ادب کی بلند صدا خاموش ہوگئی !


کچھ ایسی آوازیں ہوتیں ہیں جو کان سے نہیں دل سے ٹکراتی ہیں اور پھر اس کا رس روح میں گھل جاتا ہے۔ کچھ لہجے ایسے ہوتے ہیں جو سنے نہیں جاتے بلکہ محسوس کیے جاتے ہیں۔ ایک خوبصورت و نایاب آواز، کمال انداز بیاں، سحر انگیز لہجے کے مالک جناب ضیا محی الدین ہم سے بچھڑ گئے گویا ادب کا بڑا باب بند ہو گیا۔ ادب کی صدا، بلند صدا خاموش ہو گئی۔ گزشتہ چند سال ادب شناس اور ادب مزاج لوگوں کے لئے بڑا تکلیف دہ رہے۔ کیونکہ ادیب مر رہے تھے، ادب گھٹ رہا تھا، تہذیب معدوم ہو رہی تھی۔ علم بردار تہذیب خاموش ہو رہے تھے اور بد تمیز و بے ادب مشہور، گویا اب اس بستی میں جہالت اور زور سے بلند ہوگی۔

ضیا صاحب جنھوں نے اپنے نام کے ساتھ خوب انصاف کیا اور ادب کے چراغ کو خوب روشنی دی، گویا ضیا خاموش نہیں ہوا بلکہ آفتاب ادب غروب ہو گیا۔ جو اپنی انگریزی پر نازان تھے انھیں اردو سے پیار ہوا تو وجہ ضیا صاحب تھے۔ جو اردو سے بھاگتے تھے وہ ضیاء صاحب کو سننے دوڑتے چلے آتے تھے۔ آواز میں دبدبہ ہوتا ہے یا پھر وہ میٹھی ہوتی ہے مگر ضیا صاحب کی آواز میں بیک وقت یہ دونوں خوبیاں محسوس کی جا سکتی تھی۔ ان کے لہجے میں عجب سرور تھا جو سننے والوں پر سحر طاری کر دیتا تھا۔

ضیا محی الدین صاحب کے بارے میں کہاں سے شروع کروں سمجھ نہیں آتا۔ ادب گویا سمٹ کر ایک شخصیت میں آ گئی ہو وہ ضیا محی الدین تھے۔ ضیا محی الدین کو پڑھنت کی رونق کہوں یا پھر کمال صداکار کہوں؟ ضیا محی الدین کو تھیٹر آرٹسٹ کہوں یا پھر ہدایت کار کہوں؟ انھوں نے جو کام کیا وہ کمال کیا اور لگتا تھا گویا اس کام میں ان سے زیادہ مہارت کسی کو حاصل نہیں۔

جب وہ مشہور فن پارے اپنے مختلف انداز بیاں میں پڑھتے تو سماعتیں جھومتے لگتی، ان کے لہجے میں نشہ تھا جو سننے والے محسوس کرتے اور خواہش یہ ہوتی کہ بس یہ آواز جاری رہے اور خمار طاری رہیں۔ وہ کربلا کا مرثیہ پڑھتے تو خود بخود رخسار پر رواں ہو جاتے وہ تاریخ دمشق کی سناتے تو تصور میں منظر کا الہام ہونے لگتا۔ پڑھنت کے معاملے میں پاکستان ہی کیا دنیائے اردو میں ان جیسا کوئی نہیں تھا۔

صدا کاری ایک مشکل اور حساس فن ہے اس میں جو کچھ ہے وہ آواز ہے یا پھر لہجہ۔ میں خود کچھ عرصے تک ریڈیو کا حصہ رہا ہوں، مجھے تھوڑا بہت اندازہ ہے کہ صدا کاری کتنا مشکل کام ہے اور صرف پڑھنت کے ذریعے سننے والے سامعین کو مسلسل قابو میں رکھنا آسان نہیں ہوتا، یہ کام جس بلندی پر ضیا صاحب نے کیا شاید ہی کوئی دوسرا صدا کار کر سکتا ہو۔ اس فن میں ضیا محی الدین استادوں کے استاد تھے۔

کچھ دہائیوں قبل پاکستان میں ادب کے ایسے ایسے نایاب چہرے تھے، فخر ہوتا تھا اور محسوس ہوتا تھا کہ مستقبل بھی تابناک ہو گا۔ ایک سے بڑھ کر ایک شاہکار ادیب۔ ایسے ادیب جو خالص ادیب تھے نہ کہ پرچی ادیب۔ لیکن ایک کے بعد ایک چراغ بجھتے گئے۔ اور اب چند ہی حیات تھے اور اب وہ بھی منہ موڑتے جا رہے ہیں۔ مجھے پاکستان کے مستقبل سے بڑا خوف آتا ہے کیونکہ جس طرح ہمارا معاشرہ انتہا پسندی کے نتائج بھگت رہا ہے اس کا موثر علاج ادب ہے اور اگر ادب کی یہ چند روشنیاں اسی طرح بجھتی گئی تو انتہاپسندی کا اندھیرا مزید پھیل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments