مٹی کی دعا


سلیم حسنی بلوچستان کے ضلع بارکھان سے تعلق رکھتے ہیں اور پیشے کے لحاظ سے انگریزی لیکچرر ہیں۔ ”مٹی کی دعا“ ان کا پہلا اردو شعری مجموعہ ہے، جس میں چالیس نظمیں اور دس غزلیں ہیں۔ ڈگری کالج پشین میں وہ دو سال تک میرا کولیگ رہے، مگر پرتکلف اور گریزاں رہے۔ شاید وہ یہ خلا مٹی کی دعا سے پر کرنا چاہتے تھے۔

ان کی نظمیں ایک ایسی دیسی محبت کا نتیجہ ہیں جو ایک قابل برداشت حادثے سے بچنے کے بعد دوسرے جان لیوا حادثے کا شکار ہوتی ہے۔ مٹی کی دعا دراصل سلیم حسنی کے خواب اجڑنے کا ثمر ہے۔ اجڑے خوابوں کا حاصل عکس، آنسو اور حسرت کے سوا اور کیا ہے۔ محبت کا ایک بیوپار ظلم سہ کر مر سکتا ہے، مگر بے وفائی کا شکوہ نہیں کرتا۔ دل کی دنیا کے ویران ہونے کے بعد بیرونی دنیا کی چکا چوند ہیچ ہوتی ہے اور کہانی سے حذف ہونے کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھنے سے بوجھل وجود کا پتھر بننا مقدر بنتا ہے۔

سلیم حسنی کا پتہ محبوب کی آواز ہے، ان کی وابستگی محبوب کی چھاتیوں سے ہے، ان کا خواب محبوب کی آنکھیں ہیں، ان کی شناخت محبوب کا نام ہے اور ان کی سکونت محبت ہے۔ ان کی نظر میں مکمل عورت صرف ایک باغی اور عاشق عورت ہو سکتی ہے۔ ان کی محبوبہ جب ہنستی ہے تو وہ بھول جاتا ہے کہ سرزمین بلوچستان پر آخری نعش کب گری تھی، آخری آنکھ کب روئی تھی اور آخری پھول کب مرجھایا تھا۔ اپنی محبوبہ کی ہنسی کو برقرار رکھنے کی خاطر وہ قاتلوں اور ضرر رساں عناصر سے مرتے دم تک لڑنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ ان کو خدشہ ہے کہ اگر ان کی محبوبہ کو شاعری، موسیقی اور مسکراہٹ پسند نہ آئی تو شاید وہ انھیں کھو بیٹھے۔

اگرچہ پہلی محبت کی گھنی زلفوں میں چاندی کا چمکتا تار آیا ہے، اب بھی شاعر محبوب کے دوبارہ حصول کے لیے سارے زمانے سے برسرپیکار رہتا ہے۔ مگر تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اس صورت میں جب ہاتھ کچھ نہ آئے تو تخیل بیدار ہوجاتی ہے، طبع رواں کو مہمیز مل جاتی ہے اور تصور محجوب ہو کر نظم میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ نظم لکھنے کے بعد یعنی کتھارسس ہونے کے بعد شاعر معتدل ہوتا ہے، فلسفہ چھیڑ دیتا ہے، سماجی ناہمواریوں پر بحث کرتا ہے اور گردوپیش میں رونما ہونے والے سیاسی حالات پر رقم طراز ہوتا ہے۔

سلیم حسنی کی نظر میں محبت کا فسوں تب سے شروع ہوا جب سے پہیہ وجود میں آیا، یعنی پہیے کی ایجاد نے پردہ دریافت کیا۔ پردہ نہ ہوتا تو محبت بھی نہ ہوتی۔ پردہ عام ہونے کے بعد مردوں کی جنسی پیاس بڑھنے لگی۔ جس کے نتیجے میں صنف نازک کا استحصال اور ہراسانی کے واقعات بھی جڑ پکڑنے لگے۔ عورتوں کے لیے گھر سے باہر نکلنا اور روزگار کرنا ناممکن ہو گیا۔ سلیم حسنی ایسے سماج کی عورتوں کو مشورہ دیتا ہے کہ ہر کام کرنے سے پہلے شہ دولے کے چوہوں سے اجازت لیں، بہ صورت دیگر ان کا زیر ناف انھیں مفلوج لگے گا۔ ان کو صرف شہ دولے کے چوہوں سے نفرت نہیں، بل کہ ان غلیظ مکھیوں سے بھی نفرت ہے جو خاردار تاروں اور باڑوں میں فاختہ، امن، موسیقی اور خوشیوں کو قید کرا دیتی ہیں۔ ان کی دعا ہے کہ ان کی مٹی شہ دولے کے چوہوں اور غلیظ مکھیوں سے پاک ہو اور قدم قدم پر باغی حسینائیں اپنے محبوب سے ملنے کے لیے بے تاب ہوں۔

کثیر اللسانی ادبی رجحانات کے باعث بلوچستان میں اردو شعر و سخن کی رفتار بہت سست ہے اور ایسے حالات میں ”مٹی کی دعا“ کسی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم تر نہیں۔ یہ کتاب نظم اور غزل کے تمام تر فنی و فکری لوازمات پر پورا اترتی ہے۔ اس مجموعے کے سمجھنے کے لیے اس جغرافیے کا نفسیاتی مطالعہ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ چار سو پہاڑوں میں گھرنے کی وجہ سے اگر بلوچستان کی حسانت بڑھ گئی ہے تو دوسری جانب بلوچستان کا معاصر دنیا سے معاشی اور سیاسی رابطے کے ساتھ ساتھ فکری و تہذیبی رابطہ بھی منقطع ہو چکا ہے۔ جس کی وجہ سے اس جغرافیے کا عوام گوں نا گوں محرومیوں کا شکار ہیں۔ بلوچستانیوں کو سوچنے، سمجھنے، سوال اٹھانے اور مسکرانے کی ضرورت ہے۔

ان کی غزلیں ناسٹالجک ہیں۔ وہ راہ فرار کی تلاش میں ہے۔ وہ زمین اور آسمان اور در و دیوار کے درمیان معلق اور مبہوت سی زندگی گزار رہا ہے۔ وہ نفع سے زیادہ نقصان، خوشی سے زیادہ غم اور ہجوم سے زیادہ تنہائی کی زندگی کی تلاش میں ہے۔ ان کے اندر محرومیوں اور حسرتوں کا ایک بے تاب لاوا موجود ہے جو شاید ان کی مٹی کی دعا کی قبولیت کے بعد ایسی حالت میں پھٹے گا جس میں یوسف کا کرتا سلامت نہیں ہو گا، جس میں راہ میں ملنے اور بزم میں بلانے کی عادت ہوگی اس آخر میں دو شناسا آنکھوں میں ایک دوسرے سے بات کرنے کی جرات بھی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments