ابا جی


چوہدری محمد اقبال عاصی میرے ابا جی تھے۔

دبدبے اور طنطنے والے، خودداری کی دولت سے مالامال، اتنے بے خوف کہ ان کی اس بے خوفی سے ان کی جوان اولاد بھی خوف کھاتی تھی۔ مجال ہے کہ زندگی میں کبھی کسی سے بھی ڈرے ہوں میں نے زندگی میں انہیں کبھی بھی حوصلہ ہارتے نہیں دیکھا بڑی سے بڑی مصیبت اور پریشانی پر بھی عام لوگوں کی طرح رد عمل کا اظہار نہیں کرتے تھے جسمانی طور پر خاصے طاقتور تھے۔ ان کی مٹھیاں ہمیشہ بند رہتی تھیں اور آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک اور قدم زمیں پر جما کر چلتے تھے۔

اچھی اور عمدہ خوراک کے دلدادہ تھے۔ گندلاں والا ساگ، مکئی کی روٹی، دیسی گھی، مکھن، گنے، چھلیاں، کڑہی، السی کی پنیاں، لسی، ستو، سردائی اور ایسی ہی دوسری چیزیں انہیں بے پناہ مرغوب تھیں میں نے انہیں چنے کھاتے ہوئے بھی بہت دیکھا، مزے کی بات یہ تھی کہ وہ خود بھی یہ سب مزے کیا کرتے تھے اور ہم بچوں کو بھی یہ عیاشی ڈٹ کر کرواتے، ابا جی کے کہنے پر امی جان یہ سب سوغاتیں تیار کرتی رہتیں اور ہم سب بہن بھائی موجیں کرتے رہتے، ابا جی کو ہم سب سے بے پناہ محبت تھی لیکن جسمانی طور پر طاقتور باقی لوگوں کی طرح انہوں نے بھی اس کا اظہار کرنے میں آخر دم تک کنجوسی ہی کی، میں نے اپنے ہوش میں انہیں کبھی اپنے کسی بہن بھائی سے پیار کرتے ہوئے نہیں دیکھا، لیکن وہ ہمارے کھانے پینے کا ہمیشہ ہی بڑا خاص خیال رکھتے گلی میں قلفیوں کی ریڑھی والا آتا تو وہ اس سے ساری قلفیاں خرید کر تھرمس میں رکھ لیتے اور پھر ہم خوب مزے لے لے کر سارا دن وہ قلفیاں کھاتے، اسی طرح چاچا شفیع کیلوں کا ٹوکرا سر پر رکھے سیدھا ہمارے دروازے پر آتا اور آواز لگاتا۔

چوہدری جی۔ چوہدری صاحب اور ابا جی اس سے سارے کیلے خرید لیتے اور پھر ہم ہوتے اور کیلے، خاص طور پر میری تو موجیں ہی ہو جاتیں کیونکہ مجھے کیلے بہت پسند تھے۔ تھوڑی چیز لینے کے وہ کبھی حق میں نہیں تھے اور مجال ہے کہ انہوں نے کبھی بچوں کو چھوڑ کر باہر ہی کچھ کھایا پیا ہو، جو بھی ہوتا گھر لے کر آتے اور سب سے پہلے سب سے چھوٹے بھائی اور مجھے چیز ملتی اور پھر باقی بہن بھائیوں کو، یہ روایت شاید ہر گھر میں ہی ہوتی ہے کہ چیز تقسیم کرنے کا آغاز سب سے چھوٹے فرد سے ہوتا ہے اور زیادہ چیز بھی چھوٹے ہی کو دی جاتی ہے۔

اس تقسیم پر، نزدیکی چھوٹا، ہونے کی وجہ سے میں ہمیشہ احتجاج کیا کرتا تھا لیکن ابا جی کی، ویٹو پاور، ہمیشہ ہی میرے راستے میں آجاتی اور میں آنکھوں میں آنسو بھر کر کسی کونے کھدرے میں جا کر ملنے والی چیز سے انصاف کرنا شروع کر دیتا، ابا جی بے حد صفائی پسند تھے۔ کوئی ان کے سامنے ناک صاف کرتا یا تھوکتا تو ان کے چہرے پر ناگواری واضح طور پر نظر آجاتی اور اکثر وہ اس ناگواری کا اظہار بھی کر دیتے ان کے دانت ہر وقت چمکتے رہتے تھے۔

وہ صبح صبح گھر سے کھیتوں کی طرف نکل جاتے اور واپسی پر ایک عدد مسواک ان کے ہاتھ میں ہوتی اور ایک ان کے منہ میں، مجھے یاد ہے کہ ہم دونوں چھوٹے بھائی ان کے منہ والی مسواک ان کے گھر داخل ہوتے ہی ان سے چھین لیتے اور اپنے دانتوں پر اندھا دھند مارنا شروع کر دیتے جس سے مسوڑھوں سے خون بھی نکلتا اور وہ سوج جاتے اور خوب درد بھی کرتے، لیکن ہم نے ابا جی کی مسواک ان سے لینا کبھی ترک نہیں کی، ان کے سائیکل کے ساتھ ایک سرخ رنگ کا پلاسٹک کا تھیلا ہمیشہ لٹکا ہوتا تھا۔ (یہ 80 کی دہائی میں ایک فیشن تھا) وہ شام کو جب گھر آتے تو ہم ان کے سائیکل کی گھنٹی کی آواز سنتے ہی دروازے کی طرف لپکتے اور ابا جی آ گئے، ابا جی آ گئے، کے نعرے لگاتے سائیکل کے ہینڈل سے لٹکا تھیلا اتار لیتے اور ہماری توقع کے عین مطابق اس میں ریوڑیاں، چلغوزے، مونگ پھلی اور برفی وغیرہ ضرور مل جاتیں اور مجھے یاد نہیں کہ کبھی وہ خالی تھیلا لے کر گھر آئے ہوں۔

وہ دو دو نوکریاں کرتے تھے اور صرف اس لئے کہ انہیں اپنی اولاد کو جہاں اچھا کھلانے کا شوق تھا۔ وہیں اچھا پڑھانے کا بھی شوق تھا اور اس کے لئے انہوں نے اپنی شریک حیات یعنی ہماری امی جان کے ساتھ مل کر دن رات محنت کی اور اپنی ساری اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اس معاملے میں وہ بیٹے بیٹی کا فرق نہیں کرتے تھے۔

وسائل کی کمی اور مسائل کے باوجود وہ لگے رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی میں ہی ان کی ساری اولاد کو اعلیٰ تعلیم بھی دلوائی اور برسر روزگار بھی کیا، لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی بھی اپنی کسی اولاد سے کبھی ایک روپیہ بھی نہیں لیا اپنی دوائی منگواتے تو پیسے بیٹوں اور پوتوں کے ہاتھ پر رکھ دیتے کوئی لینے سے انکار کرتا تو غصے میں آ جاتے اور پیسے دے کر ہی آرام کرتے جب تک صحت نے ساتھ دیا خود میڈیکل سٹور جاتے رہے آخری دنوں میں صحت اجازت نہیں دیتی تھی اس لئے زیادہ تر گھر ہی میں رہتے۔

پروفیسر قاسم نے ایک بار مجھے کہا کہ جب ہم گورنمنٹ کالج جھنگ میں پڑھتے تھے تو آپ کے والد بہت خوبصورت ہوا کرتے تھے اور صحت بھی قابل رشک تھی۔ سچی بات ہے کہ ان کی مردانہ وجاہت سے امی جان کو بھی خطرہ لاحق رہتا تھا کیونکہ جو عورت بھی ان کو دیکھ لیتی وہ ان پر لٹو ہو جاتی تھی۔ امی جان کبھی کبھار ہمیں بتایا کرتیں کہ کئی عورتوں کو تو میں نے خود تمہارے ابا جان کے آس پاس سے بھگایا دراصل ان میں سیکس اپیل غضب کی تھی اور اس کے چند نمونے ہم نے خود بھی ملاحظہ کیے بلکہ میں نے جب لاہور کے مزاحیہ ماہنامہ، چاند، میں اپنا ہی خاکہ، جہنتی، کے نام سے لکھا تو ابا جی کی اس سیکس اپیل کے بارے میں دھڑلے سے لکھ دیا ابا جی نے اسے پڑھا مگر مجھے کچھ نہیں کہا، وہ میری ہر تحریر بغور پڑھتے اور پھر اپنے ملنے جلنے والوں کو بتاتے کہ، میرا بیٹا ایک لکھاری ہے۔

میں نے جب اپنی کتاب، مسائل ادب اور اہل نظر، کا انتساب امی اور ابا جان کے نام کیا اور کتاب انہیں دکھائی تو ان کے چہرے پر ایک چمک سی آ گئی اور آج تک میں اس چمک کو نہیں بھولا ہوں اور نہ ہی شاید کبھی بھول پاؤں گا۔ ان کے خاندان میں میں پہلا، صاحب کتاب، ہوا تھا اور یہ بات ان کے لئے کتنی فرحت انگیز اور زبردست رہی ہو گی۔ یہ توان کو ہی معلوم ہوگی لیکن اس موقع پر بھی انہوں نے روایتی جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا مجھے گلے لگا کر شاباش نہیں دی کیونکہ وہ عام لوگوں جیسے نہیں تھے اور ان کو ایسا اظہار کرنا آتا بھی نہیں تھا۔

ہاں ان کی باڈی لینگویج سے ان کے جذبات کا اندازہ کیا جاسکتا تھا اور اس کے لئے بھی ان کا ایک مخصوص سٹائل تھا۔ پوتوں میں سب سے بڑا پوتا سعید اقبال انہیں بے حد عزیز تھا اور اس کی ایک وجہ تو شاید اس کا بڑا ہونا تھی اور دوسرا اس کا نام ان کے مرحوم بیٹے کے نام پر رکھا ہوا تھا لیکن دوسرے دو پوتے علی اور عکاشہ بھی انہیں کم عزیز نہیں تھے۔ اسی طرح دونوں پوتیاں سمیعہ اور لاریب بھی ان کو بے حد پیاری تھیں مگر زندگی کے آخری سالوں میں انہوں نے نواسے حسیب کا بہت خیال رکھا اس کی ہر جائز و ناجائز بات مانی اسی طرح ساہیوال میں مقیم بڑی بیٹی کے تینوں بیٹے احسن، حسن اور حسنات جب بھی جھنگ آتے تو وہ ان کے لئے دنیا جہان کی نعمتیں اکٹھی کر لیتے والد محترم کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ غلط بات تو ان سے برداشت ہوتی ہی نہیں تھی۔ علاقے کے قبرستان پر قبضہ ہونے لگا تو راستے کی رکاوٹ بن گئے کوئی ناجائز تعمیرات کرتا تو کھڑے ہو جاتے ہم کہتے، ابا جی! آج کل زمانہ صحیح بات کرنے والوں کو دیوانہ کہتا ہے۔ آپ چھوڑیں پرے، لیکن فرماتے۔ کیوں چھوڑ دوں؟ اور پھر اپنی منوا کر دم لیتے۔

انہوں نے بہت سارے لوگوں کی مالی اعانت کی کیؤں کو نوکریاں دلوائیں اور اس کے لئے پتہ نہیں کیا کیا پاپڑ بیلے، لوگ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ اسی لئے سخت سردی اور موسم کی خرابی کے باوجود ان کی نماز جنازہ میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے کہ خود ہم بھی حیران رہ گئے سابق ڈائریکٹر کالجز سرگودھا پروفیسر ڈاکٹر ملا خان حیدری گھر فاتحہ کے لئے تشریف لائے تو انہوں نے کہا بلاشبہ آپ تینوں بیٹوں کے بھی لوگوں سے تعلقات ہوں گے لیکن جنازے میں اتنے زیادہ لوگوں کا شریک ہونا مرحوم کے اپنے نصیب اور مقدر کی بات کہی اور سمجھی جاتی ہے۔ بلاشبہ ان کی بات میں وزن ہے۔ مگر آج دکھ اس بات کا ہے کہ کیا ہم ان کی ویسی خدمت کر بھی پائے جس کے کہ وہ مستحق تھے۔ ؟ میرا خیال ہے کہ ہم نے بے پناہ کوتاہیاں کیں وہ ایک عظیم باپ تھے۔ ایک بہت ہی عظیم باپ۔ ان کی محبت بے لوث تھی اور ان کی پدرانہ شفقت پیغمبرانہ رنگ ڈھنگ میں رچی بسی ہوئی اور ڈھلی ہوئی، تھی۔

وہ سرتاپا ایک شاندار باپ تھے۔ اپنی اولاد کے لئے انہوں نے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا لٹا دیا یہاں تک کہ اپنی صحت کا بھی کبھی خیال نہ رکھا شوگر جیسی موذی بیماری ان کو چمٹی رہی اب یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اس مرض کو ہمیشہ ہی جوتے کی نوک پر ہی رکھا ڈٹ کر میٹھا کھایا اور پیا اور ڈاکٹروں اور فیملی کے کہنے روکنے کے باوجود بھی رتی بھر پرواہ نہ کی آخری دنوں میں شوگر نے ان سے بدلہ لیا اور ان کو نڈھال کر کے رکھ دیا توڑ دیا وہ ایمرجنسی گئے اور اور پھر وہاں سے سول ہاسپٹل جھنگ کے پرائیویٹ روم اور پھر اسی جگہ وہ ایسے سوئے کہ 13 جنوری 2015 کی صبح 5 ; 19 پر کسی کو بتائے بغیر وہ وہاں چلے گئے جہاں سے لوٹ کر کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔ بلاشبہ موت سب کو آنی ہے لیکن ابا جی کی موت نے تو ایسا رلایا کہ لگا دنیا ہی خالی ہو گئی ہے۔

کڑے سفر کا تھکا مسافر، تھکا ہے۔ ایسا کہ سو گیا ہے۔
خود اپنی آنکھیں تو بند کر لیں، ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے۔
ابا جی! اللہ تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے (آمین) ۔

نوٹ:تمام قارئین سے التماس ہے کہ والد محترم چوہدری محمد اقبال عاصی مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے ایک بار سورۃ فاتحہ اور تین بار سورۃ احد پڑھ کر ان کے لئے خصوصی دعا کریں۔ ممنون ہوں گا!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments