آخر بھید پا لیا


میں اپنے ایک نظریاتی دوست انور بیگ کی دعوت پر پہلی بار امریکہ گیا تھا۔ وہ ان دنوں امریکہ میں ’پاکستان اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘ کے صدر تھے۔ میں بھٹو صاحب کی دو سالہ قید سے رہا ہوا، تو انہوں نے نیویارک سے بہت لمبا فون کیا۔ آمریت کے خلاف بھرپور مزاحمت پر خراج تحسین پیش کیا اور امریکہ آنے کی دعوت دی کہ یہاں آپ کے قدردان بڑی تعداد میں ہیں۔ اس وقت جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا نافذ ہو چکا تھا اور بھٹو صاحب زیر حراست تھے۔

انہوں نے قوم کو 1973 ء میں جو متفقہ دستور دیا تھا، اس کا حلیہ یکسر بگاڑ دیا تھا اور اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کے لیے ’فیڈرل سکیورٹی فورس‘ قائم کر لی تھی۔ حکومت کے مخالفین کی آواز دبانے کے لیے اس نے ظلم کی انتہا کر دی تھی۔ 1975 ء کے وسط میں راقم نے اردو ڈائجسٹ میں ’وقت زوال‘ کے عنوان سے مضمون لکھا جس پر ہم دونوں بھائی ڈیفنس پاکستان رولز کے تحت گرفتار کر لیے گئے اور ہمارے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم ہوا۔

اس کی سماعت کے لیے ٹریبونل تشکیل پایا جس میں چھ ماہ مقدمہ چلتا رہا۔ ہمارے خلاف جو پراسیکیوٹر پیش ہوتے رہے، وہ بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ انہوں نے ہمارے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بغاوت تحریروں کے ذریعے پھیلتی ہے جیسے فرانس کے فلاسفر روسو کے افکار نے انقلاب فرانس کی فضا ہموار کی تھی۔ میں دل ہی دل میں مسکراتا رہا کہ انہوں نے مجھ ایسے ناچیز صحافی کو روسو کا مرتبہ عطا فرما دیا ہے۔

ٹریبونل نے ہمیں دو سال قید مشقت کی سزا سنائی اور خطیر رقم کا جرمانہ بھی کیا۔ بھٹو صاحب نے آئین میں ترمیم کر کے اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات بہت محدود کر دیے تھے اور اب وہ ٹریبونل کے فیصلوں کے خلاف اپیل سننے کی مجاز نہیں تھیں۔ میرے بڑے بھائی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی دستور اور قوانین کا گہرائی سے مطالعہ کرتے رہتے اور نئے نئے نکات اٹھانے میں خاص ملکہ حاصل کر چکے تھے۔ جب ہم ڈیڑھ سال سزا کاٹ چکے، تو ان کے ذہن رسا نے ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا ایک راستہ دریافت کر لیا، چنانچہ انہوں نے جیل سے چیف جسٹس ہائی کورٹ کو ایک درخواست بھیجی جو انہوں نے رٹ پٹیشن میں تبدیل کر دی اور بھائی صاحب کو عدالت میں طلب کر لیا۔ رٹ پٹیشن کی سماعت کے لیے ڈویژنل بینچ مقرر ہوا۔ وہ اس بینچ کے سامنے کسی وکیل کے بغیر پیش ہوئے اور اپنے موقف کے حق میں دلائل دیے۔ معزز جج صاحبان نے ان کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے رہائی کا حکم صادر کر دیا۔

ہماری رہائی کی خبر امریکہ تک پہنچ گئی اور انور بیگ نے محبت بھرا پیغام بھیجا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک سے باہر جانے کے لیے کئی محکموں سے اجازت ناموں اور اسٹیٹ بینک سے زرمبادلہ لینے کی ضرورت پڑتی تھی۔ ان مراحل سے گزرتے ہوئے تین چار ہفتے گزر گئے۔ میں جب ائرپورٹ جانے کے لیے مال روڈ سے گزر رہا تھا، تو میں نے پیپلز پارٹی کے جیالوں کو مولانا شاہ احمد نورانی سے بدسلوکی کرتے دیکھا۔ یہ ایک نہایت افسوسناک منظر تھا جس کے باعث امریکہ تک ہوائی سفر میں میرا دل بجھا بجھا رہا۔

نیویارک ائرپورٹ پر جناب انور بیگ اور ان کے ساتھیوں نے میرا والہانہ استقبال کیا اور بتایا کہ آٹھ شہروں کا پروگرام بن چکا ہے۔ احباب کی محبتوں نے بہت شاد کام رکھا اور وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ پاکستان سے محبت کرنے والے ٹوٹ کر مل رہے تھے۔ مجھے احساس ہوا کہ امریکہ ایک ملک نہیں بلکہ دنیا کا بہت بڑا براعظم ہے اور فطرت نے اسے بے پایاں قدرتی وسائل اور مناظر سے نوازا ہے۔

میری آخری منزل واشنگٹن ڈی سی تھی۔ میں وہاں جس دوست کے ہاں ٹھہرا، انہوں نے بتایا کہ برابر والی گلی میں ایک اہم شخصیت رہتی ہے جس کا مشرقی پاکستان سے تعلق ہے، کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ امریکہ میں ان کا بڑا اثر و رسوخ ہے، کیا آپ ان سے ملنا پسند کریں گے؟ میرے پوچھنے پر انہوں نے اس شخصیت کا نام ڈاکٹر جی ڈبلیو چودھری بتایا۔ میں نے بے پناہ اشتیاق کا اظہار کیا، کیونکہ میں ان کی متعدد کتابیں پڑھ چکا تھا۔ وہ یحییٰ خاں کی کابینہ میں وزیر رہے تھے اور انہوں نے معرکۃ آلارا تصنیف Last Days of United Pakistan (متحدہ پاکستان کے آخری ایام) لکھی تھی۔ میرے میزبان نے ان سے رابطہ کر کے وقت لے لیا۔

ہم شام کی چائے پر ان کی اقامت گاہ پر پہنچ گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے خوش دلی سے ہمارا خیرمقدم کیا اور مجھ سے کہا کہ میں تمہیں غائبانہ طور پر اچھی طرح جانتا ہوں، کیونکہ میں اردو ڈائجسٹ کا قاری رہا ہوں۔ ایک عرصہ ہوا جب میں نے تمہارا ایک سلسلۂ مضامین ’محبت کا زم زم بہہ رہا ہے‘ پڑھا تھا اور آج تک میرے ذہن پر اس کا نقش ثبت ہے۔ مجھے اس سے اندازہ ہوا تھا کہ مضمون نگار مشرقی پاکستان کے حالات سے پوری طرح واقف ہے اور سیاسی حرکیات پر گہری نگاہ رکھتا ہے۔

انہوں نے پوچھا تم نے اعلیٰ تعلیم کہاں سے حاصل کی۔ میں نے بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور علوم اسلامیہ میں ماسٹرز کیا تھا۔ اس پر انہوں نے اپنی زندگی کا ایک حیرت انگیز واقعہ سنایا کہ میں 1959 ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے شعبے کا سربراہ اور پنجاب یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے ایک پیپر کا ایکسٹرنل ممتحن بھی تھا۔ میں نے ایک سوال پوچھا تھا کہ پاکستان کے لیے پارلیمانی نظام بہتر ہے یا صدارتی نظام۔

تمام طلبہ نے صدارتی نظام کو موزوں ترین قرار دیا جبکہ ایک طالب علم نے مارشل لا کے باوجود پارلیمانی نظام کے حق میں بڑے مضبوط دلائل دیے تھے۔ اس کا یہ تجزیہ آگے چل کر سو فی صد درست ثابت ہوا کہ صدارتی نظام سے دونوں بازو الگ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے تمام جوابات سے سیاسی پختگی اور فکری دیانت عیاں تھی۔ میں نے دل کھول کر نمبر دیے جو غالباً 80 سے بھی کچھ زیادہ تھے جبکہ باقی طلبہ 40 تک ہی پہنچ سکے تھے۔ میں نے کہا کہ وہ طالب علم آپ کے سامنے بیٹھا ہے۔ اس پر وہ بار بار گلے ملے اور ان کی انگریزی ادب کی شناور بیگم نے خوشی خوشی ایک شاندار عشائیے کا اہتمام کیا۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments