عمران، عدلیہ گٹھ جوڑ کے تلخ حقائق


پاکستان کا موجودہ گمبھیر اور پیچیدہ منظر نامہ نہ نیا ہے اور نہ ہی اس کو تبدیل کرنے کا طریقہ نیا ہے۔ حقائق یہی بتاتے ہیں کہ جب بھی طاقتور قوتوں کو ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل کرنے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے اس امر کی کبھی پرواہ نہ کی کہ عالمی یا خطے کا کیا سیاسی اور معاشی منظر نامہ یا ضرورت ہے۔ اس تمام سے قطع نظر ’طاقتور قوتیں جنہیں عرف عام میں ”اسٹبلشمنٹ“ کہا جاتا ہے نے اپنے قائم کردہ سکیورٹی سٹیٹ کے نکتہ نظر کو ہی مقدم جانا ہے۔

عوام کی معاشی اور سماجی صورتحال یا انسانی و جمہوری حقوق کے کیا مسائل ہیں۔ یہ کبھی طاقت کے سوچنے کا مزاج نہیں رہا اور نہ ہی اس قسم کی سیاسی باریکیاں سوچنے سمجھنے کی انہیں تربیت دی گئی۔ سو گنگا کے پتوار کا ناخدا تو مختلف ہو سکتا ہے مگر گنگا جل سے نہانے کا یہی طریقہ ہے کہ ارد گرد سے بے پرواہ اشنان کر لیا جائے اور پاک صاف ہو لیا جائے، سو یہی پچھتر سال بعد اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے ابتدا میں جمہوریت کے ہوتے ہوئے کیا گیا۔

طاقت کے اس طریقہ تبدیلی پر محافظوں کی دلدادہ عوام نہ پریشان ہو اور نہ ہی اسے جمہوریت پسند ہونے کی چنداں ضرورت ہے کیونکہ جب سماج ہی سیاسی نہ ہو گا تو اس میں لائی جانے والی قوت کا نام الطاف حسین ہو یا عمران خان یا کوئی بھی ہو، وہ بھلا کیسے جمہوری ہوسکتے ہیں۔ یہ المیہ نہیں بلکہ غیر سیاسی سماج اور عوام پر تاریخ کا زناٹے دار طمانچہ ہے جو غیر سیاسی سوچ کے عوام کو پڑتا رہا ہے اور پڑ رہا ہے۔ بس دیکھنا یہ ہے کہ عوام کی قوت برداشت کب تک طاقت کے طمانچے کھاتی رہے گی اور محافظوں کے جھولے میں ہچکولے لیتی رہے گی۔

دنیا کی سیاسی تاریخ میں حالات و واقعات کو عوام کی منشا و مرضی کے مطابق جمہوری حقوق سے جوڑنے کا عمل ہمیشہ سیاسی نظریات رکھنے والی سیاسی پارٹیاں ہی نکالتی رہی ہیں۔ دنیا میں بہترین معاشی و سیاسی ماحول کو برقرار رکھنے میں سیاسی جماعتوں کے زمینی حقائق کی روشنی میں مختلف تجربات اور فیصلے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں بر صغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان وہ بد قسمت ملک رہا، جہاں برٹش رائل اکیڈمی کے تربیت یافتہ توپ و تفنگ سے لیس افراد کو پاکستان کی کالونیل حیثیت برقرار رکھنے کا سبق دیا گیا اور پاکستان میں سیاسی و جمہوری عمل کے ساتھ انسانی آزادی کو بھی ملک آزاد ہوتے ہی پنپنے یا بڑھنے نہیں دیا گیا۔

پاکستان کی آزادی کے وقت دنیا میں سوشلزم کے نظریے کے تحت یورپ کے ممالک آزادی اور انسانی حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد میں سرگرم عمل تھے اور آخر کار امریکہ سمیت یورپ کے بیشتر سرمایہ دار ممالک کو ”سوشلزم“ کے انقلابی رجحانات کو دیکھتے ہوئے سوشلزم کے دباؤ کے تحت اپنے ممالک میں جمہوری آزادی اور ویلفیئر اسٹیٹ نا چاہتے ہوئے قائم کرنا پڑیں۔ اسی سوشلزم کے دباؤ کے تحت دنیا سے ”برطانوی کالونی“ کے وجود کو ختم کرنا پڑا اور اسی سبب برصغیر کی ہلچل اور عوامی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کو برطانوی تسلط سے آزادی ملی۔ پاکستان کی آزادی کے وقت عوام سے وعدہ کیا گیا کہ ملک کا سیاسی نظام جمہوریت کی بنیاد پر قائم کیا جائے گا جس میں اقلیتوں سمیت سب کو مساوی انسانی حقوق میسر ہوں گے۔ مگر قائد اعظم کے تمام وعدے اور دعوے ان کی جلد موت کے ساتھ ہی دفن کر دیے گئے بلکہ قائد اعظم کی پہلی نشری تقریر کے اصل مسودے کو ”باوردی محافظوں“ نے ریڈیو پاکستان کراچی سے غائب کروا دیا۔

تقسیم کے وقت پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ اور سوشلزم کے نظریات رکھنے والی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سیاسی محاذ پر مختلف نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتیں تھیں، قائد اعظم کی رحلت بعد مسلم لیگ قائدانہ صلاحیتوں کی کمزوریوں کے سبب موثر نہ رہی جبکہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اس وقت عوام اور مزدور طبقے کی مضبوط پارٹی کے طور پر سماج کے ہر حصے میں موجود تھی۔ اس وقت کمیونسٹ پارٹی کے سوشلسٹ نظریات کی عوام میں مقبولیت اور قبولیت کسی طور بھی برٹش آرمی کے مستعار لیے جنرل ایوب خان کی سربراہی میں اقتدار پرست عسکری افسران کو قبول نہ تھی۔

اس گروہ نے بہت صفائی سے کشمیر کے محاذ پر شکست کھا کر آنے والے جنرل اکبر جو سب سے سینئر افسر تھے، کے ذریعے ایک جعلی ڈرامہ کر کے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور اس کی ذیلی تنظیمیں، ڈی ایس ایف، انجمن جمہوریت پسند خواتین اور تمام مزدور محاذ پر پابندی لگائی گئی جو راولپنڈی سازش کیس کے نام سے ملک کی سیاسی تاریخ کا افسوسناک پہلو ہے۔ اس مقدمے میں فیض احمد فیض سمیت کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری سجاد ظہیر، میجر اسحق کو قید کیا گیا۔ تمام رہنماؤں نے مقدمہ کے دوران ”عدلیہ“ کو واضح طور سے بتایا کہ یہ مقدمہ پاکستانی عوام اور پارٹی کے خلاف ”ریاستی سازش“ ہے۔

جمہوری حقوق کی جدوجہد میں پیش پیش کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر 1956 میں سب سے پہلے ریاستی پابندی لگائی۔ اور اس کے طلبہ، مزدور اور خواتین فرنٹس، ڈی ایس ایف انجمن ترقی پسند مصنفین، انجمن جمہوریت پسند خواتین اور مزدور یونینز کو جبری طور پر کام کرنے سے روکا، مگر تمامتر مارشل لائی ظلم و ستم اور تشدد کے بعد بھی ریاست پاکستان کے عوام، طلبہ مزدور، کسان اور خواتین میں سوشلزم کی جمہوری آزادی کے خواب یا انقلابی جدوجہد کو ختم نہ کر سکی اور تاریخی طور پر آج پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق کی تحاریک اسی سوشلسٹ اور کمیونسٹ جدوجہد کا نتیجہ ہیں جو پابندیوں کے باوجود بھی آج اس سماج کو ایک روشن خیال اور تمامتر استحصال سے پاک سماج دیکھنے کی جدوجہد میں ایک آواز ہیں جب کہ کمیونسٹ پارٹی کے رہنما حسن ناصر کو ایوبی مارشل لا میں شاہی قلعے میں تشدد کر کے مارا گیا اور نذیر عباسی کو جنرل ضیا نے کراچی کے عقوبت خانے میں ٹارچر کر کے قتل کیا۔ جبکہ یہ دو مقدمات ”عدالت“ میں آج تک کسی منطقی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں جس سے ہمارے سیاسی و قانونی نظام کو تاراج کرنے میں ”عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ“ کا واضح گٹھ جوڑ کو سمجھا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے قیام اور خاص طور پر 1958 میں جنرل ایوب کے پہلے فوجی مارشل لا کے بعد ”عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ“ کا یہ گٹھ جوڑ ملک میں مسلسل سیاسی عمل کی کمزوری اور بے توقیری کا سبب بنا رہا، جس میں سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی سے لے کر عوامی لیگ پر پابندی کے علاوہ ہماری عدلیہ آج کے دن تک لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، حسن ناصر اور نذیر عباسی کے ریاستی قتل کا فیصلہ نہیں کر پائی ہے بلکہ یہ بھی تاریخ کی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی طاقتور اسٹبلشمنٹ نے اپنی من پسند سے سیاسی و مذہبی جماعتیں بنانے کی فیکٹری قائم کی لیکن عدلیہ نے اسٹیبلشمنٹ کے اس غیر آئینی کردار کی سیاسی عمل میں مداخلت پر کوئی کارروائی نہیں کی، یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی، نون لیگ، مذہبی و لسانی اور طالبان سوچ کی جماعتیں ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کو بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لئے بنایا اور جونہی اپنی ہی بنائی ہوئی جماعتوں نے سر ابھارنے کی کوشش کی تو انہیں بعد کو ریاستی جبر اور قانون کی گرفت میں باندھ کر پھر نئے تجربے کی طرف جایا گیا۔

اس دوران یہ بات ذہن میں رہے کہ پچھتر برس کے بالواسطہ یا بلاواسطہ براہ راست اقتدار سے جہاں جمہوری قدریں ختم کی گئیں وہیں طلبہ، مزدور ٹریڈ یونین پر پابندی لگا کر پورے سماج کو نہ صرف مذہبی جنون میں دھکیلا گیا بلکہ چار نسلوں کے اذہان عسکریت پسند بنا دیے گئے جس کا نقصان آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ہمارا کمزور سیاسی و معاشی نظام اور سماجی ڈھانچہ ہے جو کسی بھی لمحے دیوالیہ ہونے کا منتظر ہے۔

پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ وہ کون سی قوتیں عمران خان اور ساتھیوں کے پیچھے ہیں جن کے آگے ریاستی قوتیں بہت احتیاط سے قدم اٹھا رہی ہیں۔ میں اس سے قبل بھی لکھ چکا ہوں کہ عمران خان اور بندیال عدلیہ کے پیچھے گولڈ اسمتھ کے عالمی قوتوں کے رابطے مذکورہ افراد کی قوت ہیں جو ملک میں انتشار اور عدم استحکام کی فضا قائم کرنے کے لئے چنے گئے تاکہ پاکستان کے سیاسی اور معاشی ڈھانچے کو نہ صرف برباد کیا جائے بلکہ ادارتی نظام کو بھی اتنا کمزور اور تقسیم کر دیا جائے کہ خطے میں پاکستان اپنی معاشی ترقی کے لئے چین، روس، ایران اور سعودی عرب کے ممکنہ اتحاد کی جانب جانے نہ پائے اور افراتفری سے تنگ آ کر مجبور ہو کر عالمی سامراج کے طاقتور کردار امریکن پالیسیوں کا مطیع رہے، جس کا ایک مضبوط اشارہ موجودہ پالیسی سازوں کی جانب سے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی گوا میں شنگھائی کانفرنس میں شرکت سے دیا گیا جب کہ دوسرا اشارہ چین روس اور ترکی کی G 20 کی عدم شرکت سے دیا گیا۔

اس تناظر میں مستقبل کا پاکستان خطے کی سیاست کے ساتھ خود کو نتھی کرنا چاہتا ہے جبکہ امریکہ اربوں ڈالر خرچ کر کے اپنے ہرکارے عمران کی مدد سے ریاست کے پالیسی سازوں کے راستے کی رکاوٹ بننا چاہتا ہے۔ یہی عالمی طاقتوں اور سوچ کی وہ لڑائی ہے جس کا اہم ”مہرہ“ عمران خان دہشت و وحشت سے پالیسی سازوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں 9 مئی کو ناکام ہوا اور آج اسٹیبلشمنٹ کی دی گئی عمران خان کی ریت کی دیوار جب ڈھینے جا رہی ہے تو اسے سیاسی عمل یا جمہوریت کی جنگ سمجھا جا رہا ہے۔

9 مئی کے واقعات کے بعد سیاسی طور سے عمران خان کی ساکھ کو ضرور نقصان پہنچا ہے۔ مگر ہماری عمران خان کو بار بار سہولت فراہم کرنا بتاتا ہے کہ اس کے پیچھے مغرب اور عالمی سامراج مکمل طور سے کھڑا ہے اور عالمی سامراج عوام میں مایوسی اور انتشار کی کیفیت پیدا کر کے خطے میں پڑوسی چین و دیگر ممالک کی اقتصادی ترقی اور مدد پر پاکستان کا انحصار نہیں چاہتا۔

وارث رضا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وارث رضا

وارث رضا سینیئر صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار ہیں۔ گزشتہ چار عشروں سے قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں لکھ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے کہنہ مشق استاد سمجھے جاتے ہیں۔۔۔

waris-raza has 35 posts and counting.See all posts by waris-raza

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments