افسانہ: گھونگھٹ


ساون کے مہینے کی الگ ہی کیفیت ہوتی ہے۔ زمین پر ہر طرف فرش زمرد بچھ جاتا ہے۔ وہ پودے بھی جو تشنگی کے باعث خشک ہو چکے ہوتے ہیں۔ سیراب ہو کر اپنی لہلہاہٹ سے ہر انسان اور پرندے کو خوش کرتے ہیں۔ غریب سے غریب کسان بھی اپنے مویشیوں کے لیے چارہ حاصل کر لیتا ہے۔ پودوں پر رنگ برنگ پھول کھل اٹھتے ہیں۔ ان کی ٹہنیوں کو چھو کر صبا و نسیم فضا کو معطر کر دیتی ہے۔ جو روح تک کو ترو تازگی بخشتی ہے لیکن انھی دنوں حبس کا بھی راج ہوتا ہے۔ بارش کے بعد اگر ہوا نہ چلے تو انسانوں کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ ہر شخص پسینے سے شرابور زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔

ایسے ہی دن تھے جب چاروں طرف کالی گھٹائیں پل بھر میں آسمان پر ہوا کے دوش پر اٹکھیلیاں کرتی نظر آتی تھیں۔ ایک ہی گاؤں کے کبھی ایک کونے میں برستی تھیں تو کبھی دوسرے کونے میں۔ جنت بی بی نئی نویلی دلہن اپنے خاندانی رسم و رواج کے مطابق گھونگھٹ میں سمٹی آنگن کے گھنے بوڑھ کے درخت کے نیچے بیٹھی تھی۔ ہوا بند تھی ہر طرف حبس اور گرمی کا زور تھا لیکن وہ گھونگھٹ نہیں اتار سکتی تھی کہ کہیں اس کا شوہر کرم دین نہ آ جائے۔ ان کے خاندان کی رسم ہے کہ کچھ دن تک شوہر سے گھونگھٹ نکالنا تھا۔ شادی کے بعد کچھ دن پہلے میکے گزار کر چند دن پہلے ہی سسرال آئی تھی۔ گرمی کی شدت برداشت نہ ہو رہی تھی۔

”اماں کچھ دیر گھونگھٹ ہٹا دوں میرا دم گھٹ رہا ہے“
اماں (ساس) ”نہ بیٹی ابھی کرم دین آ تا ہی ہو گا چارہ لے، ابھی اس کی نظر تم پر نہیں پڑنی چاہیے“

بے بسی کے عالم میں جنت بی بی اسی چارپائی پر شوخ رنگوں کا لینن کا گھاگھرا پہنے گھونگھٹ کی اوٹ سے اپنے گھر کی چار دیواری پر پھولوں سے لدی بیل کو دیکھ رہی تھی۔ جیسے وہ اسے کہہ رہی ہو، آ جاؤ ہم دونوں ایک دوسرے سے اپنے دل کی کیفیات بیان کریں۔ جیسے میں گرمی کی شدت سے جھلس گئی تھی آج میں پھولوں سے لد گئی ہوں۔ تم بھی ایک دن پھل دار ہو جاؤ گی۔ یہ شدت ختم ہو جائے گی۔

گھر کی کچی دیواروں پر تازہ لپائی کی گئی تھی۔ بارش نے اس پر بھی اپنا رنگ چڑھا یا اور اس پر کیا گیا پوچا بھی اترنے لگا تھا۔ مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو گھر کے آنگن میں پھیل گئی تھی۔ ان دیواروں پر بیٹھی چڑیا پھدک

پھدک کر جنت بی بی کو کہہ رہی تھی آ جاؤ اور اس موسم میں ہمارا ساتھی بن جاؤ۔
دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو اماں نے کہا ”جنت پتر گھونگھٹ اچھی طرح کر لے لگتا ہے کرم دین آیا ہے“

”اچھا اماں“ جنت بی بی نے جواب دیا اور گھونگھٹ کو سمیٹ کر بیٹھ گئی لیکن ہلکا سا آنکھوں سے ہٹا کر کرم دین کو دیکھنے لگی۔ باریک پرانا سا گھسا ہوا سفید رنگ کا کرتا پہنے، لنگی کو گھٹنوں سے اوپر تک کیے ہوئے چارے کا پولا اٹھائے اندر آیا تو پسینے سے اس کا کرتا مکمل بھیگ چکا تھا جس میں سے اس کا سیاہ چمکیلا جسم واضح نظر آ رہا تھا۔ نین نقشہ بھی واجبی سا تھا لیکن جنت بی بی اسے اپنے شوہر کی حیثیت سے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

ابھی تک کرم دین نے جنت بی بی کو گھونگھٹ میں سہمی، سمٹی ہی دیکھا تھا۔ کرم دین نے چارے کا پولا کھولا اور ہاتھ والے ٹوکے کے ساتھ کاٹنے لگا۔ اماں نے کہا

”پتر کرمے، لسی پی لے بہت گرمی ہے۔ پیاس لگی ہوگی شکر ڈال دی ہے لسی میں، ٹھنڈی ہوتی ہے۔ گرمی کی شدت کم ہو جائے گی۔ چھنے میں لسی ڈال کر اماں نے کر مے کو دی تو وہ ایک ہی سانس میں پی گیا اور کام میں جت گیا۔

کرم دین کام سے فارغ ہو کر اماں کے پاس بیٹھ گیا۔ اماں نے ہاتھ میں پنکھا پکڑ کر جھلنے لگی۔ جنت بی بی ابھی تک چار پائی پر بیٹھی خاموش نگا ہوں سے کرم دین کو دیکھ رہی تھی۔ کرم دین کا چھوٹا بھائی جلال دین بھی کھیتوں سے لوٹ آیا تھا۔ اماں نے جنت سے کہا ”جنت بیٹی میں تھک گئی ہوں اٹھنا بیٹھنا بھی اب تو محال ہے۔ بڑھاپا بھی انسان کو دیمک کی طرح چاٹ لیتا ہے۔ جا جلال دین کو لسی دے آ۔ شکر ڈال لینا تھک ٹٹ کے آیا ہے۔ طاقت آئے گی۔

”یہ شور کیسا ہے کرم دین پتر، باہر کیا ہو رہا ہے؟ اماں ہڑ بڑا کر اٹھی۔
”اماں تو نہ گبھرا یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ تحریک پاکستان والے اور ہندو آپس میں لڑتے رہتے ہیں“
”کرمے پتر! کیا پاکستان واقعی بن جائے گا“
”کیوں نہیں اماں اب تو بس کچھ دنوں کی بات ہے“
”تو ہم لوگ یہیں رہیں گے نا!“
”اماں یہ تو حالات ہی بتائیں گے، کیا تیرا دل نہیں چاہتا کہ تو پاکستان میں آزاد سانس لے“

اماں کچھ سوچ کر ”قائد اعظم اور اقبال نے جو کوششیں کی ہیں وہ ضرور رنگ لائیں گی“ شدت جذبات سے اماں کی پلکوں پر آنسو تیرنے لگے۔ ہاتھ دعا کے لیے بلند کیے اور دعائیں مانگنے لگی۔

”اللہ میاں قائد اعظم اور اس کے ساتھیوں کو سکون کی امن کی منزل دے۔ اے میرے رب میرے سپوتوں کو کامیاب کر ۔ جن پتروں نے قربانیاں دی ہیں ان کو بے کار نہ کرنا“

”انشااللہ اماں اب تو پاکستان چند دن میں بن جائے گا“ کرم دین نے پر امید لہجے میں کہا۔
”ضرور بنے گا“ اماں بولی

جنت ابھی تک گھونگھٹ میں ہی رہتی تھی۔ ایک دن اماں نے جنت سے کہا ”جنت بی بی روزوں سے پہلے تیری گھونگھٹ اتروائی ہے بیٹی“

”اماں پرسوں روزہ ہے شاید ماہ رمضان کا چاند نظر آ جائے“
”ہاں تو کل تمھاری رسم کریں گے۔“

جنت بی بی اپنے ہی خیالوں میں گم تھی، مجھے کرم دین دیکھ کر کیا کہے گا۔ کیا پتہ وہ اسے پسند کرے گا بھی کہ نہیں۔ پسند بھلا کیوں نہیں کرے گا؟ اس کے رنگ سے تو میرا رنگ بھی گورا ہے اور پھر کرم دین سادہ سا بندہ ہے کتنا دھیما مزاج ہے اس کا ۔ جلال دین کی طرح غصیلا اور نک چڑھا نہیں ہے۔ آج رات تو جنت کو نیند بھی نہیں آ رہی تھی۔ اماں کی چار پائی کے ساتھ جنت بی بی کی چارپائی تھی۔ کروٹیں بدلتی تو اماں کی آنکھ کھل گئی۔

”پتر جنت کیا بات ہے نیند کیوں نہیں آ رہی؟“
مچھر کاٹ رہا ہے اماں ”

”ساون بھادوں کے دن ایسے ہی ہوتے ہیں حبس الگ اور کاٹنے کے لیے مچھر الگ، میں دھونی دکھا دیتی ہوں شاید بھاگ جائے“

اماں نے اپلوں کا ڈھیر لگایا اور دیا سلائی کی ڈبیہ پکڑ کر آگ لگانا شروع کر دی ڈبیہ اور دیا سلائی بھی نمی کے باعث جلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

”اماں چھوڑ اسے میں جلاتی ہوں“

جنت جنت نے گھاس پھوس اپلوں کے نیچے رکھ کر دیا سلائی جلائی تو آگ جلنے لگی۔ کچھ دیر آگ کے شعلے بھڑکے پھر دھواں ہر طرف پھیلنے لگا دھویں کی گرمی تو تھی لیکن مچھر بھاگ گیا۔

آج کی صبح ایک روشن صبح تھی جنت بی بی کی ساس نے اسے نیا گھاگھرا اور کرتا دیا۔

”جنت بیٹی آج تیری رسم ہے۔ غسل کر کے یہ پہن لے اور دنداسہ بھی کر لینا۔ سرما پیٹی پر پڑا ہے وہ بھی لگا لینا“

جنت بی بی اب رسم کے لیے بالکل تیار تھی۔ اسی رسم کے پیش نظر جنت بی بی نے سسرال میں پہلا کھانا کھیر پکائی۔ شام کے وقت کرم دین نے آنا تھا۔ امنگوں سے بھر ادل لیے جنت کاموں میں مصروف رہی۔

مسجد سے اذان کی آواز آئی تو جنت وضو کر کے نماز کے لیے کھڑی ہو گئی۔ نماز پڑھ چکی تو چارپائیاں صحن میں لگائیں اور دروازے کی طرف تکنے لگی۔

”کرم دین آج بھی تک کیوں نہیں آیا۔ خدا خیر کرے“ انھی خیالوں میں گم تھی کہ دروازہ کھلا اور کرم دین داخل ہوا۔ جنت کا دل خوشی کی لہر سے جھوم اٹھا اور شرما کر کمرے میں چلی گئی۔

”کرم دین پتر آج بہت دیر کر دی“

”ہاں اماں راستے میں ہندو مسلم آپس میں لڑ رہے تھے۔ ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگائے جا رہے تھے۔ مشکل سے بچ کر آیا ہوں“

”خدا خیر کرے۔ اچھا پتر آج تیری اور جنت کی گھونگھٹ اتروائی کی رسم تھی۔ جا جنت تیرا انتظار کر رہی ہے“
گھونگھٹ کی رسم ادا ہوئی۔ اب جنت بی بی اس سے آزاد ہو گئی۔ اب گرمی میں وہ لپٹ کر نہیں بیٹھے گی۔

جنت کو ایسے لگا جیسے وہ پنجرے سے آزاد ہو گئی ہو۔ دیوار کے ساتھ پھولوں سے لدی بیل کی طرح کھلی اور معطر جنت بہت خوش تھی۔ رمضان کے مہینے کی برکتیں اور رحمتیں ہر طرف ڈیرا ڈالے ہوئے تھیں۔

15 اگست 1947، رمضان المبارک کی 27 تاریخ اور جمعہ المبارک کا دن بہت ہی پر نور تھا۔ کرم دین اور جلال دین جمعہ کی نماز ادا کر کے آئے تو ان کے چہروں پر انوکھی خوشی اور اطمینان جھل رہا تھا۔

”اماں پاکستان اب بننے ہی والا ہے۔ اماں مجھے یقین اس کا جلد اعلان ہونے والا ہے“

کرم دین نے ریڈیو چلایا اور خبریں سننے لگا ریڈیو پر مختلف پروگرام چل رہے تھے۔ رات کے 12 بجے تھے کہ اعلان ہوا ”یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے“ یہ سننا تھا کہ کرم دین چار پائی سے ایسے اچھلا جیسے اسے دنیا جہان کی دولت مل گئی ہو، جیسے قفس میں برسوں پرندہ آزادی کی تڑپ لیے پھڑپھڑاتا ہے۔

”اماں اماں! مبارک ہو پاکستان بن گیا“
اماں جو گہری نیند سوئی ہوئی تھی اس خبر سے جاگی جیسے کبھی سوئی ہی نہیں تھی۔

”اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے، تو نے مسلمانوں کی کوششوں کو ضائع نہیں ہونے دیا“ جنت بی بی اٹھ بیٹی شکرانے کے نفل ادا کر ”

دونوں نے وضو کیا شکرانے کے نفل ادا کیے اتنے میں سحری کا وقت ہو گیا سحری کی اور قرآن کی تلاوت کرنے لگیں۔ کرم دین اور جلال دین بھی مسجد سے نماز پڑھنے کے بعد گھر لوٹے تو اماں سے کہنے لگے اماں یہ سکھ اور ہندو ہو سکتا ہے مسلمانوں کو یہاں نہ رہنے دیں۔

جنت بی بی: ”ہمارے گھروں سے کیسے نکال سکتے ہیں۔ یہ گھر کوئی انھوں نے بنا کر تو نہیں دیا نا“

دن ایسے ہی ہنگامے دیکھتے گزرتے گئے۔ عید کا دن آیا تو سب نے عید کی نماز ادا کی۔ اماں نے سب کے گھر سویاں بھیجیں۔ جنت نے نیا سوٹ پہنا ہوا تھا جو اس پر جچ رہا تھا۔ کرم دین کی نظر اس پر پڑی تو دیکھتا ہی رہا۔

”کرم دین:“ جنت بی بی اگر ہمیں ہجرت کرنا پڑی تو ”
”کیوں کرنا پڑے گی؟ میں نہیں جاؤں گی“

کرم دین خاموش نگاہوں سے تکتا رہا پھر باہر چلا گیا۔ ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے کہ کرم دین جانوروں لے لیے چارہ لینے باہر گیا تھا۔ اچانک شور و غل ہونے لگا ”ہم کسی بھی مسلے کو یہاں نہیں رہنے دیں گے“

شور کی آواز تیز ہو رہی تھی کہ جلال دین ہانپتا، بھاگتا گھر میں داخل ہوا۔
”اماں چلو، بھابھی چلو پچھلے دروازے سے نکلو۔ دیر نہ کرو“
”جنت:کیوں کیا ہوا؟
جلال دین: ”جلدی کرو اماں چلو“
جنت بی بی:اماں کرم دین، وہ کہاں ہے؟ کیا ہم اسے چھوڑ کر چلے جائیں گے؟
جلال دین:بھابھی وہ آ جائے گا، وقت نہیں ہے ”

بے سر و سامانی کے عالم میں تین افراد پر مشتمل یہ قافلہ پاکستان کی جانب گامزن تھا۔ ہر قدم پر خطرے کا سامنا تھا۔ جنت کا دل کرم دین میں اٹکا ہوا تھا۔ راستے طے میں چلتے چلتے کئی جگہوں پر مسلمان نوجوان نوجوانوں اور لڑکیوں کی لاشیں بے گورو کفن پڑی تھیں۔ جنت بی بی کے قدم رکے کہ ان پر چادر ہی ڈال دے لیکن جلال دین نے کہاں رکنا نہیں ہے۔ منزل دور ہے۔ راستہ بہت پر خطر، خون آلود گرتے پڑتے خطروں سے بچتے بچاتے پاکستان کی سرحد تک پہنچے تو پاکستان کے جوانوں نے انھیں سرحد پار کروائی۔

اماں نے دھاڑیں مار کر رونا شروع کیا۔ اسے وہ تمام مناظر نظر آرہے تھے۔ پاکستان کی سر زمین پر تینوں نے بوسہ دیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

ایک گاؤں میں انھیں پہنچا دیا گیا، جہاں اور بھی بہت سے مسلمان بے سروسامانی میں ہجرت کر چکے تھے لیکن سب پاکستان کی سر زمین پر آباد ہو کر خوش تھے۔ ”اماں میرے ماں باپ اور کر مدین ابھی تک نہیں آئے۔ ایک سال ہو گیا ہے“ جنت بی بی ہر روز دروازے کی طرف بار بار دیکھتی رہتی۔ کرم دین نہ آیا۔

سات سال کا عرصہ گزر گیا۔ ایک دن جنت بی بی کا والد بہت مشکلوں سے ان تک پہنچا۔ جنت اپنے باپ کو دیکھ کر دھاڑیں مار کر رونے لگی اور اس کی نگاہ دروازے پہ ہی لگی ہوئی تھی۔

”ابا اماں اور بھائی کہاں ہیں؟ اور کرم دین نہیں آیا تیرے ساتھ؟

”جنت بیٹی تیری ماں تو تین سال پہلے ہی اللہ کو پیاری ہو گئی۔ تجھے بہت یاد کرتی تھی تیری جدائی نے اسے مار ڈالا۔“

”باپ بیٹی رونے لگے۔ جنت بی بی کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ لیکن صبر آتے آتے ہی آنا تھا۔

ابا نے جلال دین اور اس کی والدہ کو بتایا کہ کرم دین لوٹ کر نہیں آیا۔ مجھے لگتا ہے اسے سکھوں اور ہندوؤں نے مار دیا ہے۔ وہ اب نہیں آئے گا۔ کرم دین کی ماں اور جنت بی بی ایک دوسرے کے گلے لگ کر بہت روئیں۔ کچھ دن بعد کرم دین کی والدہ نے جنت کے والد سے کہا!

”بھا! تو جانتا ہے ہمارے خاندان میں بہو کو میکے بھیجنے کا رواج نہیں ہے۔ اگر تو کہے تو جلال دین سے اس کا نکاح کر دیتے ہیں۔“

”لیکن جنت بیٹی کی رضا مندی بھی تو چاہیے“

جنت سے پوچھا گیا تو اسے جلال کا نام سنتے ہی چکر آنے لگے۔ اس کا غصہ، اکھڑ پن، یہ سب کیسے برداشت کرے گی اور پھر کرم دین کی جگہ اسے کیسے دے سکے گی۔ اسی ادھیڑ بن میں تھی۔

”اماں! مجھے یقین ہے کرم دین زندہ ہے، وہ لوٹ آئے گا۔ میں جلال دین سے نکاح نہیں کر سکتی۔

والد:جنت بیٹی اگر وہ زندہ ہوتا تو کتنے قافلے پاکستان آئے ہیں، وہ آ چکا ہوتا۔ ضد نہ کر تیری ماں مر چکی ہے۔ میرا کیا بھروسا میں تیرا نکاح کر ہی جاؤں گا ”

جنت بی بی کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔

اس نے مجبورا ہاں کر دی نکاح کی رسم ادا ہوئی اور گھونگھٹ میں سمٹ کر پھر بیٹھ گئی۔ جنت بی بی کو ایسے لگا جیسے وہ ایک پنجرے سے آزاد ہوئی تھی اب دوسرے پنجرے میں قید ہو گئی ہے۔ گھونگھٹ میں بیٹھی جنت بی بی آج بھی کرم دین کا انتظار کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments