’کینیڈین لکھاری مارگریٹ ایٹ وڈ کی‘ دیر سے آنے والی نظمیں


امریکی صدر جو بائیڈن کے کینیڈا کے اولین سرکاری دورے کی رپورٹ پھر سے دکھائی جانے لگی تو میں نے ریموٹ کا بٹن دبایا اور ٹی وی کی آواز کچھ مدھم کردی اور نظر پھر سے کینیڈا کی ممتاز لکھاری مارگریٹ ایٹ وڈ کے انگریزی شعری مجموعے ”ڈئیرلی“ پر جما لی۔ سامنے نظم کھلی تھی: ”دیر سے آنے والی نظمیں“ ۔ نظم کا عنوان دیکھتے ہی مجھے بے ساختہ اپنے منیر نیازی صاحب یاد آ گئے جو کہتے تھے :

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
منیر نیازی تو شاید شعر کی حد تک ہی ’دیر‘ کرتے ہوں گے مگر میں کہیں پڑھ رہا تھا کہ

ہماری مارگریٹ ایٹ وڈ ”باقاعدہ“ تاخیر پسند ہیں۔ تو منیر نیازی کی نظم صادق آتی ہے ان پر ۔ میں نے سوچا تھا۔ پھر دھیان منیر صاحب کی شاعری اور شخصیت میں موجود گمبھیرتا کی جانب چلا گیا۔ دونوں میں ایسا تال میل تھا کہ منیر نیازی مشاعرے کے ماحول کو پوری طرح اپنے شعر کی فضا میں منتقل کر دیتے تھے۔ اور یہ سب بہت فطری سا لگتا تھا۔ ادھر مارگریٹ ایٹ وڈ کی تقریر میں بھی ان کی شخصیت کی جھلکیاں صاف سنائی دیتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ کینیڈا کی اس مصنفہ کے ہاں لب و لہجہ کی شوخی اور تخلیقی طنز غالب نظر آتے ہیں۔

میں یہ سب سوچتے ہوئے نظم کی طرف لوٹنا ہی چاہتا تھا کہ سامنے ٹی وی سکرین پر سرخ فرغل اور سفید سر پوش پہنے خواتین کی قطاریں نمودار ہونے لگیں۔ میرا تجسس بڑھ گیا۔ میں نے ٹی وی کی آواز بڑھا لی۔ رپورٹ اسرائیل میں منعقدہ حالیہ احتجاجی مظاہروں کے بارے تھی جس میں خواتین اسرائیل کی مجوزہ متنازع قانونی ترامیم، خواتین کے حقوق اور ان پر بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات کے خلاف آواز بلند کر رہی تھیں۔ ان مظاہروں میں علامتی طور پر مظاہرین نے وہ لباس پہن رکھا تھا جو مارگریٹ ایٹ وڈ کے ڈسٹوپیئن ناول ”دی ہینڈ میڈز ٹیل“ کی کردار خادماؤں کا یونیفارم ہے۔

ان خادماؤں کا بنیادی فریضہ حکمران طبقے کے افراد کے لیے جبری طور پر بچوں کو جنم دینا ہے۔ اس لباس میں احتجاجی مظاہرے دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہوچکے ہیں۔ برطانیہ میں ایرانیوں کے مظاہروں میں اور پولینڈ اور امریکا میں عورتوں کے حقوق کے لیے نکلنے والے جلوسوں میں بھی یہی لباس پہنا گیا تھا۔ ناول کی مقبولیت اور ٹی وی سیریل کی شہرت کے بعد تو ناول کے کرداروں کا یہ فرضی لباس مغرب میں تو گویا حقیقی زندگی کا موثر حصہ بن گیا ہے اور ظلم و جبر اور تشدد کے خلاف ایک علامت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ مارگریٹ ایٹ وڈ جو ماحولیات اور خواتین کے حقوق کی بھی علم بردار ہیں اس مخصوص لباس میں ہونے والے مظاہروں کے حوالے سے خود بھی خاصی پرجوش ہیں۔

یہ اس کامیاب کینیڈین مصنفہ اور شاعرہ کا ایک منفرد اعزاز ہے وگرنہ جرمن امن انعام سے لے کر مقامی ایوارڈز تک مارگریٹ متعدد قابل ذکر اعزازت حاصل کرچکی ہیں۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ مارگریٹ ایٹ وڈ کا ناول ”دی ہینڈ میڈز ٹیل“ اور اس کا دوسرا حصہ ”دی ٹیسٹامنٹس“ دونوں ہی زبردست مقبولیت سے ہم کنار ہوئے اور ان کی دیگر کہانیوں کی طرح ان میں بھی مستقبل کی تباہ حال دنیا کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ مگر مارگریٹ کی گفتگو ان کی تحریروں کے برعکس خاصی شگفتہ اور شوخ ہوتی ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ بے معنی ہوتی ہے یا فکری گہرائی سے محروم ہوتی ہے۔ بس دل چسپ ہوتی ہے۔ وہ طنز و مزاح کے تیر کچھ ایسے انوکھے ڈھنگ سے چلاتی ہیں کہ ان کا ہدف بھی مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔

وہ بات ایسے کرتی ہیں کہ سننے والا چونک سا جاتا ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں اپنی کتاب ’سکبلرمون‘ یعنی ’بد خط چاند‘ کا مسودہ ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں قائم ہونے والی فیوچر لائبریری یعنی مستقبل کے کتاب گھر کے حوالے کرتے ہوئے وہ اپنے

مخصوص چہکتے انداز میں کہہ رہی تھیں کہ جب آج سے سو سال بعد سن اکیس سو چودہ میں ان کی یہ کتاب شائع ہوگی تو گویا وہ پھر سے جی اٹھیں گی۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ اب میری آواز اس کتاب میں سو جائے گی پریوں کی کہانی والی ’سلیپنگ بیوٹی‘ کی طرح اور سو سال بعد اچانک پھر سے بیدار ہو جائے گی۔ سب کو اشتیاق تھا کہ وہ اپنی اس خاص کتاب کے بارے میں کچھ تو بتائیں کہ کس بارے میں ہے؟ ناول ہے؟ افسانے ہیں؟ مضامین ہیں یا پھر شاعری؟ اس پر انھوں نے کہا کہ کتاب کا راز تو سو سال بعد ہی افشا ہو گا۔

میں کچھ تاسف سے سوچنے لگا کہ اس کتاب کا مطالعہ تو سو برس سے پہلے ممکن نہیں۔ اور حضرت غالبؔ مجھے اپنے آس پاس ہی کہیں گنگناتے ہوئے محسوس ہوئے :

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔

بہت دیر انتظار کرنا پڑے گا مشتاقان مطالعہ کو ۔ میں نے سوچا اور دیر سے میرا دھیان پھر ان کی نظم کی جانب مڑ گیا۔ ”دیر سے آنے والی نظمیں“ ۔ میں اس نظم کو پڑھتا گیا اور شاعرہ کی قوت اظہار اور آہنگ کا قائل ہوتا گیا۔ یہ بہت مختلف سی نظم ہے۔ آپ کو یقین نہ آئے تو میرا کیا ہوا اردو ترجمہ پڑھ کر دیکھ لیجیے :

دیر سے آنے والی نظمیں
۔
یہ دیر سے آنے والی نظمیں ہیں
زیادہ تر نظمیں ویسے بھی دیر ہی سے آتی ہیں
کسی جہاز ران کے بھیجے ہوئے خط کی طرح
جو اس کے ڈوب جانے کے بعد پہنچتا ہے۔
اتنی دیر سے کہ ان کا کچھ فائدہ باقی نہیں رہتا، ایسے خط
اور دیر سے آنے والی نظمیں ایک سی ہوتی ہیں
ایسے پہنچتی ہیں جیسے آبی راستے سے آئی ہوں
جو کچھ بھی تھا، سب ہو چکا۔ سب رفت گزشت۔
لڑائی، دھوپ بھرا دن، ہوس اوڑھے ہوئے چاندنی، الوداعی بوسہ۔
یہ نظم بھی لہروں کے شانوں پر بہتی چلی آ رہی ہے ساحل کی طرف
کسی غرق شدہ جہاز کے ملبے کی طرح
یا پھر دیر سے مراد
جیسے رات کے کھانے پر دیر سے پہنچنا:
تمام الفاظ ٹھنڈے ٹھار، کھائے چبائے ہوئے۔
بدمعاش، حالت زار اور مغلوب،
یا کسل مندی، قیام، ثانیہ،
مردود، روئے ہوئے، بے کس و تنہا،
محبت اور شادمانی، حتٰی کہ: تہری اذیت کے حامل گیت۔
زنگ آلود منتر، گھسے پٹے مل کر گائے نغمے
بہت دیر ہو چکی ہے ؛ اب رقص کرنے کا تو وقت نہیں۔
ہاں، گانا تم اب بھی گا سکتے ہو۔ سو گاؤ۔
روشنیاں اور روشن کرو: گاؤ
گیت آغاز کرو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments