہوتا ہے تو اسے ایک لڑکی جس کا نام روشنی ہے اور وہ اس ناول کی ہیروئن ہے سے محبت ہو جاتی ہے دائم ہر وقت روشنی کے خیالوں میں کھویا رہتا ہے اور یہ محبت یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہوتی ہے روشنی بھی دائم کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے یوں عشق مجازی کا آغاز ہوتا ہے لیکن اس عشق کی منزل پہلے سے کچھ اور متعین ہوتی ہے کچھ لوگ روشنی کا پیچھا کرتے ہیں اور اسے اغوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں دائم کے پوچھنے پر روشنی اسے یہ بتاتی ہے کہ اس کے پاس کچھ دستاویزات ہیں جو بہت قیمتی ہیں دائم کہتا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی چیز میرے لیے تم سے زیادہ قیمتی نہیں لہذا تم وہ دستاویزات ان کے حوالے کر دو لیکن روشنی کہتی ہے کہ ایسا کرنے سے بھی وہ ہماری جان چھوڑنے والے نہیں ہیں الغرض دائم روشنی کو ان سے بچانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اور اس دوران اسے شدید زخمی بھی ہونا پڑتا ہے بالآخر روشنی اور دائم ان سے بھاگتے رہتے ہیں اور پھر ایک مقام پے وہ لوگ روشنی کو اغوا کر کے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں

روشنی سے بچھڑنے کے بعد دائم مارا مارا پھرتا ہے اور اسے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ ناکام رہتا ہے

اسی دوران دائم کی ملاقات چند خانہ بدوش بنجاریوں سے ہوتی ہے اور وہ دائم کو پہلے تو چور ڈاکو سمجھتے ہیں لیکن جب وہ دائم کو اپنے سردار کے پاس لے کے جاتے ہیں تو سردار کو دائم میں کچھ خاص نظر آتا ہے لہذا وہ دائم کو قبیلے میں رہنے کی اجازت دیتا ہے اسی دوران قبیلے کے سردار کی بیٹی کو دائم سے محبت ہو جاتی ہے دائم ان لوگوں کو بتاتا ہے کہ راستے میں اس کا مقابلہ ایک ریچھ سے ہوا اور دائم نے اسے پچھاڑ دیا تو یہ سن کر وہ دائم کا مذاق اڑاتے ہیں اور دائم کو اب یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ سچ میں اتنا بہادر ہے

قبیلے میں رواج ہوتا ہے کہ سب سے بہادر شخص کو قبیلے کے سردار کی بیٹی سے شادی اور قبیلے کی سرداری دی جاتی ہے ایک شخص جو قبیلے میں سب سے بہادر ہوتا ہے اس کی لڑائی دائم سے ہوتی ہے اور دائم ایک ہی جھٹکے میں اسے ہرا دیتا ہے جس کے بعد اس قبیلے میں دائم کا چرچا ہر طرف ہونے لگتا ہے

اب سردار کی بیٹی ہر وقت دائم کا سایہ بن کر رہتی ہے لیکن دائم اس کی طرف توجہ نہیں دیتا ایک مقام پر جب سردار کو ایک اژدہا اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اس کی جان جانے والی ہوتی ہے تو دائم سردار کی جان بچاتا ہے جس کی بدولت وہ اور زیادہ خاص ہو جاتا ہے دائم کو محسوس ہوتا ہے کہ اب اسے یہاں نہیں رہنا چاہیے کیونکہ سردار اور اس کی بیٹی ہے دائم کی طرف خاص توجہ ہوتی ہے لہذا دائم وہاں سے چل پڑتا ہے

اب دائم کی ملاقات ایک درویش جس کا نام بابا امین ہے اس سے ہوتی ہے اور وہ اسے بتاتا ہے کہ وہ کتنا خاص ہے وہ اسے اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ وہ ایک لڑکی کی محبت میں مرنے کے لیے نہیں بنا بلکہ اس کی زندگی کا مقصد کچھ اور ہے اور حقیقت اور معرفت کے رموز سے دائم کو آگاہ کرتا ہے اور پھر وہاں سے غائب ہو جاتا ہے دائم کے پاس اب روشنی کی تلاش کے ساتھ ساتھ بابا امین کی تلاش کی وجہ بھی ہوتی ہے اور وہ اس کی تلاش میں نکل پڑتا ہے لیکن بابا امین اسے نہیں ملتا بالآخر وہ ایک درگاہ پر پہنچتا ہے جہاں اس کی ملاقات صوفی کرامت سے ہوتی ہے وہ دائم کو ایک بھنگ کا پیالہ پینے کے ذریعے روشنی سے ملاقات کا یقین دلاتا ہے لیکن دائم اس پیالے کو پینے سے انکار کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اپنے عقیدے سے انحراف نہیں کر سکتا یوں اس کا حقیقت کی جانب وہ سفر جو شروع ہو چکا ہوتا ہے میں مزید ایک قدم کا اضافہ ہو جاتا ہے

ایک مرتبہ پھر دائم کی ملاقات بابا امین سے ہوتی ہے وہ بابا امین کو سب کچھ بتانا چاہتا ہے لیکن بابا امین جیسے وہ سب پہلے سے جانتا ہوتا ہے اور اسے خاموش رہنے کا کہتا ہے

اور مزید اس کی روحانی تربیت کرتا ہے

بالآخر دائم اس مقام کو پا لیتا ہے جہاں اس کی نگاہوں سے پردے اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں اور اسے ہر طرف ایک ہی چہرہ نظر آتا ہے جسے وہ اس سارے سفر کے دوران بھی بھولا نہیں ہوتا اور وہ اس کی محبت روشنی کا چہرہ ہوتا ہے

دائم اب زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے اور عشق حقیقی کی انتہا پر پہنچ چکا ہوتا ہے اسے ادراک ہوتا ہے کہ کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا تھا وہ محبت کے اعلی درجے پر فائز ہو چکا ہوتا ہے جہاں وہ مادی دنیا سے ماورا ہوتا ہے

ناول کے اختتام میں اسے ایک مرتبہ پھر روشنی نظر آتی ہے جو اسی ہسپتال کے بیڈ پر موجود ہوتی ہے

لیکن دائم اب اس مقام پر پہنچ چکا ہوتا ہے کہ وہ اسے ہر جگہ ہر مقام پر اپنے ساتھ محسوس کرتا ہے در اصل روشنی اسے حقیقت تک پہنچانے کا ذریعہ بنی ہوتی ہے

دائم کی ملاقات ایک مرتبہ پھر اسی قبیلے کے سردار سے ہوتی ہے اور وہ سردار اسے بتاتا ہے کہ اس کی بیٹی نے دائم کی محبت میں تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دی جس پر دائم بہت رنجیدہ ہوتا ہے بیٹی کے مرنے کے بعد سردار بھی دائم کی تلاش میں نکلا ہوتا ہے کیونکہ یہ اس کی بیٹی کی آخری خواہش بھی ہوتی ہے اب دائم اور بوڑھا سردار دونوں ایک ہی راستے کے مسافر ہوتے ہیں

دائم کی نظر میں زندگی کا مقصد دوسروں سے محبت ہوتا ہے وہ اب اخلاص کا منبع بن چکا ہوتا ہے اور خود کو خدا کے لیے وقف کر دیتا ہے اب دائم وہ دائم نہیں رہتا جس پر مادی خواہشات کا غلبہ تھا بلکہ دائم اب ہر شے سے آزاد ہو کر خدا کے قرب کو پا چکا ہوتا ہے

ناول کا پلاٹ کافی جاندار ہے۔ واقعات کو ایک لڑی کی صورت میں پرویا گیا ہے۔ اس ناول میں کئی ڈرامائی لمحات دکھائی دیتے ہیں۔ جو اس کے پلاٹ میں دلچسپی اور سسپنس کے عناصر پیدا کرتے ہیں۔ ہر بات کو اتنی باریکی سے بیان کیا گیا ہے کہ قاری عمیق گہرائی تک پہنچ جائے اور بذات خود اس ناول کا حصہ بن جائے۔ جس میں مصنف کامیاب ہوئے ہیں۔

ناول کے کردار:
1۔ ولی محمد ولیا

گلزار ملک نے ناول میں پیش ہر کردار کو بڑی عرق ریزی سے تراشا ہے۔ ولیا بھی انھی میں سے ایک ہے۔ جس کا قد لمبا اور زبان لڑکھڑاتی ہے۔ اس نے اپنے اعزہ کو پاک و ہند ہجرت میں کھویا ہے اور وہ اس ہجرت کے بعد خود کو دھوبی کا کتا تسلیم کرتا ہے۔ جب لوگ جشن آزادی منا رہے ہوتے ہیں تو وہ دن اس کے لیے یوم سیاہ ہوتا ہے کیونکہ اس کے اپنے اسی دن اس سے بچھڑے تھے

2۔ دائم

دائم اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔ سارا ناول اسی کے گرد گھومتا ہے اور ناول میں پیش آنے والے واقعات و کردار سب اسی سے وابستہ ہیں۔ دائم جس کے باپ کو حضرت محمدﷺ خواب میں اولاد نرینہ کی بشارت دیتے ہیں اور وہ بچہ دائم ہی ہوتا ہے۔ ابھی بچہ ہی تھا کہ خداوند کریم نے اسے بے مثال قوتوں سے نواز دیا تھا۔

پھر جب دائم بڑا ہوتا ہے تو وہ عشق مجازی میں گرفتار ہوجاتا ہے اور خدا اس کا امتحان لیتا ہے۔ اس کے محبوب کو اس سے جدا کر دیتا ہے۔ دائم اس کی تلاش میں جنگلوں میں نکل جاتا ہے۔ اور یہاں ایک بزرگ سے اس کا سامنا ہوتا ہے۔ جو اسے مقصد حیات سے آگاہ کرتا ہے۔ اور دائم پھر عشق مجازی کی سیڑھی چڑھتا ہوا عشق حقیقی تک پہنچ جاتا ہے

3۔ روشنی

روشنی ہی اس ناول کا وہ کردار ہے جس کے بغیر ناول آگے نہیں بڑھ سکتا۔ کیونکہ روشنی ہی وہ لڑکی ہے جس سے دائم کو عشق ہو جاتا ہے اور دھول اڑاتا، جنگلات چھانتا ہوا کہاں سے کہاں نکل جاتا ہے روشنی اس ناول کی ہیروئن ہے

4۔ بورے بند

بورے بند اس ناول کا وہ کردار ہے جو عشق مجازی میں جان قربان کرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتا ہے۔ اس کی غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ غلط انسان سے عشق کر بیٹھتا ہے۔ لیکن یہ غلطی تو نہیں عشق سوچ کر ہوتا ہی کب ہے۔ جو سوچ کر ہو وہ تو سازش ہوتی ہے۔ اور پھر وقت مرگ اسے ملال بھی نہیں ہوتا کیونکہ عشق خون مانگتا ہے۔

5۔ مایا

مایا، کسی انگریز جاگیردار کی بیٹی ہوتی ہے اور ایک دیہاتی سے عشق کرنے کی پاداش میں اپنے عاشق کو کھو دیتی ہے۔ جب بورے بند تن من قربان کر کے امر ہوجاتا ہے تو مایا بھی کنویں میں کود کر جان دے دیتی ہے۔ اور عشق کی داستانوں میں اب ان کی بھی داستان حیات ہوجاتی ہے۔

دیگر کردار

دیگر کرداروں میں بابا امین کا کردار ہے جو دائم کو جنگل میں ملتا ہے اور اس کی ڈھارس بندھاتا ہے۔ پھر ایک قبیلے کا سردار اور اس کی بیٹی جو دائم کی محبت میں خود کو قربان کر لیتی ہے۔ دائم کی ماں اور اسی طرح چھوٹے موٹے کردار جو وقتی طور پر نمودار ہوتے ہیں اور پھر معدوم ہو جاتے ہیں۔

منظر نگاری

ناول میں منظر نگاری کی بہت سی انتہائی عمدہ مثالیں ملتی ہیں مصنف کی جانب سے ہر منظر کو ایسے پیش کیا گیا ہے کہ قاری اسے اپنے سامنے محسوس کر سکتا ہے ایک اقتباس ملاحظہ کریں جس میں گٹی کی معاشرت کا منظر پیش کیا گیا ہے

،،عورتیں لڑکیاں بچے رنگ برنگے کپڑے پہنے گلیوں بازاروں سے گزرتے بوڑھے بازاروں میں سکون اور قناعت سے بیٹھے ہر گزرنے والے کو دیکھتے گاؤں حسین ترین اور پر امن تھا کبھی ہوا نہیں کہ کسی کی جان گئی ہو اور یہاں سرخ آندھی کو آسمان پر اٹھنے کی تکلیف اٹھانا پڑی ہو یہاں بڑی سے بڑی تبدیلی یہی تھی کہ بچی بیاہ کر کسی اور گاؤں چلی جاتی یا دور کے گاؤں سے بیاہ کر لائی جاتی بچے سائکل کے چکے بازاروں میں بھگاتے پھرتے چکی کی کوک گاؤں کے سکوت کو توڑتی گھنگھور گھٹائیں امنڈ کر آتیں اور زمین جل تھل ہو جاتی یہ بستی چھوٹی سی دنیا تھی یہاں نارمل انسان رہتے تھے اپنے آپ میں مگن اور خوش،

مکالمہ نگاری

” صدی کی آخری محبت“ کے مکالموں کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ناول کے مکالموں میں کرداروں کی شخصیت پوری طرح جھلکتی ہے۔ ان مکالموں میں لہجہ بھی قصباتی اور دیہاتی ہے۔ اگر کوئی سردار گفتگو کرتا ہے تو اس کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی قبیلے کا سردار ہے۔ کوئی بنجارا بولے تو واقعی معلوم ہوتا ہے بنجارا ہے۔ دائم اور روشنی کے درمیان ہونے والے مکالموں کو بڑی عرق ریزی سے بیان کیا گیا ہے۔

اقتباس ملاحظہ کریں
،،آپ لکھتے بھی ہیں،
،،نہیں اب لکھوں گا،
،،کیا مطلب،
،،پہلے کوئی ایسی شے نہیں تھی جس پر میں لکھوں اب تم ہو،
،،میں کوئی شے نہیں لڑکی ہوں،
،،ہاں تم لڑکی ہو لیکن میری زندگی کی انمول شے،
،،پھر شے،
،،چلو بابا شے نہیں انمول لڑکی،
،،تم باتیں اچھی بنا لیتے ہو،
،،پہلے علم نہیں تھا اب پتہ چلا محبت کیسے انسان کی مخفی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے،
شاعری کا استعمال

گلزار ملک نے آزاد نظموں کے ذریعے ناول کے حسن کو مزید دوبالا کر دیا ہے موقع محل کے عین مطابق انتہائی خوبصورت نظمیں جو قاری کی دلچسپی میں مزید اضافہ کرتی ہیں اس ناول کا خاصہ ہیں

نظم ملاحظہ کریں
محبت جنوں خیز عشق۔ یا پھر کچھ اور
مجھے بتاؤ۔ میرے محبوب!
کیا میں تمہاری محبت کی واحد منزل ہوں
اگر تمہارے دل میں محبت کے سوتے دائم ابلتے ہیں
تو کیا یہ سب میرے لیے ہوتا ہے مجھے پھر سے بتاؤ۔
کیا میں ہی تمہارے سب تاریک
خیالوں، تمہاری ساری اداسی کا سبب ہوں
مجھ سے اپنے سارے جذبے، اپنی ساری سوچیں بانٹو
آؤ میرے محبوب! میرے دل میں انڈیل دو
وہ سب کچھ جو تمہارے لیے اتنے درد کا باعث ہے
مجھے پھر سے بتاؤ۔
زمان و مکاں
یہ ناول دو تین صدیوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اس میں 1857 کے بعد سے لے کر اب تک کا زمانہ ملتا ہے

اس ناول کا مکاں گٹی سکول والی فیصل آباد ہے جو مصنف کی جنم بھومی ہے جس کی معاشرت وقت کے ساتھ ساتھ بدل رہی ہے

اسلوب بیاں

ناول کا اسلوب سادہ ہے اور آسان ہے بہت پیچیدہ الفاظ کا انتخاب نہیں کیا گیا بلکہ اس قدر سادہ الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا بات کو فوراً سمجھ جاتا ہے مختصراً یہ کہ گلزار ملک نے اپنی اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں، گہرے مشاہدے اور ذاتی تجربات کی روشنی میں ناول میں جو رنگ بکھیرے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ان کے ہاں تخیل، جذبات کی فراوانی، سادہ اسلوب، سادہ الفاظ، فطرت کی معصومیت، حقیقی کردار، حقیقی مکالمے اور جمالیاتی کیفیات ملتی ہیں زندگی کی تلخ حقیقتوں کے ساتھ ساتھ محبت کا نرم رویہ بھی ملتا ہے

ناول میں تقسیم کے حوالے سے تاریخی شعور ملتا ہے اور اس منظر کو پیش کیا گیا ہے جب قافلے ہجرت کر کے ہندوستان سے پاکستان آ رہے تھے اس وقت انہیں کیا مسائل درپیش تھے اقتباس ملاحظہ کریں

،،اگست کے مہینے سفر ہجرت سے ٹوٹے ہوئے، اپنا گھر بار چھوڑ کر جانیں بچانے اور نئے ملک کی مٹی چھونے کی چاہ میں اک لمبا قافلہ نومولود وطن پاکستان کی جانب چلا اس کی منزل کوئی نا معلوم گاؤں تھا قافلے کے آگے پیچھے نوجوانوں کا ایک دستہ پہرہ کے لیے تھا جو ان جتھوں سے جو صرف لوٹ مار اور نوجوان لڑکیوں کے شکار کی خاطر حملہ اور ہوتے تھے حفاظت کے لیے چل رہا تھا قافلے میں گنتی کی سواریاں تھیں بڑے بڑے رینگتے اور بلند آواز نکالتے گڈے چھکڑے اور کچھ گھوڑے گدھے خچر جن پر بیٹھے چھوٹے چھوٹے بچے جو سارے معاملے کی حقیقت سے نا آشنا خوف سے کملائے ہوتے چہرے لیے چپ چاپ حد بدلتی زمین کو دیکھ رہے تھے،

تہذیب کی عکاسی

مصنف نے پنجاب کی تہذیب کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے لوگوں کے رہن سہن رسم و رواج کی بہترین عکاسی کی گئی ہے گاؤں کے اندر لوگوں کے مشاغل کیا ہوتے ہیں اور موسم کے اعتبار سے مصروفیات کو بڑے احسن طریقے سے بیان کیا گیا ہے

اقتباس ملاحظہ کریں

،،گندم کی کٹائی کا موسم، دیسی گھی، شکر، لسی، شدید بھوک اور ایک اداس خزاں، فضائے بسیط میں پرندوں کے نغمے، کوئل کی کوک، کوے کی کائیں کائیں، فاختہ کی اللہ ہو اور ٹٹیری کی ہوک سر، تال اور مشقت میں جتے بھلے انسان فضا میں اڑتی مائی بڈھی، کانٹے دار گمیوں کا رس، اور کھٹے میٹھے پیلو، کسی دنیا تھی لطیف سے لطیف تر، بادل کی چھایا سے ہلکی اور کائناتی حسن لیے اک خالص روحانی سر زمیں شام ڈھلے پر گھاس، جوار، کٹی ہوئی چری لیے گاؤں کو لوٹتے نہایت مطمئن افراد، گدھا ریڑھیوں اور گدوں پر سوار کسان ماہیے گاتے گزرتے، پیش امام پانچوں بار دن میں مسجد کی چھت پر کھڑا ہو کر لوگوں کو اللہ کی جانب بلاتا،

ضبط نفس اور انعام خداوندی

دائم جب لڑکپن کی عمر میں ایک گھاٹی میں داخل ہوتا ہے تو اسے وہاں ایک قیمتی موتی پڑا نظر آتا ہے جسے اٹھا کر وہ دنیا کا امیر ترین انسان بن سکتا تھا لیکن دائم یہ بات سمجھ جاتا ہے کہ یہاں اس کا امتحان ہو رہا ہے اس کا نفس اسے اس بات پر ابھارتا ہے کہ وہ اس موتی کو اٹھا لے لیکن اندر ہی اندر کوئی چیز اسے روک رہی ہوتی ہے اور وہ چیز اس کا ایمان ہوتی ہے وہ یہ بات جان جاتا ہے کہ یہ مال و دولت بہت ہیچ شے ہے انسان کو اس کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے اور نا ہی اس کے لیے لالچی بننا چاہیے

لہذا وہ اس موتی کو ٹھوکر مار کر اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور قدرت کی طرف سے اسے عرفان ذات کا انعام ملتا ہے اور وہ زندگی کے حقیقی مفہوم سے آشنا ہو جاتا ہے

اقتباس ملاحظہ کریں

،،اس نے مسکرانے پر اکتفا کیا اور خزانے کو یوں ٹھوکر ماری جیسے وہ زمانے کی ناقص ترین شے ہو نفس کی چال محب کا سب سے زیادہ وقت ضائع کرنے والی بلا۔ چند لمحے اس قیمتی خزانے کے درمیان رہ کر گزار کر اس نے غلط اور درست اور خیر و شر کا چناؤ کیسے کیا جاتا ہے اس کا علم پایا اس نے جانا کہ انسان عظیم ہے اور ساتھ ہی اس کا مقصد حیات بھی جو اسے عظیم تر بناتا ہے ایک بڑی سوچ اور یہ بھی کہ نفس ہی ہے جو ہمیشہ رستہ کھوٹا کرتا ہے دوسرے لفظوں میں انسان اپنے راستے میں خود ہی رکاوٹ کی صورت کھڑا ہے،

قریبی رشتوں کی بے وفائی

معاشرے میں ہمیں ڈھیروں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جائیداد اور دولت کی خاطر کسی اپنے قریبی رشتے نے بے وفائی کی ہو دولت کی خاطر ہی بہت سے اپنے بھی سازشیں کرنا شروع کر دیتے ہیں اس ناول میں بھی ہمیں اپنوں کی بے وفائی کا پہلو ملتا ہے

ولیا جو کہ گٹی کا ایک کردار ہے جب اس کی شادی ہوتی ہے تو اس کی بہنیں اسے اس کی بیوی سے صرف اس لیے دور کر دیتی ہیں کہ کہیں جائیداد ہتھیانے کے دوران وہ آڑے نہ آئے حالانکہ اس کے نتیجے میں ولیا بالکل اکیلا ہو جاتا ہے لیکن انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی وہ صرف اپنے شوہروں کو ساتھ ملا کے اس پر تشدد ہی نہیں کرتیں بلکہ وہ عورت جو اس کے دکھ سکھ کی ساتھی ہوتی ہے اس سے بھی جدا کر دیتی ہیں

اقتباس ملاحظہ کریں

،، پھر یوں ہوا کہ خود گھر میں اس کی بہنوں نے اس کی پیاری بیوی کو جو اس سے جدا نہیں ہونا چاہتی تھی اور جو چیخ چیخ کر ہمیشہ اس کے ساتھ رہنے کا عہد دہراتی رہی صرف اس لیے جدا کر دیا کہ ولیے کے نام جائیداد کو ہتھیاتے ہوئے وہ آڑے نہ آئے ہوں وہ ایک شاندار ساتھی کو اور اس ناقابل بیان محبت کو جس کے مستقبل قریب چھوڑ بعید میں بھی ملنے کا چانس نہ تھا کھو بیٹھا،

مذہبی تفرقہ بازی

اس ناول میں ہمیں جا بجا مذہبی اجارہ داری کا پہلو بھی ملتا ہے یعنی دین کو مختلف فرقوں اور گروہوں میں بانٹ کر ذاتی اور نظریاتی اختلافات پر ہر دوسرے شخص پر کفر کا فتویٰ تھوپ دینے والے نام نہاد مولوی حضرات پر افسوس کا اظہار ملتا ہے

دین کا مقصد تو باہمی محبت کو فروغ دینا تھا اخلاق و کردار کے ذریعے دشمنوں کو بھی اپنے قریب لانا تھا لیکن آج ذرا ذرا سی بات پر لڑائی جھگڑے تک بات آجاتی ہے ہر دوسرا شخص تعصب کا شکار ہے محبت اور رواداری آخری سانسیں لے رہی ہے

اقتباس ملاحظہ کریں

،،جس دین کی بنیاد ہی انسانوں کو ہر طرح کے تعصب سے بچا کر یکجا کرنا تھا اور نبی آخر الزماں ﷺنے اپنے آخری خطبے میں تعصب کے جن رشتوں کو اپنے جوتے کی نوک پر لیا تھا اب اسلام کے نام نہاد پیروکاروں کے طفیل دوبارہ ایک ایک کر کے زندگی پا چکے تھے اور محبت و رواداری کی جگہ نفرت، کینے اور بغض نے لے لی تھی اب لوگ فروہی معاملات پر دست و گریبان ہونے لگے اور مرنے مارنے پر اتر آئے جن کا دین سے دور دور تک کا بھی تعلق نہ تھا یہ ایک ایسا بگاڑ تھا جس پر انگلی اٹھانا ان کے خیال میں دین حق پر انگلی اٹھانے کے مترادف تھا،

ماں کی محبت

معاشرے میں ہمیں ماں کی محبت کی لازوال مثالیں ملتی ہیں ماں کی محبت ہر قسم کی بناوٹ سے پاک ہوتی ہے ماں اپنی اولاد کے کے ہر وقت فکر مند رہتی ہے جو درد اور تڑپ ماں اپنی اولاد کے لیے محسوس کر سکتی ہے دنیا کا کوئی دوسرا رشتہ نہیں کر سکتا خدا نے ماں کا رشتہ بہت نرالا بنایا ہے

اس ناول میں بھی ہمیں ماں کی محبت کا پہلو ملتا ہے کہ جب دائم کی ماں کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ اب اس کا بچہ راہ حق کا راہی بن چکا ہے تو وہ اسے روکتی نہیں بلکہ دعا دیتی ہے اور یہ بھی کہتی ہے کہ بیٹا واپس پلٹ کر ضرور آنا

اقتباس ملاحظہ کریں

،،دیکھو بیٹا تم میرے اکلوتے بچے ہو ساری جاگیر کے وارث، مجھے زندگی میں اور کچھ نہیں چاہیے سوائے تمہارے، لیکن تمہیں جو چاہیے وہ میں نہیں دے سکتی تمہاری عمر میں ایسا کوئی کم کی سوچتا ہے سفر تمہارا ہے تو تکمیل بھی تمہیں ہی کرنا ہوگی مجھے بس تمہاری ذات کی فکر ہے کہیں بھیڑ میں گم نہ ہو جانا راستے میں ٹھگ بہت ہیں بھیس بدلے ہوئے،

ہمراہی ملنا

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسان اپنی زندگی میں جس رستے کا مسافر ہوتا ہے اسے اسی طرح کے لوگ ملنا شروع ہو جاتے ہیں جو اس کی اس راستے میں رہنمائی فرماتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اسے بھٹکانے کی کوشش کرتے ہیں

کچھ ایسا ہی معاملہ ہمیں اس ناول میں بھی نظر آتا ہے کہ جہاں دائم کو راستے سے بھٹکانے والے لوگ موجود ہوتے ہیں وہیں اسے خدا کی طرف سے ایسا رہنما بھی مل جاتا ہے جو اس کی منزل کی طرف اس کی رہنمائی کرتا ہے اور وہ بابا امین ہوتا ہے جو قدم قدم پر دائم کا رہنما اور ساتھی ہوتا ہے

اقتباس ملاحظہ کریں

،،میری بات سنو خزانے ہر سو ننگے پڑے ہیں بس اس کے لیے دیکھنے والی آنکھ چاہیے جی تو چاہتا ہے تم سے کہوں یہیں سے واپس پلٹ جاؤ لیکن جانتا ہوں تم نے یہ تکلیفیں یوں واپس لوٹنے کے لیے نہیں سہیں اس لیے اگر آگے بڑھنا ہی ہے تو تیار ہو جاؤ ایک جنگ کے لیے یہ مان لو کہ راستہ کھوٹا کرنے والے نہیں ہیں ہم ہم تو محبوب کے خادم ہیں یہاں ان کے نقش پا ہیں وہیں ہماری پلکیں،

محبت مصطفی ﷺ

صدی کی آخری محبت میں ہمیں جا بجا محبوب کائنات حضرت محمدﷺ سے بے پناہ محبت کا پہلو ملتا ہے اور یہ مصنف کی رسول اکرم ﷺ سے بے پناہ محبت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے

اس ناول میں بتایا گیا ہے کہ جب کوئی انسان جس کے دل میں رسول اکرم ﷺ کی محبت ہوتی ہے اگر کبھی وہ سیدھے راستے سے بھٹکنے لگے تو کیسے وہ محبت اس کے لیے رہنما بن جاتی ہے اور اسے بھٹکنے سے بچا لیتی ہے

دائم کو جب صوفی برکت بھنگ کا پیالہ پلانے لگتا ہے تو اس وقت محبت رسول ﷺ ہی ہوتی ہے جو اسے اس قبیح کام سے بچا لیتی ہے

اقتباس ملاحظہ کریں

،،نہیں۔ میں نہیں اٹھاؤں گا اسے۔ وہ نتیجے پر پہنچ چکا تھا لالچ تو حضور پرنور ﷺ کو بھی دیا گیا تھا مایا جال کی صورت اور عرب کی حسین ترین لڑکی کی صورت میں لیکن آپ ﷺ نے رد کر دیا تھا اور رد کر کے اپنے در کی ناقص روح کو بھی بھول سے بچا لیا تھا لمحہ بھر یہ سوچتے سوچتے لڑکا خیالوں ہی خیالوں میں حضور پرنور ﷺ کے قدموں سے جا لگا فیصلہ ہو چکا تھا خیر اور شر کے بیچ چناؤ اور لڑکے پر رب کا فضل غالب تھا تبھی اسے لگا کہ یہ فیصلہ کرتے ہوئے وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ مددگار سارے اس پر نظر رکھے ہوئے تھے اس کی آنکھیں یہ سوچ کر نم ہو گئیں،

مٹتی ہوئی تہذیب

ناول کے اختتام میں پنجاب کی مٹتی ہوئی تہذیب کا پہلو بھی ملتا ہے گاؤں کے لوگوں کے رسم و رواج جو اب بدل رہے ہیں ان کی بڑے خوبصورت انداز سے عکاسی کی گئی گاؤں کے سامنے موجود کچی سڑک جس کے ساتھ بہت سی یادیں وابستہ تھی اب وہ پختہ سڑک میں تبدیل ہو چکی ہے تانگے کی جگہ فراٹے بھرتی گاڑیاں لے رہی ہیں لیکن اب بھی کہیں نہ کہیں اس پرانی تہذیب کے اثرات باقی ہیں جو محبت و اخلاص سے بھر پور تھی

اقتباس ملاحظہ کریں

،،گاؤں کے سامنے سے اب بیسیوں گاڑیاں فراٹے بھر گزرتی ہیں اور چشم زدن میں آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے صرف اڑتی ہوئی گرد باقی رہ جاتی ہے پرانی مٹھائی کی دکان ابراہیم حلوائی کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں نے تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گزار کر بانٹ لی ہے گاؤں کے بازار جیسے جیسے پختہ ہوئے لوگوں کے دلوں پر سختی نے غلبہ پا لیا اب گاؤں ظاہراً متوسط اور حقیقتاً پہلے سے بھی غریب ہو چکا ہے اور لوگوں کی سرد مہری میں جکڑا ہوا ہے لیکن پھر بھی موت سے مزاحم کھڑا ہے تمام زمین زندگی اگانے میں جاتی ہوئی ہے مویشیوں کے گوبر اور پودوں کی مہک کسی نہ کسی کوچے سے اب بھی اٹھتی ہے بوڑھی نسل مسجدوں میں عبادت کرتے ہوئے، قبرستان میں تاش کھیلتے ہوئے دالانوں میں حقہ گڑگڑاتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments