کہانی نگار، شاعر، فلمساز اور ہدایت کار ڈاکٹر حسن زی


نگار ویکلی کے نامور لکھنے والے مرحوم اقبال راہی کی معرفت ڈاکٹر حسن زی سے غائبانہ شناسائی تھی لیکن پھر مرحوم کی دعوت پر لاہور کے ایک مقامی آڈیٹوریم میں ڈاکٹر صاحب کی فلم ”گڑوی“ کی تقریب میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر موصوف سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے بعد اداکارہ صابرہ سلطانہ کے ذریعہ ڈاکٹر زی سے فون پر رابطہ ہوا جو اب تک قائم ہے۔

میں جمعرات 6 اپریل کو افطار سے کچھ پہلے ڈاکٹر حسن زی کے ہاں بحریہ ٹاؤن پہنچا۔ افطار کے بعد ڈاکٹر صاحب کی ہمشیرہ نساء کے ہاتھ کا بنا ہوا کابلی پلاؤ کھایا۔ کیا پلاؤ تھا! میں تو اپنی انگلیاں چاٹتا رہ گیا۔ کمال ہی ذائقہ دار تھا۔ اسے کھا کر یہ راز کھلا کہ ڈاکٹر حسن دوڑ کر پاکستان کیوں آتے ہیں! بہن کے ہاتھ کے بنے ہوئے مزیدار کھانے سان فرانسسکو میں کہاں؟ میں نے ان سے کہا کہ ایک اور افطار ادھار ہے۔ ان سے بہت دلچسپ نشست رہی جو پڑھنے والوں کے لئے حا ضر ہے :

” پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ ڈاکٹر زی کیوں کہلاتے ہیں؟“ ۔

” (مسکراتے ہوئے ) میں چکوال، پاکستان میں پیدا ہوا۔ 28 برس کی عمر میں امریکہ آ گیا۔ مجھے تو پہلے ہی فلموں سے لگاؤ تھا جب یہاں امریکہ آیا تو ایک مختصر فلم بنانے کا موقع ملا۔ ندیم، شبنم وغیرہ فلمی نام ہیں اور فلمی نام بڑی آسانی سے زبان پر چڑھ جاتا ہے۔ میں بھی چاہتا تھا کہ امریکیوں کے لئے میرا نام لینا بہت آسان ہو پھر مجھے انگریزی حرف ’زی‘ بہت پسند بھی ہے! ماں باپ نے میرا نام فیاض الحسن رکھا جب کہ میرا فلمی، فنکارانہ اور اسٹیج نام ڈاکٹر حسن ذی ہے! “

” آپ کو ہر خاص و عام ڈاکٹر کہہ کر مخاطب کرتا ہے تو کیا آپ نے فلم تکنیک اور سنیماٹا گرافی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے؟“ ۔

” ( ہنستے ہوئے ) میڈیکل ڈاکٹر ہوں۔ ہوا یوں کہ جب چھ سال کی عمر میں پہلی فلم دیکھی تو پختہ ارادہ کیا کہ میں بھی یہ سب کروں گا۔ مجھے اس وقت بھی فلم میں سب سے زیادہ اہم چیز اس کی کہانی لگی۔ اسی لئے میں بھی کہانیاں لکھنے لگا۔ میری پہلی کہانی آٹھ سال کی عمر میں اخبار جہاں میں شائع ہوئی۔ پھر ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں دس سال کام کیا۔ اس کے بعد این ٹی ایم ( نیٹ ورک ٹیلی وژن مارکیٹنگ ) میں بچوں کے کارٹون کی آڈیو ڈبنگ میں اپنی آواز کو استعمال کیا۔ لیکن اس کے ساتھ میں نے پڑھائی کو فوقیت دی۔ پھر مجھے میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ میرے والدین کی بھی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ میں تعلیم کے ساتھ ریڈیو پاکستان میں کام کرتا تھا۔

” بجھتا ہوا دیا“ نام کے ڈرامے کو پاکستان ٹیلی وژن اسلام آباد مرکز سے ڈائریکٹ کیا۔ اس کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ چلا آیا اور پریکٹس شروع کر دی ”۔

” آپ کی آنے والی فلم“ سان فرانسسکو کاؤ بوائے ”کا اسکرپٹ دیکھ کر ہالی وڈ کی ایک نامور شخصیت نے اس کی تعریف کی تھی، کچھ اس کے بارے میں بتائیے؟“ ۔

” جب یہ اسکرپٹ ہالی وڈ کے سینئیر تجزیہ کار ’جیف کمبل‘ کو تجزیہ کے لئے بھیجا گیا تو انہوں نے اس کو بہت سراہا۔ اور کہا کہ یہ امریکن آسکر یافتہ فلموں : وارنر برادرز پکچرز اور ہدایتکار ٹاڈ فلیپ کی فلم“ جوکر ” ( 2019 ) اور جیروم ہیلی مین پروڈکشن، تقسیم کار یونائٹڈ آرٹسٹس اور ہدایتکار جان شی زنگر کی فلم“ مڈ نائٹ کاؤ بوائے ” ( 1969 ) کے پائے کا اسکرین پلے ہے۔ یہ میرے لئے ایک بہت بڑے اعزاز کی بات تھی“ ۔

فلم ”سان فرانسسکو کاؤ بوائے“ کی کاسٹنگ کی دلچسپ کہانی:
” کیا آپ کی اس فلم میں سب نئے اداکار ہیں؟ ان کے ساتھ آپ کا تجربہ کیسا رہا؟“ ۔

” میری فلم“ سان فرانسسکو کاؤ بوائے ”کی کاسٹنگ خود بہت دل چسپ رہی۔ فلم کی اصل کہانی اٹھارہ سال پہلے میرے ذہن میں آئی تھی۔ سان فرانسسکو شہر کے ڈاؤن ٹاؤن میں مجھے ایک کردار ملا۔ میں اس کے ساتھ بیٹھا اور چائے کافی پی۔ پھر جب اس سے اس کی زندگی کی کہانی سنی تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے! وہاں سے فلمی کہانی کی بنیاد شروع ہوئی۔ میں نے کہانی لکھی بھی لیکن اس وقت کچھ ایسے حالات پیش آئے اور میری صحت بھی ناساز ہو گئی اور یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اور میں نے یہ منصوبہ ملتوی کر دیا“ ۔

” شاید قدرت کی طرف سے ابھی اس فلم کے لئے موزوں وقت نہیں تھا۔ اس کے بجائے میں نے دوسری فلمیں :“ نائٹ آف حنا ”( 2005 ) ،“ بائیسیکل برائیڈ ” ( 2010 ) ،“ ہاؤس آف ٹیمپٹیشن ” ( 2014 ) ،“ گڈ مارننگ پاکستان ”( 2018 ) ،“ پاکستانی چین سا، اے لو اسٹوری ”( 2021 ) بنائیں۔ پھر پندرہ سال بعد دوبارہ میرے ذہن میں خیال آیا کہ میں“ سان فرانسسکو کاؤ بوائے ”والے منصوبے پر کام کروں۔ پچھلے چھ سال سے ٹیکساس کے رہنے والے جیفری وین میرے ساتھ مل کر سین لکھتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی میں نے جیفری سے اس نئی فلم کے لئے رابطہ کیا۔ پھر ہم نے اسی کہانی کو دوبارہ لکھا۔ پہلی کہانی ماں کے نقطۂ نظر سے تھی لیکن اب یہ بیٹے کے نقطۂ نظر سے ہو گئی“ ۔

” چوں کہ میں خود بھی شاعر ہوں اور شاعری کے ساتھ ایک دلی وابستگی ہے تو مجھے اس فلم میں اداکار بھی ایسے ہی چاہیے تھے جو میرے دل کی آواز کو پردہ سیمیں تک پہنچا سکیں۔ پھر اس فلم کی کاسٹنگ کا اشتہار، اداکاروں کی ایک بہت بڑی ویب سائٹ، ’بیک اسٹیج‘ پر دیا جہاں امریکی، آسٹریلین اور دنیا بھر سے لاکھوں نئے اور تجربہ کار اداکاروں کے کوائف ہوتے ہیں۔ یہاں سے 450 فنکاروں نے رابطہ کیا۔ اپنی فلم میں ان میں سے کچھ کو منتخب تو کیا لیکن 12 بڑے کرداروں کے لئے ایک بھی موزوں نہ ہو سکا۔

کیوں کہ جنہیں میں کاسٹ کرنا چاہتا تھا وہ یورپی ممالک میں یا پھر نیو یارک میں تھے۔ فلم بناتے ہوئے بہت ساری چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کسی دوسرے ملک سے اداکار کاسٹ کریں گے تو کاسٹنگ سے پہلے اس کے ساتھ بیٹھ کر چائے کافی کیسے پیئیں گے؟ یعنی اپنے کردار کو جانیں گے کیسے؟ کیوں کہ اس اداکار میں سوچے گئے کردار کی جھلک نظر آنا ضروری ہے ”۔

” دلچسپ بات یہ کہ مرکزی کردار کے لئے جو اداکار منتخب ہوا۔ وہ پانچ ملاقاتوں کے بعد کہانی کے پیچیدہ جذباتی سین کی ریہرسل میں جہاں کردار کے آنسو گرتے ہیں، ڈر گیا۔ فون کر کے کہا کہ آپ جو چا ہتے ہیں میں وہ نہیں دے سکتا! ایک اداکار کا یوں سچا ہونا مجھے اچھا لگا“ ۔

” یہ تو بہت بڑی بات ہے! “ ۔ میں نے بے ساختہ کہا۔

” جی ہاں! ورنہ آپ جانتے ہیں کہ اداکار کو آپ موقع دیں تو وہ دوڑے دوڑے آتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ فروری کے آخر میں عکس بندی کرنا تھی۔ اس لئے میں نے ویب سائٹ بیک اسٹیج کے ان افراد کے کوائف دیکھنا شروع کر دیے جنہوں نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا تھا۔ ان میں سے ایک اداکار ’جمی ڈارلنگ‘ کو جب دیکھا تو اس میں اپنے کردار کی تھوڑی سی جھلک نظر آئی لہٰذا اس سے رابطہ کیا“ ۔

” ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں فلم ڈائریکٹر کا کسی غیر معروف اداکار کو فون کرنا ایک بڑی بات مانی جاتی ہے! اس نے کہا کہ میں تقریباً ڈھائی گھنٹے کے فاصلے پر رہتا ہوں لیکن کل آپ کے پاس آؤں گا! جب وہ آیا تو میں تذبذب کا شکار ہو گیا کہ آیا یہ میری فلم کا کردار ’جوش‘ کے لئے مناسب ہے یا نہیں۔ ایک ہی ملاقات میں یہ جاننا تقریباً ناممکن ہے۔ لیکن رات کو مجھے اس اداکار نے فون پر کہا کہ اگر اسے یہ کردار دیا گیا تو وہ اس کے لئے اپنی جان لڑا دے گا! نیز یہ کہ اسے کچھ سین دیے جائیں تو وہ اس کردار کو نبھا سکتا ہے! یہ بات دل کو لگی۔ پھر جب اس نے تیاری سے ایک سین کر کے دکھایا تو مجھے امید ہو گئی کہ یہ ’جوش‘ کا کردار نبھا لے گا ’۔

” ادھر ہم نے ایک لڑکی سارا کو طوائف ’پیرس‘ کے کردار کے لئے منتخب کر لیا۔ وہ ( طوائف ) کیسے کپڑے پہنتی ہیں، کیسا میک اپ کرتی ہیں، متوقع کسٹمر کو کیسے گھیرتی ہیں۔ یہ بہت مشکل ترین کردار تھا۔ جب ریہرسلیں شروع ہوئیں تو اس سے یہ نہیں ہو سکا۔ اب نئی جدوجہد شروع ہوئی۔ تب مجھے ایک لڑکی ’بنی اسٹوئرٹ‘ یاد آئی جو پچھلے دس سالوں سے میری فیس بک پر کہہ رہی تھی کہ کبھی آئندہ کوئی فلم کی تو مجھے ضرور دیکھ لیجیے گا!

میں بھی ایک اداکارہ ہوں اور کچھ فلمیں بھی کر رکھی ہیں۔ اسی دوران وہ میرا انٹرویو کرنے میرے پاس آئی تا کہ وہ اسے اپنی فیس بک پر لگا سکے۔ اس کا لباس، میک اپ دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ گویا میری کردار ’پیرس‘ مجھ سے ملنے آئی ہو! عام طور پر جب کوئی اداکار پہلی مرتبہ آپ سے ملنے آتا ہے تو وہ، وہ نہیں ہوتا جو آپ نے کردار کے لئے سوچا ہوتا ہے۔ وہ تو بعد میں میک اپ یا اداکاری کے ذریعے اس کردار میں ڈھلتا ہے۔ اس وقت تو میں نے اسے کچھ نہیں کہا لیکن اس کی گفتگو، اٹھنا بیٹھنا، چال ڈھال آڈیشن کے طور پر ریکارڈ کر لیا۔ جب میں نے یہ دیکھا تو یوں لگا جیسے یہ میرا بنا بنایا کردار ’پیرس‘ ہے! یوں فلم کے ہیرو اور ہیروئن کا انتخاب ہوا ”۔

” ڈاکٹر صاحب پاکستان ٹیلی وژن میں ہمارے زمانے میں پہلے تمام ڈرامہ کاسٹ ایک ساتھ بیٹھ کر اسکرپٹ پڑھتی، پھر کیمرہ ریہرسل او کے ہونے کے بعد کہیں جا کر عکس بندی ہوتی۔ کیا آپ کے ہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” میری فلم“ سان فرانسسکو کاؤ بوائے ”کے تین کردار میرے لئے بہت اہم تھے۔ ایک 21 سالہ لڑکا ’جوش‘ کا کردار جو اپنی ماں کو تلاش کرنے سان فرانسسکو جاتا ہے، دوسرا کردار ماں کا ہے اور تیسرا سان فرانسسکو میں جوش کا مددگار دوست! یہ کردار اپنے اندر منفی اور مثبت دونوں اثرات رکھتا اور دل میں جوش کے لئے نفرت بھی رکھتا ہے۔ اب میرا طریقۂ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے کردار کی جھلک اس اداکار میں دیکھتا ہوں۔ جب مطلوبہ جھلک مل جائے تو پانچ سے چھ گھنٹے اس اداکار کے ساتھ ون ٹو ون بیٹھ کر اس کی زندگی کی کہانیاں سنتا ہوں۔ پھر یہ دیکھتا ہوں کہ کیا یہ اس کردار میں ڈھل بھی سکے گا؟“ ۔

” اداکاری دو طرح کی ہوتی ہے : ایک میتھڈ اور دوسری مائزنر۔ میتھڈ ایکٹنگ میں یہ ہوتا ہے کہ اداکار کے ساتھ جو بھی بیتی ہوتی ہے وہ اس کو اپنے کردار کے اندر لے کر آتا ہے۔ ہم ان پانچ گھنٹوں میں فلم کے جس جس سین میں وہ اداکار ہے اس کے متعلق بات کرتے ہیں۔ پھر وہ پوچھتا ہے کہ میں اس سے کس طرح یہ کردار ادا کروانا چاہتا ہوں! پھر میں اداکار کو دو ہفتوں کے لئے جانے دیتا ہوں کیوں کہ اس نے اپنے سین / مکالمے یاد کرنا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جب یہ اداکار سیٹ پر آتے ہیں تو ہم ایک کیمرہ ریہرسل کرتے ہیں جس میں کہاں سے بولنا اور کہاں ختم کرنا ہے، روشنی کیسے کرنی ہے اور کیمرہ/کیمرے کہاں رکھے جائیں گے۔ اسکرپٹ یاد کرنا، سین کے جذبات و احساسات، مکالموں یا آواز کا اتار چڑھاؤ اس اداکار سے کروا نے کے بعد اس سے معاہدہ کیا جاتا ہے! “ ۔

فلم کی عکس بندی کے لئے عرق ریزی:

” آپ کی یہ فائل دیکھی جس میں شوٹنگ اسکرپٹ، اسکرین پلے اور ترتیب کاری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فلم کی عکس بندی کے لئے کتنی عرق ریزی کی گئی۔ کچھ اس بارے میں بتائیے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” بالکل صحیح بات ہے کہ فلم کی پروڈکشن شروع ہونے سے پہلے، میں نے تین مہینے روزانہ بغیر وقفے کے بارہ گھنٹے اس کی تیاری میں لگائے۔ ایک فلم کو بنانے میں سب سے پہلے فلم کے تکنیک کار اور ہنر مند کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان میں کیمرے سے متعلق افراد، روشنی کے ذمہ دار، شعبہ میک اپ کے لوگ پھر اداکار۔ تو میری ٹیم میں تقریبا 60 افراد نے کام کیا۔ اب ان تمام افراد کے شیڈول کو دیکھنا پھر یہ کہ آیا یہ لوگ اس قابل بھی ہیں کہ اتنے بڑے منصوبے پر وقت پر پہنچ کر کام کریں۔

یہ تجزیہ اور اندازہ کرنے کے لئے میں اپنے آپ کو تین مہینے کا وقت دیتا ہوں! اس طرح تین ماہ اس کی تیاری ہے۔ پھر اس کے بعد جب ہر ایک چیز پانی کی طرح شفاف ہو جائے، ریہرسلیں اطمینان بخش ہو جائیں تب طے کیا جاتا ہے کہ روشنی کہاں اور کیسے کرنی ہے؟ کہاں پر کیا شوٹ کرنا ہے؟ کون سے اداکار اور عملے کے کتنے افراد درکار ہوں گے؟ کون کون سا سامان درکار ہو گا؟ ڈرونز کی کب کب ضرورت ہو گی؟ بڑی لائٹیں کلبوں کے اندر کب لگانا ہوں گی؟

ان تین مہینوں کی بھرپور تیاری کے بعد پوری ٹیم مل جل کر کام کرنے میں جت جاتی ہے۔ اسی ٹیم ورک نے مقررہ وقت پر میری فلم مکمل کرنا ہوتا ہے۔ فلم میں کام کرنے والے تمام 60 افراد کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جاتا ہے خواہ کوئی کتنا ہی بڑا فنکار، آسکر یافتہ ٹیکنیشین ہی کیوں نہ ہو۔ جب اور جس وقت انہیں بلایا جاتا ہے تو کیا بڑا اور کیا چھوٹا، طے شدہ تاریخوں کے مطابق سب ہی موجود ہوتے ہیں! یہ ریاست ہائے متحدہ میں کوئی غیر معمولی اور ناممکن بات نہیں۔ میں اس سے پہلے بھی 90 منٹ سے زیادہ دورانیے والی پانچ فیچر فلمیں بنا چکا ہوں لہٰذا مجھے علم ہے کہ فلمی منصوبے کو کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے! ”۔

فلم کی عکاسی:

میں نے اس فلم کے کچھ سین دیکھے۔ بلا شبہ یہ ہالی ووڈ کے فی زمانہ معیار پر پورے اترتے ہیں! اس سلسلے میں میرے ذہن میں پہلا نام شعبہ کیمرہ کا آیا۔ لہٰذا میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا:

” فلم“ سان فرانسسکو کاؤ بوائے ”میں اتنی عمدہ عکاسی کے پیچھے کون ہے؟“ ۔

” میں نے 2005 میں ایک فلم“ نائٹ آف حنا ”کی تھی جس کے کیمرہ مین 1941 میں پیدا ہونے والے آسکر یافتہ ’ہیرو نریتا‘ تھے۔ وہ اللہ پاک کی طرف سے ایک نعمت تھی کہ میری پہلی فلم کی عکس بندی کے لئے مجھے ایسے نامور کیمرہ مین ملے۔ اس فلم میں ’میٹ بوائڈ‘ نامی شخص ان کا معاون تھا۔ کوئی پندرہ سال بعد میری دوبارہ میٹ سے ملاقات ہوئی۔ اب وہ بھی خود تین چار ہالی ووڈ کی فلمیں کر چکا تھا۔ جب اس نے اسکرپٹ پڑھا تو کہا خوبصورت ہے جس کی ہالی ووڈ کے مصنف نے بھی توثیق کر رکھی ہے۔

لیکن مارچ کے مہینے میں وہ ہالی ووڈ کی ایک فلم شوٹ کر رہا ہے۔ اس نے اپنے ایک دوست کیمرہ مین ’بینجمن ڈینس‘ سے میرا تعارف کروا نے کا کہا۔ جس کے ساتھ آپ کا مزاج بھی ملے گا۔ میری ملاقات ہوئی اور جب اس نے اسکرین پلے پڑھا تو کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ فلم تو شاعری اور ایسا گیت ہے جسے کوئی ایسا سنیماٹوگرافر ہی کر پائے گا جو اسکرین پلے کو کیمرے کی نظر سے ایک گیت بنا دے۔ کہنے لگا کہ میرے پاس ایک لڑکا ’لیو مورنگ‘ ہے جس کے ساتھ میں کبھی کبھی کام کرتا ہوں۔

وہ ایک لڑکی ’کیرن موائی‘ سے مل کر بہترین عکاسی کرتا ہے۔ یوں میری کیرن اور لیو سے ملاقات ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ میں ان پر بھروسا کر سکتا ہوں کہ یہ مجھے مقرر کردہ مدت میں کام مکمل کر کے دیں گے! ان دونوں نے نہایت خوبصورت انداز میں مختلف کلبوں، گھروں اور سان فرانسسکو شہر میں بیرونی عکس بندی کی۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے کلام کلیمؔ عثمانی کا ہو، وائلن پر جاوید اقبال ہو، استاد نذر حسین کی موسیقی میں ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز ہو، ’رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح۔ ”۔

” واہ واہ! بہت خوب ڈاکٹر صاحب!“ ۔ میں نے بے ساختہ کہا۔
( ڈاکٹر صاحب کی مسکراہٹ)
فلم ایڈیٹنگ:

ایڈیٹنگ / تدوین کاری کسی بھی فلم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ خاص اس کے لئے ڈاکٹر صاحب پاکستان آئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک سوال میرے ذہن میں آیا: ”جب آپ نے سب ہی کچھ سان فرانسسکو میں کر لیا تو ایڈیٹنگ وہاں پر کیوں نہیں کروائی؟“ ۔

” بات یہ ہے کہ میں نے فلم ’سان فرانسسکو کاؤ بوائے‘ امریکی محسوسات کو سامنے رکھ کر بنائی ہے۔ اس کے دیکھنے والے بھی وہی ہیں لیکن میں پاکستان میں پیدا ہوا۔ وہاں لوگ ملنے پر پوچھتے ہیں کہ آپ کہاں سے ہیں؟ تو منہ سے پہلی بات یہی نکلتی ہے کہ میں پاکستانی ہوں! لہٰذا میں اپنی فلم میں تھوڑا سا پاکستانی ذائقہ رکھتا ہوں! سب اداکار، کیمرہ مین اور تکنیکی ہنر مند وہیں کے تھے اور پوری فلم وہیں پر شوٹ ہوئی لیکن فلم کی ایڈیٹنگ میں پاکستان میں آسانی سے کر اور کروا سکتا ہوں۔

اس کے لئے یہاں ایک پچیس سالہ نوجوان طیب نواز ہے۔ یہ بہت با صلاحیت ایڈیٹر ہے۔ یہ میرے ساتھ پانچ سال سے کام کر رہا ہے۔ ایڈیٹر کے ساتھ آپ کا مزاج ملنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ اس نے میرے ساتھ تین فلمیں ایڈیٹ کیں۔ میں انشاء اللہ مئی تک یہ کام مکمل کروا لوں گا۔ پھر اس بہانے پاکستان میں آرام اور سیر سپاٹا بھی ہو جاتا ہے اور محبت بھرے فلمی اور غیر فلمی لوگوں سے ملاقاتیں بھی ہو جاتی ہیں ”۔

” ایک فلمی منصوبے میں سب سے پہلے ہم کہانی لکھتے ہیں، اداکار منتخب کرتے ہیں پھر لوکیشن کی تلاش، میک اپ آرٹسٹ کا انتخاب، اداکاروں کے ملبوسات پھر مکالموں کے ساتھ ان سب کو یکجا کر کے عکس بندی کر نا۔ پھر آخر میں ایڈیٹنگ کا مرحلہ آتا ہے۔ پھر بالآخر جتنی عکس بندی کر رکھی ہے اس میں سے خوبصورت ترین شاٹ نکال کر اسکرین پر چلنے والی فلم بنائی جاتی ہے۔ در اصل فلم تین مرتبہ بنتی ہے۔ پہلی مرتبہ وہ اسکرین پلے کی صورت لکھی جاتی ہے دوسری مرتبہ جب اس اسکرین پلے کے مطابق اداکار، اداکاری کر رہے ہوتے ہیں۔ تیسری اور آخری وہ فلم ہے جو پردہ سیمیں پر جانے کے لئے ایڈیٹر کے ساتھ بیٹھ کر بنتی ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے طیب جیسا اچھا ایڈیٹر ملا! ”۔

انڈیپنڈنٹ اور اسٹوڈیو فلمیں :

ہم انڈیپنڈنٹ فلموں کا ذکر ایک عرصے سے سن رہے ہیں۔ میں نے بھی ہالی ووڈ کی ایسی اچھی اور معیاری فلمیں دیکھی ہیں۔ ان کا متوقع معیار کیا ہوتا ہے؟ کیا کوئی مخصوص دورانیہ والی فلمیں ہی اس زمرے میں آتی ہیں؟ یہ اور ایسے کئی سوال ذہن میں آئے کیوں کہ ڈاکٹر حسن زی بھی انڈیپنڈنٹ فلم ہی بناتے ہیں اس سلسلے میں انہوں نے بتایا:

” انڈیپنڈنٹ سنیما کو انڈیپنڈنٹ سنیما کیوں کہتے ہیں اچھا سوال ہے! جب فلم کی شروعات ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور مملکت جرمنی میں 1800 کے اواخر سے ہوئیں تو ہمیشہ اسٹوڈیو کے اندر ہی فلم بنتی تھی۔ تمام لاگت اور بجٹ اسٹوڈیو کا ہوتا۔ اس کو اسٹوڈیو فلم کہا جاتا ہے۔ ہالی ووڈ کی بیشتر فلمیں اسٹوڈیو کے اندر بنتی ہیں۔ لیکن انڈیپنڈنٹ فلم میں مجھ جیسا ایک آرٹسٹ اسٹوڈیو کے بجائے آزادانہ کہانی لکھ کر اسے ایک محدود بجٹ کے اندر بنانا چاہتا ہے۔ میں نے تمام فلمیں اسٹوڈیو سے ہٹ کر آزادانہ اپنی مرضی اور اپنے پیسوں سے ہی بنائی ہیں۔ اسی وجہ سے آزاد یا انڈیپنڈنٹ فلمیں کہلائیں کیوں کہ ان میں کسی بھی طور سے اسٹوڈیو کا عمل دخل نہیں ہوتا“ ۔

” ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں انڈیپنڈنٹ فلم کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ 120 منٹ اور کم سے کم 90 منٹ ہوتا ہے۔ ان میں فیچر فلمیں بھی شامل ہیں۔ کیوں کہ تھیٹر، ٹیلی وژن یا جہاں جہاں یہ فلمیں چلتی ہیں وہاں ان کا یہ دورانیہ طے ہو چکا ہے۔ نیز آج کل کے عوام لمبے دورانیہ کی فلمیں دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ فلم تو تفریح کے لئے ہوتی ہے۔ 90 منٹ میں اگر ایک فلم مکمل ہو جائے تو یہ مناسب دورانیہ مانا جاتا ہے۔ آج کل لوگوں نے اپنے گھروں میں آن لائن بڑے بڑے سنیما بنا رکھے ہیں۔ اب سنیما، سنیما گھروں کے بجائے گھروں میں چلا گیا ہے“ ۔

” کل میں نے اپنی فلم“ سان فرانسسکو کاؤ بوائے ”کا رف کٹ مکمل کیا ہے۔ یہ 112 منٹ کی بنی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ نوے سے سو منٹ کی بن جائے۔ لیکن پھر کئی دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کہانی کو بہت زیادہ ہی کاٹ دیں تو کہانی کا رنگ اور جذبات کم دورانیہ میں نہیں سموئے جا سکتے۔ اگر دورانیہ ایک سو پانچ یا ایک سو دس منٹ بھی ہو جائے تو قابل قبول ہے۔ لیکن کوشش ہوتی ہے کہ یہ 100 منٹ تک ہی محدود رہے“ ۔

رف کٹ فائنل کٹ اور ڈائریکٹر کٹ:

فلموں سے متعلق تین اصطلاحات : رف کٹ، فائنل کٹ اور ڈائریکٹر کٹ کے بارے میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا:

” فلم کی عکس بندی مکمل ہو نے کے بعد ڈائریکٹر، ایڈیٹر کے ساتھ مل کر فلم کے خوبصورت شاٹ پرو کر کہانی کی شکل دیتا ہے۔ فلم ایڈیٹنگ کو ہالی ووڈ کے ابتدائی دور میں فلم کٹنگ کہا جاتا تھا۔ اس لحاظ سے پہلی ایڈیٹنگ یا کٹنگ فرسٹ کٹ یا رف کٹ کہلاتی ہے۔ اس فلم کا رف کٹ 112 منٹ کا بنا ہے۔ لیکن میری فلم“ گڈ مارننگ پاکستان ” ( 2018 ) کا پہلا یا رف کٹ ڈھائی گھنٹے کا بنا تھا“ ۔

” اوہ“ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔

یہاں یہ بات پڑھنے والوں کو دلچسپ لگے گی کہ میں بھی جب 1985 میں فلم اور ٹیلی وژن کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے ’کولمبیا کالج شکاگو‘ اور کولمبیا براڈکاسٹنگ سسٹم کی فلم/ ٹی وی سٹی، ہالی ووڈ لاس اینجلس گیا تو مجھے بھی ابتدا میں پانچ ’سی‘ سکھلائے گئے تھے : کیمرہ اینگلز، کنٹی نیوئٹی، کٹنگ، کلوز اپس اور کمپوزیشن۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ”جیسے جیسے میں اور فلمیں بنا رہا ہوں میں سیکھ رہا ہوں کہ اگر رف کٹ میں صرف ضرورت کے ہی شاٹ شامل کریں تب بھی زندگی کی طرح فلم ایڈیٹنگ بھی جان سے عزیز شاٹ کی قربانی مانگتی ہے۔ آپ اپنے بہت سے خوبصورت شاٹ رف کٹ میں شامل نہیں کرتے۔ واقعی 112 منٹ کا رف کٹ بنانا کمال کی بات ہے! اب بارہ منٹ کاٹ بھی دیے جائیں تو فلم کو کوئی دھچکا نہیں لگے گا“ ۔

” فائنل کٹ وہ ہے جو پردہ اسکرین پر چلنے کو بالکل تیار ہوتا ہے۔ پکچر ایڈیٹنگ کوئی اور کرتا ہے اور ساؤنڈ ایڈیٹنگ کوئی اور! ہم فائنل کٹ بنا کر ساؤنڈ والوں کو بھیجتے ہیں۔ اس میں یہ چار شعبہ جات آتے ہیں : مکالمے، صوتی اثرات، پس منظر موسیقی اور ’ ایمبی اینس‘ یعنی گرد و پیش اور ماحول کو آواز سے حقیقت کا روپ دینا۔ اس کو شامل کر کے فائنل کٹ تیار ہوتا ہے ”۔

” اب آتا ہے ڈائریکٹر کٹ۔ ہدایتکار اپنی فلم اور کہانی سے دلی وابستگی رکھتے ہیں۔ فلم کی کہانی سے انہیں بچوں کی طرح پیار ہوتا ہے۔ اب فلم تقسیم کار کو 90 منٹ کی فلم چاہیے۔ وہ 95 منٹ سے زیادہ فلم نہیں لیتا۔ ادھر ڈائریکٹر اپنے نکالنے والی فوٹیج / شاٹ کو حسرت بھری نگاہوں سے تکتا رہتا ہے۔ کیسے فلم سے جدا کروں۔ اب وہ اپنے لئے ایک کٹ بناتا ہے جس میں نکالی گئی من پسند فوٹیج شامل ہوتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ پرانی فلموں کے ڈائریکٹر کٹ ڈھائی ڈھائی گھنٹے کے بھی ہیں!

ڈائریکٹر جس طرح سے اپنی فلم دکھانا چاہتا ہے اسے ڈائریکٹر کٹ کہتے ہیں۔ تھیٹر میں ڈائریکٹر کٹ نہیں چلتا۔ سنیما مالک اور فلم کے تقسیم کار کا ایک مخصوص ٹائم سلاٹ یا مقرر کردہ وقت ہوتا ہے۔ عوام بھی اسی مدت میں فلم دیکھ کر جانے کی توقع کرتے ہیں۔ البتہ ڈائریکٹر اپنا کٹ ڈی وی ڈی، آن لائن وغیرہ پر ریلیز کرتا ہے۔ بہت سے لوگ ڈائریکٹر کٹ بھی دیکھنا پسند کرتے ہیں کہ کون کون سے نکالے گئے سین ڈائریکٹر نے واپس ڈال دیے! یہ بھی فلم سے محبت کا ایک انداز ہے ”۔

” فلم بنانا بھی ایک خوبصورت فن ہے! بچپن میں پہلی فلم“ ارمان ” ( 1966 ) دیکھی وہ وحید مراد اور زیبا کی تھی۔ تب سے میرے اندر ایک ہلچل سی مچ گئی کہ میں بھی فلمیں بناؤں گا۔ اسی طرح جب میں نے پہلا نگار ویکلی خریدا تو اس وقت میں بارہ سال کا تھا۔ فنکاروں کی تصاویر دیکھ کر سوچتا کہ میں بھی دیبا، وحید مراد، ندیم، شبنم، زیبا وغیرہ کے ساتھ کام کروں گا۔ جب آپ محنت اور لگن سے کام کرتے ہیں تو ایک دن آپ بھی اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں! “ ۔

حاصل ہونے والے ایوارڈ اور اعزازات:

اس طرح ڈاکٹر حسن زی میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور فلمیں بنانا ان کا شوق ہے! اب تک انہوں نے 6 فلمیں بنائی ہیں۔ ان میں کئی ایک کو ایوارڈ بھی ملے :

فلم ”مائی فرسٹ کس“ ( 2001 ) کو ’فلم آرٹس فاؤنڈیشن‘ کی جانب سے بیسٹ ایکٹر ایوارڈ حاصل ہوا۔
فلم ”نائٹ آف حنا“ ( 2005 ) کو ’پانا وژن‘ کی جانب سے ایوارڈ دیا گیا۔
فلم ”بائیسیکل برائیڈ“ ( 2010 ) کو ’ساؤتھ اپلاچین فلم فیسٹیول‘ میں ’بیسٹ فیچر فلم ایوارڈ‘ ملا۔
اسی فلم کو ’ویکیول فلم فیسٹیول‘ میں ’بیسٹ بے ایریا ڈائریکٹر‘ کا ایوارڈ ملا۔
مذکورہ فلم کو ’موڈیسٹو بالی ووڈ فلم فیسٹیول‘ میں بیسٹ ڈائریکٹر کا ایوارڈ ’حاصل ہوا۔

فلم ”ہاؤس آف ٹمپٹیشن“ ( 2014 ) کو ’سان فرانسسکو بیسٹ ایکٹر فلم فیسٹیول‘ میں ’بیسٹ سپورٹنگ ایکٹر‘ کا ایوارڈ دیا گیا۔

فلم ”گڈ مارننگ پاکستان“ ( 2018 ) کو ’ہریانہ انٹر نیشنل فلم فیسٹیول‘ ، بھارت ( 2019 ) میں ’آفیشل سیلیکشن‘ کا اعزاز ملا۔

اس کے علاوہ عالمی سطح پر بہت سے فلم فیسٹیول میں ڈاکٹر صاحب کی فلمیں چل چکی ہیں۔ خود یہاں سان فرانسسکو میں انہیں کئی ایوارڈ حاصل ہوئے۔ وہ کہتے ہیں : ”میں سمجھتا ہوں بچپن کے جو فلم کے خواب تھے اب میری زندگی ان خوابوں کی تعبیر بن گئی ہے“ ۔

ڈاکٹر زی اور شاعری:

” آپ نے شاعری کی بھی ہے تو ایسی انڈیپنڈنٹ فلم کیوں نہیں بناتے جس میں اپنی لکھی ہوئی غزل اور گیتوں کی اپنی مرضی کی دھنیں بنوائیں؟“ ۔

” جی بالکل! شروع ہی سے مجھے شاعری کا بے حد شوق تھا۔ جب میں میڈیکل کالج میں تھا تو وہاں ایک مشاعرہ ہوا جس میں منیرؔ نیازی بھی آئے۔ میں نے وہاں ایک قطعہ پڑھا :

میں تو احساس ندامت سے مرا جاتا ہوں
اور وہ احسان پہ احسان کیے جاتا ہے
وہ ایک شخص مجھے چھوڑ چکا ہے پھر بھی
میرے خوابوں میں خیالوں میں چلا آتا ہے

اس قطعہ پر منیرؔ نیازی صاحب نے مجھے بہت سراہا اور کہا کہ بیٹا لکھتے رہو! اس سے میری بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس کے بعد بھی میں نے اشعار کہے اور لکھے۔ چوں کہ بنیادی طور پر میں کہانی کار ہوں لہٰذا میں نے بہت سی کہانیاں لکھیں۔ لیکن صحیح معنوں میں میرا ذریعہ اظہار فلم ہے۔ کیوں کہ مجھے فلم کے ساتھ انسیت ہے۔ اسی شاعری کو میں فلم کے ذریعہ بیان کرتا ہوں۔ ابھی اپنی نئی فلم ”سان فرانسسکو کاؤ بوائے“ میں ہم نے اداکاروں سے امریکی انگریزی شاعری ادا کروائی ہے۔ زندگی میں موقع ملا تو کسی موسیقار سے بات کر کے یہ کام بھی کرواؤں گا۔ گلو کار رحیم شاہ سے میری بات چیت ہوئی تھی ”۔

ایک غلط تاثر اور آگہی کی کمی:

انڈیپنڈنٹ سنیما سے متعلق غلط تاثر ہے کہ یہ تیسرے درجے کی فلمیں ہوتی ہیں جن کو نہایت کم بجٹ سے بنایا جاتا ہے۔ بنانے والے بس شوق کی تسکین کی خاطر فلم بناتے ہیں۔ ان فلموں کی کہانی، اداکاری وغیرہ برائے نام ہی ہوتی ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر حسن نے بتایا:

” نہیں یہ سوچ درست نہیں! ہمارے ہاں آگہی کی بہت کمی ہے۔ دنیا میں سالانہ بے شمار انڈیپنڈنٹ فلمیں بنتی ہیں۔ ان کے تھیٹر بھی مخصوص ہوتے ہیں۔ ان کے دیکھنے والے اور پذیرائی کرنے والے بھی کم نہیں۔ یہ بہت پیسہ بھی کما کر دیتی ہیں۔ انڈیپنڈنٹ کا مطلب ہر گز نہیں کہ یہ کم تر ہیں! ریاست ہائے متحدہ امریکہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، جاپان وغیرہ میں ہر سال نہایت اعلی معیار کی انڈیپنڈنٹ فلمیں بنتی ہیں جو کسی بھی پیشہ وارانہ معیار کی کسوٹی پر پوری اترتی ہیں۔

ان کے سین بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ 1960 اور 1970 کی دہائی میں بھارت میں آرٹ فلمیں بنتی تھیں۔ جن میں شبانہ اعظمی، راج ببر، سمیتا پاٹیل، نصیر الدین شاہ کام کرتے تھے۔ یہ تمام افراد انڈیپنڈنٹ سنیما سے کمرشل سنیما کی طرف آئے۔ تو ان سب کو متعارف اور بڑا اداکار بنانے والی انڈیپنڈنٹ فلمیں ہی تھیں۔ آپ نے بھی ”سان فرانسسکو کاؤ بوائے“ کا ایک سین دیکھا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ایک دن پاکستانی عوام بھی یہ فلم دیکھیں اور پسند کریں گے ”۔

فلم ”سان فرانسسکو کاؤ بوائے“ کے لئے میں ڈاکٹر حسن زی فیس بک پر ایک پیج بنا رہے ہیں۔ یہاں شائقین کو اس فلم کے اداکاروں کی بات چیت، سین کی فوٹیج، تصاویر دیکھنے کو ملیں گی۔ عوام کے تبصرے بھی شامل ہوں گے۔

فلموں کا موضوع:

” ڈاکٹر صاحب آپ کی اس سے پہلے والی فلموں میں مشرق کی کہانی ہوتی تھی اب تو موضوع بھی وہاں کا، اداکار اور دیکھنے والے بھی وہاں کے۔ آپ اس کام میں کیوں پڑے؟“ ۔

” جب میں آج سے 22 سال پہلے امریکہ آیا تو میری ملاقات ہالی ووڈ کے کہانی نویسوں اور فلمسازوں سے ہوئی۔ میں نے ان سے سیکھا کہ ان کہانیوں کو منتخب کریں جن کو آپ سمجھتے ہوں۔ میں چوں کہ پاکستانی ماحول میں پلا بڑا تھا لہٰذا پاکستانی اور مشرق کی کہانیوں کو سمجھتا تھا۔ اس لئے میں نے انہی موضوعات پر فلمیں بنائیں۔ جیسے“ نائٹ آف حنا ” ( 2005 ) پاکستان سے امریکہ جانے والی ایک لڑکی کی آپ بیتی ہے۔ پھر دوسری فلم“ بائیسیکل برائیڈ ” ( 2010 ) امریکہ میں بچوں کی مرضی کے خلاف ارینج میریج کے اسباب اور نتائج پر مبنی کہانی ہے۔

پھر بتدریج میں امریکی ماحول سے واقف ہوتا چلا گیا۔ میں وہاں رہتا ہوں اور میرے فن کی پذیرائی کرنے والے بھی امریکی ہی ہیں اسی لئے یہ 2023 میں بننے ولی اپنی نئی فلم ”سان فرینسسکو کاؤ بوائے“ مکمل طور پر ایک امریکن فلم ہے۔ اس سے پہلے میں نے پاکستانی اور ایشین ممالک کی کہانیاں فلمائیں۔ جو مختلف فلم فیسٹیول میں چلیں۔ اب میں چاہتا تھا کہ ایک ایسا موضوع چنوں جو امریکی اثر پذیری اور حساسیت کو چھوتا ہوا ہو۔ امریکہ میں آج کل اسقاط حمل کے حقوق پر بہت کام ہو رہا ہے کہ آیا عورت کو یہ اسقاط حمل کا حق ہونا چاہیے؟

جب کہ ہمارے ہاں اس موضوع کو مختلف طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ادھر امریکہ میں اس پر بہت زیادہ بحث چل رہی ہے۔ میری اس فلم کے دیکھنے والے امریکی ہیں اور فلم کا موضوع بھی اسقاط حمل کے حقوق ہے۔ اس تھیم کو سمجھنے کے لئے مجھے خاصی تحقیق کرنا پڑی۔ مصنف جیفری وین ٹیکساس سے ہے۔ اس فلم کی ایڈیٹنگ آج کل پاکستان میں چل رہی ہے۔ انسانی کہانیاں خواہ پاکستان کی ہوں، مشرقی یا مغربی ممالک کی ہوں سب ہی انسانوں کے جذبات و احساسات کی عکاس ہوتی ہیں! البتہ ان کی حساسیت اور زاویہ نگاہ جدا جدا ہو سکتے ہیں ”۔

مجھے اور تمام پاکستانیوں کو فخر ہے کہ ڈاکٹر حسن زی کی صورت ہم میں بین الاقوامی معیار کی فلمیں بنانے والا ایک با صلاحیت پاکستانی موجود ہے۔ یہ بہت ہی خوبصورتی سے میڈیکل پریکٹس اور فلمسازی میں توازن قائم کیے ہوئے ہیں۔ ماشاء اللہ وہ جتنے کامیاب فلمساز اور ہدایتکار ہیں اتنے ہی کامیاب میڈیکل ڈاکٹر بھی ہیں! یہ بات ان کے زیر علاج اور کامیاب علاج کے بعد اب مستقل تعلق میں رہنے والے افراد بتاتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ڈاکٹر حسن زی دنیائے فلم میں ایک آفتاب بن کر رہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).