چھوٹے بچوں کا جنسی استحصال کیوں ہوتا ہے؟


جنسی استحصال اس قسم کے معاشروں میں معمول کا چلن بن جاتا ہے جہاں جنس یا انسانی جسم سے جڑے ہوئے مسائل کو ”ٹیبو“ سمجھا جاتا ہو اور جنسی بھوک کو ایک غیر انسانی سرگرمی سمجھتے ہوئے ہمیشہ کے لیے غیر اخلاقی قرار دے کر شجر ممنوعہ کا درجہ دے دیا گیا ہو، تجسس اور حیرت کو اخلاقیات کی کال کوٹھڑیوں میں قید کرنے والے معاشروں میں بدصورتیاں جنم لینے لگتی ہیں جہاں روشنی کے ہوتے ہوئے بھی اندھیروں میں رہنے کا چلن ہو وہاں تازگی و شگفتگی کی بجائے تعفن پنپنے لگتا ہے۔

ایسے معاشروں میں اخلاقی پہرے دار ہر وقت ہاتھوں میں اپنے اپنے نقطہ نظر یا فرقے کا گنڈاسا سنبھالے لوگوں کی مورل پولیسنگ کرتے نظر آتے ہیں، بھلا پارساؤں کے لشکر میں ایک ”گناہگار یا مختلف انسان“ کی کون سنے گا؟ بولے گا تو مارا جائے گا کیونکہ اخلاقی پہرے دار اسے نہیں چھوڑیں گے بس وہ منافق بن کے جینے کا فیصلہ کر لیتا ہے اور اس قسم کے منافقین کی پنیری لگانے والے ”اخلاقی مبلغین“ اسی جبر کو اپنی کامیابی سمجھ بیٹھتے ہیں۔

کیا ہم نے کبھی سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ پورنو گرافک سائٹس دیکھنے والوں میں مذہبی معاشرے سرفہرست کیوں ہیں؟ آخر ایسے معاشروں میں ہی اس قدر جنسی استحصال کیوں ہوتا ہے جہاں عبادت گاہوں کی بھرمار ہوتی ہے اور سالانہ بنیادوں پر درجنوں رنگ برنگے مذہبی اجتماعات منعقد ہوتے ہیں؟ جہاں ہر وقت صراط مستقیم اور دوسروں کو راہ راست پر لانے کے ہزاروں منصوبے چل رہے ہوں وہاں تو امن و آشتی اور خوشحالی کے مستقل ڈیرے ہونے چاہئیں مگر یہ سب برکتیں ہمیں ایسی جگہوں پر دیکھنے کو کیوں ملتی ہیں جہاں بقول ہمارے ”جہنمی“ بستے ہیں اور وہاں دن رات بدفعلیاں ہوتی رہتی ہیں حالانکہ بدفعلیوں کی شرح مذہبی معاشروں میں بہت زیادہ ہے۔ بنیادی وجہ خود کو کامل و اکمل یا پرفیکٹ سمجھنا ہے اور انسانی مسائل کو گناہ یا ثواب کے دائروں میں قید کر کے حقائق سے نظریں چرانا ہے، ہم ایک ایسے لاعلاج مرض یا زعم کا شکار ہو چکے ہیں کہ ”ہماری اخلاقی قدریں دنیا کی تمام اقدار سے اعلی و ارفع ہیں اور باقی سب کاٹھ کباڑ ہے“

جب اس قسم کا وہم یا مغالطہ مفروضے کی حدود سے نکل کر دائرہ ایمان میں ڈھل جائے اور یقین محکم کی صورت اختیار کر لے تو اصلاح کی گنجائش کے تمام در بند ہو جایا کرتے ہیں۔ بطور، استاد، والدین یا کسی بھی رشتے میں بڑا ہونے کی حیثیت سے مجموعی طور پر ہم ایک ”لاعلم یا انجان“ طرح کی مخلوق ہوتے ہیں، ظاہر ہے جس معاشرے میں رہتے ہوئے ہم ”بڑے“ ہوتے ہیں ہماری ذہنی پروگرامنگ اسی روایتی پیٹرن سے مختلف کیسے ہو سکتی ہے؟ جہاں کے چھوٹے اس قسم کے جملے سنتے سنتے بڑے یا سینئر بنے ہوں وہاں بہتری کی امید کیسے رکھی یا باندھی جا سکتی ہے؟

سیکس ایجوکیشن سے معاشرے میں بے راہ روی پھیلتی ہے۔
جنس جیسے موضوعات کو کھلے عام ڈسکس نہیں کرنا چاہیے۔
بچوں کو جنسی آگہی نہیں دینی چاہیے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ خود ہی سیکھ جاتے ہیں۔
بچوں کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے ان کی تعلیم کا آغاز مدارس سے کرنا چاہیے۔
اخلاقیات کی گونج میں بچے خود بخود نیک و پارسا بن جاتے ہیں۔
بچوں کو گھر سے نکالتے وقت فلاں مقدس آیات کا دم کر دیں تو وہ تمام بلاؤں سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔

اس قسم کی ذہنیت تلے پروان چڑھنے والے بچے ہر لحاظ سے پروٹیکٹڈ کیسے ہو سکتے ہیں؟ جن عادات و رجحانات کا اسیر ہم انہیں بچپن سے بناتے ہیں وہ کسی بھی طرح سے انہیں معاشرتی شکاریوں یا پیڈوفائل سے محفوظ نہیں رکھ سکتے، بطور والدین ہم نے کبھی اس نہج پر سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ ہمارا بچہ یا بچی آج کل شرمانے کیوں لگا ہے؟ وہ نظریں کیوں چرانے لگا ہے؟ وہ وقفے وقفے سے ادھر ادھر کیوں ہو جاتا ہے؟ وہ بار بار واش روم کیوں جانے لگا ہے؟

وہ مخصوص یا چند دوستوں میں ہی کیوں گھرا رہتا ہے؟ وہ الگ تھلگ کیوں رہنے لگا ہے؟ اس کے علاوہ بطور استاد ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہمارا فلاں اسٹوڈنٹ صرف ایک ہی فیلو کی کمپنی کو کیوں انجوائے کرنے لگا ہے؟ فلاں اسٹوڈنٹ اکثر پیشاب کے بہانے کافی وقت کلاس سے باہر کیوں گزارتا ہے؟ بطور مدرس کبھی کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ میرے اسٹوڈنٹس جنسی مراحل سے کیسے جھوجتے ہوں گے؟ میرا نہیں خیال کہ ہمارے معاشرتی بڑے کبھی اس طرح سے بھی سوچتے ہوں گے؟

کیونکہ ان کی اسکولنگ اس نہج پر نہیں ہوئی ہوتی، شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے روایتی پیٹرن سے اوپر اٹھ کر کچھ نئے انداز سے سوچ ہی نہیں پاتے۔ ہم تو اس طرح کے نااہل سرپرست ہوتے ہیں جو بچوں کی اصلاح خود کرنے کی بجائے ایسے افراد کو سونپ آتے ہیں جن کے متعلق ہمارا یہ پختہ خیال ہوتا ہے کہ وہ ہمارے بچوں کو صالح اور فرمانبردار بنا دیں گے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہوتا بلکہ جنسی استحصال کی ابتدا ہی وہیں سے ہوتی ہے۔

ہم میں سے ہزاروں والدین ایسے ہوں گے جنہیں جن کے والدین نے اس نیت سے مدارس کے سپرد کیا ہو گا کہ ہمارے بچے اب محفوظ ہاتھوں میں چلے گئے ہیں مگر جو ہم نے بھگتا ہے وہ آج سوشل میڈیا پر ویڈیوز کی صورت میں سامنے آنے لگا ہے۔ یہ کس قسم کی ذہنیت اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ہے کہ بچوں کو دنیا میں لانے کا سبب بننے والے والدین ان کی اصلاح و تربیت خود کرنے کی بجائے انہیں اوروں کو ٹھیکے پر دے دیتے ہیں؟ ہم میں سے کتنے والدین کو اس بات کا پتہ ہے کہ ”جنسی استحصال کا پہلا زینہ جنسی گفتگو ہوتی ہے“

اور معاشرتی شکاری یا پیڈوفائل چاہے جس روپ یا رنگ میں بھی ہوں اپنی کارروائی کا آغاز جنسی گفتگو سے کرتے ہیں اور چھوٹے بچوں پر اپنی ہوس مٹانے کے لیے جنسی اٹریکشن، کشش یا طلب پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بطور والدین ہم اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ ہمارا بچہ ذہنی طور پر کہیں اور مصروف ہو چکا ہوا ہے۔ ہم نے کبھی اپنے بچوں کو گائیڈ ہی نہیں کیا ہوتا ہے کہ ”گڈ ٹچ یا بیڈ ٹچ کیا ہوتا ہے“ ؟ خود تسکینی کا عمل کیا ہوتا ہے اور یہ کیوں ضروری ہوتا ہے اور خاص طور پر ایسا سماج جہاں صرف ثواب کا چرچا ہو اور جنسی گھٹن بہت زیادہ ہو؟ صاحب تقوی و طہارت اور منبع پاکیزگی تو خیر اوتاری صفات کے مالک ہوتے ہیں ان سے کیا لینا دینا، ہمارے مخاطب تو وہ گناہ گار ہیں جو بیچارے تھوڑی بہت عبادت و ریاضت کے علاوہ چند ٹکڑے روزی روٹی بھی کماتے ہیں، اب یہ غریب حامد سعید کاظمی یا طارق جمیل تو نہیں ہوتے جن کے اکاؤنٹ میں کوئی عقیدتی من و سلویٰ ڈال دے گا۔

جنسی استحصال کیا ہوتا ہے اور اس کے کتنے مراحل ہوتے ہیں؟ سیکشوئل مولیسٹیشن یا جنسی ہراسانی کیا ہوتی ہے اور حفظ ماتقدم کے طور پر بچوں کو کیا کرنا چاہیے؟ محفوظ سیکس کیا ہوتا ہے اور لمحاتی ابال کو کیسے مینیج کیا جائے؟ ہم نے تو محض رٹو طوطے کی طرح سے کچھ روایتی اخلاقی بھاشن ازبر کیے ہوتے ہیں انہی کی دہرائی بچوں کے سامنے کرتے رہتے ہیں مثلاً

سیکس بہت بری چیز ہوتی ہے اور شادی سے پہلے سیکس کے بارے میں سوچنا بھی حرام ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ جو ”بڑے“ بن کر یہ سب بھاشن بازیاں کر رہے ہوتے ہیں وہ اپنی جوانی میں چپکے چپکے سب کر چکے ہوتے ہیں مگر بچوں کے سامنے بزرگ بن کر ناٹک کرنے سے باز نہیں آتے حالانکہ یہ بناوٹی اور وقتی بزرگی ہمارے بچوں کی معصومیت کو تباہ کر ڈالتی ہے۔ ہم میں سے کتنے والدین ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو چارٹ یا گراف کی مدد سے اناٹومی کے متعلق بتاتے یا سکھاتے ہیں اور ان کی سیکشوئل گرومنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟

وہ سب جو بطور شفیق والدین کی حیثیت سے اپنے بچوں کو اعتماد کے ساتھ بتانا چاہیے ہوتا ہے وہی معلومات انہیں پیڈوفائل جو کسی بھی روپ میں ہو سکتے ہیں مثلاً دوست، استاد یا کسی بھی حیثیت یا رشتے میں ماموں یا چاچو بن کر جنسی استحصال کر کے سکھاتے رہتے ہیں اور والدین کو خبر تک نہیں ہوتی، ہمیں تو اس حقیقت کا ادراک بھی نہیں ہوتا کہ بچے وکٹم ہوتے ہیں انہیں کسی طرح سے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ معاشرتی شکاری اس کی معصومیت کا غلط استعمال کر کے اسے اس علت کا عادی بناتے ہیں، مگر اس معیار کی سمجھ بوجھ اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب ہم اپنے بچوں کے متعلق بڑے بن کر نہیں بلکہ ان کے دوست بن کر سوچیں گے۔

جسمانی خواہش کے ارد گرد بنے ہوئے روایتی ٹیبوز کو ختم کرنا بہت ضروری ہے، جب کوئی بچہ بہت زیادہ ماسٹربیشن یعنی مشت زنی کرنے لگتا ہے تو یہ عمل ایک طرح سے والدین کے لیے ابتدائی وارننگ سائن ہوتا ہے جس پر سنجیدگی سے سوچنا اور معاملے کی تہہ تک جانا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر تو ماسٹربیشن کی صورت میں ”جنسی آؤٹ لیٹ“ خود آپ کے بچے نے ڈسکور کیا ہے تو وہ بہت بہتر ہے اور اگر کسی نے اسے اس طرف مائل کیا ہے تو بہت خطرناک سائن ہے یا یوں کہہ لیں کہ استحصال کا نقطۂ آغاز ہے، کیونکہ پیڈوفائل اپنی جنسی بھوک مٹانے کے لیے چھوٹے بچوں کو جو کنسینٹ نہیں دے سکتے جنسی مسرت کا شائق بنا دیتے ہیں اور ان کا کم عمری میں ہی جنسی ابیوزنگ سائیکل کا آغاز ہوجاتا ہے۔

اسی لیے اس بات کا پتہ لگانا بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ اسے اس طرف کس نے مائل کیا ہے؟ زیادہ تر بچے ماں باپ کی عدم توجہ کی وجہ سے یا ان کے حساب سے وہ اپنے بچوں کو مدارس کے حوالے کر کے انہیں محفوظ ہاتھوں میں سونپ کر خود اپنی ذمہ داریوں سے دامن چھڑا کر زندگی کے دھندوں میں لگے رہتے ہیں اور انہیں اس بھیانک حقیقت کی بھنک تک نہیں لگتی کہ ان کا بچہ درجنوں ہاتھوں میں جنسی تشدد کا نشانہ بنتے بنتے ”سیکس اڈیکشن“ کا شکار ہو چکا ہوتا ہے۔

پیڈو فائل پہلے سے آگاہ ہوتے ہیں کہ بچے کی سیکشوئل ابیلٹی کا غلط استعمال کیسے کرنا ہے وہ باقاعدہ انہیں جنسی مسرت سکھاتے ہیں اور پھر انہیں مسلسل ابیوز کرتے رہتے ہیں اور یہ مکروہ سائیکل انہیں ایک طرح سے نفسیاتی عارضے میں مبتلا کر دیتا ہے، چونکہ وہ اپنوں کی اپنائیت سے محروم ہوتے ہیں اور وہ سب جو تلخ جنسی اذیتوں سے گزر کر وہ غیروں سے سیکھتے ہیں اسے وہ سماج میں کسی کے ساتھ شیئر بھی نہیں کر سکتے کیونکہ معاشرہ پہلے ہی نیک، پاکباز اور گناہوں سے پاک قسم کے لوگوں سے اٹا ہوتا ہے کوئی بات کس سے کرے بھلا؟

والدین کو سوچنا پڑے گا کہ اگر ان کا بچہ جنسی اذیت سے گزرا ہے تو بطور والدین وہ خود ذمہ دار ہیں اور وہ ناکام ثابت ہوئے ہیں کیونکہ ہم ان کو اس سطح کی پروٹیکشن یا ماحول نہیں دے پائے جس میں بچہ اپنے والدین کے ساتھ کمفرٹیبل محسوس کرتا۔ بچوں کو پالنا اور ان کی تربیت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، اگر پیدا کیا ہے تو مکمل ذمہ داری بھی آپ پر ہی عائد ہوگی کسی دوسرے پر نہیں۔ ہم اپنے بچوں کو نیک پاک بنانے کے چکروں میں جن سرٹیفائیڈ پاکبازوں کے حوالے کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں وہی دراصل بھیڑیے ہوتے ہیں۔

اگر آپ اپنے بچے کو اتنا بھی اعتماد یا بھروسا نہیں دے پائے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کے حوالہ سے آپ کے ساتھ ہر بات بلاخوف و خطر شیئر کرے تو یہ کس قدر عجیب اور حیرت کی بات ہوگی اور ہمیں اس موڑ پر سوچنا ہو گا کہ کیا بطور والدین ہم ناکام ثابت نہیں ہوئے؟ معاشروں کو روایات کے نام پر دبانا، محدود کرنا یا گھٹن زدہ بنانے جیسے عوامل منافقتوں کو جنم دینے کا سبب بنتے ہیں، انسان کی نیچرل سیلف پر کوئی قدغن یا پہرہ نہیں ہونا چاہیے، اس طرح کے بندوبست سے معاشرے بودے اور کھوکھلے ہو جاتے ہیں جہاں پھر با امر مجبوری ہر کسی کو کوئی نہ کوئی ماسک پہننا پڑتا ہے تاکہ خاموشی سے اور چھپ چھپا کے اپنے اندر کے حقیقی سچ کے ساتھ جی سکیں۔

جو ماں باپ خود کو مقدس یا سپیرئر پیڈسٹل سے نیچے نہیں اتارتے اور بچوں کے دوست بن کر انہیں اپنے ساتھ ہونے والے معمولی معمولی واقعات بتانے کے لئے ایجوکیٹ نہیں کرتے انہیں ایک دن اسی غفلت و لاپرواہی کی ایک بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اپنے بچوں کو محفوظ بنانے کے لیے انہیں یہ بتانا بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ ”بیٹا جیسے بھی حالات ہوں اور جیسی بھی صورتحال ہو آپ ہمارے لئے سب سے اہم ہو“

یاد رکھیں بچے بے شرم نہیں ہوتے بلکہ وکٹم ہوتے ہیں بس انہیں صحیح صورتحال سے آگاہی کے لیے اپنوں کا اعتماد چاہیے ہوتا ہے۔ جتنی مرضی پابندیاں عائد کر لیں جو فطرتاً ہمارے اندر موجود ہے یا ہمارے وجود کا حصہ ہے اسے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، سیکس ہماری بنیادی ضرورت ہے جسے گروم تو کیا جاسکتا ہے ختم نہیں، جو حقیقت ہے اسے ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہذب ملکوں میں حقیقتوں کو چینلائز کیا جاتا ہے نہ کہ ان سے منہ دوسری طرف کرتے ہوئے چھپانے یا اگنور کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ چھپانے یا نظر انداز کرنے سے حقائق تبدیل یا ختم نہیں ہو جاتے ہیں بلکہ ہماری تنگ دامنی یا منافقت کی وجہ سے ہیئت تبدیل کر کے ہمارے اردگرد ہی گھومتے رہتے ہیں حقائق کو مسخ کرنے سے بدصورتیاں پنپنے لگتی ہیں جن کا خمیازہ بھی ہمیں ہی بھگتنا پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments