آپ نے اپنے بچوں سے کیا سیکھا ہے؟


اگر ہم چاہیں تو ہمارے بچے بھی ہمارے استاد بن سکتے ہیں۔

حقیقت یہی ہے کہ ہمارے بچے زندگی کے بہت سے ایسے رازوں سے واقف ہیں جن سے ہم ناواقف ہیں لیکن ہم ان کی رائے کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔ ہم اپنے بچوں کے استاد بننے اور انہیں اپنا شاگرد بنانے پر مصر رہتے ہیں بجائے اس کے کہ ہم انہیں اپنا استاد سمجھیں اور ان سے جدید زندگی کے کچھ راز سیکھیں۔

میری بھانجی وردہ میری بیٹی کی طرح ہے۔ وہ کینیڈا میں میرے ساتھ کئی سال رہی اور آج کل بھی اپنے حادثے اور آپریشن کے بعد چند ماہ سے میرے ساتھ رہ رہی ہے۔ میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ آج میں آپ کو راز کی وہ چند باتیں بتانا چاہتا ہوں جو میں نے وردہ سے سیکھی ہیں۔ بعض لوگوں کے لیے یہ حیرت کی بات ہوگی کہ وردہ مجھے انسپائر کرتی ہے۔

وردہ بچپن سے حق گو ہے۔ وہ مجھ سے کہیں زیادہ سچ بولتی ہے۔ جب وہ پاکستان کے منافق معاشرے میں رہتی تھی تو اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ وہاں بہت سے لوگ سچ نہیں سننا چاہتے۔ انہیں سچ کڑوا لگتا ہے۔ لیکن ان باتوں نے کبھی وردہ کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔ اس نے کبھی سچ کی شکست کو تسلیم نہیں کیا۔ اس نے کبھی جھوٹ کے آگے سر نہیں جھکایا۔ شاید اسی لیے وہ میری بھانجی اور میری بیٹی ہی نہیں میری دوست بھی ہے اور ہم ایک دوسرے کے سچ کا احترام کرتے ہیں۔ ہم محبت و پیار ’عزت و احترام سے اختلاف الرائے کر سکتے ہیں۔

وردہ نے مجھے جدید ٹکنالوجی کے بہت سے گر سکھائے۔ اس نے مجھے سکھایا کہ کس طرح کمپیوٹر پر فائلز بنائی جاتی ہیں۔ اس نے میری اردو کی کتابوں کو ٹائپ کیا اور مجھے بتایا کہ کیسے انہیں محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس نے میری تخلیقی زندگی میں میری بہت مدد کی۔

وردہ بہت بہادر لڑکی ہے۔ وہ مسائل کا سامنا بڑی دلیری سے کرتی ہے۔ میں نے اسے زندگی کی بہت سی آزمائشوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے دیکھا ہے۔ میں نے اسے کبھی شکوہ شکایت کرتے نہیں سنا۔ اگر اس نے زندگی کے چند فیصلے غلط بھی کیے تو اس نے ان فیصلوں کے نتائج کو خوش دلی سے قبول کیا اور سیکھا کہ زندگی میں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔

وردہ ایک محبت کرنے والی خاتون ہے۔ اس کے گرد ہر وقت دوستوں کا ایک بڑا حلقہ موجود رہتا ہے۔ اس نے اپنی فیمیلی آف دی ہارٹ بنائی ہوئی ہے۔ میں نے جب بھی اس کے دوستوں اور سہیلیوں سے بات کی انہوں نے وردہ کی تعریف ہی کی اور مجھے بتایا کہ وہ ایک ہمدرد اور وفادار دوست ہے۔ جب وردہ کا حادثہ ہوا اور وہ ہسپتال میں داخل ہوئی تو اس کے دوستوں اور سہیلیوں نے اس کا دل سے خیال رکھا اور اس کی بہت تیمارداری کی۔

پچھلے چند ماہ میں میں نے وردہ کی شخصیت کا ایک نیا پرت دیکھا۔ میرے خیال تھا کہ وہ درد کی شدت کے آگے گھٹنے ٹیک دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس نے اپنے درد ’اپنے کرب اور اپنی اذیت کو اپنے اوپر حاوی ہونے نہیں دیا۔ اس کا سر ہمیشہ بلند رہا۔ اس نے اپنی بیماری و لاچاری و مجبوری و معذوری میں حس مزاح سے خوب کام لیا۔ وہ سب دوستوں سے مسکراتے ہوئے کہتی ہے کہ اب میری گردن میں سریا پڑ گیا ہے اب میں اکڑ کر چل سکتی ہوں۔

بیماری اور معذوری سے صحت مندی کے پچھلے سو دن کے سفر کے دوران اس نے اپنی خوشی اور اپنی اینٹرٹین منٹ کے نئے راستے نکالے۔ ان راستوں میں سے ایک راستہ میرے ساتھ انسٹاگرام کے وڈیو بنانا تھا اور ٹک ٹک پر

MYWISEUNCLE

کا اکاؤنٹ تخلیق کرنا تھا۔ وہ بڑے شوق سے میرے لیے مشکل مشکل سوال تیار کرتی ہے اور پھر کیمرہ لے کر میرا پیچھا کرتی ہے۔ پھر وہ ڈائرکٹر بن جاتی ہے اور ریکارڈنگ کرتی ہے۔ پھر اس وڈیو کی ایڈیٹنگ کرتی ہے اور بڑے شوق سے انٹرنیٹ پر لگاتی ہے اور پھر اسے فالو کرتی ہے۔ پھر مجھے خوش خبری سناتی ہے

ماموں! محبت والے وڈیو کو اسی ہزار لوگوں نے دیکھا ہے
ماموں! حسد والے وڈیو کو بیس ہزار لوگوں نے دیکھا ہے
ماموں! دو مہینوں میں سترہ سو سے زیادہ لوگ آپ کو فالو کرنے لگے ہیں۔

جب ایک خاتون نے وردہ کے jealousy کے بارے میں بنائے ہوئے وڈیو کو دیکھ کر کہا کہ میں تم سے jealous ہوں کہ تمہارے ماموں ایک دانشور ہیں تو وردہ نے جواب دیا کہ jealousy کی آگ میں مت جلو میں اپنے دانشور ماموں کی دانائی تمہارے ساتھ شیر کر رہی ہوں۔

وردہ ایک بچی کی طرح خوش رہتی ہے اور دوسروں کو بھی اپنی مسکراہٹوں قہقہوں اور دلچسپ کہانیوں سے خوش رکھتی ہے۔

ان تمام باتوں کے علاوہ میں نے وردہ سے ایک اور درس سیکھا ہے اور وہ ہے اپنے دل کی گہرائیوں میں چھپے جذبات کا اظہار۔

وردہ کی بیماری سے پہلے اگر میرے جذبات میں تموج آتا تھا تو میں اپنے آنسو روکنے کی کوشش کرتا تھا لیکن پچھلے چند ماہ میں جب میں وردہ کے ایکسیڈنٹ اور گردن ٹوٹنے کے حادثے کی کہانی کسی کو سناتا ہوں تو وفور جذبات سے مغلوب ہو کر آبدیدہ ہو جاتا ہوں۔ لیکن اب میں ان آنسوؤں کو روکنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اب مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ میرے آنسو میری اپنی بیٹی کے لیے محبت کا اظہار ہیں نہ کہ کسی جذباتی کمزوری کا پرتو۔

وردہ کے اس واقعے اور میرے آبدیدہ ہونے سے مجھے اپنے بچپن کے وہ دن بھی یاد آ گئے جب میرے والد عبدالباسط اپنی امی جان یعنی میری دادی جان کا ذکر کرتے تھے تو چند خاموش آنسو ان کی آنکھوں سے ڈھلک کر ان کے رخساروں پر بہتے لگتے تھے۔ میرے والد بھی اپنے آنسوؤں سے کبھی خجل نہیں ہوتے تھے۔ وہ بھی جانتے تھے کہ ان کے آنسو ان کی اپنی والدہ سے محبت کا اظہار ہیں جن پر نادم ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرے والد سیف الدین سیف کے یہ تین مصرعے بھی گنگنایا کرتے تھے

ماں
تو جواں تھی مرے لڑکپن میں
ہولے ہولے مگر شباب ترا
میری آسائشوں نے چھین لیا

میرے والد ایک ہمدرد انسان تھے۔ وہ ایک غیر روایتی مرد تھے۔ وہ عورتوں کی تہہ دل سے عزت کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی مجھے نہیں کہا۔

۔ لڑکے رویا نہیں کرتے۔ BOYS DON ’T CRY

میں نے وردہ کی دوستی اور محبت میں بہت کچھ سیکھا اور ان سب چیزوں میں سب سے اہم بات اپنے محبت ’پیار‘ اپنائیت اور چاہت کے جذبات کو نہ صرف قبول کرنا بلکہ ان کا برملا اظہار بھی سیکھا۔

میں نے یہ بھی جانا کہ بہت سے مشرقی مرد بچپن میں ہی لاشعوری طور پر محبت کے مخلصانہ جذبات کو حد سے زیادہ کنٹرول کرنا سیکھ جاتے ہیں اور ان کا اظہار نہیں کرتے اور ان کے بہت سے رشتوں میں بہت سے جذبات دل کے دل میں ہی رہ جاتے ہیں۔

میری بھانجی نے میری ایک بہتر انسان بننے میں مدد کی ہے۔
ہم دونوں ایک دوسرے کی دوستی پر فخر کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ
کیا آپ بھی اپنے بچوں پر فخر کرتے ہیں؟
کیا آپ نے بھی اپنے بچوں سے کچھ سیکھا ہے؟
۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments