ثریا شہاب: کومل لہجہ اور ریشم کے تار سی آواز


”آواز کی دنیا کے دوستو! آداب!“

یہ جملہ 1960 کے عشرے میں کئی برس تک، آغاز صبح کے ساتھ، ریڈیو زاہدان کے سٹوڈیوز سے ابھر کر، ہوا کے دوش پر سفر کرتا ہوا، دنیا بھر میں اردو بولنے اور سننے والے کروڑوں لوگوں کے کانوں میں رس گھولتا رہا۔ خوبصورت دلنشیں آواز، گداز کومل لہجہ، جیسے حریر و دیبا کے جھولے پر مدھر گیت کے ہلکورے۔ ریڈیو زاہدان سے یہ ریشمی آواز کسی ایرانی دوشیزہ کی نہیں، ایک پاکستانی خاتون کی تھی۔ اس کی آواز میں تھے سارے خد و خال اس کے۔ وہ آئینے میں اپنے عکس اور اپنی آواز کی شبیہ سے بالی عمریا کی لڑکی ہی دکھائی پڑتی تھی، نام تھا: ثریا شہاب

ثریا شہاب زاہدان میں چند برس گزار کے پاکستان واپس آئی تو اس کی زندگی کا نیا درخشاں دور شروع ہوا، یہ دور ثریا کی ذات کے لئے بھی تابناک تھا، اور پاکستان میں نشریات کے شعبے کے لئے بھی۔ اس سنہری دور کی یادوں کے سائے آج بھی میرے ذہن پہ چھائے ہیں، اور، کبھی کبھی، ان دھندلاتے سایوں کی اوٹ سے، کچھ منظر، ایک جھپاکے سے، میری آنکھوں کے آگے روشن ہو جاتے ہیں۔

یہ 1973 میں جولائی یا شاید اگست کا کوئی دن تھا، اور گیارہ ساڑھے گیارہ بجے کا وقت۔ تب ٹیلیویژن کی صبح کی نشریات نہیں ہوتی تھیں۔ میں پاکستان ٹیلیویژن کے چکلالہ مرکز کے نیوز روم میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ فون اٹھایا، تو کسی نے کہا کہ آغا ناصر بات کریں گے۔ آغا ناصر ہمارے ڈائریکٹر پروگرامز تھے، ادارے کے سربراہ یعنی مینیجنگ ڈائریکٹر کے بعد پاکستان ٹیلیویژن کے سب سے بڑے افسر۔ سلام دعا ہوئی تو آغا صاحب نے پوچھا: ”رضوی، کہاں ہیں؟“ ۔ بتایا کہ بس پہنچنے ہی والے ہیں۔ بولے : ”دیکھو، ہم ایک لڑکی کو بھیج رہے ہیں، اس کا آڈیشن کرا لینا“ ۔ آغا صاحب کا طرز تکلم ایسا ہی تھا، وہ، گفتگو کے دوران، اپنے لئے جمع متکلم کا صیغہ استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے جس رضوی کا پوچھا تھا، وہ ہمارے نیوز ایڈیٹر تھے، رضی احمد رضوی۔ ویسے تو ہمارے ہاں، ہر مہینے، دو مہینے کے وقفے سے، آڈیشن ہوا ہی کرتا تھا تاکہ ایسے باصلاحیت افراد ڈھونڈے جائیں جو تربیت کے بعد نیوز کاسٹر بن سکیں۔ ہر بار ایسے آڈیشن میں ساٹھ ستر لوگ قسمت آزمائی کرتے تھے، مگر شاذ و نادر ہی کوئی ایسا بندہ ملتا جس میں نشریاتی صلاحیت کا شرارہ ہو۔ لیکن آج صرف ایک لڑکی کے لئے آڈیشن کا تام جھام سجانا تھا، حکم حاکم جو تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد پھر آغا ناصر کا فون آیا۔ تب تک رضوی آ چکے تھے۔ آغا صاحب نے نیوز ایڈیٹر کو بھی اس لڑکی کے آڈیشن کا کہا۔ شاید وہ یقینی بنانا چاہتے تھے کہ اس لڑکی کا آڈیشن ضرور کر لیا جائے۔ کیوں؟ نہ رضوی صاحب کو کچھ پتا تھا، نہ میں کوئی اندازہ لگا سکتا تھا۔

اسی دن، تیسرے پہر، وہ لڑکی نیوز روم میں آ گئی۔ خیر، وہ لڑکی تو نہیں تھی، دوشیزگی کی سرحد پار کر کے، آغاز شباب سے چند برس آگے کو نکلتی ہوئی، دبلی پتلی، سانولی سلونی، کومل سی، کامنی سی، نازک بدن، سبک اندام۔ وہ عورت تھی یا آغا صاحب کے بقول لڑکی، اس کے چہرے میں جاذبیت تھی، اور آنکھوں میں ستارے دمکتے تھے۔ اگر مانی و بہزاد حسن ملیح یا جاذب نمکین چہرے کی تصویر بناتے تو اپنے موئے قلم سے شاید ایسا ہی مرقع کھینچتے جو نقش دوام بن جاتا۔ سادہ سا لباس، نہ میک اپ، نہ زیور، نہ آرائش و زیبائش۔ اس سادگی میں ایک وقار تھا، اس کے انداز میں رکھ رکھاؤ، اور اس کی گفتگو میں سلیقہ۔ خبرنامے کا ایک پرانا مسودہ اس لڑکی یا عورت کو دیا گیا کہ ایک نظر دیکھ لے یا ریہرسل کر لے۔ انجنیئرنگ کے شفٹ انچارج کو کہہ کے، ہنگامی طور پہ، سٹوڈیوز میں آڈیشن کا اہتمام کیا گیا، آغا ناصر کا حکم یا فرمائش جو تھی۔

رضوی صاحب، میں، اور ایک دو اور نیوز پروڈیوسر کنٹرول روم میں گئے، خاتون کو سٹوڈیو میں بھیجا، کیمرا آن ہوئے اور فلور مینیجر نے مائیکروفون آن کر دیا اور خاتون کو پڑھنے کا اشارہ ((cue) دیا۔

اس نے ایک ہی جملہ پڑھا تو لگا کہ رسیلی آواز نے دھیمے سروں میں شیریں نغمے کی دھن اٹھائی ہے، نسیم سحر کا لطیف جھونکا کانوں کو چھو کے گزرا ہے، فضا میں مہتابیاں سی پھوٹی ہیں، افق پہ قوس قزح کے رنگ بکھرے ہیں یا کسی نے محفل میں موتیے کی کلیوں سے بھری چنگیر الٹ دی ہے جس کی بھینی بھینی خوشبو نے مشام جاں کو معطر کر دیا ہے۔ جملہ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ رضوی صاحب نے اپنی پیشانی پہ ہاتھ مارا اور بولے : ”ارے! یہ تو وہی ہے، ریڈیو زاہدان والی“ ۔ پانچ سات جملے سنتے ہی آڈیشن تمام ہوا۔ ہم سب اور وہ لڑکی واپس نیوز روم میں آ گئے۔ اب رضوی صاحب تو اس کے آگے بچھے جا رہے تھے، لہلوٹ ہو رہے تھے۔ اس روز انہوں نے، اپنی روایت سے ہٹ کے، نائب قاصد کو چائے لانے کا آرڈر بھی دیا، اور خاتون سے ریڈیو زاہدان کی باتیں شروع کر دیں : ”اجی! ہم تو بچپن سے آپ کو سنتے آئے ہیں“ ۔ پتا نہیں وہ کس کے بچپن کی بات کر رہے تھے، اپنے یا خاتون کے۔ رضوی صاحب کی بات سن کے وہ کچھ لجائی، تھوڑا کسمسائی، اضطرار میں پہلو بدلا، اور حیرت سے اس کے لب وا ہوئے : ”ہائیں! ہم، آپ سے اتنا بڑے تو نہیں ہیں“ ۔ رضوی صاحب نے بات پلٹ دی۔ بولے : ”تو آپ آج ہی سے ریہرسل شروع کر دیں، ہم آغا صاحب کو بتائے دیتے ہیں کہ آپ کا آڈیشن کامیاب رہا“ ۔

ثریا کے اس آناً فاناً آڈیشن اور اس کی عمدہ کارکردگی کا ڈائریکٹر نیوز، زبیر علی کو بتا دیا گیا کہ ایک اچھی نیوز کاسٹر ہاتھ لگی ہے۔ بولے : ”ہاں! آغو نے مجھے بتا دیا تھا“ ۔ زبیر صاحب آغا ناصر کو ”آغو“ کہا کرتے تھے۔ زبیر صاحب نے ہدایت کی: ”میاں! اسے اچھی طرح ریہرسل کرا دینا“ ۔

ثریا کو ریہرسل کی ضرورت ہی کیا تھی۔ نشریات کا میدان اس کا دیکھا بھالا تھا، وہ اس سمندر کی پیراک تھی، مائیکروفون اس کے ہاتھ کا زیور تھا، ایسا کنگن جس کے لئے آرسی درکار نہیں تھی، وہ مائیک پہ بولتی تھی تو اس کی آواز کے ساتوں سر سماعت میں رقص کرتے تھے، نشریاتی آہنگ اس کے رگ و پے میں تھا، اور دل کی جگہ مائیکروفون اس کے سینے میں دھڑکتا تھا۔ مائیکروفون اس کا محبوب تھا جس سے وہ پہروں باتیں کر سکتی تھی۔ ہاں! کیمرا اس کے لئے ابھی نامحرم تھا، اور اب اسے کیمرے سے آنکھ لڑانا تھی۔ تین چار دن میں کیمرے سے اس کی آشنائی ہو گئی، اور پھر اس لذت آشنائی نے اس کے دل کو دوعالم سے بیگانہ کر دیا، اور وہ ٹیلیویژن پر خبریں پڑھنے میں جت گئی۔

پی ٹی وی پر خبروں کی داستان بھی عجیب سی ہے۔ دسمبر 1971 کے آخری ہفتے میں اسلم اظہر کے پاکستان ٹیلیویژن کا سربراہ بننے تک کراچی کے سوا کسی مرکز سے ”خبرنامہ“ نشر نہیں ہوتا تھا، لاہور اور راولپنڈی، اسلام آباد سے شام گئے دس، پندرہ منٹ دورانیے کی اردو خبریں ٹیلی کاسٹ ہوتی تھیں، اور ان خبروں کے لئے بھی وقت کا تعین نہیں تھا، کبھی ساڑھے آٹھ بجے شام ہو گئیں، کبھی نو، سوا نو بجے۔ شام کو جب ڈراما یا انگریزی فلم ختم ہوتی، ”نیوز والوں“ کو بلوا کے خبریں پڑھوا دی جاتیں۔ ڈھاکہ مرکز سے روزانہ نشریات کے آغاز پر تلاوت کے بعد پانچ منٹ کی اردو خبریں ہوتی تھیں، اور آٹھ اور نو بجے کے درمیان کسی وقت، جب موقع ملتا، بنگلہ زبان میں، دس پندرہ منٹ کی، خبریں نشر کی جاتیں۔ اردو، بنگلہ زبانوں کا یہ ٹنٹا بھی 14 دسمبر 1971 کی سہ پہر مک گیا، جب ڈھاکہ سنٹر سے حبیب اللہ فاروقی نے، ٹیلی پرنٹر پہ، اپنا آخری پیغام چکلالہ سنٹر کو بھیجا: ”اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے، ہم ٹی وی سنٹر سے جا رہے ہیں، ہمارا آخری سلام! خدا حافظ!“ ۔ فاروقی صاحب، مغربی پاکستان سے گئے چند دوسرے آشفتہ سروں کے ساتھ، ڈھاکہ کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل منتقل ہو گئے جسے ”غیر جنگی پناہ گاہ“ قرار دے کر بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کا رسمی اعلان، دو دن بعد ، 16 دسمبر کی سہ پہر، ”پوربو پاکستان“ کے وقت کے مطابق پانچ بج کر ایک منٹ پر ہوا جب لیفٹیننٹ جنرل ”ٹائیگر“ نیازی نے رمنا ریس کورس میں نام نہاد جنگ بندی (یا ہتھیار ڈالنے) کی دستاویز پر دستخط کیے اور اپنا ریوالور بھارتی لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سپرد کیا۔

یہ ”پوربو پاکستان“ کی کہانی بھی دلچسپ، بلکہ عبرت آموز ہے۔ 1958 میں جنرل ایوب خاں کے اقتدار پر قابض ہونے کے دس سال مکمل ہونے کو آئے تو 1968 میں ”شاہ کے مصاحبوں“ نے مشورہ دیا کہ ملک میں ”عشرۂ ترقی“ منایا جائے تاکہ اگلے عشرے کے لئے بھی زمام اقتدار ہاتھ میں رکھنے کی راہ ہموار ہو سکے، لیکن ان کے دلوں میں وسوسے بھی تھے کہ ملک کے دونوں بازوؤں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے موہوم خطرات سر پہ منڈلانے لگے ہیں۔ انہیں دونوں بازوؤں کے عوام کے دلوں میں محبت کی فصل کاشت کرنے کا عجیب نسخہ سوجھا کہ بنگلہ زبان کے کچھ الفاظ بتدریج اردو میں رائج کیے جائیں تاکہ ناراض بنگالیوں کی اشک شوئی ہو سکے۔ یہ نادر نسخہ ایوب خاں کے بزرجمہر، الطاف گوہر (سیکریٹری اطلاعات) کے ذہن رسا کی تخلیقی اپج کا شاہکار تھا۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ اس کار خیر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا جائے۔ حکم ہوا کہ ریڈیو کے ہر نیوز بلیٹن سے پہلے پاکستان کے معیاری وقت کا جو اعلان کیا جاتا ہے اس کا انداز اب یہ ہو گا کہ بلیٹن کی موسیقی (یا سگنیچر ٹیون) کے بعد نیوز کاسٹر (مثلاً انور بہزاد) اعلان کرے گا: ”یہ ریڈیو پاکستان ہے، اس وقت پوربی پاکستان میں رات کے نو، اور پچھمی پاکستان میں آٹھ بجے ہیں، اب آپ انور بہزاد سے خبریں سنئے“ ۔ لوگ ابھی اس لسانیاتی اجتہاد کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ارباب حل و عقد کو احساس ہوا کہ پوربی اور پچھمی تو اردو ہی کے لفظ ہیں، بنگالی اس سے کیا خوش ہوں گے، سو اجتہاد پہ نظر ثانی کی گئی، اور پوربی کی جگہ پوربو، اور پچھمی کی جگہ پوشچمی پاکستان کی اصطلاح اپنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان دانشوروں کی سوچ اس بات کے ادراک سے قاصر تھی کہ محض لفظوں کی جگل بندی دل کے زخموں کے لئے مرہم نہیں بن سکتی، اور کئی عشروں تک بے اعتنائی، نفرت اور تضحیک کے کانٹے بونے کے بعد ثمر بہشت اتارنے کی آس فریب آرزو کے سوا کچھ نہیں۔ ان کی آنکھوں پہ اغراض کی پٹی بندھی تھی، وہ نوشتۂ دیوار پڑھنے سے گریزاں تھے، جسے دلی میں بیٹھی اندرا گاندھی برسوں پہلے پڑھ چکی تھی۔ وہ تو قومی یکجہتی کی خزاں رسیدہ شاخ گل کی آبیاری کرتے ہوئے بھی اپنے مفادات کی آکاس بیل کو پروان چڑھا رہے تھے۔ یہ آکاس بیل چمن ہی کو اجاڑ گئی، اور پوربو اور پوشچمی پاکستان، دو ٹکڑوں میں کٹے جسم کی طرح، ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو مسند اقتدار پہ جلوہ گر ہوئے تو انہوں نے اسلم اظہر کو پاکستان ٹیلیویژن کا مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر کر دیا۔ اسلم اظہر صاحب نے منصب سنبھالتے ہی دو اہم فیصلے کیے : سوموار کی ہفتہ وار چھٹی ختم کر دی گئی اور ہفتے کے ساتوں دن، کسی ناغے کے بغیر، ٹیلیویژن نشریات ہونے لگیں۔ دوسرا فیصلہ یہ تھا کہ کراچی کی طرح لاہور اور راولپنڈی، اسلام آباد سے بھی 25 منٹ کا خبرنامہ ہوا کرے گا، رات ٹھیک 9 بجے، نہ ایک منٹ ادھر نہ ادھر۔

خبرنامے کی بھی سن لیں۔ پاکستان ٹیلیویژن کے آغاز سے ہی، ہر مرکز سے اردو میں جو خبریں ہوتی تھیں ان کا کوئی دورانیہ معین نہیں تھا۔ دورانیے کا تعین سنٹر کے نیوز ایڈیٹر اور اس کی ٹیم کی صوابدید پر تھا۔ اگر نیوز ایڈیٹر کو خیال آیا کہ آج بہت سی اہم خبریں ہیں تو دورانیہ بارہ تیرہ منٹ بھی ہو سکتا تھا، اور اگر ”نیوز والوں“ کو احساس ہوتا کہ آج خبریں ماٹھی ہیں تو دورانیہ کم ہو کر 9 یا 8 منٹ بھی ہو سکتا تھا۔ (پروگرام اور انجنئیرنگ کے لوگ ہمیں ”نیوز والے“ ہی کہا کرتے تھے، جیسے اس زمانے میں تانگے بان، انسداد بے رحمی حیوانات ”کے عملے کو“ بے رحمی والے ”اور میونسپلٹی کے صفائی کے عملے کو“ کوڑے والے ”کہتے تھے، اور ہمیں اس انداز تخاطب سے چڑ سی ہوتی تھی) ۔ دورانیے کا انحصار نیوز کاسٹر کے پڑھنے کی رفتار اور انداز پر بھی تھا، اگر وہ“ خیبر میل ”کی رفتار سے پڑھتا تو دس گیارہ منٹ کا بلیٹن 9 منٹ میں ختم ہو جاتا، اور اگر وہ رک رک کے، ٹھہر ٹھہر کے، لہک لہک کر، اور سمجھا سمجھا کر پڑھتا تو دس منٹ کا بلیٹن بارہ، تیرہ منٹ تک چلا جاتا۔ یہ صورت حال کچھ مضحکہ خیز ہی تھی۔ جون 1969 میں کراچی سنٹر سے سال کی تیسری سہ ماہی کا نشریاتی چارٹ مرتب ہونے لگا تو سنٹر کے اس وقت کے جنرل مینیجر اسلم اظہر اور نیوز ایڈیٹر برہان الدین حسن نے طے کیا کہ اردو بلیٹن کا دورانیہ بڑھایا جائے، اس کا فارمیٹ اور انداز بدلا جائے، اور کچھ تنوع لایا جائے۔ بنیادی خیال یہ تھا کہ خبروں کی بجائے نیوز شو (News Show) پیش کیا
جائے۔ چنانچہ یکم جولائی 1969 سے بلیٹن کو خبرنامہ بنا دیا گیا، اور دورانیہ 20 منٹ طے پایا۔ میں خبرنامے کا پہلا پروڈیوسر تھا، اور شاہ حسن عطا اس کے پہلے اینکر۔ تین دن کے بعد شاہ حسن عطا کے علاوہ وراثت مرزا، زبیرالدین اور سعید احمد نسیم بھی خبرنامہ پڑھنے لگے۔ نیوز فلموں کی کمنٹری ہوتی تھی طلعت حسین، قربان جیلانی، عظیم سرور اور مشتاق احمد کی آواز میں۔ خبرنامہ نیوز شو تو نہ بن سکا، لیکن یکم اکتوبر 1969 سے اس کا دورانیہ 25 منٹ کر دیا گیا۔

راولپنڈی، اسلام آباد (کے چکلالہ) مرکز سے 1972 کے اوائل سے شروع ہونے والا 25 منٹ کا خبرنامہ، اظہر لودھی یا سلطان غازی، ایک ہی نیوز کاسٹر پڑھتا تھا، البتہ بلیٹن میں شامل نیوز فلموں کی کمنٹری کے لئے ایک پس منظر آواز کا سہارا لیا جاتا تھا۔ ایک آدمی کا پچیس تیس منٹ کا خبرنامہ پڑھنا آسان کام نہیں تھا، بعض اوقات تو نیوز کاسٹر ہانپ ہی جاتا تھا۔ اسلم اظہر اور زبیر علی نے طے کیا کہ ایک کی بجائے دو نیوز کاسٹر خبرنامہ پڑھیں، ایک مرد، اور ایک عورت۔ اب خاتون نیوز کاسٹر کی تلاش شروع ہوئی۔

چکلالہ سنٹر سے شائستہ خاں انگریزی خبریں پڑھتی تھیں، اور کیا ہی اچھا پڑھتی تھیں، وہ انگریزی نشریات کے افق پہ چھائی ہوئی تھیں، نشریاتی لہروں پر ان کی حکمرانی 40 برس سے زائد عرصے تک رہی۔ (شادی کے بعد وہ شائستہ زید کہلاتی تھیں )۔ راولپنڈی، اسلام آباد تو کیا، کراچی ٹیلیویژن پر بھی تب تک اردو کی کوئی خاتون نیوز کاسٹر نہیں تھی۔ ہاں، لاہور ٹیلیویژن اس سلسلے میں بہت آگے تھا۔ وہاں ڈھائی تین سال پہلے ہی اردو کی خاتون نیوز کاسٹرز ٹی وی سکرین کو جگمگا چکی تھیں، پہلے سلمٰی جبیں اور پھر یاسمین واسطی۔

راولپنڈی، اسلام آباد سنٹر کے جنرل مینیجر ظفر صمدانی اور نیوز ایڈیٹر رضی احمد رضوی نے، ہنگامی بنیادوں پہ، بہت آڈیشن کیے لیکن کوئی ایسی لڑکی یا خاتون نہ ملی جو نیوز کاسٹر بن سکتی ہو۔ کئی دن کی تگ و دو کے بعد ایک لڑکی ملی، تسنیم اختر، جو راولپنڈی کے سی بی (اب ایف، جی) کالج کی طالبہ تھی اور کالج کے مباحثوں اور ریڈیو پروگراموں میں حصہ لیا کرتی تھی۔ اس کی آواز خوشگوار، لب و لہجہ نکھرا ہوا، جملوں کی ادائیگی رواں، اور تلفظ درست تھا۔ اسے براڈکاسٹنگ کا کچھ تجربہ تو تھا، لیکن ٹیلیویژن پہ خبرنامہ پڑھنا ایک چیلنج تھا۔ ایک دو دن ریہرسل کرانے کے بعد ، ظفر صمدانی نے، اللہ کا نام لے کر، اسی سے خبرنامہ پڑھوانا شروع کر دیا۔ (لیکن چند دن بعد تسنیم بیک گراؤنڈ کمنٹری تک محدود ہو گئی۔ یہی تسنیم اختر، تین سال بعد ، تسنیم رضی بنی) ۔ اس دوران خاتون نیوز کاسٹر کی تلاش جاری رہی۔

زبیر علی صاحب کی بیٹی، سیما (سیما صدیقی جنہوں نے ریڈیو پاکستان میں برسہا برس شاندار خدمات انجام دینے کے بعد ، ریڈیو کے ناگفتہ بہ حالات اور بڑے افسروں کی بے حسی سے شاکی ہو کر، کنٹرولر پروگرامز کے عہدے سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی) سی بی کالج میں پڑھتی تھی۔ کالج میں اس کی ایک سہیلی تھی، انجم گیلانی، جس کے نین نقش اچھے تھے، پڑھائی لکھائی میں تیز تھی، گفتگو میں روانی تھی، لب و لہجہ صاف تھا، تقریری مقابلوں میں حصہ لیتی تھی اور اکثر انعام بھی جیت لاتی تھی۔ سیما نے انجم گیلانی سے خبریں پڑھنے کی بات کی تو وہ متذبذب ہوئی، سادات گھرانے کی بچی اور ٹیلیویژن سکرین پہ جلوہ گر ہو؟ اس دور میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بہت جتن سے انجم کے گھر والوں کو قائل کیا گیا اور یقین دلایا گیا کہ پاکستان ٹیلیویژن کا ماحول فلمی دنیا سے یکسر مختلف ہے، اور معزز گھرانوں کی لڑکیاں ٹیلیویژن میں کام کرتی ہیں۔ انجم کے والد نے، اپنے طور پہ، ہر طرح سے تسلی کرنے کے بعد، بیٹی کو نیوز آڈیشن میں حصہ لینے کی اجازت دی۔ آڈیشن ہوا تو انجم ہر لحاظ سے نیوز کاسٹنگ کے معیار پہ پورا اتری، بنی بنائی نیوز کاسٹر تھی۔ ایک دن کی ریہرسل کے بعد اس نے خبرنامہ پڑھنا شروع کر دیا اور بلا کے اعتماد کے ساتھ، خوبصورت انداز میں، برسوں پڑھتی رہی۔ (انجم گیلانی، 1985 میں، جوانی میں ہی انتقال کر گئی) ۔

دو ڈھائی ہفتوں بعد ہمیں ایک اور نیوز کاسٹر مل گئی، ستارہ زیدی۔ نام تو ستارہ تھا، لیکن وہ چاند چہرہ تھی، خوبصورت نقش، ماہتاب کی طرح روشن اور گلاب کی طرح نکھرے عارض، نسوانی حسن کا مرقع، آنکھیں جیسے جمال صحرا میں کھوئی چشم غزال، دلنشیں آواز، کوثر و تسنیم میں دھلا لہجہ۔ ٹیلیویژن پہ آئی تو سکرین جھلملا اٹھی۔ آواز اور لب و لہجے کی دلکشی اپنی جگہ، ستارہ زیدی بعض اوقات جملوں کی ادائیگی میں اٹک جاتی تھی، گڑبڑا جاتی تھی، جیسے پڑھتے پڑھتے کہیں کھو گئی ہو۔ لوگ اس کی خبریں سنتے نہیں، (ٹیلیویژن سیٹکی آواز کھولے بغیر) دیکھتے تھے۔ مادری زبان اردو ہونے کے باوجود، ستارہ تلفظ کی غلطی کر جاتی تھی جو ذوق سلیم پہ گراں گزرتی تھی۔ اس زمانے میں ادب اور صحافت کے میدان میں ایسے اساتذہ موجود تھے جو غلطی کی نقد نشاندہی کر دیتے تھے۔ ایسے ہی ایک بزرگ شاعر اور ادیب تھے، راز مراد آبادی، پاکستان آرڈنینس فیکٹری واہ کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ۔ اس فوجی ادارے سے ان کا تعلق ادب اور صحافت ہی کی نسبت سے تھا۔ ستارہ زیدی سے کبھی تلفظ کی غلطی سرزد ہوتی تو خبرنامہ ختم ہونے سے پہلے ہی واہ سے راز صاحب کا فون آ جاتا (اس زمانے میں موبائل فون تو ہوتے نہیں تھے، راز صاحب ایکسچینج کے ذریعے فون ملواتے تھے، کتنا خیال ہوتا تھا ان بزرگوں کو زبان کی صحت کا) ۔ فون پہ بات شروع ہوتے ہی میں ستارہ زیدی کی غلطی پہ معذرت کا اظہار کرتا، تو راز صاحب غلط بولے گئے لفظ کے تمام لسانی پہلوؤں پہ گفتگو فرماتے : لفظ اصل میں کس زبان کا ہے؟ اردو میں کیسے آیا؟ اس کا مادہ اور مصدر کیا ہے؟ اور کون کون سے لفظ اس سے مشتق ہیں؟ اس لفظ کے معانی کی پرتیں کیا ہیں؟ مختلف علاقوں میں، اور مختلف طبقوں میں یہ کیسے بولا جاتا ہے؟ غلط العام کیا ہے، اور غلط العوام کیا ہے؟ ایک دن مالیات سے متعلق کوئی خبر تھی، ستارہ نے لفظ رقم کو رقم (ق پر جزم یا ساکن قاف کے ساتھ) پڑھا، تو راز صاحب کا فون آ گیا: ”بھائی! اس کو سمجھاؤ، یہ لفظ“ رقم ”ہے“ ، ساتھ ہی انہوں نے، سند کے طور پہ سائل دہلوی کی پوری غزل پڑھ دی:

کہیں وامق کہیں مجنوں رقم یوں بھی ہے اور یوں بھی
ہمارے نام پر چلتا قلم یوں بھی ہے اور یوں بھی
یہ مسجد ہے یہ مے خانہ تعجب اس پر آتا ہے
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی

مرد نیوز کاسٹرز میں اظہر لودھی اور سلطان غازی تو تھے ہی، ایسے منجھے ہوئے سینیئر نیوز کاسٹر، نشریات کی دنیا میں جن کا سکہ چلتا تھا۔ اب ریڈیو سے خالد حمید اور ہمایوں بشیر آئے۔ ہمایوں بشیر تو کچھ ہی عرصہ خبرنامہ پڑھ سکا، اعصابی تناؤ کا شکار ہو جاتا تھا، اٹکنے لگتا تھا، یا جملہ غتر بود کر جاتا تھا۔ ہاں، پانچ منٹ کا بلیٹن آرام سے پڑھ لیتا تھا (جوانی میں ہی چل بسا، جواں مرگ) ۔ خالد حمید نے خوب نقش جمایا، اس کی آواز میں ہموار کھرج اور لوچ کا جادو، انداز بیان، اسلوب اظہار اور فقروں کی ادائیگی می آبشار کا بہاؤ، شفاف اور لطیف لہجہ، زبان میں تمکنت، بے عیب تلفظ، جملے کا ہر لفظ موتی کی طرح اجلا اور دمکتا ہوا۔

یہ تھا ہماری نشریات کا منظر نامہ جب اوج فلک سے ثریا کا نزول ہوا۔ (ثریا: علم فلکیات میں سات ستاروں کا جھرمٹ یا سات سہیلیوں کا جھمکا)

ثریا نے پہلی بار ہی خبرنامہ پڑھا تو وہ چھا گئی۔ اس کی آواز کے پرستار پہلے ہی بہت تھے، جن کے لئے یہ آواز اور چہرہ نیا تھا، ان کی سماعتیں اور نگاہیں بھی شاداب ہو گئیں۔ اس کا خبریں پڑھنے کا انداز ہی ایسا تھا، شستہ زباں، شگفتہ بیاں، ہر فقرے کی ادائیگی اعتماد اور روانی کے ساتھ جیسے سبک رو ندی کا بہاؤ، ہر لفظ برگ گل پر شبنم کے موتی کی طرح، نرم لہجے میں اشرفیوں کی سنہری کھنک، آواز کے نشیب و فراز میں ابلاغ کی دھنک، لب ہی نہیں، آنکھیں اور چہرے کے تاثرات بھی بولتے ہوئے۔

کچھ عرصے بعد ایک اور خاتون، نیوز کاسٹرز کی صف میں شامل ہو گئی، نام تھا ارجمند شاہین۔ اس کی بہن یاسمین واسطی کئی برس سے لاہور سنٹر کی نیوز کاسٹر تھی۔ یہ سب بہت اچھی نیوز کاسٹرز تھیں، لیکن ثریا شہاب کی بات ہی اور تھی۔ ہمیں کرید ہوئی کہ ہوا کے دوش پر رقصاں آواز کے سائے سے ثریا کا رومانس کب اور کیسے شروع ہوا؟ پتا چلا کہ برسوں پہلے ریڈیو پاکستان، کراچی کے طلبہ پروگرام میں ایک طالبہ نے شرکت کی، اور اسی پروگرام سے اس کے جوہر کھلے، وہ طالبہ تھی، ثریا۔ آغا ناصر اس زمانے میں کراچی ریڈیو پہ سینیئر پروڈیوسر تھے۔ انہوں نے ثریا کی آواز میں نشریات کا جوہر دیکھا تو اسے ڈرامے میں کردار ادا کرنے کی ترغیب دی۔ لیکن ثریا کے خاندان میں تو پردہ سماجی زندگی کا حصہ تھا۔ ثریا نے پردے کی حدود میں رہتے ہوئے ریڈیو پروگراموں میں شرکت کی، اور پھر ان سلاسل کو توڑتے ہوئے آواز کی طلسماتی دنیا میں بے نام منزلوں کا سراغ پانے کی جستجو میں لمبے سفر پہ نکل گئی۔

خالد حمید، ارجمند شاہین، ثُریّا شہاب اور حمید اختر

اس لمبے سفر میں ثریا کو نامساعد حالات اور مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن اس دھان پان سی لڑکی نے ہر مشکل، ہر آزمائش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کامیابی کے سنگ میل طے کرتی گئی۔ اس کا جذبہ اور انتھک محنت ہی کامیابی کو یقینی بنانے کا وسیلہ تھے۔ اسے پتا تھا کہ، ہر مرحلے میں، اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے اسے کن چیزوں کا خیال رکھنا ہے۔

ثریا نے جب خبرنامہ پڑھنا شروع کیا تو تیسرے دن کی بات ہے، شام کے وقت، مغرب سے ذرا پہلے، وہ چکلالہ سنٹر کے گیٹ سے اندر داخل ہوئی اور نیوز روم کی طرف جانے لگی۔ میں، اس وقت، سنٹر کے چھوٹے سے لان میں، دو تین پروگرام پروڈیوسرز کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا۔ ثریا مجھے دیکھ کے ٹھٹھکی، تھوڑا جھجکی، اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہماری طرف آنے لگی۔ قریب پہنچ کے بولی: ”ایکسکیوز می، ایک بات کرنی تھی آپ سے“ ۔ ”جی! فرمائیے؟“ ۔ کہنے لگی : ”وہ ایسا ہے کہ مجھے جو خبریں پڑھنا ہوں، ان کا ترجمہ آپ کر دیا کریں“ ۔ میرے تو کانوں سے دھؤاں نکلنے لگا۔ میں نے عرض کیا: ”بی بی! پہلی بات تو یہ کہ میں مترجم نہیں، رپورٹر/ نیوز پروڈیوسر ہوں، جس کوریج پہ جاتا ہوں، اس کی رپورٹ بنا کے دے دیتا ہوں۔ دوسرے، ضرورت ہو، یا مجھ سے کہا جائے، تو ڈیسک پہ بھی دو چار خبریں ڈرافٹ کر دیتا ہوں۔ یہ ترجمے والی بات خوب کہی آپ نے“ ۔ ثریا کے ذہن میں ریڈیو پاکستان کی روایت کبھی ہوئی تھی کہ رپورٹر کی خبر ہو یا ڈیسک سٹوری، پورا بلیٹن انگریزی میں بنتا تھا اور پھر مترجم اس کا اردو میں ترجمہ کرتے تھے جو نیوز کاسٹر پڑھتا تھا۔ پی ٹی وی نیوز کو بھی یہی روایت ریڈیو سے ورثے میں ملی تھی کیونکہ شروع میں خاصے لوگ ریڈیو سے ہی پاکستان ٹیلیویژن میں آئے تھے۔ تاہم مصلح الدین صاحب نے، اور ان کی ترغیب پر، حبیب اللہ فاروقی نے اور میں نے اس کہنہ روایت سے بغاوت کرتے ہوئے اردو میں اوریجنل ڈرافٹنگ شروع کر دی تھی۔ ڈائریکٹر نیوز زبیر علی، جنرل مینیجر (بعد میں کنٹرولر نیوز) ظفر صمدانی اور کراچی کے نیوز ایڈیٹر برہان الدین حسن انگریزی میں ڈرافٹنگ کی افادیت کے قائل تھے۔ زبیر صاحب اور برہان صاحب دونوں کا صحافتی سفر ریڈیو نیوز سے شروع ہوا تھا، لیکن دونوں بہت اچھی اردو لکھتے تھے، اور اچھے براڈکاسٹر بھی تھے۔ ظفر صمدانی اردو کے اچھے شاعر اور افسانہ نگار تھے، لیکن ان کی صحافتی وابستگی بھی، زیادہ تر، انگریزی اخبارات کے ساتھ رہی تھی۔ وہ بھی، مصلح صاحب کی طرح، اردو اور انگریزی، دونوں زبانوں پہ مکمل کمانڈ رکھتے تھے (یہاں، ”عبور“ اور ”مہارت“ جیسے لفظوں سے بات نہیں بنتی، ”کمانڈ“ ہی کہنا پڑے گا ”) ۔ میری تیکھی بات سن کے ثریا تھوڑا خفیف سی ہو گئی، جھینپ کے بولی:“ وہ، اصل میں بات یہ تھی کہ آپ کی لکھی خبریں میں روانی سے، اٹکے بغیر، پڑھ لیتی ہوں، دوسروں کی بنائی خبروں میں، بعض اوقات، جھٹکے سے لگتے ہیں ”۔ میرے لئے یہ طمانیت کی، بلکہ سرخوشی کی بات تھی، سچ پوچھو تو من شانت ہوا، اور روح سرشار ہو گئی۔ میں نے وعدہ کر لیا کہ جس دن اس کا بلیٹن ہو، دو تین اہم خبریں میں اردو میں ڈرافٹ کر دیا کروں گا۔ وہ اتنی سی بات سے خوش ہو گئی۔

ثریا شہاب کو براڈ کاسٹنگ سے عشق تھا، وہ سر تا پا اس عشق میں شرابور تھی۔ وہ ہر کام رکھ رکھاؤ اور سلیقے سے کرنے کی عادی تھی، سکرپٹ بڑے دھیان سے پڑھتی، بال پوائنٹ سے ہر جملے کی تقطیع کرتی کہ کہاں ہلکا سا سکتہ، اور کہاں وقفہ دینا ہے، کہاں رکنا ہے، کہاں تسلسل رکھنا ہے، کس لفظ پہ ہلکا سا زور دے کر اس کی اہمیت اجاگر کرنی ہے، جملے کو کس لے میں سمیٹنا ہے، اور اگلا جملہ کس آہنگ میں اٹھانا ہے۔ وہ خبر کے مسودے میں گرامر، صرف و نحو یا تذکیر و تانیث کی غلطی پہ تڑپ اٹھتی۔ سکرپٹ کے کسی فقرے میں جھول ہوتا تو سر پکڑ کے بیٹھ جاتی اور جب تک سقم دور نہ کیا جاتا، اسے چین نہ آتا۔ جملے میں عیب تنافر ہوتا یا کہیں ”ککے“ لڑتے، یعنی دو تین ”ک“ اوپر تلے آتے اور ان کی ادائیگی میں زبان لڑکھڑانے کا خدشہ ہوتا، تو اس جملے کی اصلاح کراتی۔ یہ خوبی خالد حمید، وراثت مرزا، اظہر لودھی، اور زبیرالدین میں بھی تھی۔ سلطان غازی منجھے ہوئے صحافی تھے، وہ خود ہی زبان و بیان کے نقص دور کر لیتے تھے۔ انگریزی میں خبریں پڑھنے والوں میں سے میں نے یہ خوبی شائستہ میں دیکھی کہ وہ ریہرسل کرتے ہوئے کسی جگہ اٹکتی تو کہتی: ”شکور صاحب! اسے دیکھ لیں، کچھ سکتہ سا لگتا ہے“ ۔ یہی خوبی چشتی مجاہد میں بھی تھی جو کسی زمانے میں کراچی سنٹر سے انگریزی زبان میں خبریں پڑھا کرتے تھے۔ لاہور سنٹر کے انگریزی کے نیوز کاسٹر محمد ادریس خبر کی انگریزی خود ہی درست کر لیا کرتے تھے۔

ثریا شہاب اچھی براڈکاسٹر ہی نہیں، اچھی انسان بھی تھی، ملنسار، خوش کلام، خوش اطوار، خوش اخلاق۔ میں نے اس کی زبان سے کبھی ایسی کوئی بات نہیں سنی جو تہذیب، شائستگی اور اخلاق سے گری ہوئی ہو۔ بڑے چھوٹے، ہر ایک سے بات کرتے ہوئے اس کا لہجہ مہذب رہتا تھا۔ وہ محفل میں بڑھ بڑھ کے باتیں کرنے والی نہیں تھی، وہ تو اپنی ذات کے حصار میں چھوئی موئی کی طرح سمٹی سمٹائی رہتی تھی، کم کم ہی کسی سے کھلتی تھی۔ نیوز روم میں اعصابی تناؤ کے ماحول کو قدرے شگفتہ بنانے کے لئے کوئی ساتھی بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرتا یا کوئی ہلکا پھلکا جملہ پھینکتا تو وہ دھیرے سے مسکرا دیتی۔ ایک بار ضیاءالدین بٹ کے کسی ایسے ہی لطیف جملے پر رفیق گورایہ نے اپنے مخصوص انداز میں فلک شگاف قہقہہ لگایا، تو ثریا سہم سی گئی: ”اف اللہ! گورایہ صاحب کتنے زور سے ہنستے ہیں، ہمارا تو دل ہی دہل گیا تھا“ ۔

ذاتی معاملات پہ ثریا قفل ڈالے رہتی تھی۔ ایک دن یہ بات چھڑی کہ ثریا نے ریڈیو پہ پہلی بار خبریں کب پڑھی تھیں۔ کہنے لگی: ”ہم نے پہلا بلیٹن، اسی روایتی رنگ میں پڑھا تھا، جس کا سر آغاز ہوتا تھا“ یہ ریڈیو پاکستان ہے، اب آپ ثریا شہاب سے خبریں سنیں ”۔ ہم نے اوپر تلے تین چار بلیٹن پڑھے، اور ہم بہت خوش تھے کہ اچھے پڑھے۔ اگلے دن ہم ریڈیو کے جی این آر (پاکستان کا مرکزی نیوز روم) گئے تو اس وقت کے ڈائریکٹر نیوز، شہاب صاحب کی طرف سے طلبی کا سندیسہ ملا۔ ہم ڈی این (ڈائریکٹر نیوز) کے کمرے میں گئے، تو حکم ہوا: ”یہ اپنا نام تبدیل کیجئے“ ۔ ہم حیران کہ الٰہی ماجرا کیا ہے۔ پتا چلا کہ رات ہماری خبروں کے بعد ڈائریکٹر نیوز کو مبارک باد کے چار پانچ ٹیلی فون آئے کہ ”بھابی نے اچھی خبریں پڑھی ہیں“ ۔ مبارک باد دینے والوں نے ہمیں شہاب صاحب کی بیگم سمجھا، اور یہ بات ڈی این صاحب کے لئے پریشانی کا باعث بنی۔ شہاب صاحب کی بات سن کے ہم پریشان کہ اپنا نام بدلیں تو کیونکر؟ سوچا کہ نام سے ”شہاب“ حذف کر دیں۔ چنانچہ ہم نے اگلا بلیٹن پڑھنے سے پہلے اعلان کیا: ”اب آپ ثریا سے خبریں سنیں“ ۔ خبریں پڑھ کے ہم اسٹوڈیوز سے باہر نکلے تو پھر طلبی ہوئی۔ اب کے ارشاد ہوا: ”تم خود کو مرزا غالب سمجھتی ہو کہ دنیا تمہیں جانتی ہے، اس لئے نام کے آگے پیچھے کچھ لگانے کی ضرورت نہیں“ ۔ اب ہم کیا جواب دیتے، خون کے گھونٹ پی کے رہ گئے، اور دل برداشتہ ہو کر چھٹی پہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ تو کرنی خدا کی ایسی ہوئی کہ شہاب صاحب کا تبادلہ ہو گیا، تو اس مصیبت سے جان چھٹی ”۔

ثریا جب 1970 کے عشرے میں پی ٹی وی اور ریڈیو سے خبریں پڑھ رہی تھی، اسے سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا بھی شوق چرایا۔ اس نے یوتھ لیگ کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس کے زیر اہتمام مختلف شہروں بلکہ قصبوں میں بھی معاشرتی موضوعات پر تقریبات ہوئیں۔ بعض شہروں میں اس تنظیم کی شاخیں بھی قائم ہوئیں۔ یار لوگوں کی قیاس آرائی تھی کہ اس تنظیم کے ذریعے ثریا سیاست کے کوچے میں قدم رکھنا چاہتی ہے تاکہ قومی اسمبلی یا سینیٹ کی نشست تک پہنچ سکے۔ بعض وفاقی وزراء کی یوتھ لیگ کی تقریبات میں دلچسپی نے ان قیاس آرائیوں کو تقویت بخشی۔ کچھ بدخواہوں نے یوتھ لیگ کے ڈانڈے خفیہ ایجنسیوں سے ملانے کی بھی کوشش کی، شاید، یہ محض بدگمانیاں ہی تھیں۔

چکلالہ نیوز روم کے جس زمانے کا میں ذکر کر رہا ہوں، ان دنوں نیوز کے عملے اور نیوز کاسٹرز کے درمیان (working relationship) یعنی ارتباط کار بہت اچھا تھا اور دونوں وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کو کھانے کی دعوت دیا کرتے تھے، کبھی کسی ہوٹل میں اور کبھی گھروں پہ۔ ثریا شہاب کے گھر پہ بھی دو تین دعوتیں ہوئیں۔ ثریا اور اس کا شوہر، نذرالاسلام دعوت کا زبردست اہتمام کرتے تھے۔ ثریا بریانی اور بہاری کباب بہت اچھے بناتی تھی۔ کھانے کے بعد نذرل کی موسیقی دعوت کا لطف دوبالا کر دیتی۔ ثریا اور نذرل ہنسوں کی جوڑی تھی۔ پھر نجانے کس کی نظر لگ گئی، یہ جوڑی تڑک کر کے ٹوٹ گئی، اور اس کے ساتھ ہی نذرل کا دل بھی ٹوٹ گیا، اور وہ جلد ہی سوئے عدم چلا گیا۔

ریڈیو پاکستان اور بی بی سی کے درمیان ایک سمجھوتہ چلا آ رہا تھا جس کے مطابق ریڈیو کی ایک نیوز ریڈر کو تین سال کے لئے بی بی سی میں خدمات انجام دینے کا موقع دیا جاتا تھا۔ اس سمجھوتے کے تحت ثریا شہاب 1985 میں بی بی سی میں کام کرنے کے لئے لندن گئیں۔ میں اگلے سال نجی دورے پر لندن گیا تو میری ثریا شہاب سے ملاقات ہوئی۔ ہمارے پی ٹی وی نیوز کے ساتھی ساجد منصور قیصرانی بھی ان دنوں ابلاغیات کی اعلٰی تعلیم کے لئے لندن میں تھے۔ قیصرانی نے اپنی قیام گاہ پر مجھے رات کے کھانے پر مدعو کیا تو ثریا شہاب بھی اس دعوت میں شریک ہوئی، اور قیصرانی کے ہاتھ کے پکے ہوئے مٹر قیمے کی تعریف کرتی رہی۔ اس موقعے پر ثریا سے ڈھیروں باتیں ہوئیں۔ مجھے لگا کہ ثریا اپنے آپ سے اور اپنے حالات سے خوش نہیں۔ اس کی باتوں میں کوئی پچھتاوا نہیں تھا، لیکن طمانیت بھی نہیں تھی۔ مجھے وہ ناؤ کی ایسی سوار لگی جس کے ہاتھ سے پتوار پھسل گئی ہو۔

ثریا شہاب نے نشریات اور سماجی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ادب، ثقافت اور فنون لطیفہ سے بھی ناتا جوڑے رکھا، اس نے شاعری بھی کی، اور ناول اور افسانے بھی لکھے، اس کی کچھ کتابیں بھی شائع ہوئیں۔

ثریا ابھی لندن میں تھی کہ خبر ملی کہ اس نے بی بی سی میں کام کرنے والے ایک جرمن صحافی کے ساتھ شادی کر لی۔ مجھے کوئی حیرت یا تعجب نہیں ہوا۔ پھر اطلاع ملی کہ ثریا جرمنی چلی گئی ہے، اور جرمن ریڈیو کے لئے کام کر رہی ہے، کوئی اچنبھا نہیں ہوا۔ ثریا نے تقریباً دس برس بی بی سی میں، اور کئی سال جرمن ریڈیو میں کام کیا، پھر وطن کی مٹی اسے واپس کھینچ لائی، اس کا جرمن شوہر بھی اس کے ساتھ تھا۔ ثریا نے اسلام آباد میں نئے سرے سے آباد ہونے کی کوشش کی۔ وزارت اطلاعات میں ثریا کے قدردان اعلٰی حکام نے اسے ہر ممکن مدد دی، ثریا کے جرمن شوہر کو پاکستان ٹیلیویژن میں انگریزی زبان کی خبروں کی نوک پلک درست کرنے کی نوکری بھی دی گئی۔ لیکن، شاید، قدرت کی طرف سے آزمائش کے دن آ چکے تھے۔ ثریا کو ایسی بیماری نے آ لیا جس سے دماغ کے خلیے آہستہ آہستہ متاثر ہونے لگتے ہیں۔ علاج معالجے کی پوری کوشش کی گئی، لیکن مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی۔ اسی دوران جرمن شوہر دغا دے گیا، اور کسی کو کچھ بتائے بغیر پاکستان سے غائب ہو گیا۔ خاصا عرصہ بیمار رہنے کے بعد ، ثریا شہاب ستمبر 2019 میں عدم کی اس وادی کو روانہ ہوئی جہاں ہم سب کو بالآخر جانا ہے۔ ثریا کی تدفین ہوئی تو تھوڑے سے لوگ ہی اس کی بیٹی اور دو بیٹوں کو پرسہ دینے کے لئے موجود تھے، جن میں ریڈیو پاکستان کے کچھ پرانے لوگ اور پاکستان ٹیلیویژن نیوز سے میں، ساجد منصور قیصرانی اور ایک دو پرانے نیوز کاسٹرز شامل تھے۔ ثریا شہاب کے لاکھوں قدر دانوں کو شاید پتا بھی نہیں چلا کہ آواز کا کوہ نور ہمیشہ کے لئے مٹی میں دبا دیا گیا ہے۔ رہے نام اللہ کا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments