پیری فقیری اور گنڈے تعویذ کے کاروبار کی نفسیات


اس تحریر کو مزید وضاحت سے سمجھنے کے لئے میری گزشتہ تحریروں پر ضرور نظر ڈالیں جو اوسط ذہانت، حسد اور سائیکو پیتھ کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔

آج کل جبکہ سائنس اپنی ترقی کے عروج پر ہے۔ تعلیم عام ہونے کے ساتھ جہاں روشن خیالی بڑھتی جا رہی ہے وہیں توہم پرستی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

اس توہم پرستی کے ساتھ جس انڈسٹری میں بہت تیزی سے ترقی ہوئی ہے اور ہوتی جا رہی ہے وہ ہے پیری مریدی، جادو ٹونا، گنڈا تعویذ عملیات وظائف اور سفلی عملیات کرنے والوں کا کاروبار۔ پاکستان جیسے ملک میں تو اب یہ اعلی تعلیم یافتہ اور روشن خیال لوگوں بھی اس کی سر پرستی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اڈے اور آستانے بڑے بڑے ماڈرن اور پوش علاقوں میں بھی قائم ہیں ان پوش علاقوں کے مکین بھی جوق در جوق ان اڈوں اور آستانوں سے اپنی عقیدت رکھتے ہیں۔

اور ہزاروں روپیہ عملیات اور تعویزوں اور پیروں کے دست شفقت سے برکت کے حصول کی مد میں خرچ کر رہے ہیں۔ یہ کاروبار پھیل کر مغربی ممالک میں بھی بہت بوم کے ساتھ چل رہا ہے۔ اگر چہ یہ سب مسلمان ہیں اور شرک کو گناہ سمجھنے کے باوجود اور ایک اللہ پر یقین رکھنے کے باوجود دانستہ اور نا دانستہ اس شرک میں ملوث ہیں۔

آخر ایسا کیوں ہے اور اس کارو بار میں کیوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے؟
اس سوال کا جواب بھی ہم نفسیات کی رصد گاہ سے حاصل کرتے ہیں۔
نفسیات کے مطابق مذکورہ کاروبار کی وجہ انسان کی بنیادی اور اہم جبلتیں
خوف:
حسد:
غلبے اور طاقت کی خواہش:
اسی خوف کی جبلت سے خدا جیسی ان دیکھی قوت کا وجود اور پھر مذہب

اور پھر مذہب کو منظم کر کے انسانوں نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ اور مذہب کے ذریعہ غلبے کی خواہش کی تسکین کی اور خوف اور دکھوں میں مبتلا انسانوں کے ہاتھوں سے ان کا ان دیکھا خدا چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے فروخت کرنا شروع کیا۔ یہ کاروبار دو عناصر پر مبنی ہے۔

صارف : یعنی جو خوف میں مبتلا ہے اور براہ راست خدا سے رابطے کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن ان کی وش لسٹ میں دکھ درد دور کرنے، مرادیں پوری کرنے، غلبے کی خواہش، اور حسد کی بیماری کی وجہ سے دوسروں کو تباہ کرنے کی خواہش کا پورا کرنا شامل ہے۔

تاجر : بڑے بڑے روحانی پیشوا، جو بہت منظم طور پر انسانوں کے خوف اور غم دور کرنے کے لئے بڑے ہوشیار اور سمارٹ طریقوں سے انسانی نفسیات کے کمزور پہلوؤں کو استعمال کرتے ہیں۔ لوگ اس حد تک میسمرائز ہو جاتے ہیں کہ ان کے دیدار کو خدا کا دیدار سمجھتے ہیں اور برکت جیسی انمول چیز کے حصول کو ان کے دیدار سے منسوب کر لیتے ہیں۔ یہ اپنے دیدار کی براہ راست فیس نہیں لیتے لیکن ان کے منظم کلٹ کے تحت مالی قربانی کے نام پر ایسے ایسے کھاتے کھلے ہیں کہ جس میں انسانیت کی خدمت کے نام سے بے حساب رقم اکٹھی ہو جاتی ہے اور اس رقم کو وہ بڑے بڑے بین الاقوامی سطح کے فلاحی منصوبوں پر خرچ کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔ لیکن ان کے آڈٹ کا کیا طریقہ ہے اور ٹرانسپیرنسی کیا ہے صارفین یعنی عقیدت مند اس بارے میں کوئی سوال کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔

یہ روحانی تاجر انسانی نفسیات کے کمزور پہلؤں اور انسانی ذہنوں کو ایسا جکڑ لیتے ہیں کہ ان کی پناہ سے نکلنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ان مذہبی تاجروں کا لوگوں کو ڈرانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ لوگوں میں آسمانی آفات، بلاؤں، وباؤں سے ڈرانا اور یہ پروپیگنڈا کرنا کہ جو ان کے کلٹ میں شامل ہو جائے گا وہ محفوظ رہے گا۔ دوسرا طریقہ اپنی بڑھتی اور پھیلتی ہوئی طاقت کا پروپیگنڈا اور طاقت کا مظاہرہ جس سے معصوم لوگ مرعوب سے مرعوب ہوتے جاتے ہیں۔

ان تاجروں کی دوسری قسم ذرا گھٹیا کہلائی جاتی ہے جس کو یہ اول الذکر منظم لوگ شرک کا لیبل لگا کر فلاپ کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔

حالانکہ اول الذکر میں بھی شخصیت پرستی کے شرک کا چلن کم نہیں۔ ہاتھ چومنا، قدم بوسی وغیرہ۔

لوگ اپنے بہت سے ذاتی قسم کے فیصلے بھی ان پیشواؤں سے کرواتے ہیں مثلاً بچوں کو دین کے لئے وقف کرنا، بچوں کے نام رکھوانا، حتی کہ بچوں کی تعلیم اور کیریر کے فیصلے بھی ان کے سپرد کر دیتے ہیں۔

ان کی تعلیمات میں والدین کی اطاعت سے زیادہ پیشوا کی اطاعت کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ کسی کے اخلاقی طور پر اچھا ہونے کا معیار ان سے گہری وابستگی اور مالی قربانی ہے۔

روحانی تاجروں کی دوسری قسم مذہبی کتب کی آیتوں کے ذریعہ عملیات کرنے والوں کی ہے۔ آج جگہ جگہ ان عاملوں اور مذہبی سکالروں کی دکانیں دنیا کے طول و عرض میں پھیلی ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا پر بھی ان کا قبضہ ہے۔ رقم وصول کرنے کا سلسلہ اتنا زیادہ منظم نہیں مگر ہوتا یوں ہے کہ لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ان کو ہدیے کے نام پر اپنی استطاعت سے بڑھ کر دینے کو تیار ہوتے ہیں۔

یہ عامل لوگوں کو ہر قسم کے عملیات، تعویذ اور وظائف بتاتے ہیں۔
اور دعوی کرتے ہیں کہ کوئی وظیفہ خلاف شرع اور شرک پر مبنی نہیں۔
اب ذرا صارفین کی ضروریات پر نظر ڈالتے ہیں۔

بیماریوں سے شفا
ذہنی بیماریوں سے شفا
امتحانات میں کامیابی کے وظائف
حصول روزگار کی مشکلات دور کرنے کے وظائف
پسند کی جگہ شادی کے وظائف اور عملیات
کسی دوسرے کی شادی / منگنی توڑنے کے وظائف جو مقدس کتابوں کی مخصوص آیات پر مبنی ہوتے ہیں۔

بہو کو زیر کرنے کے وظائف
بیٹے کے دل سے بیوی کی محبت ختم کرنے کی آیات
بیٹی کو ساس سسر سے نجات کے وظائف
داماد کو قابو کرنے کے وظائف
بیٹی کے سسرال پر غلبے کے وظائف
اولاد پیدا کرنے اور اس میں سب سے زیادہ نرینہ اولاد کا حصول وش لسٹ میں شامل ہے۔
اولاد کو ماں / باپ کے خلاف کرنے کے وظائف
مردانہ کمزوری اور بانجھ پن کے علاج کے لئے وظائف وغیرہ۔

سب سے گھٹیا اور انسانیت سوز معاملہ سفلی عملیات کرنے والوں کا ہے جس میں بہت گندی، بھیانک اور سفلی پراڈکٹس بکتی ہیں۔ یہ جعلی پیر عامل لوگوں کو تعویذ دینے کے علاوہ ایسے نسخے بتاتے ہیں جو انسانیت سوز اور نہایت غیر اخلاقی پستی کا کھلا مظاہرہ ہیں مثلا

کسی شخص کو مارنے، راہ سے ہٹانے اور اسے نیست و نابود کرنے کی خواہشات پوری کرنے کے انسانیت کی توہین اور گرے ہوئے کام ہوتے ہیں جن میں کسی کی تصویر کو کسی قبر کو کھود کر اس میں دبانے کا عمل، الو کا گوشت شوہر کو کھلانے کا عمل تاکہ وہ عقل کھو کر قابو میں آ جائے۔ کسی حاملہ کا حمل گرانے کے سفلی عملیات، بیوی کو گھر سے نکال کر اس سے نجات کے لئے گنڈے تعویذ اور لا تعداد ترکیبیں جن کا مقصد دوسرے کو تباہ برباد کرنا ہوتا ہے۔

شریک سسرالی رشتہ داروں دیورانی، جیٹھانی اور ساس سسر کو راستے سے ہٹانے کے عملیات

اوپر بتائی ہوئی وش لسٹ سے بہ آسانی اس پیری فقیری گنڈے تعویذ اور سفلی عملیات کے کاروبار کے پیچھے کارفرما تاجر اور صارف کی نفسیات کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ حسد کا عنصر غالب ہے اور وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہو کر ان سفلی جادو گروں عاملوں اور بابوں تک پہنچتے ہیں۔

اس کاروبار میں صارف اور تاجر دونوں برابر کے شریک ہیں ماسوائے چند معصوم ڈرے سہمے لوں کے جو محض اپنے دکھوں کے مداوے کے لئے بے وقوف بنتے ہیں۔

صارف خوف زدہ اور کمزور ہوتا ہے اور بیماریوں سے گھبرایا ہوا وہ ان تاجروں سے رجوع کرتا ہے۔
صارف حاسد ہوتا ہے اور دوسروں سے سب کچھ چھین لینا چاہتا ہے اور حسد کی آگ بجھانے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔
صارف اپنی خواہشات کی تکمیل میں حریص ہوتا ہے اور طاقت اور غلبے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔

بعض اوقات صارف کی کئی ضروریات معاشرتی دباؤ کے تحت پیدا ہوتی ہیں جن کے پورا کیے بغیر صارف کا جینا محال ہوجاتا ہے اور وہ یہ پراڈکٹس روحانی پیشواؤں، عالموں، جعلی پیروں اور سفلی عملیات کرنے والوں اور گنڈے تعویذ والوں کی دکانوں سے خریدنے چلا جاتا ہے مثلاً اولاد اور خاص طور پر نرینہ اولاد۔

اور یہیں سے ہم تاجر یعنی پیر، فقیر اور گنڈے تعویذ کا کاروبار کرنے والوں کی نفسیات کا تجزیہ کر سکتے ہیں اور ایک جملے میں بات ختم کرتے ہیں کہ یہ پیر، عامل اور گنڈے تعویذ دینے والے انسان کی خوف، حسد اور غلبے کی خواہش کی جبلتوں کو استعمال کر کے پیسہ بناتے ہیں۔

یعنی یہ لوگ بہت شاطر سفاک اور مجرمانہ شخصیت کے حامل بڑے ذہنی بلیک میلر ہوتے ہیں۔
۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments