طاقت کسی کے ساتھ۔ دولت کسی کے ساتھ


ہمارے تمام سیاسی نیتا عوام کو مسلسل مایوس کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کا واحد مطالبہ صرف یہ ہے کہ انتخابات کے ذریعے جمہوریت کو قابل اعتبار بنایا جائے، دوسری طرف اسمبلی نامکمل ہے۔ مگر قانون سازی ہو رہی ہے۔ مگر کوئی ایسا قانون نظر نہیں آ رہا جو مہنگائی کے خلاف ہو۔ نوکر شاہی کا کردار بھی یک طرفہ سا نظر آ رہا ہے۔ آٹے کے بحران نے شہباز سپیڈ کی سپیڈ کو خراب کر دیا ہے۔ عوام کو کتنا آٹا مفت دیا جا سکتا ہے! کیا اس سے مہنگائی ختم ہو جائے گی؟

دوسری طرف سابق سپہ سالار فارغ جنرل باجوہ نے عجیب سا تماشا لگا رکھا ہے۔ پہلے انہوں نے جاوید چوہدری کو اپنی شفقت سے نوازا اور ایسا تاثر دیا جیسے وہ اپنی صفائی پیش کر رہے ہوں۔ جبکہ اصولی اور قانونی طور پر وہ دو سال تک مکمل طور پر خاموش رہنے کے پابند ہیں۔ جاوید چوہدری ہوشیار صحافی ہیں۔ اپنے منظر نامہ کی کوئی صفائی پیش نہ کی۔ اب تک باجوہ صاحب کا تمام بیانیہ معرفت کے پردے میں نظر آ رہا ہے۔ پھر یہ بات بھی کسی معرفت والے کے ذریعہ میڈیا پر آئی جس میں فارغ جنرل کا کہنا تھا میں نے تو نہ انٹرویو دیا اور نہ ہی کوئی بات کی ہے۔ اس ساری صورت حال میں عسکری ادارے اپنی ساکھ کے بارے میں پریشان نظر آ رہے ہیں۔

اس وقت دو صوبوں میں متوقع انتخابات کے تناظر میں عبوری حکومتیں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اگرچہ ان کا مکمل کردار عبوری ہے۔ مگر ان کے اقدامات تو ایسے ہیں جس کے بعد یوں لگتا ہے جیسے وہ بھی انتخابات میں فریق ہوں۔ پنجاب کے قائم مقام وزیر اعلیٰ جو میڈیا کے حوالے اپنی شناخت رکھتے ہیں ایسے اقدامات میں ملوث نظر آرہے ہیں جو ان کے وتیرہ اختیار میں نظر نہیں آتے۔ انہوں نے بہت کوشش کی جس سے لوگوں کو ان کے اقدامات کا احساس ہو۔ انہوں نے پنجاب میں ٹریفک پولیس کو بدلنے کا جتن کیا۔ بڑے شہروں میں ٹریفک کے معاملات قابل اعتبار نہیں۔ لاہور کو دیکھ لیں ٹریفک کا عملہ وہاں ضرور ہوتا ہے جہاں سے نوکر شاہی کے اہم لوگوں نے گزرنا ہو یا عبوری دور کے وزیر حضرات کو اہمیت دینی ہو۔ ورنہ ٹریفک کا عملہ صرف چالان بنانے میں مصروف نظر آتا ہے۔ ٹریفک کی روانی کے لیے ان کا کوئی کردار نظر نہیں آتا اور منٹوں کا فاصلہ گھنٹوں میں بدل جاتا ہے۔ اگرچہ عبوری دور کے وزیر اعظم کے پاس ایسے اختیارات نہیں ہوتے۔ وہ محدود اختیارات کے ساتھ محدود وقت کے لیے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ مگر اب تو سب کچھ گڈ مڈ سا نظر آ رہا ہے۔ عبوری حکومت کا کردار اور الیکشن کمیشن کا رویہ جمہوریت کے حوالے سے قابل اعتبار نظر نہیں آ رہا۔

مسلم لیگ نواز کی سینئر نائب صدر جو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی دھی رانی ہیں اور ان کے تیور بتا رہے ہیں وہ آئندہ کی وزیر اعظم کے لیے خواب دیکھ رہی ہیں اور وہ اپنے والد کا مقدمہ بھی دوبارہ لڑنا چاہتی ہیں۔ ان کے نزدیک سپریم کورٹ نے غلط فیصلہ دیا تھا۔ ہماری عدلیہ ماضی میں کئی ایسے متنازع فیصلے دیتی رہی ہے۔ جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کو سیاست اور جمہوریت کے لیے امرت دھارا کے طور پر پیش کیا تھا۔

مگر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ نظریہ ضرورت کے تناظر میں دیکھا جائے تو جب بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو انہوں نے محدود نکتہ چینی ضرور کی مگر ملک کی عدلیہ سے رجوع نہیں کیا۔ پھر ان کے شوہر نامدار آصف علی زرداری کو امریکہ اور فوج نے صدر پاکستان بنا دیا۔ وہ بھی باتیں بناتے رہے۔ ان کو تو اتنی توفیق نہ ہوتی کہ اپنی پتنی کے قاتلوں کا سراغ ہی لگا لیتے۔ وہ فوج پر الزام ہی لگاتے رہے۔ ان کے سپوت جو اب وزیر خارجہ ہیں وہ بھی اپنی ماں کے قاتلوں کو نظر انداز کرتے رہے یہ سب کچھ سیاست میں ہو سکتا ہے۔

اب آج کل مریم صفدر اعلیٰ عدلیہ پر بہت تنقید کر رہی ہے۔ وہ اپنا مقدمہ دوبارہ لڑ سکتی ہیں مگر ان کو خوف ہے توشہ خانہ کے تحفے ان کے رنگ میں بھنگ نہ ڈال دیں۔ ان کا بیانیہ ہمارے عسکری اداروں کے لیے بھی قابل فکر ہے۔

ہمارے نظام عدل کا حال دیکھیں۔ سیاست کی اس جنگ میں سابق وزیر اعظم کپتان عمران خان کے بیان کے مطابق ان پر 100 سے زیادہ ایف آئی آر درج ہو چکی ہیں۔ ایف آئی آر کا کیا قانون ہے وہ علیحدہ متنازعہ قانون ہے۔ کیا غلط اور چھوٹی ایف آئی آر پر کوئی سزا ہوتی ہے پھر سیاست میں جمہوریت کے راکھیل ایسا بھونڈا کھیل کیوں کھیل رہے ہیں۔ پھر اس تناظر میں دیکھیں ایک سابق وزیر اعظم اپنے اوپر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج نہیں کرا سکا۔ پھر اس پر فوج جس طریقہ سے سیاسی اشرافیہ تنقید کر رہی ہے۔ کیا اس پر کوئی قانون لاگو ہوتا ہے؟

فوج کا ملکی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں مگر اس کے باوجود عسکری احساس اداروں کے کچھ لوگ سیاست میں ملوث نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان کی فوج ایک قومی ادارہ ہے اس کا واحد کام ملک کا دفاع کرنا ہے۔ اس نازک موڑ پر سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی بہت کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ وہ واحد شخص ہیں جو امریکہ سے بات کر کے آئی ایم ایف کو پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے پر بات کر کے مثبت نتائج بھی حاصل کرنے کا معاملہ کر سکتے ہیں اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو مشکل سے نکال سکتے ہیں۔ مگر حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔

پاکستان اس وقت شدید سیاسی اور مالی مشکلات سے دوچار ہے۔ آئی ایم ایف والے پاکستان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں اور اگلے چار ہفتوں تک آئی ایم ایف کی مدد نہ آئی تو ملک عملی طور پر دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ مگر ہماری سرکار سیاست کے تناظر میں ایسے اقدامات کر رہی ہے جو آئی ایم ایف کو معاہدہ کے حوالہ سے قبول نہیں۔ پھر سرکار کی مشکلات میں جناب وزیر داخلہ کا کردار بہت اہم ہے۔ ان کے نرگسی بیان سیاست کو مزید بے توقیر کر رہے ہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان اپنی سیاسی جنگ بڑے طریقہ سے لڑ رہا ہے۔ اس ساری صورت حال میں عوام کی مایوسی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ نے بہت ہی مایوس کیا اور اس پر ہماری عدلیہ میں سیاسی اشرافیہ کے کارن جو پھوٹ پڑی ہے اس نے قانون اور آئین کے وقار کو بہت ہی نقصان سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ ان تمام مشکلات کا حل انتخابات کے بعد بھی نظر نہیں آتا۔ اس وقت ضرورت ہے سرکار اپنی متکبرانہ روش بدلے اور اپنے اختیارات کو لگا دے۔ عدلیہ کے بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ آئین میں درج اصولوں کو ہر ممکن طریقہ پورا کیا جائے۔ فوج سیاسی اشرافیہ سے مکالمہ کرے اور قابل عمل تبدیلیوں کے ساتھ انتخابات کی بات کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments