کافروں کی نماز


”جب روح ہی کافر ہو جائے تو جسم کب تک خدائی پر جیے گا“

مذکورہ بالا تسوید فلم کا ابتدائیہ ہے جو ایک ایسی داستان کا آغاز ہے جو ناظر و سامع کو محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے متاثر کرتی ہے۔ یہ فلم بالی ووڈ کی چند پسندیدہ فلموں میں سے ایک ہے، اس فلم کی خاص بات اس فلم کے مکالمے ہیں جو مختلف مسائل کا احاطہ کرتے ہیں۔ فلم میں گاندھی کی شخصیت، حب الوطنی، ریاست، ہندو مسلم تنازعات، سیاست، عقائد، توہم پرستی، طبقاتی تقسیم، صنفی امتیاز، جنسی گھٹن، اندرونی تنازعات اور فلسفہ پر بڑے کھلے اور بولڈ انداز میں بات کی گئی ہے۔

شدت پسند طبقہ کے سبب ریلیز سے قبل ہی فلم کا ٹائٹل سیاسی و مذہبی تنازعات کا شکار ہو گیا اور سینسر بورڈ کی جانب سے اس فلم پر پابندی عائد کر دی گئی۔ تمام تر کوششوں کے باوجود جب فلم کو ریلیز کرنے کی اجازت نہ ملی، تو فلم کے ہدایتکار رام رمیش شرما اور پروڈیوسر بہار گیو سائکائی نے اسے یوٹیوب کے پلیٹ فارم پر ریلیز کر کے ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی، یہ ایک دلیرانہ فیصلہ تھا جس نے نوجوانوں کو نئے تجربات کرنے کا حوصلہ دیا۔

فلم کی کہانی، کردار نگاری، ہدایتکاری، اداکاری اور میوزک لاجواب ہے۔ چندراس تیواری اور آلوک چترویدی نے اداکاری کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ تعریف میں مہا کنجوس شخص کے منہ سے بھی داد نکلتی ہے۔ فلم نے ناظرین و ناقدین سے خوب داد سمیٹی اور بے شمار ایوارڈز اپنے نام کیے ہیں، اسے سال کی بہترین فلم کا ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے علاوہ فلم نے بہترین سکرین پلے، بہترین ہدایتکار اور بہترین اداکاروں کے ایوارڈز بھی اپنے نام کیے۔

یہ ایک ایسی فلم ہے جس پر ڈیبیٹ ہونی چاہیے، ہندوستان میں اس فلم پر تحقیقی مقالے لکھے گئے اور اس پر بیشمار سیمینار منعقد ہوئے۔ اس فلم کو بنانے کا خواب دو نوجوان طلبہ نے دیکھا اور یونیورسٹی میں اپنے کورس کو مکمل ہونے سے قبل ہی چھوڑ کر اس کی کہانی کو لکھنا شروع کیا۔ تمام مشکلات کے باوجود انھوں نے ہمت نہ ہاری اور ایسا شاہکار تخلیق کیا جس نے انھیں سینما کی دنیا میں ایک الگ پہچان عطا کی ہے۔

فلم کی کہانی:

برسات کے دنوں میں کرسمس کی سرد شام سری نگر کے ایک لاوارث ہوٹل میں بنگالی مصنف اپنی کتاب کے لئے حال ہی میں کورٹ مارشل ہونے والے ایک سنکی سپاہی کا انٹرویو کر رہا ہے۔ وہاں ایک چائے فروش اور کیمرہ مین بھی موجود ہے جو اس منظر کو عکس بند کر رہا ہے۔ مصنف و سپاہی اخلاقی اور فلسفیانہ سوالات سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ سپاہی اپنے بچپن کی المناک یادوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ کیسے اس کے ماں باپ اسے چھوڑ کر چلے گئے اور وہ تا عمر اس کرب میں مبتلا رہا کہ اس کی پہچان کیا ہے۔

سپاہی فوج کے مبینہ مظالم اور ناخوشگوار واقعات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ جنگ کے دوران خواتین کی عصمت دری، ہم جنس پرستی اور جعلی مقابلوں میں لوگوں کو مارنا عام تھا۔ یہ اس قدر دردناک تھا کہ وہ خود سے ہی نفرت کرنے لگا ( یہاں آپ کو منٹو کے افسانوں کا رنگ بھی نظر آئے گا) ۔ شاید انسان کی فطرت ہے کہ جب بھوکا ہو تو مردار بھی کھا جائے اور پیٹ بھرا ہو تو جنسی خواہشات مرد اور عورت کا فرق ہی مٹا دیتی ہیں۔

بظاہر وہ دونوں مہذب دکھائی دیتے ہیں لیکن اپنے افکار و نظریات میں شدت پسند ہیں اور یہ عمل ان کی گفتگو میں نظر آتا ہے۔ دونوں اپنے اندرونی تنازعات اور ماضی کی المناک یادوں کے متعلق گفتگو کرتے ہیں جس کے باعث وہ اشتعال کا شکار ہو جاتے ہیں اور اب یہ مکالمہ بحث کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس کی تپش ناظرین کو محسوس ہوتی ہے اور زندگی کے تمام پہلو اس بحث مباحثے میں جھلکتے ہوئے نظر آتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنے بارے میں نہیں بلکہ ہماری کہانی بیان کر رہے ہیں۔

اکثر ہم گلی محلوں، تفریحی مقام، دفتر یا مجلس میں ایسی ہی کسی بحث کا حصہ بنتے ہیں جہاں ایک موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے بات سے بات نکلتی ہے اور خاندانی مسائل سے لے کر سیاست، معیشت، اخلاقیات اور عقائد کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ فلم میں انھی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے تصویر کا دوسرا رخ پیش کیا گیا ہے، مثلاً وطن پرستی، مذہب پرستی اور فلسفہ کا دوسرا رخ، کہ حقیقت اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے جو آپ کو پڑھائی یا سنائی جاتی ہے۔ فلم کا ماحول انڈین ہے لیکن مسائل انسانی ہیں۔ فلم خود ساختہ اخلاقیات کا رد پیش کرتے ہوئے فطرت کی طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔

سقراط نے کہا تھا کہ انسان کے بنائے گئے الفاظ کی حتمی تعریف کرنا مشکل امر ہے۔ جیسے اچھائی، برائی، ظلم اور انصاف، مثلاً ایک فرد جو سرحد کی حفاظت پر مامور ہے تو لکیر کے ایک جانب اسے وطن پرست اور ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن دوسری جانب اسے دشمن سمجھا جاتا ہے، یوں وہ شخص بیک وقت ظالم بھی ہے اور مظلوم بھی۔ روسو اسے یوں بیان کرتا ہے کہ انسان کو اپنی اصل کی طرف لوٹنا چاہیے، انسان نے اپنی بقاء کے لئے تہذیب و تمدن کے بہت سے قوانین تو ترتیب دیے ہیں لیکن ان سے انسانی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا، ہمیں ان پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

فلم یہی ثابت کرتی ہے کہ ایک ہندوستانی ( تمام انسانوں ) کو اپنے نظریات پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک ملک یا قوم کی بقاء کے لئے اس کے نظریات بہت اہم ہوتے ہیں، بہت سی چیزیں جو بظاہر ہم نے اچھی بنا رکھی ہیں حقیقت اس کے برعکس ہے اور اس سے بہت سے گمبھیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سو ہمارے لیے یہ جاننا نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ ہم کن مسائل سے دوچار ہیں اور ان کا حل کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments