ایوان سلمی اعوان میں دو دن


سلمی اعوان میری فیس بک فرینڈ ہیں۔ ان کی علمیت اور ادبی قد و قامت سے کون واقف نہیں۔ اگر ان کو اردو سفر ناموں کی بے تاج ملکہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ وہ سیاحت کے ازلی عشق میں مبتلا ہیں۔ کہسار، دریا، سمندر اور اور دنیا کے ہر خطہ سے کشید تاریخ پہ مبنی کبھی سفر نامے تو کبھی تاریخی فکشن کو اس ماہرانہ انداز میں قلمبند کرتی ہیں کہ آپ حیران ہوجائیں۔ ان کے بلا کے مطالعہ اور مشاہدہ کی صلاحیت سے کون کافر ہے جو منکر ہو۔

وہ لوگ جو سلمی اعوان سے ذاتی طور پہ واقف ہیں انہیں اس کا بھی بخوبی اندازہ ہو گا کہ وہ لکھاری ہی نہیں پیدائشی ماں اور ایک صوفی منش انسان بھی ہیں جن کی پٹاری سے دوسروں کے لیے سوائے دعاؤں اور محبت کے کچھ نہیں۔ ظاہر ہے ایسے خالص انسان سے ازلی رشتہ جڑنا تو ہماری ضرورت ہی نہیں اعزاز بھی ہے۔

پچھلے دنوں جب میرا امریکہ سے کراچی جانے کا پروگرام بنا تو سلمی آپا نے انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پورے خلوص سے لاہور آنے کی دعوت دی۔ میری صرف تین ہفتے کی چھٹیاں تھیں جس میں کراچی قیام میں اہم پروگرامز کے علاوہ ترکی کے تین دن بھی شامل تھے۔ میں نے کہا ”سلمی آپا شاید ممکن نہ ہو سکے۔“ مگر انہوں نے گلو گیر اور قدرے جذباتی آواز میں اپنی بڑھتی عمر کے سالوں کا حساب لگاتے ہوئے کچھ اس طرح اصرار کیا کہ ہمارا دل جو پہلے ہی ان کی بے غرض محبت سے سرشار رہتا ہے، بھر آیا۔ لہٰذا طے پایا کہ کراچی سے اپنی عزیز از جاں دوست عفت نوید کے ساتھ دو دن کے لیے ضرور سلمی آپا کی قدم بوسی کی جائے۔

بالا آخر وہ دن بھی آن پہنچا کہ ہم پروگرام کے مطابق کراچی سے لاہور براستہ روڈ سلمی آپا کے گھر پہنچے۔ اس سفر کی داستان اپنے تئیں ایک دلچسپ کہانی ہے جو پھر کبھی سہی۔ بس یہ سمجھ لیں کہ اگر زندگی میں سفر عفت جیسے انسان کی سنگت میں ہو تو وہ رائیگاں نہیں۔

لاہور میں سلمی آپا نے جس والہانہ انداز سے ہمارا استقبال اور قیام کا اہتمام کیا اس پہ ہمیں گمان ہوا جیسے ہم کسی دور دراز ملک سے آنے والی مہمان شہزادیاں ہیں اور وہ مہربان میزبان ملکہ۔ پھر جب ساتھ رہے تو پتہ چلا کہ محبت کی مٹھاس کے اس محل میں ہم جیسی تین اور شہزادیاں بھی ہیں جنہیں لوگ گھریلو ملازمین کہیں گے لیکن وہ سلمی آپا کو امی پکارتی ہیں۔ سلمی آپا کی چاہت اور دلداری کی پھوار ان پہ بھی یکساں ہے۔ محبت کی رنگریز سلمی آپا نے ساتھ رہنے والوں پہ بھی الفت و خلوص کے پکے رنگ چڑھا دیے ہیں۔ ان کی بہو سے لمبی گفتگو رہی تو پتا چلا کہ وہ بھی گھر کی ملازمین بچیوں کی پوری ذمہ داری سے حفاظت اور اولاد کی سی محبت دیتی ہیں۔ گھرکی مثالی سجاوٹ بھی بہو کے جمالیاتی ذوق اور تخلیقی طبیعت کا معجزہ ہے۔

دو دن کے مختصر قیام میں سلمی آپا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ صبح پہنچنے کے بعد ناشتے سے لے کر اگلے دن جاتے سمے تک، وہ دو برس کی خاطر داری کر ڈالیں۔ تفصیلات میں جانا ممکن نہیں۔ شاید اکثر لوگوں کے لیے اپنے مہمانوں کی تواضع کے لیے انواع و اقسام کی خورد و نوش اشیا کی پرتکلف سجاوٹ تو ممکن ہو لیکن اس میں محبت کی وہ چاشنی کہاں کہ جس سے سلمی آپا کا وجود گندھا ہوا ہے۔

میرے لیے یہ بھلانا مشکل ہے کہ باوجود جوڑوں اور گھٹنوں میں درد کے سلمی آپا نے بڑی محبت سے اپنے ہاتھ سے مکئی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ بنا کے کچھ اس قدر اصرار سے کھلایا کہ مجھے اپنی امی یاد آ گئیں۔ جو بہت محبت سے توے سے اتری گرم روٹی پہ مکھن اور چائے بصد اصرار کھلاتیں۔ ماؤں کو اس طرح کھلانے میں جو تسکین ملتی ہے اس کا ذائقہ چکھنے کے لیے مجھے خود ماں بننا پڑا۔ یہ بھی اچھی بات تھی کہ لاہور کی شاعرہ ملیحہ سید کو بھی اس محبت سے بنے کھانے کو نوش کرنے کا موقعہ ملا جو عفت سے ملنے آئی تھیں۔

سلمیٰ آپا کم وقت میں ہمارے لیے بہت کچھ کرنے کے لیے بے چین تھیں۔ مجھے لگا وہ زندگی کے ہر لمحہ سے معنویت کے عطر کو کشید کرنے کی عادی ہیں۔ شاید اپنی زندگی کے تجربات سے انہوں نے یہی سبق سیکھا ہے کہ اگر وقعت بنانی ہے تو وقت کو اثاثہ سمجھو۔ یہی گر اپناتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی میں سخت محنت اور دانشمندی سے قسمت کی دیوی کو اپنا تابع کیا۔ وہ کئی کتابوں کی مصنفہ ہی نہیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کئی سکولوں کے کیمپس کی کامیاب منتظم اعلیٰ بھی ہیں۔

ہمارے لاہور آنے سے پہلے ہی انہوں نے سوچ رکھا تھا کہ ہمیں ہماری خواہش کے مطابق کن لوگوں کے درشن کروانے ہیں اور کن پروگرامز میں شرکت کرنی ہے۔ مثلاً چینی ریسٹورنٹ میں پرتکلف لنچ کی دعوت دے کر ان تمام پیارے مشترکہ فیس بک دوستوں سے ملاقات کا اہتمام جنہیں دیکھنے اور ملنے کی خواہش میرے اور عفت کے دل میں یکساں اور بھرپور تھی۔ ملنسار وجاہت مسعود اور ان کی ہم خیال اہلیہ تنویر جہاں، عدنان کاکڑ جن سے مل اندازہ ہوا کہ وہ کڑک ایڈیٹر ضرور ہوں گے مگر اصل میں خاصے نرم خو ہیں۔

نمایاں قلمکار مریم ارشد اور نیلم بشیر تو خود ہماری پرزور فرمائش پہ تھیں۔ پھر صحافت کے میدان میں نوجوان اور توانا آواز سعدیہ قریشی، کئی کتابوں کی مصنفہ بلقیس ریاض اور سیما پیروز کے علاوہ نامور شاعر شعیب بن عزیز۔ پر تکلف لنچ پہ اتنے پیارے لوگوں کی یکجائی اور بھر پور ملاقات کا اہتمام سلمی آپا کی محبت کا اعجاز ہی تو تھا۔

میری انقلابی طرز فکر کو ذہن میں رکھتے ہوئے سلمی آپا نے اگلے دن کی شام سینیئر ترقی پسند ادب شاعر اور سیاسی کارکن احمد سلیم کی خودنوشت ”میری دھرتی میرے لوگ“ کی تقریب رونمائی کے لیے مختص کی۔ جہاں بطور اسپیکر انہوں نے بھی احمد سلیم کے متعلق اپنے محبت سے بھرپور تاثرات بیان کیے۔ وہ لوگ جو انسانیت کو ارفع جانتے ہیں وہ دائیں بائیں کے بجائے اوپر دیکھتے ہیں۔ جہاں بلندی پہ انسان مسکراتا ہے۔

ہماری روانگی سے قبل مست ملنگ صوفی منش نیلم بشیر کا پرتکلف عشائیہ تھا۔ نیلم بہت محبتی، سادہ مزاج اور سچی سی انسان ہیں۔ مجھے لگا بظاہر لوگوں کے ہجوم اور شور شرابا میں گھری ہونے کے ان کے وجود میں اترا سناٹا گہرا تھا اور اس صحرا میں وہ اکیلی ہیں۔ دل کے خاموش کمرے میں اپنے اندر اتری تنہائی کے توڑ کے لیے سریلے گیت گنگناتی اور قلم سے باتیں کرتی نیلم احمد بشیر جن سے آپ محبت کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔

لاہور کے اس دورے میں گزارا ہر لمحہ یادگار تھا لیکن دل پہ نقش ہونے والی سلمی اعوان کی کچھ باتیں تھیں جو انہوں نے عفت اور مجھ سے فرصت کے چند لمحوں میں کیں جو میں من و عن پیش کر رہی ہوں۔

”آپ جوانی میں بھاگتے ہیں، لکھنے کے لیے، شہرت کے لیے۔ شہرت، عزت اور دولت کے پیچھے مت بھاگو یہ ذلیل کرتے ہیں۔ بندہ ادھر سے گیا ادھر سے اس کا نام بھی مٹ گیا۔ سب چیزیں اسی طرح آگے بڑھ جاتی ہیں جیسے بستروں پہ نئی چادریں بچھتی ہیں۔ درختوں پہ نئے پتے آ جاتے ہیں پرانے پتے گر جاتے ہیں، گل سڑ جاتے ہیں۔ اور یہی ہم انسانوں کا حال ہے۔ صرف وہی یاد رہ جائے گا جس نے انسانوں کے لیے کچھ کیا۔ آپ کی محبت جو آپ نے بانٹی بس وہی باقی رہے گی۔ اگر محبت اور خلوص نہیں تو آپ زندہ نہیں رہیں گے۔ یہ سب آپ لوگوں میں بانٹ دو کسی توقع کے بغیر۔“

سلمی اعوان اپنے محبت کے ایوان میں مہمان بلانے اور بے لوث محبت اور خلوص بانٹنے کا بہت شکریہ۔ ہمیشہ سلامت رہیے۔ آپ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments