کیا آپ طلاق دینے سے گھبراتی ہیں؟


مجھے ہر ہفتے کچھ دوستوں اور کچھ اجنبیوں کے خطوط اور سوال موصول ہوتے ہیں اور میں ان سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں اور اگر سوال کرنے والے مجھے اجازت دے دیں تو میں سوال و جواب سے ایک کالم بھی بنا لیتا ہوں تا کہ ’ہم سب‘ کے قارئین بھی اس مکالمے سے استفادہ کر سکیں۔ کل مجھے شائستہ صاحبہ کا خط اور سوال ملا اور آج میں نے اس کا جواب لکھا۔ آپ بھی پڑھیں اور اپنی رائے بھیجیں۔

شائستہ صاحبہ کا خالد سہیل کو خط اور سوال
۔ ۔ ۔ ۔
ڈیئر ڈاکٹر سہیل!

جن لو گوں کو اپنی ازدواجی زندگی میں مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ وہ عموماً ان کے حل کے لیے پہلے تو از خود کوشش کرتے ہیں۔ پھر خاندان کے بزرگوں سے مدد لی جاتی ہے۔ اور آخر میں لوگ وہاں پہنچتے ہیں جہاں سب سے پہلے جانا چاہیے تھا یعنی تھیراپسٹ کے پاس۔

اور انھیں پہلی مرتبہ حیرت کا جھٹکا تب لگتا ہے۔ جب تھیراپسٹ بڑے پر سکون انداز میں انھیں ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہونے کا مشورہ دیتا ہے۔ یہ سن کر وہ حیرت زدہ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ دوست احباب رشتے دار ہمیشہ انھیں ساتھ رہنے اور رشتے نبھانے کا درس دیتے ہیں۔

کچھ ہی دیر میں وہ دونوں خود کو سنبھالتے ہوئے تھیراپسٹ کو بتاتے ہیں کہ یہ تو ممکن نہیں۔
آخر برسوں کی تھیراپی کے بعد بھی وہ کسی بھی نتیجے پہ پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں کیونکہ وہ طلاق نہیں لینا چاہتے۔
میرا آپ سے سوال ہے کہ طلاق لینا کیونکر ضروری ہے؟
اور اگر طلاق لینے کے بعد زندگی مزید مشکل ہو جائے تو تھیراپسٹ کا اس میں کیا کردار ہو گا۔

کیونکہ ایک زندگی کے کئی پہلو ہوتے ہیں سماجی، جذباتی اور بالخصوص مالی۔ اور کیا محبت کے پہلو کو تھیراپی میں قابل غور نہیں سمجھا جاتا؟

کیا ازدواجی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے تھیراپسٹ اس پہلو کو بھی قابل غور سمجھتا ہے؟

ان معاملات کا تجزیہ ایک تھیراپسٹ کیسے کرتا ہے اور اس کے بعد کی فریقین کی زندگی اور اس سے جڑے مسائل کو کس نظر سے دیکھتا ہے

اور ان سب کے باوجود بھی۔
اگر طلاق ضروری ہے
تو کیوں؟
مخلص
شائستہ
۔ ۔ ۔ ۔
خالد سہیل کا جواب
۔ ۔

انسانی تاریخ میں بعض روایتی خاندانوں اور معاشروں میں طلاق کی اجازت نہیں رہی۔ اس کی ایک مثال کیتھولک چرچ کی دو ہزار سال کی تاریخ ہے۔ کیتھولک پادریوں کا کہنا ہے کہ شادی عمر بھر ساتھ رہنے کا وعدہ ہے اور میاں بیوی کو مرتے دم تک ساتھ رہنا چاہیے۔ اگر طلاق لی تو وہ جوڑا مرنے کے بعد جہنم میں جائے گا۔ وہ پادری یہ نہیں سوچتے کہ بعض جوڑوں کی زندگی اسی دنیا میں جہنم بن جاتی ہے۔

میں ایسے روایتی مسلمان خاندانوں سے بھی ملا ہوں جو اپنی بیٹیوں کو دلہن بناتے ہوئے کہتے ہیں جس گھر تمہاری بارات جائے گی وہاں سے اب تمہارا جنازہ آنا چاہیے۔

میں ایسی دلہنوں سے بھی ملا ہوں جنہوں نے جب اپنی ماں سے کہا کہ میرا شوہر ظالم و جابر ہے۔ میری توہین و تذلیل کرتا ہے اور کبھی کبھار مارتا پیٹتا بھی ہے تو ماں نے کہا

بیٹا تمہارا باپ بھی مجھ سے یہی کرتا تھا لیکن میں نے صبر کیا۔
ایک ماں نے تو بیٹی کو الزام دیتے ہوئے کہا
تم نے ہی کچھ ایسی بات کی ہوگی کہ اسے غصہ آ گیا۔
آئندہ سے محتاط رہنا۔
شادی کو نبھانا سیکھو۔

جب کوئی جوڑا کسی تھراپسٹ کے پاس مدد کے لیے جاتا ہے تو تھیراپسٹ یہ کوشش کرتا ہے کہ شادی کو بچائے اور میاں بیوی کو مسائل کو سلجھانا اور اپنے تضادات کو پر امن طریقے سے ریزولو کرنا سکھائے۔ ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں میاں بیوی کوشش کریں کہ رشتے کو بہتر کریں۔ مکالمے کے آداب سیکھیں۔ تھیرپسٹ میاں بیوی کو سکھاتا ہے کہ محبت کے رشتے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی عزت و احترام کریں۔ جس محبت میں عزت شامل نہ ہو وہ محبت صحت مند نہیں ہوتی۔

اگر تھراپسٹ کو اندازہ ہو جائے کہ فریقین ایک دوسرے کی عزت نہیں کرتے اور ان کی محبت کب کی مر چکی ہے اور ان کے بستروں پر کیکٹس اگ آئے ہیں اور وہ اپنے بچوں کے سامنے دن رات ایک دوسرے کی تذلیل و توہین کرتے ہیں تو وہ ان سے کہتا ہے کہ اگر تضادات ریزولو نہیں کرنا چاہتے تو پھر ڈیزولو کر دو اور ایک دوسرے کو آزاد کر دو۔

شادی تو خوشی کا نام ہے اگر شادی سے خوشی عنقا ہو جائے تو وہ جبر ہو سکتا ہے محبت نہیں ہو سکتی۔ ایک روٹین ہو سکتی ہے چاہت نہیں ہو سکتی۔

عرفان ستار  نے اس تکلیف دہ صورت حال کا بڑی خوبصورتی سے اپنی ایک غزل میں کچھ یوں اظہار کیا ہے
یہاں تکرار ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے
مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بہت ممکن ہے کچھ دن میں اسے بھی ترک کر دیں
تمہارا قرب عادت کے سوا کیا رہ گیا ہے
اذیت تھی مگر لذت بھی کچھ اس میں سوا تھی
اذیت ہے اذیت کے سوا کیا رہ گیا ہے

میں نے جب ان بیویوں سے پوچھا کہ آپ شادی کے اس درد اس تکلیف اس اذیت کو ختم کیوں نہیں کرتیں اور طلاق کیوں نہیں لیتیں تو

ایک نے کہا
میں طلاق لے کر کہاں جاؤں گی۔ اکیلے رہنے سے دل گھبراتا ہے۔
دوسری نے کہا
میں تعلیم یافتہ نہیں ہوں میں ملازمت نہیں کر سکتی میں بھوکوں مر جاؤں گی
تیسری نے کہا
میرے گھر والے مجھے قبول نہیں کریں گے
چوتھی نے کہا
لوگ کیا کہیں گے
پانچویں نے کہا
سب مرد ایک جیسے ہی ہیں۔ دوسری شادی کروں گی تو ایسا ہو گا جیسے
آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔

بہت سی شادی شدہ خواتین نہیں جانتیں کہ بہت سی دوسری شادیاں پہلی شادیوں سے زیادہ کامیاب ہوتی ہیں کیونکہ عورتیں سمجھ جاتی ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔

بہت سی پہلی شادیاں ماں باپ نے بغیر سوچے سمجھے کر دی تھیں اور دوسری شادیاں لوگوں نے اپنی مرضی سے کیں وہ محبت کی شادیاں تھیں۔

ہر انسان اور ہر جوڑا اپنی زندگی کے فیصلے کرتا ہے اور پھر اس کے نتائج بھگتتا ہے۔

بعض لوگ اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرنے سے کتراتے ہیں اور دوسروں کے فیصلوں پر عمل کرتے ہیں اور فیصلے غلط ثابت ہوں اور پھر ان لوگوں پر الزام دھرتے ہیں۔

میں نے ایک کیتھولک پادری کا ٹیلی ویژن پر انٹرویو سنا۔ انٹرویو کرنے والے نے پادری سے پوچھا
کیا آپ طلاق کے حق میں ہیں؟
جی ہاں
لیکن کیتھولک چرچ کہتی ہے کہ میاں بیوی کو موت تک ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہیے۔  جی ہاں لیکن موت کا مطلب جسمانی موت نہیں، محبت کی موت ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments