پشاور – تاریخ اور حال پارٹ2
یادگار چوک ؛
یہ چوک مسجد مہابت خان کے پاس ہی واقع ہے جہاں 1892 میں جنرل ہیسٹنگ کی یاد میں ایک یادگار بنائی گئی تھی جسے ہیسٹنگ میموریل کہا جاتا ہے۔ 1930 میں قصہ خوانی بازاز کے خونریز سانحے کے بعد یہ یادگار ان شہدا کے نام کر دی گئی۔ موجودہ دور میں یہ جگہ مذہبی و سیاسی اجتماعات کے لیے بکثرت استعمال ہوتی ہے۔
کننگھم ٹاور ؛
پشاور کی کئی تاریخی عمارتیں اس کے ماضی کی شان و شوکت کی عکاس ہیں۔ یہ تاریخی عمارتیں صدیوں پرانی روایات اور برطانوی راج کی یادیں تازہ کرتی ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر اب خستہ حالی کا شکار ہو چکی ہیں۔ انہی میں سے ایک پشاور کا گھنٹہ گھر بھی ہے۔ مسجد مہابت خان کے کچھ مشرق میں چلیں تو چوک یادگار کے پاس پشاور شہر کا گھنٹہ گھر واقع ہے جس کا اصل نام ”کننگھم ٹاور“ ہے۔ چونکہ عام شہریوں کو یہ نام بولنے میں مشکل پیش آتی ہے سو اسے گھنٹہ گھر ہی کہا جاتا ہے۔
دو بازاروں کے سنگم پر واقع کننگھم ٹاور انگریز سرکار نے 1900 میں اس وقت کی برطانوی ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی یادگار کے طور پہ بنوایا تھا۔
اس زمانے میں شمال مغربی سرحدی صوبے کے گورنر ”سر جارج کننگھم“ ہوا کرتے تھے جنہوں نے اس شاہکار عمارت کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا اور 1898 میں اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان کے ذوق و شوق کی بدولت یہ ٹاور ریکارڈ مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچا۔ تاریخی عمارات سے محبت رکھنے والے سر جارج کننگھم سکاٹ لینڈ کی رگبی ٹیم کے کپتان بھی رہے تھے۔
چار منزلہ کننگھم ٹاور کو پشاور میونسپلٹی کے انجینیئر جیمس سٹریچن نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس خوبصورت ٹاور کی اونچائی 26 میٹر ( 85 فیٹ ) اور چوڑائی 31 فیٹ رکھی گئی۔ سب سے اوپر والی منزل پر چاروں طرف بڑی بڑی گھڑیاں لگائی گئی تھیں۔
ٹاور کی ایک دیوار پر ایک سفید کتبہ لگا ہے جس پر درج ذیل عبارت لکھی گئی ہے ؛
”اس شہر سے 200 لوگوں نے جنگ عظیم دوئم میں شرکت کی، جن میں سے 7 لوگوں نے جان کی بازی ہار دی۔“
یہ عبارت غالباً بعد میں لکھی گئی ہو گی۔ کتبے کے اوپر دونوں جانب داؤدی ستارہ (سٹار آف ڈیوڈ) بھی بنا ہوا ہے۔
ابتدا میں اس عمارت کا نام جارج کننگھم کلاک ٹاور رکھا گیا جو بعد میں گھنٹہ گھر کے نام سے پکارا جانے لگا اور یہی نام آج تک زبان زد عام ہے۔ بڑی گھڑی کی وجہ سے گھنٹہ گھر کہلانے والے اس چوک کے تینوں اطراف مختلف دکانیں واقع ہیں جہاں ہمہ وقت لوگوں کا رش لگا رہتا ہے اور اب یہاں تجاوزات کی بھرمار ہے۔ صد افسوس کہ کلاک ٹاور کی خوبصورت عمارت کو اشتہارات اور بینرز نے چھپا دیا ہے۔
سیٹھی ہاؤس و محلہ سیٹھیاں ؛
گھنٹہ گھر سے جانب مشرق چلیں تو بائیں ہاتھ پہ محلہ سیٹھیاں آئے گا جہاں واقع سیٹھی ہاؤس پشاور شہر میں ہنرمندی و دستکاری کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ محلہ سیٹھیاں اندرون شہر کا وہ علاقہ ہے جہاں جہلم سے پشاور آنے والے سیٹھی خاندان نے رہائش اختیار کی اور اپنے ذوق کے مطابق لکڑی کے خوبصورت گھر تعمیر کیے، جو فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہیں۔
سیٹھی خاندان کے سربراہ ”سیٹھی کریم بخش“ مرحوم لکڑی کے بین الاقوامی تاجر اور بہترین کاریگر تھے۔ الحاج سیٹھی کریم بخش صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نہایت سخی اور فیاض تھے جس کا منہ بولتا ثبوت پشاور کے مختلف فلاحی منصوبے ہیں جن میں سڑکیں، پل، کنویں، تالاب اور مساجد شامل ہیں۔ اسلامیہ کالج پشاور کی تاریخی مسجد بھی آپ نے اپنے خرچے سے تعمیر کروائی جبکہ پہلا دارالعلوم یکہ توت محلہ جٹاں میں قائم کیا اور اس دارالعلوم کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے رہے۔ اس کے علاوہ جناب سیاسی جدوجہد اور سیاسی تحریکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔
مرحوم نے اس علاقے میں اپنے سات بیٹوں کے لیے سات گھر بنوائے جو اپنی تعمیر اور دلکشی کی بدولت جلد ہی علاقے شہرت اختیار کر گئے۔ ان گھروں کی تعمیر 1884 میں لگ بھگ پچاس سال کے عرصے بعد تکمیل کو پہنچی۔ سیٹھی کریم بخش نے اپنے تمام بیٹوں کو ایک ساتھ رکھنے کی غرض سے ان گھروں کے تہہ خانوں کو آپس میں ملا دیا۔ یہ تہہ خانے نہ صرف ہوادار تھے بلکہ ان میں روشنی کا بھی خاص انتظام تھا۔
سیٹھی خاندان نے اپنا ایک خوبصورت گھر صوبائی حکومت کو پیش کر دیا جسے خیبر پختونخوا حکومت نے 2013 میں مرمت کے بعد میوزیم کا درجہ دے دیا ہے اور یہی گھر اب ”سیٹھی ہاؤس میوزیم“ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ گھر کم اور لکڑی کا محل زیادہ لگتا ہے۔
گھر کے خوبصورت مرکزی دروازے سے داخل ہوں تو صحن میں چلتا ہوا نیلا فوارہ آپ کا استقبال کرتا ہے۔ اسی صحن کے چاروں جانب لکڑی کی محرابی کھڑکیاں، چھجے اور دالان بھی نگاہوں کو خیرہ کرنے کو کافی ہیں۔
بالا خانے کے دالان ایک سے بڑھ کر ایک جہاں کے دروازے لکڑی اور رنگین شیشے سے بنے ہیں جبکہ چھتیں نفیس طریقے سے بنائے گئے نقش و نگار اور شیشے کے کام سے دمکتی ہیں۔ کمروں میں لگے چھوٹے چھوٹے طاقچوں سے بنے چینی خانے دیکھنے والے کو بخارہ تک لے جاتے ہیں۔ شیشے اور لکڑی سے بنے یہ چینی خانے پرانے وقتوں میں خوبصورت برتن یا نوادرات رکھنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
ان کمروں سے تہہ خانوں کو راستہ جا نکلتا ہے جہاں سیاحوں کے لیے حکومت نے روشنی کا بہترین انتظام کر رکھا ہے۔ یوں تو اس گھر کی چھت بھی لکڑی کے بہترین کام سے مزین ہے لیکن سیاحوں کو وہاں تک جانے کی اجازت نہیں ہے۔
اس گھر کے باہر احاطے میں بھی آپ بہت سے روایتی و قدیم گھر، محرابی دروازے، چھجے اور منفرد کھڑکیاں دیکھ سکتے ہیں۔
گورکھتری کمپلیکس و سٹی میوزیم ؛
مشہور چینی سیاح ”ہیوین سانگ“ جب پشاور کے علاقے سے گزرا تو اس نے یہاں موجود ایک ایسی جگہ کا ذکر کیا جہاں بدھا کا متبرک دیوہیکل پیالہ رکھا گیا تھا، بہت سے مؤرخین کا ماننا ہے کہ وہ جگہ ”گورکھتری“ ہے۔
یہ پیالہ بدھ مت میں بہت متبرک خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں گوتم بدھ بھیک مانگا کرتے تھے۔ ”سر الیگزینڈر کننگھم“ کی ایک رپورٹ کے مطابق پتھر سے بنے اس پیالے کا وزن لگ بھگ 350 کلوگرام تھا جو کنشکا کے دور میں پہلے پشاور اور پھر قندھار لے جا کہ رکھا گیا۔ کافی عرصہ قندھار رہنے کے بعد اب یہ پیالہ کابل میوزیم میں موجود ہے۔
گورکھتری (جس کا سنسکرت میں مطلب جنگجو کی قبر ہے ) ایک قلعہ بند، مربع شکل کمپلیکس ہے جو فوڈ سٹریٹ و سیٹھی محلے کے پاس، پشاور کے بلند ترین مقام پر واقع ہے۔
روایات کے مطابق اس جگہ کو لگ بھگ 2000 سال سے زیادہ عرصے سے مقدس سمجھا جاتا ہے۔ دوسری صدی عیسوی میں، یہ بدھ مت کی عبادت گاہ اور خانقاہ تھی جہاں بدھا کا پیالہ ایک اونچے مقام پر رکھا گیا تھا۔
پاکستانی تاریخ دان جناب ایس۔ ایم جعفر کے نزدیک یہ ایک ایسا ہندو تیرتھ استھان ہوا کرتا تھا جہاں زائرین سر منڈوانے کی رسم ادا کرتے تھے۔
مغلیہ دور میں شاہ جہاں کی بیٹی، جہاں آرا بیگم نے گورکھتری کو کاروان سرائے میں تبدیل کر کہ اس کا نام ”سرائے جہان آباد“ رکھ دیا۔ یہاں مسافروں کی سہولت کے لیے رہائشی کمروں کے علاوہ ایک جامع مسجد، حمام اور کنویں بھی بنائے گئے۔
مغلوں کے بعد جب سکھوں کا دور آیا تو اس جگہ کو اس وقت کے گورنر پشاور ”جنرل ایویٹیبل“ کی رہائش گاہ اور سرکاری ہیڈکوارٹر میں تبدیل کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ سکھ حکمرانوں نے مغلیہ دور کی مسجد کو شہید کر دیا اور احاطے کے جنوبی حصے میں بھگوان شیو کے لیے گورکھ ناتھ مندر تعمیر کیا جو اب بھی موجود ہے۔ مندر کے قریب بودھی (پیپل) کا گھنا پیڑ بھی ہے جسے ہندومت میں مقدس سمجھا جاتا ہے۔
گورکھتری کمپلیکس کے مغربی اور مشرقی اطراف میں دو مرکزی دروازے ہیں جب کہ جنوب میں اینٹوں اور چونے سے بنے ہوئے 25، مغربی جانب 14، شمالی جانب 13 اور مشرقی جانب آٹھ محرابی کمرے ایک دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔ یہاں موجود ایک قابل توجہ چیز وہ بیرک ہے جو شاید برطانوی دور میں بنائی گئی تھی۔
انگریز دور میں ”برٹش میونسپل کمیٹی پشاور“ نے شرقی حصے میں فائر بریگیڈ اسٹیشن بنا دیا جس کے ماتھے پر اب بھی 1912 لکھا دیکھا جا سکتا ہے۔ بعد ازاں سٹی پولیس اسٹیشن اور ریونیو آفس بھی وہاں قائم کر دیا گیا۔
آثار قدیمہ کی اس اہم جگہ پہ پہلی کھدائی ڈاکٹر فرزند علی درانی نے 1992۔ 93 میں شروع کی تھی۔ گورکھتری کے شمال مشرقی حصے میں کی جانے والی دوسری کھدائی (جو 2007 تک جاری رہی تھی) نے یہ ثابت کر دیا کہ پشاور، ایشیا کے اس حصے میں آباد قدیم ترین زندہ شہروں میں سے ایک ہے، جو مسلسل آباد ہے۔
یہاں ایک عمارت کی اوپری منزل پر عوام کی دلچسپی کے لیے چھوٹا سا عجائب گھر قائم کیا گیا ہے جو پشاور شہر کی تاریخ اور پختون ثقافت کا عکاس ہے۔ یہاں شیشے کی بڑی بڑی الماریوں میں چاندی اور مختلف دھاتوں کے زیورات، مردانہ و زنانہ ملبوسات، جوتے خصوصاً مختلف اقسام کی پشاوری چپل، کانسی و تانبے کے برتن، پرانے وقتوں میں تجارت کے لیے لائے جانے والے چینی کے برتن، روز مرہ زندگی کا سامان، آلات موسیقی، مٹی کے ظروف اور کھنڈرات سے دریافت کردہ کچھ تاریخی چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس میوزیم کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ باقی عجائب گھروں کی طرح یہاں بھی عکس بندی منع ہے۔
کپور حویلی ؛
یہ حویلی مسجد مہابت خان کے قریب بازاروں میں واقع ہے جو برطانوی ہندوستان کے کپور خاندان کا گھر تھا۔ اس کی تعمیر 1918 سے 1922 کے درمیان مشہور بالی وڈ اداکار پرتھوی راج کپور کے والد ”دیوان بشیشورناتھ کپور“ نے کی تھی۔ پرتھوی راج کے بیٹے اور مشہور اداکار و ہدایتکار راج کپور نے اسی حویلی میں جنم لیا تھا۔
1947 میں تقسیم کے بعد ، خاندان کے افراد یہ شہر اور عمارت چھوڑ گئے۔ جس کے بعد یہ مختلف لوگوں کے پاس رہی۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ اس عمارت کو شادی کی تقریبات کے لیے استعمال کرتے تھے۔ تاریخی عمارت کے موجودہ مالکان نے دو دہائیاں قبل اس تین منزلہ عمارت کی اوپری منزل کو منہدم کر دیا تھا کیونکہ اس کے اوپری حصے میں زلزلے کے نتیجے میں دراڑیں پڑ گئی تھیں۔ یہ عمارت آج کمرشل عمارتوں سے گھری ہوئی ہے۔
کہتے ہیں کہ جب راج کپور کے چھوٹے بھائی ششی کپور اور بیٹوں رندھیر کپور و رشی کپور نے نوے کی دہائی میں اپنے آبائی گھر کا دورہ کیا تو عقیدتاً یہاں کے صحن سے اٹھائی کچھ مٹی بھی ساتھ لے گئے۔
مسجد قاسم علی ؛
کپور حویلی کے جنوب میں قصہ خوانی بازار کی چہل پہل میں مسجد قاسم علی واقع ہے جو پشاور کی ایک پرانی مرکزی جامع مسجد ہے۔ ہر سال یہ مسجد اس وقت توجہ کا باعث بنتی ہے جب یہاں سے مفتی پوپلزئی کا اعلان کرتے ہیں۔
قلعہ بالا حصار ؛
افغانستان کے راستے برصغیر پر حملہ کرنے والے جنگجوؤں سے بچاؤ کے لیے پشاور شہر کے شمال مغرب میں ”بالا حصار“ کے نام سے ایک قلعہ بنایا گیا جو آج پشاور شہر کی پہچان بن چکا ہے۔
بالا حصار فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ”اونچے قلعے“ کے ہیں کیونکہ یہ ایک بلند چٹان پہ واقع ہے۔ اس کو یہ نام درانی سلطنت کے سلطان ”تیمور شاہ درانی“ نے دیا جو اسے اپنی رہائش گاہ کے طور پہ استعمال کرتا تھا۔ یہ قلعہ اتنا پرانا ہے جتنا کہ پشاور کا شہر، قلعہ کی زمین سے مجموعی بلندی 92 فٹ ہے اس کی دیواریں پختہ سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ دوہری دیواروں والے اس قلعہ کا کل رقبہ سوا پندرہ ایکڑ رقبہ پر محیط ہے جبکہ اس کا اندرونی رقبہ دس ایکڑ بنتا ہے ایک پختہ سڑک بل کھاتی ہوئی قلعہ کے اندر تک جاتی ہے۔ اس قلعے کو کئی بار مسمار اور تعمیر کیا گیا۔
2005 کے زلزلے نے اس کو شدید نقصان پہنچایا۔ لیکن بعد میں اس کی مرمت کر دی گئی۔ آج کل یہ قلعہ ”فرنٹیئر کانسٹیبلری“ کے پاس ہے جس نے نہایت اہتمام سے اس قلعے کو سنبھال رکھا ہے۔
قلعے کے اندر بھی ایک دنیا آباد ہے۔ یہاں اندر ایک خوبصورت ”آرمی میوزیم“ بنایا گیا ہے جہاں مختلف کمروں میں فرنٹیئر کورپس کی مختلف شاخوں کی نمائندگی کی گئی ہے۔ ان میں خیبر رائفلز، سوات سکاؤٹس، مہمند رائفلز، چترال سکاؤٹس، کرم ملٹری، باجوڑ سکاؤٹس، شوال رائفلز، دیر سکاؤٹس، جنوبی وزیرستان و ٹوچی سکاؤٹس اور خٹک سکاؤٹس شامل ہیں۔
یہاں ان علاقوں میں مختلف آپریشنز سے بازیاب کیے گئے آلات حرب، نقشے، سپاہیوں کی وردیاں، تصاویر، تلواریں، پستول، جھنڈے، مختلف علاقوں کی ثقافتیں، ٹرک آرٹ، اور چھوٹی توپیں شامل ہیں۔
قلعے میں ایک پھانسی گھاٹ اور خوبصورت چھوٹی سی سووینیئر شاپ بھی ہے جہاں سے آپ پشاور کی مشہور پشاوری چپل اور درہ خیبر کے ماڈل خرید سکتے ہیں۔
یہاں موجود ایک تختی پہ مشہور برطانوی ادیب و صحافی ”روڈیارڈ کپلنگ“ کے وہ مشہور الفاظ بھی درج ہیں جو انہوں نے اس فورس کے بارے میں کہے تھے ؛
”You must know that along the North-West frontier of India spread a force who move up and down from one little desolate post to another, they are ready to take the field at ten minutes ’notice, they are always half in and half out of a difficulty somewhere along the monotonous line, their lives are as hard as their muscles and papers never say anything about them.“
قلعہ بالاحصار کی فصیل پہ کھڑے ہو کہ پشاور شہر کا سب سے بہترین نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
کنشک سٹوپا ؛
شاور شہر کے نواح میں یہ سٹوپا دوسری صدی ق م میں کشان سلطنت کے حکمران کنشکا نے بدھ مذہب کی باقیات کو محفوظ رکھنے کے لیے تعمیر کروایا تھا۔
بدھوں کے مطابق گوتم بدھا نے مرنے سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اسی جگہ کنشکا اپنے نام سے ایک اونچی عمارت بنائے گا۔
ہن حکمرانوں نے اس سٹوپے کو بھی نہ بخشا۔ لیکن عقیدت مندوں نے اس کی پتھریلی بنیاد پر لکڑی سے اسے دوبارہ تعمیر کیا اور سب سے اوپر تانبے کی 13 تہوں سے خوبصورت نقش نگاری کی گئی۔
یہ اپنی طرز کا ایک منفرد سٹوپا تھا جو مینار کی شکل میں بنایا گیا تھا۔ اس جگہ کی دریافت اور کھدائی ڈیوڈ سپونر کی زیر نگرانی 1908 میں شروع کی گئی اور اس کہ تہہ سے نہایت قیمتی چھ کونوں والا صندوقچہ برآمد کیا گیا۔ اس صندوقچے میں بدھا کی ہڈیوں کے تین حصے رکھے تھے جو برما کے شہر مانڈلے بھیج دیے گئے جبکہ صندوقچے کو پشاور میوزیم کی زینت بنا دیا گیا۔
افسوس کہ اسے سنبھالا نہ جا سکا اور یہ قدیم سٹوپا ختم ہو گیا۔ 2011 میں مختلف اداروں کے ذریعے اس کے مقام کا دوبارہ تعین کیا گیا جو پشاور میں گنج گیٹ کے باہر بتایا جاتا ہے۔
جاری ہے۔
- خان پور کا تاریخی و ثقافتی ورثہ - 13/11/2024
- گنگا رام پاور ہاؤس - 01/11/2024
- ٹرین ٹو کوئٹہ۔ ایک مسافر کی داستان 6 - 23/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).