جیلوں میں قیدی سے ملاقات کو جانے والے رشتہ دار کس ذہنی اذیت سے گزرتے ہیں؟


ماں، بچہ، پریشان، ذہنی صحت
’اگر اپنی بیٹی کو دوبارہ جیل میں لے کر گئی تو تمھاری بیٹی کو ذہنی طور پر نارمل ہونے میں کئی سال لگ جائیں گے۔‘

ثریا بی بی (فرضی نام) جب اپنی بیٹی کو علاج کی غرض سے ایک ماہر نفسیات کے پاس لے گئیں تو انھیں یہ کہا گیا۔

وہ کچھ ہی دن قبل اپنی بیٹی کو اس کے والد سے ملانے صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی کے اڈیالہ جیل لے گئی تھیں۔

ثریا کے مطابق قید خانے میں بند والد سے ملاقات نے ان کی بیٹی کو ’ذہنی طور پر پریشان‘ کیا، جس سے ’اس کا رویہ جارحانہ ہو جاتا ہے اور اب وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوفزدہ ہوجاتی ہے۔‘

گھر کے ساتھ ساتھ سکول کے اساتذہ نے بھی ان کے رویے کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے ہیں۔

ثریا بی بی اپنی بیٹی کی کونسلنگ کے لیے ہفتے میں دو مرتبہ ماہر نفسیات کے پاس جاتی ہیں۔ وہ ہفتے میں ایک بار انھیں اپنے خاوند سے ملنے اڈیالہ جیل بھی لے جاتی ہیں کیونکہ ہفتے میں صرف ایک بار ہی ملاقات کی اجازت ہے۔

اس کے علاوہ ان پر اپنی نوکری اور گھر کی ذمہ داری بھی ہے۔

ثریا بی بی، جو ایک نجی کمپنی میں کام کرتی ہیں، کا کہنا تھا کہ جب ان کی بیٹی اپنے والد سے ملاقات کر کے آئی تو اس وقت سے ہی وہ ایک ذہنی کشمکش میں مبتلا تھی۔

’سب سے پہلا ٹراما (صدمہ) تو یہ تھا کہ جب جیل حکام نے اس کے ہاتھ پر مہر لگائی تو وہ یہ سمجھی کہ شاید اس کو بھی جیل میں بند کردیا جائے گا تاہم جب اس کو بتایا گیا کہ یہ محض ملاقات کروانے کا طریقہ ہے تو پھر وہ تھوڑی سی نارمل ہوئی۔‘

ثریا بی بی کا کہنا تھا کہ ملاقات کے بعد ان کی بیٹی جیل حکام کی طرف سے ان کے ہاتھ پر لگائی گئی مہر کو مٹانے کے لیے دوسرے ہاتھ کا استعمال کرتی رہی۔

انھوں نے کہا کہ اگرچہ وہ سیاہی ان کے ہاتھ سے اتر گئی لیکن ’اس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے سیاہی اس کے ہاتھ پر ابھی بھی لگی ہوئی ہے۔
وہ بار بار مجھ سے پوچھتی تھی کہ کیا مہر کی سیاہی ہاتھ سے اتر گئی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ گھر آنے کے بعد ان کی بیٹی درجنوں بار ہاتھ دھونے کے لیے باتھ روم جاتی تھی۔

ثریا کے بقول ان کی بیٹی سوتے ہوئے اچانک سے اُٹھ جاتی اور پھر ہاتھ دھونے کے لیے باتھ روم چلی جاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ محض دو مرتبہ ہی ملاقات کے بعد ’ان کے چھوٹے بچوں کے ذہنوں پر بھی جیل جا کر اپنے والد سے ملنے کا بُرا اثر پڑا۔‘

واضح رہے کہ سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کی گرفتاری کے بعد جب ان کی دو کمسن بیٹیاں اپنی والدہ کے ہمراہ ان سے ملنے اڈیالہ جیل گئی تھیں اور ان کی تصویر سوشل میڈیا پر جاری ہوئی تھیں جن میں ان تینوں کے ہاتھوں پر جیل کی مہریں لگی ہوئی تھیں۔ سوشل میڈیا پر جیل حکام کے اس رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اڈیالہ جیل، راولپنڈی

جیل میں قیدی سے ملاقات کو جانے والے رشتہ دار کس ذہنی اذیت سے گزرتے ہیں؟

ثریا بی بی کے مطابق ان کے خاوند ’بوگس چیک اور سنگین تنائج کی دھمکیاں دینے کے مقدمے میں ان دنوں اڈیالہ جیل میں ہیں اور ڈسٹرکٹ کورٹ سے اس کی ضمانت کی درخواست مسترد ہو گئی ہے۔‘

ثریا کے خاوند اس مقدمے میں گذشتہ تین ماہ سے جیل میں ہیں اور وہ ہر منگل کو اپنے خاوند سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل جاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے ماہ وہ اپنے خاوند سے ملنے کے لیے اکیلے ہی جاتی تھیں کیونکہ انھوں نے یہ سن رکھا تھا کہ ’جیل کا ماحول ٹھیک نہیں ہوتا‘ اور ان کے بقول انھیں اس میں کافی حد تک سچائی بھی نظر آئی۔
اس لیے وہ اپنے بچوں کو لے کر جیل میں نہیں جاتی تھیں۔

پھر ایک پہلی بار وہ اپنے شوہر کے کہنے پر چار بچوں کو ساتھ لے کر اڈیالہ جیل چلی گئیں۔
ان میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ بڑی بیٹی کی عمر گیارہ سال جبکہ چھوٹے بچے کی عمر چار سال ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ثریا کا کہنا تھا کہ چونکہ بیٹا تین بیٹیوں کے بعد ہوا، اس لیے ان کے شوہر کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے سے بھی ملاقات کریں۔

انھوں نے کہا کہ جیل میں قیدی سے ساتھ ملاقات کرنا کسی معرکے سے کم نہیں کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے افراد جیلوں میں قید ہیں جن کے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور ان کے رشتہ دار ان سے ملاقات کرنے کے لیے آتے ہیں۔

سابق وفاقی فواد چوہدری سے جب ایک ٹی وی انٹرویو میں ان کی بیٹیوں کی جیل میں ملاقات کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ اس پر آبدیدہ ہوگئے تاہم سوشل میڈیا پر انھیں اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ جب حزب مخالف کی جماعتوں کے ارکان جیل جاتے اور ان کے رشتہ دار اسی کرب سے گزرتے ہوئے انھیں ملنے جاتے تو اس وقت ان کے جذبات کہاں تھے۔

ثریا بی بی یاد کرتی ہیں کہ جب پہلی دفعہ وہ اپنے خاوند سے ملاقات کے لیے گئیں تو ان کی ملاقات نہیں ہو سکی کیونکہ وہ تھوڑی تاخیر سے پہنچی تھیں اور وہاں پر پہلے ہی بہت زیادہ رش تھا اور جیل حکام ایک دن میں چار سو سے لے کر ساڑھے چار سو افراد کو ملاقات کی اجازت دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اپنے پہلے تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ اب اپنے خاوند سے ملاقات کے لیے صبح سویرے ہی اپنے گھر سے نکلتی ہیں اور بڑی مشکل سے صبح اٹھ بجے جیل کے مرکزی دروازے پر پہنچ کر ملاقات کرنے والوں کی لائن میں لگ جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جب وہ اپنے بچوں کو لے کر اڈیالہ جیل گئیں تو اپنے شناختی کارڈ کے ساتھ ساتھ بچوں کا ب فارم بھی لے کر گئیں کیونکہ اس کے بغیر جیل حکام بچوں کو اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کی اجازت نہیں دیتے۔

جیل، اڈیالہ

ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے ثریا بی بی نے کہا کہ اپنا شناختی کارڈ اور بچوں کا ب فارم جمع کروانے کے بعد ان کے ہاتھوں پر جیل کی مہر لگائی گئی اور اس کے بعد ان کی تلاشی لی گئی۔ ساری چھان بین مکمل کرنے کے بعد انھیں جیل کے مرکزی دروازے سے اندر کیا گیا جہاں مرکزی دروازے کے ساتھ ہی دو بڑی بیرکس بنی ہوئی ہیں۔

وہاں انھیں کھڑا ہونے کی اجازت دی گئی۔ انھوں نے کہا کہ اس بیرکس کے ایک سائیڈ پر حوالاتی اور دوسری سائیڈ پر ملاقاتی ہوتے ہیں۔

ثریا بی بی کے بقول اس بیرکس میں جنگلے اور پھر باریک قسم کی جالی لگی ہوئی ہے جس سے ہوا اور گفتگو کے علاوہ کوئی چیز آر پار نہیں ہوسکتی۔

انھوں نے کہا کہ وہاں پر بیٹھنے کے لیے دو بینچ بھی لگائے گئے ہیں جہاں پر یہ تو ضرور لکھا ہوا ہے کہ ’صرف عمر رسیدہ یا خواتین کو بیٹھنے کی اجازت ہے‘ لیکن ایسا ہوتا نہیں تاہم ثریا بی بی کا کہنا تھا کہ لوگوں کے رش کی وجہ سے انھیں بیٹھنے کی بجائے جیلوں میں بند اپنے پیاروں سے ملنے کی چاہت ہوتی ہے۔

ثریا بی بی کا کہنا تھا کہ وہ اب تک صرف دو مرتبہ اپنے بچوں کو لے کر اڈیالہ جیل گئی ہیں تاہم اب وہ ہر ہفتے جب بھی اپنے خاوند سے ملاقات کے لیے جاتی ہیں تو اپنے بچوں کو بہن کے گھر چھوڑ کر جاتی ہیں کیونکہ ان دو ملاقاتوں کی وجہ سے ان کے بچے ذہنی طور پر کافی پریشان ہوئے ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جو ملاقاتی وہاں پر موجود جیل حکام کی مٹھی گرم کرتے ہیں تو نہ صرف ان کی ملاقات جلد کروا دی جاتی ہے بلکہ ان کی ملاقات کا وقت بھی بڑھا دیا جاتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’جاسوس‘ قرار دیے جانے والے پاکستانی نوجوان کی وہ غلطی جو انھیں انڈیا کی جیل تک لے گئی

انڈیا: پنجاب کی ایسی جیل جہاں قیدی اپنے شریک حیات کے ساتھ جنسی تعلق بھی قائم کر سکتے ہیں

’جیل دیکھ لی ہے تو اب جیل اصلاحات پر بھی عمل کریں‘

اڈیالہ جیل کے سپرنٹینڈنٹ اسد جاوید وڑائچ کا کہنا ہے کہ جیل میں جتنے بھی قیدی ہیں چاہے وہ عام قیدی ہوں یا سزائے موت کے مجرم، ان کے لیے ہفتے میں ایک دن ملاقات کے لیے مقرر ہے۔

انھوں نے کہا کہ جیل کو مختلف زون میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے مطابق اس زون سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کی ملاقات کا دن مقرر کیا جاتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جیل مینوئل کے مطابق جیل حکام کسی ملاقاتی کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے ساتھ کمسن بچوں کو نہ لے کر آئیں البتہ ان کے بقول وہاں پر موجود جیل کا عملہ ایسے افراد کے اس عمل کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جو اپنے ساتھ اپنے بچوں کو لے کر آتے ہیں۔

اسد جاوید ورائچ کا کہنا تھا کہ قیدیوں سے ملاقات صبح آٹھ بجے سے شروع ہوجاتی ہے جو کہ دو سے ڈھائی بجے تک رہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک دن میں چار سو سے ساڑھے چار سو افراد کی ملاقات جیل کے قیدیوں سے کرائی جاتی ہے اور یہ ملاقات آدھے گھنٹے سے 35 منٹ تک جاری رہتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ملاقات ختم ہونے کے بعد دوسرے گروپ کو ملاقات کے لیے بھیجا جاتا ہے اور ہر گروپ چالیس سے پچاس افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہاتھوں پر جیل کی مہر لگانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شناخت رہے کہ یہ ملاقاتی ہے۔ ’جس کے ہاتھ پر مہر نہیں ہوتی تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ یا تو وہ قیدی ہے اور یا پھر وہ جیل کے عملے میں سے ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ جب ملاقاتیوں کی ملاقات کروائی جاتی ہے تو جیل کی ویجیلنس (نگرانی) کا عملہ سادہ کپٹروں میں وہاں پر موجود رہتا ہے جو ملاقاتیوں کے علاوہ وہاں پر تعینات جیل کے عملے پر بھی نظر رکھتا ہے۔

جیل، پاکستان

اسد جاوید ورائچ کا کہنا تھا کہ انھوں نے جیل کے دو اہلکاروں کو ملاقاتیوں سے پیسے لینے اور ان کا جیل کے اندر اپنے عزیز و اقارب کو بھیجے جانے والے سامان میں خرد برد کرنے کے الزام میں نوکری سے برطرف کر دیا ہے۔

قیدیوں کی حالت زار پر کام کرنے والے وکیل لیاقت بنوری کا کہنا ہے کہ عدلیہ اور مقننہ کی عدم توجہی کی وجہ سے ملک میں جیلیں جرائم پیشہ عناصر کی آماجگاہیں بنتی جا رہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کی عدالتوں میں جرم ثابت ہونے کی شرح صرف چھ فیصد ہے جبکہ 94 فیصد مقدمات صرف الزامات کی حد تک محدود ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو مزید بتایا کہ جیل کے اندر خواتین اور بچوں کی بیروکوں میں ان کے بنیادی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے تو جیل کے باہر اصلاحات کی کیا بات کریں۔

’صرف ایک بات سے ہی اندازہ لگا لیں کہ خواتین کے مخصوص ایام کے دوران انھیں جو سینیٹری پیڈ چاہیے ہوتے ہیں وہ بھی ان کو میسر نہیں ہوتے جبکہ رشتہ داروں کا بھجوایا گیا آدھا سامان ملاقات کے لیے پہنچنے تک غائب ہوجاتا ہے۔‘

لیاقت بنوری کا کہنا تھا کہ جیل میں ایسی خواتین بھی ہیں جن کے ساتھ ان کے شیر خوار بچے بھی ہیں اور ان کے لیے دودھ بھی مہیا نہیں کیا جاتا۔

انھوں نے کہا کہ جیل میں خواتین کی مبینہ آبرو ریزی کے واقعات ان کے نوٹس میں آئے تو انھوں نے اس سے متعلق سیشن جج کو درخواست دی جس پر عدالت نے تحقیقات کا حکم دیا تاہم یہ معاملہ کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔

لیاقت بنوری کا کہنا تھا کہ ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت کے انتخابی منشور میں جیل اصلاحات نہیں، جس کی وجہ سے یہ معاملہ نظر انداز ہوتا جارہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’جب وکلا تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنے عہدے پر بحال ہوئے تو میں (لیاقت بنوری) نے انھیں کہا کہ چونکہ اب انھوں نے جیل بھی دیکھ لی ہے کیونکہ اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف نے انھیں گھر میں نظربند کیا تھا، اس لیے وہ جیل اصلاحات پر عمل درآمد کریں۔‘

انھوں نے کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس نے اڈیالہ جیل کا دورہ بھی کیا تھا لیکن وہاں پر تعینات جیل کے عملے نے انھیں صرف خواتین اور بچوں کی بیرکوں کا ہی دورہ کروایا جبکہ چیف جسٹس دوسری بیرکوں میں بھی جانا چاہتے تھے لیکن جیل حکام نے سکیورٹی رسک قرار دے کر انھیں دوسری بیرکوں میں جانے سے روک دیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ جیل اصلاحات کے بارے میں سپریم کورٹ نے متعدد کمیٹیاں بھی بنائیں اور صوبائی حکومتوں سے متعدد بار رپورٹس بھی مانگی لیکن لیاقت بنوری کے بقول اس معاملے میں پیشرفت نہ ہونے کے برابر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments