کہانی نگار، شاعر اور ہدایتکار ڈاکٹر حسن زی کی علمی فلمی باتیں


رواں سال بروز منگل 23 مئی میں ڈاکٹر حسن زی سے ملنے ان کی ہمشیرہ کے ہاں گیا۔ اس نشست میں ڈاکٹر صاحب سے علمی اور فلمی باتیں سنیں۔ میرے ذہن میں کئی سوالات تھے جیسے ’انڈی پینڈنٹ فلمز‘ کیا ہوتی ہیں؟ ان کے بنانے کی تحریک کب شروع ہوئی؟ ان فلموں کے باوا آدم کون مانے جاتے ہیں؟ ان کی تحریک کا کیا نام تھا؟ وغیرہ۔ تو بات کا آغاز یہیں سے ہوا۔

ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا: ”شکریہ شاہد لطیف صاحب! آپ نے ایسے اہم موضوعات پر مجھے کچھ کہنے کا موقع دیا۔ وحید مراد، دیبا، زیبا، محمد علی ہماری فلمی صنعت کے خوبصورت نام ہیں۔ اپنی فلمی دنیا کی ان لوگوں کی خوبصورت شبیہ لے کر میں امریکہ گیا تھا۔ یہ ٹھان لی کہ میں بھی اپنی زندگی میں فلمیں بناؤں گا۔ تو وہاں سب سے پہلے سان فرانسسکو پبلک لائبریری جانے کا اتفاق ہوا۔ مجھے چوں کہ پڑھنے لکھنے اور علم حاصل کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ اس دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ اب بھی ہفتہ میں دو تین مرتبہ ضرور اس لائبریری میں جاتا ہوں۔ تو میں نے امریکہ جاتے ہی پڑھنا شروع کر دیا۔ میں اس لائبریری میں انڈیپینڈنٹ فلموں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا اور یہی میری تحقیق بھی تھی۔ انڈیپینڈنٹ فلموں کو جاننے سے قبل کمرشل فلموں کا جاننا ضروری تھا۔ سان فرانسسکو پبلک لائبریری کا ایک فلور سنیما کی کتابوں پر موجود ہے۔

وہاں لائبریری میں ایک پاکستانی، معظم شیخ صاحب بھی اس لائبریری میں کام کرتے ہیں۔ یہ پچھلے 30 سال سے سان فرانسسکو میں رہتے اور خود بھی فلموں کا شوق رکھتے ہیں اور اگر کوئی اچھی کتاب آئے تو مجھے ضرور بتاتے ہیں۔ جب میں یہاں سے نیا نیا گیا تو مجھے ہالی ووڈ کی بڑی بڑی فلموں ہی کا پتا تھا۔ ویسے بھی پاکستان میں ہالی ووڈ کی بڑی فلمیں ہی نمائش کی جاتی ہیں۔ جیسے ’اسپیڈ‘ ( 1994 ) ، ’راکی‘ ( 1976 ) ، ’راکی۔ 2‘ ( 1979 ) ، ’راکی۔ 3‘ ( 1982 ) ، ’جوریسک پارک‘ ( 1993 )“ ۔

” لیکن میں جب سان فرانسسکو گیا تو وہاں کی پبلک لائبریری میں ایک پورا سیکشن ’انڈی پینڈنٹ‘ فلموں کی ڈی وی ڈیز کا ملا۔ جیسے سوئیڈن کا انڈی پینڈنٹ سنیما، فرانس کا ، اطالوی، روسی، جرمن اور دیگر ممالک کا ۔ اس کو دیکھ کر مجھے مزید جاننے کی لگن پیدا ہوئی۔ سو میں نے ایک دو اطالوی فلمیں منتخب کیں جیسے دل کو چھو لینے والی فلم ’بائیسیکل تھیف‘ (سائیکل چور) ۔ میں نے جب وہ فلم دیکھی تو مجھ پر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری ہو گئی۔

نہایت ہی سادہ فلم ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اطالیہ میں انڈی پینڈنٹ سنیما بننا شروع ہوا۔ اس فلم کے بعد مجھے مزید اطالوی انڈی پینڈنٹ فلمیں دیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ میرے ایک دوست ’جیفری جونز‘ نے میرے شوق کو دیکھتے ہوئے مزید کچھ اطالوی فلموں کی نشاندہی کی۔ ان میں ایک فلم ’سنیما پیرا ویسو‘ ایک چھوٹے بچے کی کہانی ہے جو سنیما میں فلم دیکھنا چاہتا ہے لیکن اسے دیکھنے کی اجازت نہیں! وہ فلم چلانے والے پروجیکشنسٹ کا دوست بن جاتا ہے۔

وہ بچہ اس سارے عمل کو انہماک سے دیکھتا ہے۔ تمام تر فلم ایک بچے کے نقطۂ نظر سے بنائی گئی ہے کہ وہ کیا سوچتا اور محسوس کرتا ہے۔ اس فلم کو دیکھنے سے مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں ہی وہ بچہ تھا۔ اس دن سے میں نے خود اپنے ساتھ کیے گئے وعدے کی تجدید کی کہ میں بھی امریکہ میں فلم بناؤں گا۔ زندگی مسائل کا نام ہے۔ آپ نے اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کو خوش کرنا ہے۔ دوستوں میں بھی رہنا ہے، ایک سند بھی ہونا ضروری ہے۔ لیکن ان سب میں آپ اپنے خوابوں کا کیا کریں گے؟ بچپن سے اپنے دل میں رکھی گئی 99 فی صد خواہشات اور خواب لوگ بھلا دیتے ہیں۔“ میرے خوابوں کا کیا ہو گا ”میں نے ایک غزل بھی لکھی ہے۔ کبھی آپ کو سناؤں گا“ ۔

انڈی پینڈنٹ فلموں کے باوا آدم فالینی ( 1920۔ 1993 ) :

” دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں ایک ہر ایک جہت میں انقلاب سا آ گیا تھا۔ کیا نثر کیا شاعری کیا فلم! بے شمار تبدیلیاں آئیں۔ نئے لوگ سامنے آئے۔ ان نئے لوگوں میں اطالیہ کے ’فریڈیکو فالینی‘ نامی صاحب بھی تھے۔ اطالیہ میں بھی انقلابی سوچ پروان چڑھ رہی تھی اس کا اثر سنیما اور فلم پر بھی پڑا۔ فریڈیکو فالینی نے سب سے پہلے یہ کہا کہ فلم کیا ہے؟ کیمرہ اور آواز ہے! انہوں نے مختصر ترین آلات اور روشنی کو استعمال کر کے ’نیو رئیل ازم‘ ( نئی حقیقی) فلموں کا آغاز کر دیا۔

جب کہ اسی دور میں اطالوی فلم اسٹوڈیوز میں بڑے بڑے سیٹ لگا کر ایک عام آدمی کی سوچ سے بھی اوپر کی عالیشان فلمیں بنتی تھیں۔ ایک آرٹسٹ کی فلم بنانے کی سوچ کو موقع نہیں جا سکتا تھا۔ فالینی نے نیو رئیل ازم کے ذریعہ لوگوں کو بتایا کہ آپ آزادانہ طور پر ایک چھوٹی فلم بنا سکتے ہیں۔ اس میں اسٹوڈیو کے بجٹ کی ضرورت نہیں ہے“ ۔

یہاں ڈاکٹر زی نے ایک بہت اہم بات بتلائی: ”میں سمجھتا ہوں کہ فلم کی سب سے بنیادی چیز اس کی کہانی ہوتی ہے۔ آیا فلم کا مرکزی کردار دیکھنے والے کو متاثر کرتا ہے؟ اور وہ پھر مرکزی کر دار/کرداروں کو دیکھنے کے لئے 90 منٹ بیٹھ بھی سکتا ہے؟ دیکھنے والا محسوسات کی دنیا میں کرداروں کے ہمراہ جاتا ہے۔ آپ ایک سنیما گھر میں فلم دیکھنے جاتے ہیں تو وہاں ایک علیحدہ سے ماحول ہے۔ آپ ٹکٹ خرید کر ایک اندھیرے محل میں چلے جاتے ہیں۔

اندر سیٹیں لگی ہوئی ہیں۔ آپ ایک دوسری دنیا میں آ گئے ہیں! وہ دنیا آپ کی آنکھوں، کانوں اور دل پر اثر کرتی ہے۔ پردہ اسکرین پر مناظر اور گانے چل رہے ہیں، جذبات اور احساسات کا اظہار ہو رہا ہے وہ اس ماحول میں بیٹھ کر ایک بھرپور تجربہ ہوتا ہے۔ گھر میں، لیپ ٹاپ یا موبائل پر آپ فلم تو دیکھ لیں گے لیکن سنیما والا بھرپور تجربہ حاصل نہیں ہو سکتا“ ۔

” بات ہو رہی تھی فالینی کی۔ اطالوی سنیما کے لئے جب انہوں نے فلمیں بنائیں جیسے : ’لا اسٹراڈا‘ اور ایک زبردست فلم ’نائٹس آف کبیریا‘ بنائیں تو ان فلموں نے فلم بینوں کے دل و دماغ میں اپنی جگہ بنا لی۔ میں بھی اپنی فلم ’سان فرانسسکو کاؤ بوائے‘ بنا تے وقت فالینی کی اس فلم سے متاثر تھا۔ اطالوی سنیما میں فالینی نے بڑا کام کیا ہے۔ پھر فالینی کے ایک شاگرد ’پاسولینی‘ ( 1922۔ 1975 ) نے بھی اپنے حصہ کا بڑا کام کیا۔

میں نے ان کی بھی بہت سی فلمیں دیکھ رکھی ہیں۔ یہ انقلابی سوچ کی سماجی موضوعاتی فلمیں بناتے تھے۔ چرچ کے پھیلائے ہوئے ڈر اور خوف پر بھی انہوں نے فلمیں بنائیں۔ ان کی کچھ فلموں کی نمائش پر خود اطالیہ میں پابندی لگ گئی تھی۔ چرچ کے اور دیگر لوگ ایسی فلموں کے خلاف تھے۔ چوں کہ پاسولینی اپنی سوچ میں اتنے بے باک تھے کہ جب ان کی فلم“ سیلو ” ( 1975 ) ریلیز ہوئی تو اس کے فوراً بعد انہیں اطالیہ ہی میں قتل کر دیا گیا۔

’اینٹونیونی‘ ( 1912۔ 2007 ) بھی ان کے ایسا فلم میکر ہے کہ جب ان کی فلمیں دیکھتے ہیں تو واقعی پتا چلتا ہے کہ حقیقی فلم انسانی جذبات کے اتنے قریب ہے! یہ لوگ کیمرے کو اتنے قریب لے گئے ہیں کہ آپ ایک اور ہی دنیا میں چلے جاتے ہیں۔ اس کی تھوڑی سی جھلک گرو دت فلمز کی سنیما اسکوپ فلم“ کاغذ کے پھول ” ( 1959 ) میں نظر آئی جو آپ نے مجھے بتلائی تھی“ ۔

” سنیما کے پردے پر اداکار ہوتا ہے لیکن ڈائریکٹر سمیت بہت سے لوگ پردے کے پیچھے مناظر کے اتار چڑھاؤ اور جذبات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ہر ایک شعبہ اور ہر فرد کی انفرادی اہمیت مسلمہ ہے۔ فلم میں ساؤنڈ کی اہمیت سے کون واقف نہیں! فلم میں اچھی ساؤنڈ بے حد ضروری ہے۔ میں نے سوچ بچار اور تحقیق کے بعد ساؤنڈ کا کام کسی انڈین آرٹسٹ سے کروانے کا فیصلہ کیا۔ تو ہریانہ کے ایک لڑکے رشی شرما نے ساؤنڈ ڈیزائنر کی حیثیت سے میری فلم“ سان فرانسسکو کو اؤ بوائے ”پر کام کیا ہے۔ اس کی ٹیم میں تین افراد اور بھی تھے۔ جنہوں نے مکالموں، ساؤنڈ ایفیکٹس ( صوتی اثرات ) اور میوزک پر الگ الگ کام کر کے اس کو دیا پھر رشی نے فائنل مکسنگ کی۔ تقریباً 50,000 قسم کی آوازیں ہم نے اس فلم میں لگائیں“ ۔

” جب پاکستان میں لفظ فلم کی بات ہوتی ہے تو ایک دم فلم میکنگ کی بات ہوتی ہے۔ جب فلم میکنگ کی بات کریں تو ساتھ ہی لوگ سوال کرتے ہیں کہ فلم کتنا کما کر دے گی؟ اب یہ ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے! فلم کو پیسہ سے تولا جاتا ہے۔ ہمیں اس سے آگے بڑھنا ہو گا۔ جب میں میڈیکل ڈاکٹر بن رہا تھا تو میرے ذہن میں بھی کم و بیش ایسی ہی بات ڈالی گئی تھی کہ تم ڈاکٹر بن کر قوم کی خدمت کرو گے اور اس کے بعد تمہیں بہت سے پیسے ملیں گے اور تمہاری زندگی آسان ہو جائے گی۔ ٹھیک ہے آپ کو پیسہ چاہیے لیکن جو ڈاکٹر کا پیشہ ہے دکھی انسانیت کی خدمت کرنا وہ اصل چیز ہے۔ اجرت /پیسے پر زیادہ دھیان دینے کے بجائے محنت پر دیں اور مزید سیکھیں۔ سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہو سکتا! “ ۔

” میں یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ سنیما صرف کمرشل سنیما نہیں ہے۔ دنیا میں فلم، ثقافت کا حصہ ہے۔ فلم کے اسکول ہیں طلباء پڑھتے ہیں پھر ساری زندگی کچھ نیا سیکھتے رہتے ہیں۔ پچھلی غلطیوں کو نئی فلم میں نہیں دہراتے۔ وہ جب تک دم میں دم ہے اپنا کام کرتے رہتے ہیں! لہٰذا صرف کمرشل سنیما ہی نہیں بلکہ اس کے متوازی ایک بہت بڑی تحریک ہے جس کو انڈیپینڈینٹ سنیما کہتے ہیں۔ اس پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ انڈی پینڈینٹ سنیما اطالیہ سے شروع ہوا تھا پھر جرمنی میں بے شمار انڈیپینڈینٹ فلمیں بنیں۔

یہاں ’ورنر فسبنڈر‘ ( 1945۔ 1982 ) نامی فلم میکر کا بڑا نام ہوا۔ اطالیہ کا ’وینس فلم فیسٹیول‘ اور فرانس میں ’کینز فلم فیسٹیول‘ تو اس سلسلے میں مستند نام ہیں۔ فرانسیسی کہتے ہیں کہ ہم ہالی وڈ سے بھی پہلے سے فلمیں بنا رہے ہیں۔ میں نے واقعی فرانسیسی ڈائریکٹر و ں کی 1895 کی فلمیں دیکھی ہیں۔ گویا فرانس، جرمنی اور اطالیہ میں ہالی وڈ کے وجود میں آنے سے پہلے بھی کام ہو رہا تھا۔ اور تو اور جاپان میں تو انڈیپینڈینٹ سنیما کو نہایت ہی اونچے مقام پر پہنچا دیا گیا ہے۔

میں نے جب ان کی چند فلمیں دیکھیں تو میں حیران و پریشان ہی رہ گیا! جاپان میں بھی انڈیپینڈینٹ فلم فیسٹیول ہوتا ہے۔ میری فلمیں بھی ان فیسٹیول میں چلتی ہیں۔ آپ کو ایسے فیسٹیول کو دیکھنا ہوتا ہے جہاں آپ کو یقین ہو کہ وہ آپ کی فلم چلائیں گے۔ سالانہ دنیا بھر میں پانچ سے چھ ہزار انڈیپینڈینٹ فلمیں بنتی ہیں۔ اب کتنی فلمیں فیسٹیول چلائیں گے؟ دیکھنا پڑتا ہے کہ اپنی انڈیپینڈینٹ فلم اس فیسٹیول میں بھیجیں جہاں وہ اسکرین بھی ہو! “ ۔

” انڈیپینڈینٹ سنیما میں فرانس بہت آگے ہے۔ جرمن ڈائریکٹر ورنر فسبنڈر نے کوئی 40 کے قریب انڈی پینڈنٹ فلمیں بنائیں۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے فلم ڈائریکٹر ہیں جنہوں نے بڑے اسٹوڈیوز سے ہٹ کر انڈی پینڈنٹ فلمیں بنائیں۔ وہ فلمیں نہ صرف بہت مقبول ہوئیں بلکہ پیسے بھی بنائے۔ اسی لئے وہ ڈائریکٹر مسلسل اپنی فلمیں بناتے رہے“ ۔

” ہمارے ہاں بھارت سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ یہی ابتدا اور یہی انتہا ہے! پاکستان میں اگر کوئی انڈی پینڈنٹ فلم بنانے کی کوشش کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تھرڈ کلاس اور غیر معیاری فلم ہے۔ یہی فلم اگر بھارت میں بنے تو کہا جائے گا واہ کیا آرٹ فلم بنی ہے! ایسا کیوں ہے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” ہمارے ہاں بنیاد ہی لیبل لگانے سے شروع ہوتی ہے۔ مثلاً آپ کسی سے ملنے جاتے ہیں سب سے پہلے وہ دیکھے گا کہ آپ نے گھڑی کون سی پہنی ہے۔ کپڑے کیسے ہیں؟ کس گاڑی میں آئے ہیں؟ اب اس نے آپ کو آپ کے درجے /اوقات میں رکھ دیا۔ یورپی ممالک اور امریکہ میں ایسا ناپ تول نہیں کیا جاتا۔ وہاں آپ کی صلاحیت اور آپ کے فن کے بل بوتے پر آپ کو پرکھا جاتا ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں لیبل لگانا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔

جب ہم لیبلوں سے باہر نکلیں گے تب ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ آج دیکھیں انڈیا فلمی تکنیک میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے کہ میں نے بھی وہاں سے اپنی فلم کی ساؤنڈ کروائی ہے۔ انہوں نے جتنے دنوں میں کام مکمل کر کے دینے کا وعدہ کیا تھا وہ پورا پورا ایفا کیا گیا! یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر صاحب! آپ ہیں تو پاکستانی لیکن جو عرق ریزی ہم نے آپ کی فلم میں کی، اس سے پہلے کسی ڈائریکٹر کے لئے نہیں کی ”۔

” بہ حیثیت ڈاکٹر میں نے یہاں کی سب سے بڑی بیماری پکڑ لی ہے کہ لیبل لگانا ختم کریں! آپ چیزوں کو دیکھیں۔ آپ نے ہزارہا بڑی فلمیں دیکھی ہوں گی۔ آپ مزید دیکھیں لیکن چھوٹی انڈیپینڈینٹ فلمیں بھی دیکھیں اور معیار کے مطابق ان کو تو لیں۔ یہاں ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ نصیر الدین شاہ، شبانہ ا عظمی، راج ببر اور سمیتا پٹیل نے انڈی پینڈنٹ آرٹ فلموں سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ فلم میکر اور اداکارہ ’نندیتا داس‘ (پیدائش 1969 ) میری جاننے والی ہیں۔ یہ سب ڈرامہ اسکول سے نکلتے ہیں۔ پھر اسٹیج پر کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد آرٹ فلموں کو رخ کرتے ہیں۔ کمرشل فلم اس کے بعد کی بات ہے۔ کچھ لوگ کامیاب رہے اور کچھ واپس ہو گئے“ ۔

” اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ فلم صرف کمرشل ہی نہیں ہے بلکہ انڈی پینڈنٹ سنیما ایک بہت بڑی تحریک ہے۔ میں بھی اس پر کام کر رہا ہوں۔ میں نے بھی اپنی فلمیں اسٹوڈیو سے باہر آزادانہ بنائیں۔ پھر فلم ثقافت کا ایک حصہ بھی ہے اس میں تعلیم کا عنصر بھی ہے۔ اسی لئے تو یورپی ممالک، امریکہ، آسٹریلیا اور بہت سے دیگر ممالک کی حکومتیں ہر سال اس کے لئے سالانہ فنڈنگ کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ بھی ایسی فلموں کی ایک تعداد مقرر کرے کہ اس سال ہم نے اتنی فلمیں بنانی ہیں اور اپنی ثقافت کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کو رقم اور سہولیات فراہم کرنا چاہیے جو اس شعبے سے وابستہ ہیں“ ۔

” کیا آپ کو لگتا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ انڈیپینڈینٹ فلمیں بنانا شروع کریں گے؟“ ۔

” ابھی پچھلے دنوں شعیب منصور کی دو فلمیں دیکھیں :“ خدا کے لئے ” ( 2007 ) اور“ بول ” ( 2011 ) ۔ ان میں انڈیپینڈینٹ سنیما کی جھلک تھی۔ میرا خیال تھا کہ ان فلموں کے بنانے کے بعد شعیب منصور مزید فلمیں بنائیں گے لیکن لگتا ہے کہ کمرشل پہلو سامنے آ گیا ہو گا کہ فلم نے کتنے پیسے بنائے ہیں؟ اگر مطلوبہ رقم بنائی تو ہی اگلی فلم بنے گی۔ جب کہ اطالیہ، جرمنی، فرانس وغیرہ نے ان فلموں کے لئے ایک مخصوص بجٹ رکھا ہوا ہے خواہ وہ فلمیں پیسے بنائیں یا نہیں!

اب یا تو حکومت پاکستان میں اس شعبے کے ذمہ داروں کو اس شعبے کی اہمیت معلوم ہی نہیں یا پھر ان کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں! آج کل تو اس کام کی نگرانی کرنا کوئی خاص مشکل بھی نہیں۔ ان لوگوں کی کمیٹیاں بنائی جائیں جنہوں نے اس میدان میں کام کر رکھا ہو پھر زوم پر باہم گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ایک شخص کے کہنے سننے سے ایسے کام نہیں ہوتے۔ انڈیپینڈینٹ فلموں کی ترویج بہت سے ہم خیال لوگوں کے اشتراک سے کامیاب ہوتی ہے۔

خیالات کا تبادلہ ہونا از حد ضروری ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ایک بجٹ مختص کیا جانا چاہیے۔ پھر آٹھ دس فلمیں (کمرشل نہیں ) بنائی جائیں تا کہ لوگوں میں ایک شعور پیدا ہو کہ انڈیپینڈینٹ سنیما کیا ہے! ان کو بھی دل کے تاروں کو چھونے والی کہانیاں دیکھنے کو ملیں۔ تب ہی بتدریج ایسی فلمیں دیکھنے کا رجحان بنے گا۔

خواب ایک قیمتی اثاثہ:

” دنیا کے ہر اک کام کرنے میں مشکلات کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ اب یہ سمجھ لینا کہ ڈاکٹر حسن زی سان فرانسسکو میں رہتے ہیں لہٰذا صبح اٹھ کر دن بھر کے تمام کام الہ دین کا چراغ رگڑتے ہی ہونے لگیں۔“ ۔

” (ہنستے ہوئے ) جی نہیں شاہد صاحب! سب سے پہلی بات خواب ہیں! آپ بچپن میں ایک خواب دیکھتے ہیں۔ پھر اس کو پورا نہ کرنے پر آپ کی زندگی ادھوری رہ جاتی ہے۔ اس جذبے کو لے کے جب روزانہ صبح آپ کی آنکھ کھلتی ہے تو سامنے مصیبتوں کے پہاڑ کھڑے ہوتے ہیں۔ میں نے اب تک چھ فلمیں بنائی ہیں۔ مجھے بھی ایسے ہی چھوٹے بڑے پہاڑوں کا سامنا رہا۔ یہی للکار / چیلینج تو فلم میکر کو پسند ہوتی ہے۔ اگر اس کو ہر ایک چیز بہ آرام ملے تو پھر زندگی میں سے جستجو ہی نکل جائے!

فلم آپ کا بچہ ہے۔ پہلے وہ پیدا ہوتا ہے پھر تھوڑا بڑا ہوتا ہے تب آپ سوچتے ہیں کہ یہ اپنے دیکھنے والوں کے پاس کس طرح پہنچے گا؟ فلم، فلم میکر اپنے دیکھنے کے لئے تو نہیں بناتا کہ روز صبح اٹھ کر فلم لگا کر دیکھے۔ نہیں! وہ تو عام آدمی کے لئے بناتا ہے۔ وہ سوچتا رہتا ہے کہ کیا کیا جائے کہ دیکھنے والے اسے قبول کریں! تقسیم کار بھی اتنی آسانی سے محض ایک فون کال پر آپ کی فلم نہیں اٹھاتا۔ لیکن جب آپ دھن کے پکے ہو کر یہ کام کرتے جائیں تو دس بند دروازوں کے بعد ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔

اور کوئی تقسیم کار کہتا ہے کہ ’ہاں مجھے تمہاری فلم پسند آئی‘ ۔ گویا انڈیپینڈینٹ فلمیں بنانے میں بھی مشکلات ہیں۔ یہ مشکلات ہی تو زندگی کا سرمایہ ہیں۔ ان کے بغیر تو زندگی بے معنی ہے! ہر قدم پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ کم وسائل کے ساتھ پردہ اسکرین پر پہنچا کر جب وہ فلم آپ دیکھتے ہیں تو تمام تر مشکلات کے بعد آپ ایک لمحہ کو سوچتے ہیں کہ زندگی کتنی حسین ہے! “ ۔

” کبھی ایسا ہوا کہ آپ کی فلم کے ساتھ کوئی بڑی فلم بھی لگی ہو؟“ ۔

” میری سب سے پہلی فلم“ نائٹ آف حنا ” ( 2005 ) جب نیو یارک میں چل رہی تھی اس کے ساتھ ہی اگلے تھیٹر میں رابن ولیمز کی فلم چل رہی تھی۔ میں نے زندگی میں کوئی خواب بھی نہیں دیکھا تھا کہ ایسا ہو گا۔ جب میں باہر نکل رہا تھا تو رابن ولیمز بھی باہر نکل رہے تھے۔ چند سیکنڈ کو یوں لگا جیسے زندگی منجمند ہو گئی ہو! “ ۔

” نیو یارک ٹائمز ایک بڑا اخبار ہے۔ اگر آپ وہاں شائع ہو جائیں تو پورے امریکہ میں آپ سند یافتہ ہو گئے کہ واقعی آپ نے کوئی تیر چلایا ہے! تو میری فلم“ نائٹ آف حنا ” ( 2005 ) کے بارے میں مذکورہ اخبار میں لکھا گیا۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).