ایزرا پاؤنڈ۔ ملکی غدار، ذہنی بیمار یا عظیم فنکار؟


تعارف


ایزرا پاؤنڈ اپنی زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ایک نہایت ہی متنازعہ فیہہ شخصیت کے مالک رہے۔
ان کی زندگی میں ہی بعض لوگ ان سے شدت سے محبت اور بعض اتنی ہی شدت سے نفرت کرتے تھے۔

ان کی وفات کے پچاس برس بعد آج بھی بعض لوگ انہیں بیسویں صدی کی جدید نظموں کا بہترین فنکار اور بعض انہیں ملک کا سب سے بڑا غدار سمجھتے ہیں۔

ماہرین نفسیات جانتے ہیں کہ ادیبوں ’شاعروں اور دانشوروں کی شخصیات بہت پیچیدہ اور گنجلک ہوتی ہیں۔ وہ عوام و خواص کے لیے ایک معمہ‘ ایک بجھارت اور ایک پہیلی بن جاتی ہیں کیونکہ ان کی شخصیت کے بہت سے رخ ہوتے ہیں اور کئی رخ ایک دوسرے سے متضاد بھی ہوتے ہیں۔ آئیں آج ہم ایزرا پاؤنڈ کی شخصیت کی پہیلی بوجھنے کی کوشش کریں۔

ایزرا پاؤنڈ کی شخصیت کا ایک پہلو ادبی تھا۔ وہ بیسویں صدی کے واحد شاعر ہیں جن کے چار ادبی دوستوں۔ ہیمنگ وے۔ ییٹس۔ ایلیٹ۔ اور ٹیگور کو ادب کا نوبل انعام ملا اور ان سب کی خواہش تھی کہ ایزرا پاؤنڈ کو بھی نوبل انعام ملے لیکن ان کا ادب کا نوبل انعام سیاست کی نظر ہو گیا۔ ایزرا پاؤنڈ نے انگریزی شاعری کو

IMAGISM AND VORTICISM
کے جدید تصورات اور نظریات سے روشناس کرایا۔
کپلنگ کا خیال تھا کہ انگریزی شاعری میں پاؤنڈ کو وہی اہمیت حاصل ہے جو جدید پینٹنگ میں پکاسو کو ہے۔
۔
1885۔ 1908 امریکہ


ایزرا پاؤنڈ کی ہمہ جہت شخصیت اور اس شخصیت کے نفسیاتی و سماجی تضادات کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان کی سوانح عمری کے کچھ حصوں کا مطالعہ کرنا ہو گا۔

ایزرا پاؤنڈ اٹھارہ سو پچاسی میں آئیڈاہو امریکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے ننھیال اور ددھیال دونوں خاندانوں نے دو سو سال پہلے انگلستان سے امریکہ ہجرت کی تھی۔ ایزرا پاؤنڈ اپنے والدین ہومر پاؤنڈ اور ازابیل ویسٹن کی واحد اولاد تھے اسی لیے انہیں بہت ناز و نعم سے پالا گیا تھا۔ وہ بچپن سے ہی حد سے زیادہ ذہین تھے۔ اسی لیے سکول میں بچے انہیں ’پروفیسر‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ایزرا پاؤنڈ کو بچپن سے ہی شاعری کا اتنا شوق تھا کہ انہوں نے گیارہ برس کی عمر سے ہی شعر کہنا شروع کر دیے تھے۔

ایذرا پاؤنڈ کا خاندان سفر کا بہت شوقین تھا۔ ایذرا پاؤنڈ ابھی تیرہ برس کے ہی تھے کہ اپنے خاندان کے ساتھ تین ماہ کے لیے انگلستان کی سیر کرنے چلے گئے۔

پندرہ برس کی عمر میں انہوں نے پینسلوینیا کے فنون لطیفہ کے کالج میں داخلہ لیا۔ انہیں انگریزی ادب پڑھنے کا بہت شوق تھا۔

ایزرا پاؤنڈ ایک عاشق مزاج نوجوان تھے۔ بیس برس کی عمر میں وہ ایک پری رو حسینہ ہلڈا ڈولٹل کی زلف کے اسیر ہو گئے اور ان کے لیے محبت بھری نظمیں لکھنے لگے۔ جب وہ پچیس نظمیں لکھ چکے تو انہوں نے اپنی محبوبہ کو ان نظموں کو مجلد کر کے پیش کیا اور اس مجموعے کا نام رکھا HILDA ’S BOOK۔

اکیس برس کی عمر میں ایزرا پاؤنڈ نے رومانوی زبانوں میں ماسٹرز کیا اور پھر پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا۔

ایزرا پاؤنڈ کی شخصیت میں بغاوت بدرجہ اتم موجود تھی۔ اگر انہیں اپنے اساتذہ کے نظریات سے اختلاف ہوتا تو وہ چبھتے ہوئے سوال پوچھتے اور انہیں چیلنج کرتے۔ اساتذہ نے انہیں بہت روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانے۔ آخر انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا اور وہ اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل نہ کر سکے۔

یونیورسٹی سے نکال دیے جانے کے بعد ایزرا پاؤنڈ نے ایک کالج میں فرانسیسی اور ہسپانوی زبانیں پڑھانا شروع کیں۔ وہاں بھی ان کی باغیانہ شخصیت کی وجہ سے اصحاب بست و کشاد سے ان کے تضادات پیدا ہوئے کیونکہ وہ کالج کے قوانین کی پابندی نہ کرتے تھے۔ چند ماہ بعد انہیں کالج سے بھی نکال دیا گیا کیونکہ وہ کلاس میں سگریٹ پیتے تھے۔

تئیس برس کی عمر میں ’ایزرا پاؤنڈ لندن اور پیرس کے سفر پر گئے اور وہاں کے ادبی حلقوں سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے یورپ ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔

1908۔ 1921 لندن


ایزرا پاؤنڈ انیس سو آٹھ میں لندن گئے تو انہوں نے اسی برس اپنی چوالیس نظموں کے مجموعے کی ایک سو پچاس کاپیاں چھپوائیں۔

اسی سال وہ ایک ڈپریشن کے ایسے دور سے بھی گزرے کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی تمام نظمیں دریا برد کر دیں گے اور پھر کبھی شاعری نہ کریں گے لیکن جب وہ ڈپریشن سے نکلے تو انہوں نے دوبارہ شاعری شروع کر دی۔

لندن کے قیام کے دوران ایزرا پاؤنڈ کی اپنے دور کے جن شاعروں ’ادیبوں اور دانشوروں سے ملاقاتیں ہوئیں ان میں رڈیارڈ کپلنگ اور ایلفریڈ ٹینی سن بھی شامل ہیں۔ ان ادیبوں سے ادبی مکالموں کے دوران ایزرا پائنڈ کو اپنے شاعرانہ خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کا موقف تھا کہ شاعروں کو تجریدی خیالات کے اظہار سے زیادہ توجہ اپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات پر مرکوز کرنی چاہیے۔

لندن میں ایزرا پاؤنڈ وائنر کیفے جایا کرتے تھے۔ یہیں ان کی ملاقات ونڈہیم لوئس سے ہوئی جنہوں نے ایزرا پاؤنڈ کی ادبی زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔

لندن میں ہی ایزرا پاؤنڈ کی ملاقات پہلے ناول نگار اولیویا شیکسپیر اور پھر ان کی بیٹی ڈوروتھی سے ہوئی اور ایزرا پاؤنڈ نے اس کے حسن و جمال کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔ ان دونوں کے راہ و رسم اتنے بڑھے کہ انہوں نے انیس سو چودہ میں شادی کر لی۔

جس دور میں ایزرا پاؤنڈ رومانوی طور پر کامیابی کے زینے طے کر رہے تھے اسی دور میں ان کی تخلیقی زندگی میں بھی ایک وفور آ رہا تھا اور وہ مختلف ادبی مجلوں میں لکھنے لگے تھے۔ اس وفور کی چند مثالیں حاضر خدمت ہیں :

انیس سو بارہ میں ایزرا پاؤنڈ کے مضامین شکاگو کے ایک میگزین
POETRY…MAGAZINE OF VERSE
میں چھپنے شروع ہوئے۔ اس میگزین کے مقالوں میں انہوں نے اپنے جدید شاعری کے نظریات پیش کیے۔
انیس سو تیرہ میں ایزرا پاؤنڈ میگزین
THE EGOIST

کے مدیر بن گئے۔ اس میگزین کی وجہ سے ان کی جن ادیبوں اور شاعروں سے ملاقات ہوئی ان میں ایک جیمز جوئیس بھی تھے۔ اپنے ادبی دوست ڈبلیو بی ییٹس کے کہنے پر ایزرا پاؤنڈ نے جیمز جائیس سے تخلیقات بھیجنے کی درخواست کی اور جوئیس نے اپنی کتاب ڈبلنر کا ایک افسانہ اور اپنے ناول کا ایک باب انہیں چھاپنے کے لیے بھیجا۔

انیس سو چودہ میں ولڈہائم لویس نے ایزرا پاؤنڈ کو اپنے میگزین BLASTمیں لکھنے کی دعوت دی اور ایزرا پاؤنڈ نے

IMAGISM AND VORTICISM
کے موضوع پر ایک پر مغز مقالہ لکھا جو بہت مقبول ہوا۔

انیس سو سترہ میں ایزرا پاؤنڈ نے ایک طویل نظم کے کینٹوز لکھنے شروع کیے۔ وہ نظم پھیلتے پھیلتے کئی دہائیوں میں آٹھ سو صفحات کی کتاب بن گئی۔ اس طویل نظم کے پہلے تین کینٹوز POETRY میگزین کے جون جولائی اور اگست کے شماروں میں چھپے۔

ان نظموں اور مقالوں کی وجہ سے ایزرا پاؤنڈ جدید نظم کے صف اول کے شعرا میں شامل ہو گئے۔

1921۔ 1924 پیرس


لندن میں ایزرا پاؤنڈ کی بیگم زیادہ خوش نہ تھیں اس لیے دونوں نے انیس سو اکیس میں فیصلہ کیا کہ وہ پیرس ہجرت کر جائیں۔

پیرس میں چند سالوں کے قیام کے دوران ایزرا پاؤنڈ کی گرٹروڈ سٹائن اور ارنسٹ ہیمنگ وے جیسے ادیبوں سے ملاقات ہوئی۔

ہیمنگ وے نے ایک دفعہ کہا تھا ’جس طرح کسی شہر سے طوفان گزرے تو شہر کے سب باسی متاثر ہوتے ہیں اسی طرح کسی بھی سنجیدہ شاعر یا ادیب کا ایذرا پاؤنڈ کے ادبی طوفان سے متاثر نہ ہونا ناممکن ہے‘

ایزرا پاؤنڈ کی ٹی ایس ایلیٹ سے گہری ادبی دوستی تھی۔ جب ایلیٹ نے اپنی معراکتہ الآرا طویل نظم
THE WASTE LAND

لکھی تو بڑے شوق سے ایزرا پاؤنڈ کو بھیجی۔ ایزرا پاؤنڈ نے دوستانہ بے تکلفی اور ادبی دیانت داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آدھی نظم یہ کہہ کر نکال دی کہ یہ مصرعے غیر ضروری ہیں۔ ایلیٹ ایزرا پاؤنڈ کی رائے کا اتنا احترام کرتے تھے کہ انہوں نے نہ صرف ایزرا پاؤنڈ کے مشورے قبول کیے بلکہ کتاب چھپی تو اس کا انتساب ایزرا اؤنڈ کے نام کیا اور اس بات کا بھی اقرار کیا کہ وہ ایلیٹ سے بہتر ایڈیٹر اور BETTER CRAFTSMANہیں۔

چھتیس برس کی عمر میں ایزرا پاؤنڈ کی ملاقات ایک امریکی موسیقار اولگا رجز سے ہوئی۔ اولگا یہ جان کر حیران ہوئیں کہ ایزرا پاؤنڈ کو شاعری میں ہی نہیں موسیقی میں بھی گہری دلچسپی تھی۔ اس لیے پہلے ان دونوں کی دوستی ہوئی اور پھر محبت ہو گئی۔

جب ایزرا پاؤنڈ کی بیگم کو اپنے شوہر کی محبوبہ کا پتہ چلا تو وہ حسد کی آگ میں جلنے لگیں اور انہوں نے ایزرا پاؤنڈ سے کہا کہ ہم ملک چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔

ایزرا پاؤنڈ نے اپنی بیگم کی بات مانی اور دونوں اٹلی چلے گئے اور شہر روپولی میں سکونت پذیر ہوئے۔

ایزرا پاؤنڈ کی بیگم ڈوروتھی کو بالکل خبر نہ تھی کہ ایزرا پاؤنڈ کی محبوبہ اولگا بھی ایک کچے دھاگے سے کھنچی اٹلی چلی آئیں گی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments