ٹی وی کی امراؤ جان ادا!


ہماری کتاب کا مسودہ پڑھتے پڑھتے جب کشفی صاحب اس مضمون پر پہنچے تو ہمیں بلوا بھیجا۔ ہم کمان سے نکلے تیر کی طرح، ان کے پاس پہنچے۔ جی کشفی صاحب؟

کشفی صاحب کے چہرے پر تشویش اور کشمکش کے گہرے سائے منڈلا رہے تھے، وہ ٹکٹکی باندھے کچھ لمحے ہمیں غور سے دیکھتے رہے۔ ایسا لگتا تھا کہ نظریں ہم پر ہیں لیکن ذہن کہیں اور اور پھر آہستہ آہستہ اپنے خیالات کے بھنور سے باہر نکلے۔ اور ان کی آنکھوں میں مخصوص نرمی اور شفقت ہلکورے لینے لگی اور ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ مچلنے لگی۔ اور وہ پہلے والے کشفی صاحب بن گئے تو ہماری سانس میں سانس آئی، بولے ”بک بک برکھا! اس کتاب کے لئے تمہیں ایک کریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے تاکہ لوگ پہلے تمہیں جان لیں پھر پڑھیں“ ۔

”کیا مطلب سرٹیفیکیٹ؟ کے۔ ریک۔ ٹر۔ سر۔ ٹی۔ فی۔ کیٹ؟“ ہمارا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

”ہاں! کردار کی سند اور وہ، تمہیں تمہاری باجی دیں گی“ پھر انہوں نے گلہ صاف کیا اور باجی کو آواز دی۔ بلے! (بلقیس) ذرا ادھر آنا ”۔

دوپٹے سے ہاتھ پونچھتی، باجی باورچی خانے سے باہر آئیں۔ ”۔ کیا ہے پروفیسر! پھر کوئی شرارت کا کیڑا دماغ میں کلبلایا۔“ ؟ پھر ہم پر نظر پڑی تو ایک دم گلے سے لگا کر پیار کیا۔ کشفی صاحب، سنجیدگی سے بولے ”اپنی باتوں خاتون کے بارے میں جو تم جانتی ہو بس وہی لکھ دو ۔ اور ہاں! ۔ وہ ہماری طرف پلٹے۔“ ۔ اب تم جا کر اس میں سے وہ مضامین الگ کرو جو صرف موصوف پر ہیں ”۔

”موصوف؟ وہ کون ہیں؟“
کشفی صاحب : ”بھئی! ہمارے ہمایوں بابو، تمہارے شوہر نامدار۔
”مگر وہ تو سید ہمایوں ہیں“
”ہاں! ہیں مگر اس کتاب کا نام میں نے ‘موصوف’ رکھ دیا ہے، جاؤ اب وقت ضائع نہ کرو“

ہم نے، موصوف کی طرف ہاتھ بڑھایا تو کشفی صاحب نے ایک اور مسودہ اٹھا کر ہمارے ہاتھ میں دے دیا۔ ”یہ کاپی تمہارے لئے کروائی ہے، اسے یہیں چھوڑ جاؤ، میں پروف ریڈنگ کر رہا ہوں۔ پھر ایک لمحے کو رکے اور مسکرائے، اور بولے باتوں خاتون! تمہاری کتاب بھی تمہاری طرح معصوم اور کھری ہے۔ بے ساختہ۔ بے دھڑک۔ برجستہ مگر شائستہ۔ خود اپنا مذاق اڑانا آسان کام نہیں مگر تم نے موصوف کے ساتھ ساتھ بڑے انصاف کے ساتھ اپنی کھال بھی کھینچی ہے اور یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ بس اب جاؤ۔ اور ہاں بابو (موصوف) سے کہنا پرسوں ہمارے ساتھ اردو بازار چلیں۔“

باجی نے ہمارے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ میں لکھا۔ ”۔ کچھ بچے نیکی کی کلغی لے کر پیدا ہوتے ہیں“

ہم اب تک اپنا سر ٹٹولتے ہیں کہ اللہ میاں نے ہماری نیکی کی کلغی چھپا کر کہاں رکھ دی ہے؟ لگتا ہے باجی بھی موصوف کی طرح ہمارے بارے میں کافی سے زیادہ خوش گمان تھیں۔

ویسے کشفی صاحب کا خدشہ بالکل درست تھا ہماری بھولی بھابھی (امی کی پڑوسن) موصوف پڑھ کر بلبلا اٹھیں، بولیں۔ ”اللہ خالہ! اگر ہم ایسی تین لائنیں بھی اپنے میاں کے بارے میں لکھ دیں تو وہ کھڑے کھڑے ہمیں تین طلاقیں دے دیں۔“ ۔ ہم مسکراتے رہے۔ نہیں! وہ ہرگز ایسا نہیں کریں گے کیونکہ موصوف ہر کام پکا کرتے ہیں، پہلے جا کر اسٹامپ پیپر بنوائیں گے مگر کاہلی کی وجہ سے جاتے جاتے کئی دن لگ جائیں گے اور کوئی بعید نہیں کہ بجائے طلاق نامے کے، ہمارے بھلکڑ موصوف کرایہ نامہ بنوا کر لے آئیں جو کافی عرصے سے ان کی یاداشت کے تہہ خانے میں بھٹک رہا ہے۔

کشفی صاحب (سید ابوالخیر کشفی) کے جانے کے بعد جب دنیائے ادب میں بھونچال سا آیا تو اخبارات اور رسائل کے ذریعہ ہمیں پتہ چلا کہ وہ کس اعلی پائے کے محقق، دانشور، نقاد اور ماہر لسانیات تھے۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا اتنے بڑے ادبی قد و قامت کا انسان ہمارا پڑوسی تھا۔ سچ کہتے تھے ابا (دادا) کہ

جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

ہمیں اپنی خوش نصیبی پر پہلے رشک آیا پھر اپنی کوتاہ علمی پر رونا آیا۔ کاش وہ بتا دیتے کہ وہ کون تھے۔ باجی، کشفی صاحب اور ان کے خاندان نے ہمیں اپنی محبت اور شفقت کی ردا میں ایسے ڈھانپ کر رکھا کہ اس سے پرے کچھ نظر ہی نہیں آیا!

رفعت ہمایوں
4مئی 2023
عالی جاہ۔ اور امراؤ جان ادا۔

آڑا پاجامہ، گول گھیر کا کرتا، پتلی گوٹ لگا دوپٹہ، لمبی سی جھالر دار چٹیا جس میں رنگ برنگی زری اور دھاگوں کے پھندنے لگے ہوئے، ادھر ادھر ڈولتے ہوئے۔ ہاتھوں میں دو دو درجن چوڑیاں چھنک چھنک اور۔ شاید پیروں میں پائل بھی، آنکھوں میں دنبالے دار سرمہ اور ہونٹوں پر لالی۔

تو صاحب! یہ تھا ہمارا حلیہ، جب ہم بیک وقت میاں اور ٹی وی دونوں کو پیارے ہوئے۔ شروع شروع کے دن تھے۔ دونوں کو ہی سمجھنے میں خاصی دیر لگی۔ اور جب سمجھ میں آیا تو دونوں کا تقاضا ایک ہی تھا، یعنی کہ ’سادگی‘ ، حالاں کہ ہماری سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا! بھئی ہمیں کیا پتا تھا کہ نوکری پیشہ لوگوں کا حلیہ کیا ہوتا ہے؟ شروع شروع میں تو سبھی تیار ہوا کرتے ہیں، چاہے میاں کو دکھانا ہو یا۔ یا؟ اور ہم تو اتنے ’بھولے بھالے‘ تھے کہ نہ ہی ان کو سمجھے اور نہ ہی ’ان‘ کو ! روز اچھے خاصے ڈیڑھ دو گھنٹے تیار ہونے میں لگا کرتے تھے، جیسا کہ عموماً ولیمے کی دلہنوں کو تیار ہونے میں لگا کرتے ہیں (اگر وہ پارلر نہ جائیں تو ! ) ۔

جب اسٹیشن میں داخل ہوتے تو گیٹ والا بابا تک سر سے پاؤں تک ہمارا بغور جائزہ لیتا اور کونوں کھدروں میں چھپی ہوئی مسکراہٹ اس کی آنکھوں میں کہیں ناچ رہی ہوتی، مگر ہماری سمجھ میں کچھ نہ آتا، کیوں کہ ان دنوں ہماری عقل بھی ’فربہی مائل‘ تھی۔ دبی دبی مسکراہٹیں لاؤنج سے کمرے تک ہمارا پیچھا کیا کرتیں۔ اور تو اور وہ ساٹھ سالہ بڈھا مالی بابا بھی اپنے ٹوٹے ہوئے دانت باہر نکال دیا کرتا اور پلٹ پلٹ کر ہمیں دیکھتا رہتا۔ اونچی ہیل کی ٹھک ٹھک میں ہمیں کچھ پتا ہی نہیں چلتا تھا۔

ایک دن یوں ہی سر راہ کان میں ایک سرگوشی سی لہرائی۔ امراؤ۔ جان۔ ادا۔ گھر آئے تو باچھیں اس کونے سے اس کونے تک کھلی ہوئی۔ جیسے ہی انہوں نے سلام پھیرا، دوسری طرف منہ پھیرنے سے پہلے ہی ہاتھ پکڑ لیا اور اٹھلاتے ہوئے بولے، ”کیا سمجھتے ہیں آپ ہمیں؟ لوگ تو ہمیں امراؤ جان ادا کہتے ہیں۔“ یہ مارے صدمے کے گنگ رہ گئے اور دوسری طرف سلام پھیرنا بھول گئے۔ اور پہلے تو ٹکٹکی باندھے غور سے دیکھتے رہے، پھر بھرائی ہوئی آواز میں بولے، ”بیوی! تو گویا تم اس لیے آفس جاتی ہو۔ کہ۔ کہ“ باقی الفاظ ان کے حلق میں ہی گھٹ گئے۔

”نہیں تو ، آپ کا قرضہ اتارنے۔“
”ہمیں تو لگ رہا ہے کہ آپ ہماری عزت اتارنے کے درپے ہیں۔“
”تو پھر آپ ہمارے سامنے اپنی پرانی دہرانی منگیتر کے حسن کے گن کیوں گاتے رہتے ہیں؟“

”ارے وہ تو ویسے ہی آپ کو چھیڑنے کے لیے کہتے ہیں (لہجے میں انتہائی شک اتر آیا) اور کیا کیا کہتے ہیں لوگ؟“

”کہتے کیا ہیں؟ بس کبھی کبھار اسٹاپ پر دوچار گاڑیاں ہمیں دیکھ کر رک جاتی ہیں اور روزانہ کوئی نہ کوئی ہمیں لفٹ دینے کو کہتا ہے۔“ ہم اپنے چٹلے کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے بھولپن سے بولے، ”یا راستے میں کوئی، کوئی آواز کستا ہوا دور نکل جاتا ہے۔ یا۔ یا کبھی کبھار کوئی پاس سے کہتا ہوا گزر جاتا ہے، ماشاء اللہ یا سبحان اللہ اور بس؟“

”تو تمہارا کبھی دل نہیں چاہا کہ اس کے منہ پر زور دار تھپڑ مار دو ۔“
”کبھی بھی نہیں۔ ہاں البتہ کبھی کبھار آپ پر ایسا غصہ ضرور آیا ہے۔“ معصومیت ہماری آنکھوں میں اتر آئی۔
”سنو! کل سے تم ٹی وی نہیں جاؤ گی۔“ یہ سنگین لہجے میں بولے۔

”مگر کیوں؟ ٹی وی کیوں نہیں جائیں گے؟ اتنا مزا آتا ہے، وہاں نہ ہی گھر کے کام کاج ہوتے ہیں اور نہ ہی کچھ اور، کینٹین سے پکا پکایا کھانا الگ آ جاتا ہے۔“

”بس کہہ دیا ناں کہ تم ٹی وی نہیں جاؤ گی۔“
”تو پھر وہ آپ کا قرضہ؟“
”بھاڑ میں گیا وہ قرضہ۔ وہ میں خود اتار لوں گا۔“
لیکن ٹی وی میں تو آج تک ہمیں کسی نے نہیں چھیڑا، بس راستے میں ہی۔ ”
”بس بس زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ بس کل سے آپ کا ٹی وی جانا بند۔“

ہم پی ایم (پروگرام مینیجر) آفس میں بیٹھے نئی ایلوکیشن لسٹ  کے ٹائپ ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہماری تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہر پروڈیوسر نے اپنی طرف سے پروگرام مینیجر سے درخواست کی تھی کہ کوشش کریں کہ ’امراؤ جان ادا‘ اس کے پلے نہ باندھی جائیں۔ ایک پروڈیوسر نے تو معین کے سامنے کہا تھا کہ وہ سات سروں والی بلا کو اپنی اسسٹنٹ پروڈیوسر بنا لے گا، مگر توبہ توبہ اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔ خدا کا واسطہ ’امراؤ‘ نہیں۔ بلکہ موٹا موٹا لکھ لو، ان کی پرچھائیں بھی ہماری پروڈکشن پر پڑ گئی تو اس کا خدا حافظ۔ ”معین کی زبان ہمارے دل پر برچھے چلا رہی تھی کہ سامنے سے عالی جاہ جاتے دکھائی دیے۔

وہ پھر پلٹ کر آئے اور کن انکھیوں سے ہمیں تاڑا اور آگے کو چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر پلٹ کر آئے اور رک رک کر گھورتے ہوئے پی ایم (پروگرام مینیجر) آفس کے اندر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد باہر نکلے، تو آنکھوں سے خاصا خون ٹپک رہا تھا اور لگتا تھا کہ ناخن بھی تیز کر کے آئے ہیں۔ پھنکارتے ہوئے ایک طرف کو چلے گئے۔ دوسرے دن پتا چلا کہ پی ایم آفس میں ہمیں اپنے ساتھ اٹیچڈ  پاکر خاصی قلا بازیاں کھائیں۔ لوٹے پوٹے، خون کی ندیاں بہا دیں، اللہ، رسول کے واسطے دیے، گھگھیائے کہ کہاں اس امراؤ۔

جان۔ ادا کو ہمارے پلے باندھ دیا۔ یہ کام دھام کرنا کیا جانیں! ابھی تو میاں کے چاؤ چونچلوں سے ہی ان کی طبیعت نہیں بھری، بلکہ مزید ’بگڑنے‘ کے امکانات روشن ہیں۔ کہاں یہ سبک خرامی ہیل کی پتلی نوک پر اور کہاں دھڑ پڑ، بھاگ دوڑ اسسٹنٹ پروڈیوسر کی۔ یہ تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتیں۔ میں کیسے بھگتاؤں گا اکیلا ان کو ، وغیرہ وغیرہ۔ باقی جملے انتہائی گرے ہوئے تضحیک کے حامل تھے، لہٰذا حذف کیے جاتے ہیں۔

بہرحال، پہلی ہی ملاقات میں اندازہ ہو گیا کہ عورتوں کے بارے میں عالی جاہ کی نفسیات خاصی ’اداس‘ اور ملول سی ہے۔ ان کے سامنے جاتے ہی یوں محسوس ہوا کہ ہم کسی آکٹوپس کے سامنے بیٹھے ہیں، جو مکاری سے مٹر مٹر

آنکھیں جھپکا رہی ہے اور ہم اس کے طلسماتی سحر کے تحت کسی ایسے بت کی مانند بیٹھے ہیں جو خاصا ارادت مند ہے اور اس آکٹوپس کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنا چاہتا ہے، مگر اس سے ڈرتا بھی ہے۔ آہستہ آہستہ پتا چلا کہ ان کے پیٹ میں بھی ایسی ہی کھردری داڑھی ہے جیسی کہ ان کے منہ پر ۔ اور یہ کہ پہلے ان کے دانت اچھے خاصے نوکیلے ہوا کرتے تھے، مگر عورتوں (ہم جیسی) پر پیس پیس کر اب خاصے ہموار کر لیے ہیں۔ داڑھی کے بارے میں ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس سے کم ازکم چہرے کے آدھے عیب تو چھپ ہی جاتے ہیں۔ کاش ہم (عورتوں ) کو بھی ایسی ہی کوئی نعمت عطا کی گئی ہوتی!

عالی جاہ خود کو اسمارٹ رکھنے کا گر بھی جانتے تھے کہ ہر وقت اپنے جی کو جلائے رکھو اور دوسروں کو جلائے جاؤ۔ اسی لیے آپ کو آج تک ان کا کوئی معاون پروڈیوسر ’ان اسمارٹ‘ نظر نہیں آئے گا۔ اور ان میں سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ اگر کسی نے ان کے سامنے بھولے سے آپ کی تعریف کردی، تو بس تین چار دن کے اندر ہی اندر حساب کتاب برابر کر لیا کرتے تھے اور اسی شخص کے سامنے وہ آپ کی تمام خوبیاں ختم کر کے آپ کو انتہائی ملعون، غبی اور کند ذہن وغیرہ وغیرہ ثابت کر دیں گے۔ مجال ہے، جو ذرا کہیں منطقی تواتر یا شواہد عینی میں کوئی جھول پایا جائے۔

تو صاحب پہلے ہی دن انہوں نے ہمیں خاصی ’دشمن‘ نگاہوں سے گھورا، پھر کہنے لگے، ”بی بی یہ دفتر ہے۔ یہاں ذرا ڈھنگ کے حلیے میں آیا کریں۔“

”ڈھنگ کا حلیہ کیسا؟“ ہم نے حیران ہو کر اپنا جائزہ لیا، ہلکے گلابی رنگ کا آٹھ کلی کا کرتا، فیروزی رنگ کا چوڑی دار پاجامہ، دوپٹہ، ناگن کی طرح لہراتی بل کھاتی دو چوٹیاں، ایک ہاتھ میں گلابی چوڑیاں تو دوسرے میں فیروزی، گلے میں دو تین انداز کے چین، فیروزے کے لاکٹ کے ساتھ، کانوں میں منہ دکھائی کے آویزے، بیچ کی مانگ، انگلیوں میں دو تین طرح کی انگوٹھیاں، بالوں میں تین بیلے کے پھول پروئے ہوئے۔ اور پاؤں میں نازک سی سینڈل اور بس۔ اچھا خاصا رضیہ بٹ کے ناولوں کی ایک ملازمت پیشہ وفا شعار، سیدھی سادی، دنیا کی ٹھکرائی ہوئی، آلائش زمانہ سے پاک معصوم سی لڑکی کا حلیہ تھا۔ آنکھیں بھی اللہ میاں نے انہیں ناولوں کو پڑھ کر بنائی ہیں، جن میں حسب منشا معصومیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2