بڑا مقدمہ – آئزک باشیوس سنگر کا افسانہ



تحریر: آئزک باشیوس سنگر۔
ترجمہ: جاوید بسام۔ (کراچی)

میرے والد کے پاس جو تنازعات حل ہونے کے لیے آتے تھے۔ وہ سب چھوٹے اور غیر اہم ہوتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ بیس یا شاید پچاس روبل کے، لیکن میں جانتا تھا کہ ایسے ربی بھی ہیں جو بڑی رقم کے لیے قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ جن میں ہزاروں روبل کا کاروبار ہوتا ہے۔ وہاں ہر فریق کی نمائندگی اس کے ثالث کے ذریعے کی جاتی تھی، لیکن یہ ان امیر ربیوں کے لیے تھا جو وارسا کے شمالی حصے میں رہتے تھے۔ ہمارے علاقے میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔

مگر ایک دن سردیوں کے موسم میں ایک ایسا مقدمہ (دن توئر) ہمارے گھر بھی پہنچ گیا۔ مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ ان امیروں نے میرے والد کی عدالت پر بھروسا کیوں کیا؟ آخر یہ تو سب کو معلوم تھا کہ وہ دنیاوی معاملات میں کتنے سادہ لوح تھے۔ ماں باورچی خانے میں پریشان بیٹھی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ والد اتنے پیچیدہ معاملے کی تمام الجھنوں کو نہ سمجھ پائیں گے۔ یہاں تک کہ شام کو والد نے مقدمہ گوشے مشپت کو شیلف سے اتارا اور پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔ چوں کہ وہ تجارت اور تجارتی امور کو زیادہ نہیں سمجھتے تھے۔ اس لیے کم از کم خود کو یقین دلانا چاہتے تھے کہ وہ قانون کو جانتے ہیں۔

جلد ہی درخواست گزار حاضر ہوئے اور اپنے نمائندے ثالث لے کر آئے۔ مدعیان میں سے ایک لمبا، دبلا پتلا، چھدری کالی داڑھی اور غصیلی سیاہ عقیق جیسی آنکھوں والا تھا۔ لمبے فرکوٹ میں ملبوس، پیروں میں چمکدار گالوشز (جوتوں پر پہننے کے ربڑ کے غلاف) اور سر پر فر کی ٹوپی۔ وہ ہر وقت منہ میں امبر کے ماؤتھ پیس میں سگار لگائے رکھتا تھا اور اپنی حیثیت اور رتبے سے آگاہ اور انا اور احساس تفاخر میں مبتلا نظر آتا تھا۔ جب اس نے گالوشز ہٹائے تو میں نے سرخ استر پر طلائی حروف دیکھے۔ جسے میں ایک مونوگرام کہہ سکتا ہوں۔ وہ ایک ثالث کو ساتھ لایا تھا، جو بالکل سفید ڈاڑھی، لیکن جوان، مسکراتی ہوئی آنکھوں والا ربی تھا۔ اس کا پیٹ نکلا ہوا تھا اور ریشم کی واسکٹ پر چاندی کی زنجیر لٹکی تھی۔

فریق مخالف ایک پستہ قد آدمی تھا، تقریباً بونا، اس نے لومڑی کی کھال کا کوٹ پہن رکھا تھا، منہ میں موٹا سگار تھا۔ وہ بھی ایک ثالث لے کر آیا تھا، جس کی بڑی سفید ڈاڑھی تھی، جو نیچے سے بھوری ہو رہی تھی، ایک لمبی جھکی ہوئی ناک اور پیلی آنکھیں جو کسی پرندے سے مشابہت رکھتی تھیں۔ اس نے اپنی ٹوپی اتاری اور کچھ دیر تک ننگے سر رہا۔ پھر اس نے ساٹن کا یرملک پہنا جیسا کہ لتواکس پہنتے ہیں۔

ہمارے گھر میں تورات اور شریعت کا مطالعہ ہی واحد مشغلہ سمجھا جاتا تھا۔ وہ پہلے لوگ تھے جو وہاں باطل اور دنیاوی چیزیں لے کر آئے تھے۔

میں حیرت اور تجسس سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ دونوں ربی ایک دوسرے سے مذاق کر رہے تھے۔ میری ماں نے قہوہ، ہفتے کی بچی ہوئی مٹھائی اور لیموں ان کو پیش کیے۔ مسکراتی آنکھوں والا ربی ان کی طرف متوجہ اور بولا۔ ”ربیتزین! میں ان کا کیا کروں۔ ابھی تو موسم گرما ہے؟“ وہ مذاق کر رہا تھا۔ اس کی نظریں ماں پر جمی تھیں۔ جبکہ میرے والد عورتوں کی موجودگی میں ہمیشہ نظریں نیچے رکھتے تھے۔

ماں اسکول کی لڑکی کی طرح شرما گئی۔ وہ واضح طور پر الجھن کا شکار تھی، لیکن پھر انھوں نے اپنا حوصلہ بحال کیا اور جواب دیا۔ ”چونکہ ابھی موسم سرما ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سردیوں کو اس چیز کی ضرورت ہے۔“

کچھ دیر بعد سماعت شروع ہوئی۔ یہ مقدمہ بہت بڑی ہزاروں روبل رقم کے بارے میں تھا۔ میں نے اپنی پوری بچکانہ صلاحیت کے ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ وہ کیا بحث کر رہے ہیں، لیکن جلد ہی سرا کھو بیٹھا۔ کچھ خرید و فروخت کے بارے میں، آرڈر پورے کرنے کے بارے میں، کچھ سامان کے سودوں کے بارے میں۔ انہوں نے ادھار، خالص آمدنی، مجموعی آمدنی پر تبادلہ خیال کیا، کھاتوں اور رسیدوں کو دیکھا، منافع کی تقسیم کے بارے میں بحث کی۔ دونوں ربی، وہ ثالث جنہوں نے مقدمہ طے کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ وہ ان تمام کاروباری اصطلاحات پر اس طرح عبور رکھتے تھے جیسے پانی میں مچھلی تیرتی ہے اور والد کو مسلسل وضاحت کی ضرورت پڑ رہی تھی۔

میں دل ہی دل میں ان سے خفا تھا کہ وہ زیادہ معلومات نہیں رکھتے اور میں اس کے بارے میں بھی فکرمند تھا کہ وقتاً فوقتاً بحث میں خلل پڑ رہا ہے، آس پاس رہنے والی خواتین مسائل پوچھنے آ رہی تھیں۔ انھیں فوری طور پر یہ معلوم کرنا تھا کہ ذبح ہونے والی مرغی کہیں غلط طریقے سے تو ذبح نہیں ہوئی؟ کیا وہ واقعی کوشر ہو گئی ہے؟

دین توئر ایک دن میں ختم نہیں ہوا۔ وہ کئی دن تک جاری رہا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کا کوئی انجام نہیں۔ اس دوران میں نے بہت کچھ سیکھا، بہت کچھ سمجھا۔ مجھے یہ پتہ چلا کہ تمام ربی میرے والد کی طرح نہیں ہوتے۔ انھوں نے فاؤنٹین پین نکالا اور کاغذ پر لکھنا شروع کیا، سیدھی لکیریں، دائرے، چوکور، مختلف پیچیدہ علامتیں بنائیں۔ انھوں نے تازہ دم ہونے اور اپنی قوت کو بحال کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً مجھے کچھ خریدنے کے لیے بازار بھیجا۔ ابھی سیب آرہے ہیں، ابھی بیکری سے بن لائے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے ساسیج اور بچھڑے کے نمکین گوشت کے پارچے بھی منگوائے۔ جب کہ میرے والد گروسری اسٹور سے خریدے ہوئے گوشت کو کبھی ہاتھ نہیں لگاتے تھے۔

انھوں نے تمباکو نوشی کی اور گوشت کھایا اور ماہروں کی طرح اس کے معیار پر تبادلہ خیال کیا۔ کئی بار مقدمہ میں خلل پڑا، مثال کے طور پر کبھی ایک ربی نے تھک کر وقفہ لیا، کبھی کچھ یاد کرنے کی کوشش کی، کبھی بات کہیں سے کہیں جا نکلی، ایسے میں دوسرا ربی کیوں پیچھے رہتا، وہ بھی نمایاں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے بھی یہی کیا، دور دراز ممالک کے بارے میں باتیں کی اور قصے سنائے اور معدنی پانیوں کے بارے میں بات چیت کی۔

معلوم ہوا کہ وہ دونوں ربی جرمنی اور ویانا میں اور نہ جانے کہاں کہاں رہے ہیں۔ والد صاحب میز کے سرہانے بیٹھے تھے۔ وہ اعلیٰ جج تھے، لیکن یہ واضح تھا کہ وہ بے چین ہیں۔ وہ ان اہم لوگوں کی موجودگی سے شرمندہ تھے جو ہر موضوع پر اتنے آرام اور سکون سے باتیں کر رہے تھے۔

وقت گزرتا گیا اور میں سمجھنے لگا کہ تنازعہ کا موضوع کیا ہے۔ مجھے حیرت کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ ان ثالثوں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ کیا صحیح ہے، کیا غلط، سچ کہاں ہے، جھوٹ کہاں ہے۔ ہر ایک نے صرف قیاس کرنے کی کوشش کی، دوسرے کو پیچھے چھوڑ دیا، اپنے فریق کو درست ثابت کیا اور فریق مخالف کے دلائل میں تضاد تلاش کیا۔

مجھے ان بدتمیز ربیوں پر غصہ آیا اور ساتھ ہی میں ان کے بچوں کے حسد سے بھسم بھی ہو گیا۔ ان کی گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ گھر میں ان کے پاس مہنگے قالین، نرم صوفے، خوبصورت چیزیں اور بہت کچھ تھا۔ کم کم، لیکن پھر بھی ان میں سے ایک نے اپنی بیوی کا ذکر بھی کیا، یہ پہلے سے ہی موجود معجزات میں ایک نیا معجزہ تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی والد کو دوسرے مردوں کے ساتھ گفتگو میں ماں کے بارے میں بات کرتے نہیں سنا تھا۔

یہ نہ ختم ہونے والا دین توئر آگے بڑھتا گیا، مزید الجھتا گیا، پیچیدگی بڑھتی گئی، نئی باریکیاں پیدا ہوتی گئیں۔ میز پر حسابی کاغذات کا ایک ڈھیر جمع ہو گیا۔ محاسب (اکاؤنٹنٹ) کو بلایا گیا اور وہ مزید بہی کھاتے لے کر آیا۔ کالی چھدری ڈاڑھی والے لمبے آدمی کا مزاج مسلسل بدل رہا تھا۔ ابھی وہ سکون سے متانت سے بول رہا ہے، گویا ہر لفظ کا وزن سونے میں تلا ہے، ابھی وہ غصے سے میز پر مکا مارتا ہے اور دھمکی دیتا ہے کہ وہ مقدمہ روسی سول عدالت میں منتقل کر دے گا۔

پھر سفید بالوں والا پستہ قد بھی اسے سخت، بدتمیزی اور غصے سے جواب دیتا ہے اور بار بار دہراتا۔ جہاں تک میرا تعلق ہے۔ میں کسی اعلیٰ عدالت سے نہیں ڈرتا اور ان کے دو ثالث اگرچہ وہ حریف تھے، ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے تھے، لیکن انھوں نے سکون سے بات کی۔ ایک، دوسرے کے لیے ماچس لایا اور سگریٹ جلایا۔ دونوں باتیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ انھوں نے حکیموں کے اقوال، تلمودی علماء کے فیصلوں، فقہاء کی آراء کا حوالہ دیا۔

میرے باپ نے بہت کم بات کی، زیادہ وضاحت طلب نہیں کی۔ وہ وقتاً فوقتاً کتابوں کی الماریوں پر تڑپتی نظر ڈالتے رہے۔ ان امیر یہودیوں کے لین دین پر جھگڑوں کی وجہ سے وہ تورات اور اپنے مطالعہ کے لیے خاطر خواہ وقت نہیں نکال پا رہے تھے۔ وہ اپنی کتابوں اپنی تفسیروں کی طرف واپس جانے کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ واقعتاً ان کے لیے تڑپتے تھے۔ تاہم بیرونی دنیا نے اپنے حساب و کتاب کے ساتھ اپنے جھوٹ اور خیانت سے ہماری زندگیوں پر حملہ کر دیا تھا۔

مجھے مسلسل ہر طرح کے لوازمات کے لیے بھیجا گیا تھا۔ جیسے میں ایک کام والا لڑکا ہوں۔ ابھی ایک کو سگریٹ کی ضرورت ہے، ابھی دوسرے کو سگار کی ضرورت ہے۔ پھر کسی وجہ سے پولش اخبار کی ضرورت پڑ جاتی اور وہ دوبارہ مجھے بھیجتے تھے، لیکن اکثر وہ کھانے کے لیے بھیجتے تھے۔ مجھے اس سے پہلے یقین نہیں تھا کہ لوگ اتنا زیادہ کھا سکتے ہیں۔ ہر طرح کی مٹھائیاں اور کھانے، اور چھٹی کے دن نہیں، بلکہ ہفتے کے دن بھی محض چلتے پھرتے چبانے کے لیے۔ مثال کے طور پر ہنستی آنکھوں والے ربی کو سارڈینز کا ایک برتن چاہیے تھا۔ دونوں بے تحاشا کھا رہے تھے۔ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ بل کی ادائیگی انھیں نہیں کرنی، بلکہ اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں۔ جنھوں نے انھیں کام پر رکھا تھا۔ وہ اس کے بارے میں کھل کر بات کرتے، ہنستے اور آنکھ مارتے تھے۔

آخری دنوں میں ایک ناقابل تصور شور و غوغا اور ہنگامہ آرائی دفتر میں مچی رہتی تھی۔ ایک دفعہ دونوں جھگڑا کرنے والوں میں سے ایک نے بھاگنے کی کوشش کی۔ ربی کو اپنے مؤکل کو روکنا پڑا۔ میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ سب ایک کھیل ہے۔ وہ جو بات کہتے ہیں، اس مطلب وہ نہیں ہوتا تھا جو وہ کہہ رہے ہوتے تھے۔ بلکہ اس کا مطلب بالکل مختلف ہوتا تھا۔ جب وہ ناراض ہوتے تو سکون سے بولتے اور اگر کوئی شخص مطمئن ہو جاتا تو وہ غصے کا ڈرامہ کرتا تھا۔

جس دن ایک ربی غیر حاضر ہوتا یا اسے آنے میں دیر ہوجاتی تو دوسرا اس کی غیبت کرتا اور تمام برائیوں اور کمزوریوں کو شمار کرتا۔ ایک بار ہنستی آنکھوں والا ربی دوسروں سے آدھا گھنٹہ پہلے آیا اور اپنے مخالف کے خطاب پر طعن و تشنیع کی بارش کرنے لگا۔ اس نے یہاں تک کہا۔ ”اگر وہ ربی ہے تو میں انگریز بادشاہ ہوں۔“

والد چونک گئے اور بولے۔ ”یہ کیسے ممکن ہے؟ میں جانتا ہوں کہ وہ پیچیدہ مسائل پر تنازعات کو حل کرتا ہے۔“

”اس کے فیصلے! ہاہا۔ بس کیا کہوں؟“
”لیکن اگر آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں تو اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔“ باپ نے کہا۔
”شاید وہ جانتا ہے کہ بیر ہتیو میں فوٹ نوٹ کیسے تلاش کرنا ہے۔ وہ امریکہ بھی جا چکا ہے۔“
”وہ امریکہ میں کیا کر رہا تھا؟“ باپ نے حیرت سے پوچھا۔
”میں نے اس سے پتلون سلوائی تھی۔“
باپ نے ماتھے سے پسینہ پونچھا۔
”کیا آپ سنجیدہ ہیں؟“
”ہاں۔“

”اسے پیسوں کی ضرورت تھی۔ آخر یہ تو لکھا ہے کہ بھیک مانگنے سے بہتر لاشوں کو نہلانا ہے، کام شرم کی بات نہیں۔“

”یہ یقیناً سچ ہے، لیکن ہر جوتا بنانے والا ربی جوہانان نہیں ہوتا۔“ باپ نے کہا۔

بعد میں باپ نے ایک آہ بھر کر ماں کے سامنے اعتراف کیا کہ اگر دین توئر ان کی بجائے کسی اور ربی کو فیصلہ کرنے کے لیے دیا جائے تو انھیں خوشی ہوگی۔ وہ کافی عرصے سے کام سے دور ہیں۔ وہ اپنا تمام وقت حساب کتاب جوڑنے، گھٹانے اور ضرب کرنے میں صرف کر رہے تھے اور منافع کی تقسیم پر الجھن کا شکار تھے۔ انھوں نے پیش گوئی کی کہ کسی بھی صورت میں اختلاف کرنے والے ان کے فیصلے کو نہیں مانیں گے اور انھیں یہ ڈر بھی تھا کہ مقدمہ بالآخر سول کورٹ میں چلا جائے گا اور پھر امکان ہے کہ انھیں بطور گواہ بلایا جائے گا۔

حکام کے سامنے کھڑے ہونے، بائبل پر حلف اٹھانے، وہاں لوگوں میں گھرے ہونے کے خیال سے ہی ان کی روح کانپ اٹھتی۔ رات کو وہ سوتے میں کراہتے تھے۔ صبح وہ معمول سے پہلے اٹھتے، تاکہ سکون اور خاموشی سے نماز پڑھ سکیں اور (گیمارا) مقدس کتاب سے کم از کم ایک صفحہ تلاوت کرسکیں۔ پھر وہ اپنے کمرے میں کچھ دیر بے چینی سے ٹہلتے رہتے پھر کانپتی ہوئی بلند آواز میں دعا کرتے۔ ”خداوند! آپ نے مجھے ایک روح دی ہے۔ اسے پاک رکھیں۔ آپ خالق ہیں، آپ نے مجھے سانسیں دیں اور میرے جسم میں روح پھونکی ہے۔ آپ اسے لینے پر قادر ہیں، لیکن میری روح کو اگلی زندگی میں دوبارہ جنم لینے دیں۔“

ایسا لگتا تھا کہ وہ دعا نہیں کر رہے، بلکہ خالق کائنات کے سامنے خود کو درست ثابت کر رہے ہیں۔ وہ کہانیوں کے فلاکٹریز (چمڑے کا ایک چھوٹا سا ڈبہ جس میں کاغذ پر عبرانی عبارتیں ہوتی ہیں، جسے یہودی مرد صبح کی نماز کے وقت قانون کی پاسداری کی یاد دہانی کے طور پر پہنتے ہیں۔ ) اور جھالر کو عام دنوں کی طرح نہیں، بلکہ گہرے تقدس اور بے قراری سے بوسہ دیتے۔

آخری دن ناقابل یقین حد تک طوفانی تھا۔ اس دن نہ صرف اختلاف کرنے والے بلکہ ان کے ارباب اختیار بھی شور مچا رہے تھے۔ ان کے درمیان سابقہ ​​دوستانہ تعلقات کا کوئی نشان نہیں تھا، انھوں نے ایک دوسرے پر لعنت بھیجی اور برا بھلا کہا۔ ہاں! انھوں نے لعنت بھیجی اور چیخے بھی، وہ اپنے دبے ہوئے جذبات کو تب تک نکالتے رہے جب تک تھکن سے خاموش نہ ہو گئے۔ پھر باپ نے ایک رومال نکالا اور ہر مدعی کو اس کا سرا پکڑنے کو کہا۔ یہ اس بات کی علامت تھا کہ وہ اس کے ہر فیصلے پر سر تسلیم خم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میں پاس کھڑا تھا اور کانپ رہا تھا۔

میں یقینی طور پر جانتا تھا کہ میرے والد کو مقدمے کے ان الجھے ہوئے معاملات میں کچھ سمجھ نہیں آیا ہو گا اور اب وہ ایسا فیصلہ سنائیں گے جو مناسب نہیں ہو گا، لیکن پھر اچانک مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ آخرکار پچھلے گھنٹوں کے دوران میرے والد نے اس تنازعہ کا اور منافع کی تقسیم کا مکمل حل ڈھونڈ لیا تھا۔ انھوں نے سمجھوتے کا پرانا اور آزمودہ فارمولا آزمایا اور بولے۔ ”برابر برابر حصص“

سب یک دم خاموش ہو گئے۔ پورے کمرے میں خاموشی کا راج تھا۔ کسی کا کچھ کہنے کا حوصلہ نہیں تھا۔ چھدری ڈاڑھی والا ساکت کھڑا باپ کو گھورتا رہا۔ پستہ قد آدمی نے اس طرح منہ بنایا جیسے اس نے خراب گوشت کھایا ہو۔ پیلی آنکھوں والا ربی بے دلی سے مسکرایا اور اس کے پیلے دانتوں میں سونے کا دانت چمک اٹھا۔ اس سے مجھے ایک بار پھر یقین ہو گیا کہ وہ امریکہ گیا تھا۔

آخر کار سب جاگ گئے اور بولنا شروع ہوئے۔ انھیں فیصلے سے اختلاف تھا۔ وہ اسے ماننا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے غصے سے جارحانہ اشارے کیے اور توہین آمیز آوازیں نکالیں، مگر باپ اپنی بات پر ڈٹا رہا۔ اس نے سادگی سے کہا۔ ”میں نے پوچھا تھا کہ کیا آپ اس مسئلے کا مکمل حل چاہتے ہیں یا آپ کسی سمجھوتے پر راضی ہیں؟ میں نے پہلے ہی کہا تھا۔ یہ میرا فیصلہ ہے اور میرے پاس ایسی کوئی فوجی دستے کی طاقت نہیں ہے کہ آپ کو اس پر عمل کرنے پر مجبور کر سکوں۔“

ثالث اپنے مؤکلوں کے ساتھ اس فیصلے پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے الگ الگ ہو گئے۔ وہ بڑبڑاتے، قسمیں کھاتے ہوئے اپنی شکایتوں کا اظہار کر رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ سب سے زیادہ احتجاج اس کی طرف سے ہوا جس نے والد کے فیصلے سے اصل فائدہ اٹھایا تھا۔ پھر انھوں نے اس نکتے پر اتفاق کیا کہ سمجھوتہ عملی طور پر ناممکن ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ اس میں کچھ رد و بدل ہو، لیکن آخر میں اس کے باوجود کہ وہ فیصلے سے خوش نہ تھے۔ انھوں نے آپس میں ہاتھ ملایا۔

وہ ابھی بھی کاروباری شراکت دار تھے۔ اس طرح معاملہ ختم ہوا۔ ربیوں نے مجھے دوبارہ دکان پر بھیج دیا۔ جو کچھ یہاں ہوا تھا۔ اس تمام مشقت اور جھگڑوں کے بعد انھیں ایک بھاری بھرکم ناشتے کی طلب تھی۔ تاکہ طاقت بحال کرسکیں۔ وہ ایک بار پھر کاروباری رفیق تھے۔ ان میں سے ایک نے یہاں تک کہا کہ وہ دوسرے کے کسی معاملے کو حل کرنے کی سفارش کرے گا۔ جسے وہ جانتا تھا۔ آخر سب چلے گئے۔ دفتر میں صرف سگریٹ کے مڑے تڑے ٹوٹے اور دھواں رہ گیا۔

اس کے علاوہ میز پر فالتو کاغذ، پھلوں کے چھلکے اور کھانے کے بچے ہوئے ریزے بھی بچے تھے۔ میرے والد نے بھاری فیس وصول کی تھی، پورے بیس روبل۔ مجھے یاد ہے۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ میرے والد کی روح پر ایک ناخوشگوار تاثر تھا۔ انھوں نے ماں سے کہا کہ وہ جلد از جلد میز صاف کر دیں۔ انھوں نے سگریٹ کی مہک نکالنے کے لیے دروازہ کھول دیا۔ ایک ایسی بو جس نے انھیں دولت، عیش و عشرت، باطل اور دنیاوی ہلچل کی یاد دلا دی تھی۔ وہ مدعی کاروباری لوگ تھے۔ آخر انھیں ان سے کیا لینا دینا تھا، لیکن ربی وہ حد سے زیادہ چالاک تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے والد کو شدید تکلیف ہوئی تھی۔

جیسے ہی ماں نے میز کو صاف کیا، باپ اپنی معمول کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کے لیے بیٹھ گئے۔ انھوں نے کتابوں کو بے صبری، ناقابل یقین جوش اور ولولے سے اٹھایا۔ ان مقدس کتابوں میں کسی نے سارڈینز نہیں کھائی تھی، کسی نے خفیہ اشارے نہیں کیے، کسی نے چاپلوسی نہیں کی، کسی نے شیخی نہیں بگاڑی، کوئی دوغلا پن نہیں، ایسا کوئی لطیفہ نہیں تھا جو وہ سننا نہیں چاہتے تھے۔ یہاں تقدس، سچائی سے لگن اور اساتذہ کی تعظیم راج کرتی تھی۔

کچھ دنوں بعد بیت مدراش میں، جہاں میرے والد مطالعہ کرنے کے لیے جاتے تھے۔ انہوں نے اس سنسنی خیز دین توئر کے بارے میں سنا۔ جس نے سب کو حیران کر دیا تھا۔ انھوں نے میرے والد سے بھی اس پر تبادلہ خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ وارسا بھر میں مشہور ہو گئے ہیں۔ ان کو اتنی شہرت ملی ہے۔ جو پہلے کسی کو نہیں ملی۔ باپ نے فقط سر ہلایا اور بولے۔ ”نہیں، نہیں، یہ کچھ اچھا نہیں۔“

پھر میرے والد نے مجھے ان پوشیدہ چھتیس نیک اور صالح ولیوں کے بارے میں بتایا۔ جن کی وجہ سے دنیا کے قائم رہنے کا انحصار ہے۔ وہ درزی، جفت ساز اور ماشکی وغیرہ۔ والد نے ان کی غربت اور عاجزی کا ذکر کیا کہ وہ جاہل ہونے کا بہانہ کرتے ہیں، تاکہ کوئی ان کی حقیقی عظمت کا اندازہ نہ لگا سکے۔ انھوں نے ان اولیاء کے بارے میں خاص طور پر پرجوش محبت سے بات کی۔ پھر مزید کہا۔ ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک توبہ کرنے والے کی روح کی تیس قیمتی ریشمی لباسوں سے زیادہ وقعت ہے۔“

ختم شد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments