شائزوفرینیا کی وجوہات (3)
جب ہم ذہنی بیماریوں اور خاص کر شائزوفرینیا کی وجوہات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ موضوع کافی پیچیدہ ہے چونکہ یہ بیماری ابھی تک ہمارے لیے ایک معمہ ہے اس لیے ہم حتمی طور پر اس کے بارے اپنی رائے نہیں دے سکتے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔
پچھلی چند دہائیوں میں مغرب کے ماہرین میں شائزوفرینیا کی وجوہات کی تقسیم کے لیے جو نقطۂ نظر مقبول ہوا ہے وہ Bio Psycho-Social Model کہلاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ہمیں ان وجوہات کو تین خانوں میں بانٹ کر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
1۔ حیاتیاتی عوامل Biological Factors
2۔ نفسیاتی عوامل Psychological Factors
3۔ معاشرتی عوامل Social Factors
دنیا کے مختلف تحقیقی اداروں میں اب مختلف عوامل پر کام ہو رہا ہے۔
1۔ حیاتیاتی عوامل:
جب ہم حیاتیاتی عوامل پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں تو ہمیں ان کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑتا ہے۔
الف۔ موروثی Genetic
ب۔ کیمیائی Biochemical
1لف۔ موروثی عوامل
ماہرین کا خیال ہے کہ شائزوفرینیا کی بیماری میں موروثی عوامل ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اگرچہ ایسا بھی نہیں کہ ہر شائزوفرینیا کے مریض کا ہر بچہ اس بیماری کا شکار ہو گا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کے بچے کے بیمار ہونے کے امکانات دوسرے لوگوں کے بچوں سے زیادہ ہوں گے اور اگر نفسیاتی اور معاشرتی عوامل بھی شامل ہو گئے تو وہ بیمار ہو سکتا ہے۔ ان عوامل کی وضاحت کے لیے ماہرین مختلف طریقوں سے شائزوفرینیا کے مریضوں کے خاندان پر تحقیق کرتے رہے ہیں اور اب تک جو اعداد و شمار جمع ہوئے ہیں، وہ کچھ یوں ہیں :
*کسی عام آدمی کے بیمار ہونے کے امکانات۔ ۔ ایک فیصد
*اگر والدین میں سے ایک (ماں یا باپ) شائزوفرینیا کا مریض ہو تو
بچے کے بیمار ہونے کے امکانات۔۔ سولہ فیصد
*اگر دونوں والدین بیمار ہوں تو
بچے کے بیمار ہونے کے امکانات۔۔ چالیس سے ساٹھ۔ فیصد
*اگر والدین بیمار نہ بھی ہوں اور ایک بچہ بیمار ہو تو دوسرے بچے کے بیمار ہونے کے امکانات۔ آٹھ فیصد
*اگر جڑواں بچے ہوں اور ایک بچہ بیمار ہوتو دوسرے بچے کے بیمار ہونے کے امکانات۔ ۔ ساٹھ سے اسی فیصد
ان اعداد و شمار سے واضح ہے کہ موروثی اثرات اس بیماری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ب۔ کیمیائی عوامل:
وہ ماہرین جنہوں نے شائزوفرینیا کیمیائی عوامل پر تحقیق کی ہے ان کا کہنا ہے کہ مریض کے دماغ میں صحتمند انسان کے دماغ کے مقابلے میں کیمیائی مادوں کا توازن بگڑا ہوتا ہے اس لیے بعض مادے زیادہ پیدا ہوتے ہیں اور بعض کم اور اس کمی اور بیشی سے مختلف علامات کا اظہار ہوتا ہے اگرچہ ماہرین ابھی تک اس بات پر متفق نہیں ہوئے کہ وہ کون سے کیمیائی مادے ہیں، لیکن مختلف ماہرین نے مختلف آراء پیش کی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل کی تحقیق ثابت کرے کہ ہر رائے اپنے اندر کچھ سچائی لیے ہوئے ہے ان مختلف آراء میں سے تین کافی مقبول ہوئی ہیں اور ان آراء پر مبنی نظریوں پر سنجیدہ حلقوں میں تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے۔ وہ تین نظریے یہ ہیں :
ٹرانس میتھی لیشن کا نظریہ (Transmethylation Hypothesis)
یہ نظریہ آسمند اور اسمتھ یز نے 1956ء میں پیش کیا تھا، ان کا خیال تھا کہ مریض کے دماغ میں ان کیمیائی مادوں کے توازن میں جنہیں ہم کیٹی کولامنز کہتے ہیں فرق آ جاتا ہے جس کی وجہ سے میسکا لین ایسے کیمیائی مادے افراط میں پیدا ہوتے ہیں اور مریض میں بیماری کی علامات پیدا کرتے ہیں۔ ان مادوں کی وجہ سے مریض کو غائبانہ آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں، وہ شکی المزاج ہوجاتا ہے اور مختلف توہمات کا شکار ہوجاتا ہے۔ ان محققین کا کہنا تھا کہ اس نظریے کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ہم صحتمند انسانوں میں میسکا لین کے ٹیکے لگا کر بھی ایسی علامتیں پیدا کر سکتے ہیں۔
ڈوپامین کا نظریہ (DopamineHypothesis)
اس نظریے کو مقبول بنانے میں کارلسن، لین کویسٹ، رینڈراپ اور منکواڈ کا کافی حصہ ہے اور جنہوں نے اسے 1968 ء میں مقبول بنایا۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ جب مریض کے دماغ میں کیمیائی توازن بگڑتا ہے تو ڈوپامین کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور ناراپینی فرین کی تعداد کم ہوجاتی ہے اور یہ دونوں چیزیں مریض میں بیماری کی علامات پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ ڈوپامین کی زیادتی سے اس قسم کی علامات پیدا ہوتی ہیں جس طرح کسی کو ایمفیٹا مین کا انجکشن لگایا جائے، جس سے وہ شکی المزاج اور خوفزدہ ہوجاتا ہے کہ دوسرے لوگ اسے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اس میں پیرونا یا کی سی صورت پیدا ہوتی ہے۔
ناراپینی فرین کی کمی کی وجہ سے مریض زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا وہ اپنے خول میں اپنے آپ کو قید کر لیتا ہے اور دوسرے لوگوں سے ملنا چھوڑ دیتا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ دماغ میں ایک کیمیائی مادہ ایسا ہے جو ڈوپامین کو ناراپینی فرین میں بدلتا رہتا ہے اس مادے کا نام ڈوپامین ہائیڈروسیلیز ہے جب اس مادے میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے تو دماغ میں ڈوپامین بڑھنے لگتا ہے اور ناراپینی فرین کم ہونے لگتا ہے اور مریض کے نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔
سیروٹونین کا نظریہ (Serotonin Hypothesis)
یہ نظریہ گیڈم، وولی، اور شا نے 1954ء میں پیش کیا تھا اس نظریے کے مطابق کیمیائی مادوں میں سے سیروٹونین کی کمی مریض کے لیے مرض کی علامت پیدا کرتی ہے اور مریض کو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اسے کسی نے ایل ایس ڈی کا ٹیکہ لگا دیا ہو۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ مرض کی علامات عام انسانوں کو ایل ایس ڈی کا ٹیکہ لگا کر بھی پیدا کی جا سکتی ہیں۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ماہرین مختلف آراء کے باوجود اس بات پر متفق ہیں کہ شائزوفرینیا کے مریض کے دماغ میں کیمیائی مادوں کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ جس سے مریض اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے اور وہ ادویہ کو اس توازن کو ٹھیک کر نے میں ممد و ثابت ہوتی ہیں وہ مریض کی تکلیف اور پریشانی کو کم کر سکتی ہیں۔
2۔ نفسیاتی عوامل:
بیسویں صدی میں ایرکسن ’پیاجے‘ ایلینن ’لڈز‘ سالیوان اور ایریٹی وہ ماہرین نفسیات ہیں جنہوں نے بچوں کی نفسیات اور شائزوفرینیا کے مریضوں کی نفسیاتی وجوہات سمجھنے اور سمجھانے میں گرانقدر اضافے کیے۔ ان ماہرین کی انتھک کوششوں کی وجہ سے ہم پر بصیرتوں کے ایسے گوشے واضح ہوتے ہیں جو ان تحقیقات سے پہلے ہماری نظروں سے اوجھل تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شائزوفرینیا کا مریض بچپن سے ہی ایسے حالات اور ماحول کے رحم و کرم پر ہوتا ہے جس سے اس کی ذات مجروح ہوتی رہتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ نفسیاتی طور پر کمزور ہوتا جاتا ہے اور آخر کسی بحران کا شکار ہو کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ کسی انسانی بچے کی صحت مند پرورش اور نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ
:1۔ اس کی بنیادی ضروریات کی، جس میں کھانا، پیشاب، پاخانہ، گرمی سردی سے بچنا سبھی شامل ہیں، کی تسکین ہوتی رہے، ۔
2۔ اسے تحفظ کا احساس میسر ہو، تاکہ وہ کسی قسم کے خطرے کے احساس سے متاثر نہ ہو۔
ماہرین کا مشاہدہ ہے کہ شائزوفرینیا کے مریض ایسے ماحول میں پیدا ہوتے ہیں جہاں ان کے والدین نفسیاتی مسائل کا شکار رہتے ہیں اس لیے وہ بچوں کی ضروریات کا پوری طرح خیال نہیں رکھ سکتے اور چونکہ وہ خود عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں اس لیے وہ بچوں کو بھی تحفظ کا احساس نہیں دے سکتے، چنانچہ بچہ نہ تو اپنے والدین پر اعتبار کرنا سیکھتا ہے اور نہ ہی اپنی ذات پر اعتماد کرنا اور اس طرح وہ اس بنیادی ٹرسٹ سے محروم رہ جاتا ہے جو اس کی شخصیت کی عمارت کی تعمیر کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔
شائزوفرینیا کے مریض کا بچپن ایسے ماحول میں گزرتا ہے جس میں خاندان کے بڑوں کا رویہ بہت منفی ہوتا ہے۔ وہ بچے کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی بجائے ہر قدم پر اس پر تنقید کرتے ہیں او ر اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ بجائے یہ کہنے کہ وہ خوبصورت۔ ذہین ہے، اور وہ اس پر فخر کرتے ہیں اور اس سے محبت کرتے ہیں وہ اسے بتاتے ہیں کہ وہ کند ذہن اور بدصورت ہے اور اس کے دنیا میں آنے سے اس کے والدین کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے، آہستہ آہستہ یہ باتیں اور تاثر بچے کی شخصیت اور ذات کے تصور کو متاثر کرنے لگتے ہیں۔
جب بچہ اس ماحول میں پلتا بڑھتا ہے تو نوجوانی تک پہنچتے پہنچتے اس کی ذات اور شخصیت میں مندرجہ ذیل پہلو پیدا ہو جاتے ہیں۔
(1) خود اعتمادی کا فقدان
ایسا نوجوان احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو دوسرے لوگوں کی نسبت کمتر محسوس کرتا ہے وہ اپنی ذات میں شرمندہ ہوتا ہے اور اپنی کسی چیز پر فخر نہیں کرتا۔
(ب) شناخت کا مسئلہ:
ایسا نوجوان اپنی شناخت کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے اور اپنے آپ پر یقین کرنے کی بجائے خارجی عوامل میں سکون تلاش کرتا ہے۔
(ج) شخصیت میں کمی یا کجی
ایسے نوجوان کی شخصیت مجروح ہو چکی ہوتی ہے وہ تو ایک شرمیلی شخصیت کا حامل ہوتا ہے جو اندر سے کمزور ہوتا ہے اور تنہائی اور بے تعلقی کی زندگی گزارتا ہے، اس کی دلچسپیاں بھی ایسے کھیلوں اور مشاغل کی طرف ہوتی ہیں جن میں اور لوگوں کی شمولیت لازمی نہیں ہوتی (مثلاً کتابیں پڑھنا، اکیلے سیر کے لیے جانا، تنہائی میں موسیقی سننا)
بعض دفعہ وہ ایک طوفانی شخصیت کا مالک بن جاتا ہے جس میں وہ پل بھر میں خوش، افسردہ، پل بھر میں ناراض اور پل بھر میں غصہ ہوجاتا ہے ۔ اس کی طبعیت میں ٹھہراؤ نہیں ہوتا اور دوسرے لوگوں کا اس کے ساتھ کوئی تعلق قائم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
ایسا نوجوان آہستہ آہستہ ایسی زندگی گزارنے لگتا ہے جس میں وہ تمام اوقات ناخوش رہتا ہے، لوگوں سے دور ہوتا ہے، زود رنج بن جاتا ہے، اور اپنے خاندان، اسکول یا دوستوں کے ساتھ ایک صحتمند اور خوشحال زندگی نہیں گزار سکتا۔ ایسے نوجوان کی شخصیت اور ذہن کا توازن آہستہ آہستہ بگڑنے لگتا ہے اور پھر ایک چھوٹے یا بڑے نفسیاتی بحران سے وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے۔
3۔ معاشرتی عوامل:
الف۔ طبقاتی پہلو:
ماہرین کے مشاہدے نے بتایا ہے کہ شائزوفرینیا معاشرے کے نچلے طبقے میں زیادہ ہے اور ان لوگوں کے جو غربت، عسرت، ناکامی اور محرومی کی زندگی گزارتے ہیں ان میں اس بیماری کے امکانات زیادہ ہیں۔
ب۔ شہروں کے گنجان آباد علاقوں کا پہلو:
ماہرین کے یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ دیہاتوں اور گاؤں کی آبادی کے مقابلے میں بڑے شہروں کی گنجان آبادی کے لوگوں میں شائزوفرینیا کے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ صنعتی انقلاب کے بعد جب لوگ بڑے بڑے شہروں میں منتقل ہو گئے تو ان کے وہ رشتے دار جو اپنے اپنے گاؤں کے دوستوں، رشتہ داروں اور ہمسایوں سے جڑے تھے، ٹوٹنے لگے اور لوگ بڑے شہروں میں احساس تنہائی میں گرفتار ہوئے۔ دوستیاں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔
خاندان کا شیرازہ بکھر گیا اور اس طرح لوگوں کا احساس تحفظ کم ہونے لگا اور انہیں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا جو ان کی نفسیاتی اور ذہنی صحت کے لیے زیادہ سودمند نہ تھے، بڑے شہروں میں ذہنی بیماریوں کے ساتھ جرائم، منشیات، خودکشی، اور کئی دیگر نفسیاتی اور معاشرتی مسائل بھی بڑھنے لگے۔ جن سے نبردآزما ہونا کوئی آسان کام نہ تھا۔
ج۔ ہجرت کا پہلو
پچھلی صدی میں اور خاص کر صنعتی انقلاب اور سفر کے وسائل کی فراوانی کے بعد لوگوں نے نہ صرف گاؤں سے شہروں کی طرف ہجرت کی بلکہ ایک ملک سے دوسرے ملک او ر ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں ہجرت کرنے لگے۔ چنانچہ بعض ماہرین نے شائزوفرینیا اور دیگر ذہنی امراض اور ہجرت کے رشتے پر تحقیق کی اور دلچسپ نتائج اخذ کیے۔
اس موضوع پر سب سے پہلا مقالہ رینی نے 1850 ء میں لکھا تھا۔ جس کا عنوان تھا ”پاگل مہاجروں کے بارے میں“ اس مقالے میں اس مشاہدے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی کہ امریکہ کے پاگل خانوں میں مہاجروں کی تعداد آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے۔ رینی نے اس مشاہدے کی دو ممکن وجوہات بیان کیں :
پہلی وجہ۔ ہجرت کا عمل ایک تکلیف دہ عمل ہے، مہاجرین نئے ماحول کی دشواریوں سے متاثر ہو کر ذہنی توازن کھو دیتے ہیں۔
دوسری وجہ۔ مہاجرین ذہنی طور پر غیر معمولی حساس ہوتے ہیں اور ان کا ذہنی توازن کے کھونے کا مقامی لوگوں کی نسبت زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
اس موضوع پر پہلی سنجیدہ سائنسی تحقیق ناروے کے ایک سائنسدان اوڈیگار نے 1932 ء میں کی۔ اس نے ان ناروے جین لوگوں کا مطالعہ کیا۔
*جو ہجرت کر کے امریکہ آ بسے تھے
*امریکی ہجرت کے بعد واپس ناروے چلے گئے تھے
*ناروے سے کبھی نکلے ہی نہ تھے
اوڈیگاڈ کی تحقیق نے اس خیال کو تقویت پہنائی کہ مہاجر لوگ نفسیاتی طور پر ان لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں جو ہجرت نہیں کرتے۔
1937 ء میں سٹونکویسٹ نے ایسے انسان کا تصور پیش کیا جو دو تہذیبوں میں بیک وقت زندہ رہا ہو اور دونوں ثقافتوں میں مصالحت نہ پیدا کرنے کی وجہ سے ذہنی پریشانیوں اور نفسیاتی تضادات کا شکار ہوا۔ سٹونکویسٹ نے ایسے انسان کو مارجینل مین (Marginal Man) کہا ہے۔ اس نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کرنا چاہا کہ سنجیدہ پاگل پن اور شائزوفرینیا مہاجرین میں مقامی لوگوں کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس اصول سے صرف ایک ملک مستثنیٰ تھا اور وہ اسرائیل تھا، کیونکہ وہاں مہاجرین کی تعداد مقامی لوگوں سے زیادہ تھی اور مقامی لوگ آہستہ آہستہ اقلیت بن گئے تھے۔
1970ء کی دہائی میں تحقیق کے نئے رخ اجاگر ہوئے۔ مرفی نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ ہجرت اور ذہنی بیماری کے مسائل کافی پیچیدہ اور گنجلک ہیں اور صرف یہ سوال پوچھنا کہ شائزوفرینیا مقامی لوگوں میں زیادہ ہے یا مہاجروں میں، مہاجروں کے مسائل کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ انسان، معاشرے اور ذہنی صحت کو سمجھنے کے لیے ہمیں بہت سے بالواسطہ اور بلاواسطہ عوامل کو سمجھنا پڑے گا۔ جب تک ہم سوال نئے طریقے سے نہ پوچھیں گے ہم صحیح جوابات تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس کا مشورہ تھا کہ بجائے یہ پوچھنے کے
”مہاجرین کیوں ذہنی بیماری کا شکار ہوتے ہیں؟“
اگر ہم اپنی توجہ اس بات پر مرکوز کریں گے کہ وہ کون سے حالات اور عوامل ہیں جو مہاجرین اور مقامی لوگوں کی ذہنی صحت کو متاثر کرتے ہیں تو شاید ہم اس حقیقت کا ادراک بہتر طریقے سے کرسکیں گے۔ اس انداز سے سوچنے سے ہم مہاجرین اور مقامی لوگوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرائیں گے اور الزام تراشی سے بچ سکیں گے۔ الزام تراشی تحقیق کے لیے کبھی بھی اچھا شگون نہیں ہوتا۔ مرفی کا خیال تھا کہ تحقیق کا ایک مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم یہ جان سکیں کہ مہاجرین اور مقامی لوگوں کے طرز زندگی کو کیسے بہتر اور ان کی ذہنی صحت کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
(جاری ہے۔ اگلی قسط میں شائزوفرینیا کی تشخیص پر بات کریں گے )
۔ ۔
- کیا آپ کسی سیاسی یا نفسیاتی بحران کا شکار ہیں؟ - 31/05/2023
- ونسنٹ وین گو: فنکار بھی، ذہنی بیمار بھی (7) - 30/05/2023
- شائزوفرینیا کا علاج۔ کلینیکل پہلو۔ چھٹی قسط - 26/05/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).