اردو ادب کے ”وارث“ امجد اسلام امجد نہ رہے


اسی زمین میں اک دن مجھے بھی سونا ہے
اسی زمین کی امانت ہیں میرے پیارے بھی

اور امجد اسلام امجد بھی اسی زمین میں جا سوئے، ساتھ ہی اردو ادب کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی لرزتی ہوئی کرنوں اور اس کی دشمن تیز ہوا کے سامنے ایک مضبوط دیوار کا ایک بڑا حصہ بھی گر گیا۔ امجد اسلام امجد کی شخصیت ان کے اردو ادب کے لئے خدمات پر کچھ لکھنا اور ان کا احاطہ کرنا میرے جیسے بونے قد کے لکھاریوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اپنی ذات میں بے مثل، اپنے کردار میں بے مثل تھے جو لکھا وہ امر ہوا۔ ان کے قلم سے نکلی ہر تحریر نے اپنے نقش چھوڑے۔ ڈرامے لکھنے شروع کیے تو وارث سے لے کر فشار تک، دہلیز سے لے کر سمندر تک، ہر ایک ڈرامے نے دیکھنے والوں کو ایسا مبہوت کیا کہ گلیاں اور بازار سنسان ہو جاتے تھے۔

یوں تو میرے جیسے دیہاتی بچے کا حضرت علامہ اقبال اور مرزا غالب سے تعارف تو درسی کتب میں شامل مضامین سے ہوا مگر امجد اسلام امجد سے واسطہ ان کے پی ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈراموں سے ہوا۔ یوں ان کی ذات کے بارے میں تجسس اور کھوج نے ان کی شاعری سے بھی آشنا کیا۔ یوں ان کی غزلیں اور نظم پڑھنے کو ملیں تو یہ حقیقت وا ہوئی کہ وہ نہ صرف ایک اچھے ڈرامہ نگار تھے بلکہ وہ شاعر بھی کمال تھے۔ بی بی سی کے مطابق وہ اردو ادب کا چہرہ تھے اور بلاشبہ یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ جدت کے اس دور میں کہ جب کتابیں پڑھنے والے ہی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ امجد اسلام امجد ہیں کہ جن کو سن دو ہزار کے بعد پیدا ہونے والی نوجوان نسل کسی نہ کسی صورت میں جانتی ہے۔

میرے جیسے نوے کی دہائی کے افراد نے تو چلو پی ٹی وی کی جانب سے ان کے دوبارہ نشر ہونے والے ڈراموں، ان کے شاعری کے پروگراموں کے ذریعے شناسائی لی مگر یہ ان کے کلام، ان کی تحاریر کا سحر ہے کہ آج کل کے نوجوان بھی انہی اسی چاہت اسی یکسوئی سے پہچانتے اور پڑھتے ہیں کہ جو ہم لوگوں کے حصے میں آیا۔ برجستگی ان کا خاصہ، رومانویت اور حس مزاح تو ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ عزت دینے والے اور عزت کرنے والے تھے۔ عروج پر پہنچ کر بھی اپنے نیچے رہ جانے والوں کے لئے سیڑھی بننا اور منکسر المزاجی ہی ان کی پہچان تھی، یہ بھی اللہ کی دین ہوتی ہے کہ شہرت کے باوجود وہ مغرور نہ تھے۔

ان کی رومانوی شاعری کی بات کروں تو ان کی ایک نظم یاد آجاتی ہے جس کا عنوان بھی ”محبت کی ایک نظم ہے“ چند اشعار اپنے قارئین کی نذر کرتا چلوں
محبت کی ایک نظم

اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر
تمہارے قدموں میں آ گرے
تو یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا

ناول نگار آمنہ مفتی کے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو کو یہاں بیان کرتا چلوں۔ وہ کہتی ہیں امجد اسلام امجد کی بیٹی ان کی سہیلی تھیں لیکن ’امجد اسلام امجد صاحب کو انہوں نے کبھی انکل نہیں کہا کیوں کہ ان کی لکھائی اتنی زندہ دل اور جوان تھی۔‘

’عمر کے آخری حصے میں ان کو ذیابطیس ہو گئی تھی لیکن ان کو میٹھا بہت پسند تھا اور ان کو جب کچھ کھلاتے تھے تو ان سے شاعری کی فرمائش بھی کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اب تم نے روٹی کھلائی ہے تو مزدوری بھی لو گے۔ ‘

”ایک دن دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے تو حفیظ صاحب نے ایک شعر پڑھا کہ ’جو میرے خیر کے منظر میں اپنا شر ملاتے ہیں‘ ۔ تو اس پر امجد بھائی نے برجستہ کہا کہ ’میں ان کے خیر کے منظر میں اپنا شر ملاتا ہوں۔ ‘ وہ ایسی اچانک گرہیں لگاتے تھے حالانکہ حفیظ صاحب کا اگلا مصرع تھا کہ میں ان کے سامنے پھر خیر کا منظر بناتا ہوں۔“

وہ ایک بہترین کالم نویس بھی تھے، امجد اسلام امجد کو اردو ادب میں گراں قدر خدمات پر 1987 میں ”پرائڈ آف پرفارمنس“ اور 1988 میں ”ستارۂ امتیاز“ سے نوازا گیا۔ انہوں نے پانچ مرتبہ ٹیلی وژن کے بہترین رائٹر، سولہ مرتبہ گریجویٹ ایوارڈ اور متعدد دیگر ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ بلاشبہ ان کی وفات کا دن اردو ادب کے اداس دنوں میں سے ایک ہے۔ وہ لاہور کی بانجھ ہوتی ہوئی ادبی دنیا کو یتیم کر گئے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments