شاعر اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد لاہور میں وفات پا گئے


معروف شاعر اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد لاہور میں وفات پا گئے ہیں۔ ان کی عمر 78 برس تھی۔

پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ان کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ کہ وہ کچھ عرصے سے علیل تھے اور ان کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔

1944 میں لاہور میں جنم لینے والے امجد اسلام امجد کا شمار پاکستان کے مشہور ادیبوں میں ہوتا تھا اور وہ 20 سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے۔

انھوں نے اپنے کریئر کا آغاز شعبۂ تدریس سے کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ دو ادوار میں لاہور کے ایم اے او کالج کے شعبۂ اردو سے منسلک رہے۔

1975 میں پنجاب آرٹس کونسل کے قیام کے بعد امجد اسلام امجد کو اس ادارے کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔

اس کے علاوہ وہ پاکستان ٹیلیویژن سے منسلک رہنے کے علاوہ چلڈرن کمپلیکس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر بھی رہے۔

امجد اسلام امجد نے 1980 اور 1990 کی دہائی میں پاکستانی ٹیلیویژن کے لیے متعدد ایسے ڈرامے تحریر کیے جنھوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے جن میں وارث، دہلیز، سمندر، دن، فشار اور ان جیسے کئی ڈرامہ سیریل شامل ہیں۔

ان کا شمار پاکستان میں غزل اور نظم کے ایسے شعرا میں ہوتا تھا جن کی مقبولیت ملک کے علاوہ بیرونِ ملک بھی یکساں تھی۔

امجد اسلام امجد کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انھیں سنہ 1987 میں صدارتی تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 1998 میں ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

پاکستانی ادب کا چہرہ

شاعر اور ادیب سعود عثمانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’امجد اسلام امجد لاہور اور پاکستانی ادب کا چہرہ تھے۔‘

’ایسا چہرہ جو پوری دنیا میں جانا پہچانا جاتا تھا۔ لوگ ان سے محبت کرتے تھے۔ اور محبت ان کو صرف ملتی ہی نہیں تھی، وہ اس محبت کو بانٹتے بھی تھے۔‘

سعود عثمانی نے بتایا کہ ’امجد صاحب سے میرا ذاتی تعلق کم و بیش 45 سال سے تھا۔ ان سے رشتہ داری تو بعد میں ہوئی لیکن ادب میں سب سے زیادہ جس شخصیت نے مجھے خوش آمدید کہا اور پزیرائی دی، وہ امجد اسلام امجد تھے۔‘

’ہنر مند لوگوں کو پہچاننا اور پروموٹ کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے۔‘

سعود عثمانی نے بتایا کہ خرابی صحت کے باوجود امجد اسلام امجد کی زندہ دلی اور شگفتگی ویسی ہی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’وہ ایک بہترین سفر کے ساتھی تھے۔ ہم ان سے جونیئر تھے لیکن وہ ہمارا برابری کی سطح پر خیال کرتے تھے۔‘

’میری کتاب چھپی تو امجد صاحب نے پوچھا تم کتاب کب چھاپ رہے ہو۔ میں نے کہا اتنی کتابیں ہیں، ایک اور کتاب سے کیا ہوگا، تو انھوں نے کہا کہ دیکھو ایسا نہ کرو بلکہ یہ کام کرو کہ اللہ سے توفیق مانگو کہ وہ آپ کی توفیق بڑھا دے۔‘

امجد اسلام امجد کی برجستگی

آمنہ مفتی کا امجد اسلام امجد سے قریبی تعلق رہا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ امجد اسلام امجد کی بیٹی میری سہیلی تھیں لیکن ’امجد اسلام امجد صاحب کو میں نے کبھی انکل نہیں کہا کیوں کہ ان کی لکھائی اتنی زندہ دل اور جوان تھی۔‘

’عمر کے آخری حصے میں ان کو ذیابطیس ہو گئی تھی لیکن ان کو میٹھا بہت پسند تھا اور ان کو جب کچھ کھلاتے تھے تو ان سے شاعری کی فرمائش بھی کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اب تم نے روٹی کھلائی ہے تو مزدوری بھی لو گے۔‘

’ایک دن دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے تو حفیظ صاحب نے ایک شعر پڑھا کہ ’جو میرے خیر کے منظر میں اپنا شر ملاتے ہیں‘۔۔۔ تو اس پر امجد بھائی نے برجستہ کہا کہ ’میں ان کے خیر کے منظر میں اپنا شر ملاتا ہوں۔‘ وہ ایسی اچانک گرہیں لگاتے تھے حالانکہ حفیظ صاحب کا اگلا مصرع تھا کہ میں ان کے سامنے پھر خیر کا منظر بناتا ہوں۔‘

ادیب اور محقق ڈاکٹر عظمی سلیم نے بھی امجد اسلام امجد کی شخصیت کے اس پہلو پر روشنی ڈالی۔

انھوں نے کہا کہ ’امجد اسلام امجد صاحب کی ایسی شخصیت تھی کہ ان کے اندر کسی قسم کا غرور نہیں تھا۔ وہ ہر کسی سے ملتے تھے، جونیئرز کو عزت دیتے تھے اور ہر لکھنے والے کو دوست سمجھتے تھے۔‘

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’امجد اسلام امجد کی شخصیت کی اہم چیز ان کی حس مزاح تھی۔‘

’لاہور میں جس محفل میں بھی امجد اسلام امجد موجود ہوتے تھے، وہاں قہقے گونجتے تھے۔ ان کی جملے بازی اور مزاح مشہور تھا۔‘

ادیب اور شاعر حارث خلیق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’امجد اسلام امجد کی رحلت اردو شعر و ادب کا بڑا نقصان ہے۔‘

’ڈرامہ نگاری کے ساتھ ساتھ اردو شاعری میں ان کا ایک علیحدہ مقام تھا- ان کے کلام میں تازہ کاری بھی تھی اور توانائی بھی، ان کی نظمیں ہمیں ایک خاص رومانوی طرزِ احساس سے روشناس کراتی ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر مداحوں کا اظہار افسوس

پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے امجد اسلام امجد کی وفات پر دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی صدر عارف علوی سمیت ان کی مداح ان کی شاعری سیئر کرتے ہوئے ان کی وفات کو اردو ادب کا عظیم نقصان قرار دے رہے ہیں۔

ان کی وفات پر افسوس کا اظہار کرنے والوں میں پاکستانی ادکار اور مشہور شخصیات شامل ہیں۔

اداکار عمران عباس نے بھی اسے اردو شاعری کا اداس تین دن قرار دیا۔

سابق کرکٹر شعیب اختر نے بھی امجد اسلام امجد کی وفات کو ایک بڑا نقصان قرار دیا۔

ڈاکٹر نعمان نیاز نےلکھا کہ ’معروف ڈراما نگار، اعلیٰ ترین شاعر، یونیورسٹی کے سابق کرکٹر اور ایک قابل ذکر انسان امجد اسلام امجد نہیں رہے۔ 1995-96 میں کئی شوز میں ان کی میزبانی کرتے ہوئے ان کے ساتھ کام کرنا باعث مسرت تھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments