پاکستان کا چکر لگائیں، بیماریوں سے نجات پائیں


اگر مغربی ممالک میں رہتے ہوئے آپ بلڈ پریشر، اینگزائٹی، ڈپریشن یا فرسٹریشن جیسی بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں تو آپ کو پاکستان کا چکر لگانا چاہیے۔ آپ کے شرطیہ علاج کی ضمانت ہے۔ دراصل مغربی معاشرے میں اصولوں، ضابطوں اور قوانین کی زنجیروں نے انسانوں سے جدوجہد اور جگاڑ کی قوت سلب کر لی ہے۔ جس سے ان کا صبر، برداشت اور حوصلہ چھن گیا ہے۔ بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی نے انسانوں کو اندر سے پریشان اور افسردہ کر کے انہیں ڈپریشن کا مریض بنا دیا ہے۔

البتہ پاکستان میں لوگوں کو مشکلات کا مقابلہ کرنا آتا ہے۔ مثلاً آپ تصور کریں کہ آپ مہنگی ترین رہائش خریدتے ہیں۔ مہمانوں کو گھر بلاتے ہیں، انہیں آپ نے ابھی ترکی کا لیمپ، ایرانی قالین اور یورپی پینٹنگ دکھائی بھی نہیں کہ اچانک بجلی چلی جاتی ہے۔ ڈرائنگ روم میں اندھیرے چھا جاتے ہیں، تو آپ کو یو پی ایس کا جگاڑ کر کے رکھنا ہو گا۔ یو پی ایس سے صرف ایک ہی بلب روشن ہوتا ہے تو آپ کو جنریٹر کا جگاڑ بھی کر کے رکھنا ہو گا۔ جنریٹر ہے تو پھر آپ کو باقاعدگی سے اس کا فیول بھی چیک کر کے رکھنا ہو گا۔ یہ سارے جگاڑ آپ کو زندگی میں ایکٹو رکھنے کے کام آئیں گے

اسی طرح آپ سوچیں کہ باورچی خانے میں آپ کا ملازم مہمانوں کے لئے چائے بنا رہا تھا، چائے کو ابھی ابال بھی نہیں آیا کہ گیس چلی گئی ہے۔ اب آپ کو گیس سلنڈر کا بندوبست کر کے رکھنا ہو گا۔ تاکہ آپ کی عام سے گفتگو میں کئی شیخیاں مزید شامل ہو جائیں ”جناب ہم تو گیس کا اضافی سلنڈر ہر وقت اپنے پاس رکھتے ہیں“ ہم نے تو بڑا پاور فل یو پی ایس رکھا ہوا ہے، ہمارے پاس جنریٹر بھی ہے ”ایک بہت ہی اعلی معیار کے گھر میں مجھے باتھ روم میں چائے کی الیکٹرک کیتلی دیکھنے کو ملی۔

میں گھنٹوں سوچتا رہا کہ غسل خانے میں چائے کی کیتلی کا کیا کام ہو سکتا ہے؟ یہ عقدہ تب حل ہوا جب میزبان نے بتایا کہ صبح اگر دفتر جانے کی تیاری میں گیس آنا بند ہو جائے اور گیزر آن نہ ہو سکتا ہو تو یہ کیتلی پانی گرم کرنے کے کام آتی ہے۔ یہ دوڑ دھوپ، یہ مسلسل جگاڑ پاکستانیوں کو فرسٹریشن سے نجات دلاتے ہیں۔ آپ کو بو ر نہیں ہونے دیتے۔ آپ کو مصروف رکھتے ہیں اور ڈپریشن سے نجات دلاتے ہیں۔

اگر آپ ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہوچکے ہیں تو پاکستان میں جا کر ڈرائیونگ ضرور کریں۔ آپ کو صبر، برداشت، حوصلہ اور طبیعت میں ٹھہراؤ کی دولت نصیب ہوگی۔ جب آپ دیکھیں گے کہ ون وے میں آپ کے سامنے سے بھی کوئی گاڑی پوری رفتار سے آ رہی ہے۔ سڑک کے بیچ میں دو لوگ ایک لکڑی کی سیڑھی لے کر اسے پار کر رہے ہیں، آپ کے آگے ایک چنگ چی رکشہ جا رہا ہے جس نے پچھلی سیٹ پر ایک موٹر سائیکل لادا ہوا ہے جو باہر کو لٹک رہا ہے۔ اس کے علاوہ کسی رکشے، کسی سائیکل، کسی موٹر سائیکل کا کوئی بیک مرر، کوئی اشارہ نہیں ہے وہ کسی بھی وقت بغیر بتائے آپ کی گاڑی کی سامنے آ سکتا ہے۔

کسی بھی گدھا گاڑی والے کا کھو تا اچانک سڑک پر کھلو سکتا ہے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ آپ نے سب کو بچانا ہے، بیچ سڑک میں دوڑنے والے فقیر کو بھی، کتابیں ہاتھ میں پکڑے نوجوان کو بھی اور جنگلے میں سے نکلنے والی برقعہ پوش خاتون کو بھی۔ آپ کے آگے چلنے والے ٹرک اور بسیں سڑک کے دائیں والے ٹریک پر ہی چلیں گی ان کو آپ نے بائیں جانب سے اوور ٹیک کرنا ہے جس جانب فروٹ کی ریڑھی والے، پکوڑوں والے اور چاولوں والے کے ٹھیلے بھی بچانے ہیں۔

یہ مہارت آپ کے اندر مستقل مزاجی، صبر حوصلہ، اور برداشت کی وہ صفات پیدا کرے گی کہ آپ کا بلڈ پریشر کنٹرول میں آ جائے گا۔ آپ اپنے غصے پر قابو پانا سیکھ لیں گے اور آپ کو فرسٹریشن کی بیماری سے نجات ملے گی، کچھ ہی دنوں میں آپ کے اندر تصوف کی علامات نمودار ہو جائیں گی اور آپ کو بابا جی کی اس بات کی سمجھ آئے گی کہ پتر سب کا خیال رکھنا چاہیے۔ آگے جانے والوں کا ، پیچھے آنے والوں کا ، دائیں مڑنے والوں کا اور بائیں سے آنے والوں کا ۔

آپ اگر اپنا دفتری کام گھنٹوں کی بجائے منٹوں میں کروانے کے عادی ہیں تو آپ کو پاکستان میں کسی سرکاری دفتر، کسی بنک یا کسی پبلک آفس میں ضرور جانا چاہیے۔ آپ پورا دن ٹریفک میں خجل ہو کر وہاں پہنچیں تو سب سے پہلے آپ کو بتایا جائے گا کہ آج سسٹم ڈاؤن ہے۔ سسٹم ڈاؤن ایک ایسا لفظ ہے جس کی کوئی تشریح نہیں ہے۔ آپ کو کل آنے کا کہا جائے گا۔ آپ کل پہنچیں گے تو وہ آپ سے ایسا کاغذ مانگیں گے جس کے بارے انہیں یقین ہے کہ آپ کے پاس ہو گا ہی نہیں۔

اگر آپ اوورسیز پاکستانی ہیں تو آپ سے پاسپورٹ مانگ لیں گے۔ آپ انہیں کہیں کہ ابھی میں آپ کو فوٹو ای میل کروا دیتا ہوں تو وہ آپ سے کہیں گے جی نہیں ہمیں سارے صفحات کی فوٹوکاپی چاہیے الغرض ان کے پاس ایسا کوئی نہ کوئی بہانہ ضرور ہو گا کہ اس دن آپ کا کام نہ ہو سکے۔ وہ آپ کو اتنے چکر لگوائیں گے کہ آپ کی ذات کے اندر برداشت پیدا ہوگی اور آپ کو اینگزائٹی کے مرض سے نجات ملے گی۔

پاکستانی بہت مہمان نواز ہیں۔ آپ چاہیں قسم اٹھا کر کہیں کہ آپ پچھلے دس گھروں میں چائے پی کر آئیں تو بھی نہیں مانیں گے آپ کو چائے لازمی پینا ہی ہو گا۔ سیاست ان کا موضوع ہے، ان کے خیال میں ملک کے سیاستدان کرپٹ، خائن، دھوکے باز، چور اور لٹیرے ہیں اور قوم کی اجتماعی حالت یہ ہے کہ آپ کسی پٹرول پمپ پر رکیں تو آپ کو ایک آواز آئے گی ”میٹر چیک کر لیں“ ۔ ملک میں مذہب کا اتنا زیادہ غلبہ ہے کہ ساری دیواریں، گاڑیاں، رکشے اور ٹریکٹر ٹرالیاں دینی اقوال سے لبریز ہیں۔

قوم کو علم سے اتنی محبت ہے کہ اقوال زریں، شعر و شاعری اور ادب کے وہ نمونے جا بجا پڑھنے کو ملتے ہیں کہ ایک میٹرک پاس شخص بھی صرف سفر کرنے سے فلسفی، شاعر، ادیب یا عالم بن سکتا ہے۔ مثلاً ً ”ماں کی دعا جنت کی ہوا، دیکھ ضرور مگر پیار سے، اسے کہنا میرا شہر نہ چھوڑے، اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو ، جلنے والے کا منہ کالا، ہارون دو راستہ لو، بریک بے وفا ہے ریس لگانا چھوڑ دو ، محنت کر حسد نہ کر ، جس نے ماں باپ کو ستایا اس نے رکشہ ہی چلایا © ’‘ الغرض اتنا زیادہ گیان سڑکوں پر بکھرا ملتا ہے کہ وہاں کسی کو لائبریری جانے کی حاجت نہیں ہے۔

پاکستانیوں کا البتہ کہنا ہے کہ پاکستان میں سروائیو کرنے کے لئے اور وہاں کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے لازمی ہے کہ آپ کا خاندان بہت بڑا ہو اور ہر خاندان میں کم از کم ایک وکیل، ایک ڈاکٹر، ایک پولیس والا اور ایک غنڈہ ضرور ہونا چاہیے ہر محکمے میں کوئی نہ کوئی پہچان والا ضرور ہونا چاہیے۔ البتہ پاکستان اجتماعی طور پر ایک خوش معاشرہ ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں سے پریشان نہیں ہوتے، بم دھماکا ہو جائے کوئی حادثہ ہو جائے یا کوئی پل گر جائے تو وہاں سے بھاگتے نہیں بلکہ منظر دیکھنے چلے جاتے ہیں۔ آپ بھی پاکستان کا چکر ضرور لگائیں تاکہ آپ کے بلڈ پریشر، ڈپریشن، فرسٹریشن اور اینگزائٹی کا علاج ہو سکے۔ اس کے علاوہ بھی اگر کوئی بیماری ہے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ ڈاکٹر نہ بھی کامیاب ہو سکے تو آپ کو دم کرانے کی سہولت موجود ہے۔ جو محبوب آپ کے قدموں میں لا سکتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments